مہران کا موتی سکھر

معصوم شاہ مینار سے سادھو بیلا اور ہوا میں معلق پُل تک منفرد تعمیرات کا حامل شہر


معصوم شاہ مینار سے سادھو بیلا اور ہوا میں معلق پُل تک منفرد تعمیرات کا حامل شہر

ضلع گھوٹکی، کشمور-کندھ کوٹ، شکار پور اور سانگھڑ کے درمیان واقع ''سکھر'' نہ صرف سندھ دھرتی کا تیسرا بڑا شہر ہے بلکہ یہ ایک ڈویژنل ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ دریائے سندھ، ضلع سکھر کی شمالی و غربی سمت میں بہتا ہے، جہاں اس کا پاٹ کافی چوڑا ہے اور اس میں کئی چھوٹے بڑے جزیرے موجود ہیں۔

5165 مربع کلومیٹر پر مُحیط ضلع سکھر کی آبادی 15لاکھ کے قریب ہے جس میں نیو سکھر، سکھر سٹی، صالح پٹ، روہڑی اور پنوں عاقل کی تحصیلیں شامل ہیں۔ سکھر، نہ صرف صوبہ سندھ کے مرکزی شہروں میں سے ایک ہے بلکہ یہ وادیٔ مہران کے تمام قدیم و مشہور آثارِقدیمہ کا نُقطہ آغاز بھی ہے۔

سکھر عربی زبان کے لفظ ''سقر ''سے نکلا ہے جس کا مطلب سخت یا شدید کے ہیں۔ 10 ویں صدی عیسوی میں عربوں نے سندھ فتح کیا تو سکھر میں انہوں نے شدید گرم و سرد موسم کا سامنا کیا جس پر اسے سقر کا نام دیا گیا اور یہی لفظ مقامی زبان میں بگڑ کر سکھر بن گیا۔ سکھر کو ''دریا ڈنو'' یا دریا کا تحفہ بھی کہا جاتا ہے۔1901 میں بنایا گیا ضلع سکھر ایک وسیع و عریض ضلع تھا جس سے 1977 میں شکارپور اور 1993 میں گھوٹکی کو کاٹ کر علیحدہ ضلع بنایا گیا۔ضلع کا صدر مقام سکھر شہر ہے، جو بالائی سندھ میں سب سے بڑی شہری آبادی کا حامل شہر ہے۔

یہاں کا سکھر بیراج سندھ کے نہری نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جب کہ یہاں کا صنعتی علاقہ بالائی سندھ کی صنعتی ضروریات پوری کرتا ہے۔

پنو عاقل میں ملک کی بڑی عسکری چھاؤنیوں میں سے ایک واقع ہے اور یہ شہر اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔ صالح پٹ زیادہ تر دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔ ان 5 تحصیلوں میں سے بہ لحاظ آبادی و رقبہ روہڑی سب سے چھوٹی تحصیل ہے، لیکن تاریخی اعتبار سے اور اہم ریلوے جنکشن کے باعث اس کی اہمیت زیادہ ہے۔

طبعی خدوخال کے لحاظ سے اس ضلع کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک صحرائی اور دوسرا میدانی۔

ضلع کے مشرقی اور جنوبی حصوں میں پاکستان کا سب سے بڑا ریگستان ''تھر'' واقع ہے، جسے مقامی افراد ''نارا'' بھی کہتے ہیں۔ یہ صحرا بھارت کی ریاست راجستھان تک پھیلا ہوا ہے اور ایشیا کے بڑے ریگستانوں میں شمار ہوتا ہے۔ مغربی اور شمالی حصوں میں زیریