وہی سماں وہی شب کے حصار
یہ آج ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے ، یہ اسی سازش کا شاخسانہ ہے
میں کیا کروں ! میرے بس میں نہیں ! بقول ساحر ''میں چاہوں بھی توکیف آور ترانے گا نہیں سکتا '' پتا نہیں لوگ کیف آور ترانے کیسے گا لیتے ہیں۔ پاکستان تو بن گیا مگر ملک آزاد ہونے سے پہلے ہی لٹیروں نے اپنے جتھے مضبوط کرنا شروع کر دیے تھے۔
لکھنو کانفرنس میں شرکت کے بعد علامہ اقبال لاہور پہنچے (یہ علامہ کے آخری ایام تھے) انھوں نے قائد اعظم کو خط لکھا کہ '' مجوزہ پاکستان کے بڑے زمیندار اپنی علیحدہ مسلم لیگ بنا رہے ہیں '' اور پھر ایسا ہی ہوا۔ یہ تلخ حقائق اب تاریخ کا حصہ ہیں ۔ حضرت علامہ کا خط اور زمینداروں کا اکٹھ سب کچھ تاریخ کی کتابوں میں پڑھا جاسکتا ہے۔
یہ آج ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے ، یہ اسی سازش کا شاخسانہ ہے۔ ملک اربوں کھربوں کے قرضے تلے دبا ہوا ہے۔ اسٹاک ایکسچینج اکثر نیچے ہی نظر آتی ہے۔ ہمارا روپیہ کمزور تر ہے ، بڑے بڑے دولت والے پکڑے جاتے ہیں پھر چھوٹ جاتے ہیں ، جیلیں بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ پاتیں ، جاگیرداروں ، وڈیروں کے ظلم تلے غریب ذلت آمیز زندگی گزار رہے ہیں۔ ظالموں کی جاگیریں خوب پھل پھول رہی ہیں۔ غریب اور زیادہ مجبوریوں کی زنجیروں میں جکڑا گیا ہے۔
جو لوگ جھونپڑوں میں پڑے تھے پڑے رہے
کچھ اور اہل زر نے بنا لیں عمارتیں
اور اب تو عمارتوں، جھونپڑوں سے بات بہت آگے نکل گئی ہے۔ عجیب و غریب سمجھ میں نہ آنے والے واقعات ہو رہے ہیں۔ خصوصی عدالت کے جج صاحبان نے جنرل پرویز مشرف کو سزائے موت سنا دی ہے۔
ملک میں دھماکے آج بھی اکا دکا ہی سہی مگر ہو رہے ہیں، اسٹریٹ کرائمز کہیں زیادہ بڑھ چکے ہیں، گھروں کے دروازوں پر وارداتیں ہو رہی ہیں ، بچوں کے اغوا اور زیادتی کے واقعات بھی نہیں رک پا رہے۔ ذرا سی بہتر خبریں آنے لگتی ہیں ، عوام ذرا سا خوش ہونے لگتے ہیں کہ اچانک کوئی بری خبر آجاتی ہے اور عوام خوف میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
امیروں ، دولت مندوں کا تو کچھ بھی نہیں بگڑتا ، نہ انھیں کسی طرح کا خوف ہے ، زندگی کی تمام تر جائز و ناجائز سہولتیں انھیں حاصل ہیں۔ قانون! کون سا قانون ، کیسا قانون ، یہ کس چڑیا کا نام ہے۔ یہ سب ''ان'' کے لیے نہیں۔ قانون تو '' ان'' کے لیے تفریح ہے۔ قانون سے '' وہ'' کیا ؟ اور ڈریں۔ قانون سے ڈرنے کے لیے عوام بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ قانون کے پاسدار '' ان'' کے سامنے '' بے بس'' ہیں جب کہ عوام پاسداران قانون کے بس میں ہیں۔
یہ ہے صورتحال، اور ایسے میں ایک عدالتی فیصلہ آتا ہے۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔
سرحدوں پر ہندوستان روزانہ دو چار بندے مار رہا ہے، کشمیر پر ہندوستانی یلغار جاری ہے۔ اب تو یہ بات دنوں کی نہیں مہینوں کی ہو گئی ہے۔ ساڑھے چار ماہ سے کشمیری کرفیو میں یرغمال ہیں۔ ہمارے ملک پاکستان کو بڑے مسائل نے گھیر رکھا ہے۔ ایسے میں نواز شریف ، شہباز شریف بھی ایک ماہ ہونے کو آیا وہ لندن میں ہیں۔
آصف زرداری ، فریال تالپور ، خورشید شاہ یہ سب جیلوں سے باہر آگئے۔ ہاں سراج درانی بھی باقاعدہ چھوٹ گئے۔ ان ملزمان سے پیسوں کی وصولی کتنی ہوئی، اس کا کچھ اتا پتا نہیں۔ ابھی کچھ اور لوگ بھی جیلوں میں ہیں۔ شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل، خواجہ برادران، لائل پور والے سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ، رانا صاحب کا نام یاد نہیں آرہا تھا، آخر یاد آ ہی گیا۔ ان کے علاوہ بھی کچھ لوگ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے ہیں ، ان کا کیا کیا جا رہا ہے؟ خزانے میں پیسہ آنے کی خبر نہیں آرہی، ضمانتوں کی خبریں آئے چلی جا رہی ہیں۔ پیسہ نہیں آرہا، ضمانتیں آ رہی ہیں اور ''عوام سوچ رہے ہیں'' کیا سوچ رہے ہیں؟ بس سوچ رہے ہیں۔
پاکستان پہلے کبھی اتنا اہم ملک نہیں رہا ، جتنا اب ہو گیا ہے، ایران، سعودی عرب، خلیج کی ریاستیں، ترکی، ملائیشیا، چین، افغانستان، روس اور امریکا بھی۔ یہ '' اہمیت '' بھی آج کے منظر نامے میں بہت اہم ہے۔ یہ جو ممالک جن کا ذکر اوپر ہوا ہے اسے پوری دنیا ہی سمجھیے۔ پاکستان اور سی پیک اور اسی سی پیک نے پوری دنیا میں پاکستان کو اہم خطہ بنا دیا ہے۔
روس نے پیشکش کی ہے کہ ہم پاکستان اسٹیل مل کو دوبارہ کارآمد بنانے کے لیے تیار ہیں۔ روس یوں بھی وہ ملک ہے کہ جس نے ہماری اسٹیل مل بنائی تھی۔ یہ تو کوڑیوں کے دام بک گئی تھی، مگر اللہ بھلا کرے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا جنھوں نے اسٹیل مل کو بکنے سے بچا لیا۔ روس ہمارا پڑوسی ملک بھی ہے۔ روس کے ہندوستان سے بھی اچھے تعلقات ہیں، مگر وہ ہمارے ساتھ بھی اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ سی پیک سے بھی روس کا بڑا گہرا تعلق اور مفاد وابستہ ہے۔ امریکا بھی افغانستان کے حوالے سے پاکستان کو اہمیت دیتا ہے۔
دنیا میں پاکستان اتنا اہم خطہ بن چکا ہے۔ اس اہمیت کے پیش نظر دوست اور دشمن اپنی سی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ پاکستان کے بیرونی دشمنوں کے آلہ کار ہمارے اندر بھی موجود ہیں۔ یہ جو 10 کا دکا دھماکے، یہ جو ''دھماکہ خیز عدالتی فیصلہ'' اس فیصلے کی ''شدت'' بلکہ ''بے جا شدت'' نے اسے مشکوک بنا دیا ہے۔ بات صرف فیصلے تک ہی رہتی تو ہی مناسب تھا اور آگے کی بات سپریم کورٹ پر چھوڑ دی جاتی یہی بہتر تھا۔ اندرونی اور بیرونی خطرات میں گھرے پاکستان اور قرضوں کی دلدل میں پھنسے پاکستان کے لیے ایسے فیصلے عقل تسلیم نہیں کرتی۔ میں نے اپنے مرشد حبیب جالب کو یاد کیا تھا، وہی اشعار پیش کرتا ہوں:
وہی سماں' وہی شب کے حصار ہیں جالبؔ
سیاستوں کے وہی کاروبار ہیں جالب
رہِ وفا میں تری یاد کے اجالے ہیں
یہ اور بات کہ غم بے شمار ہیں جالب
ترے عوام، ترے جاں نثار، تیرے بعد
بہت اداس، بہت بے قرار ہیں جالب
اٹھائیں گے جو ترے پرچم گریباں کو
انھی کے واسطے سب رَسن و دار ہیں جالب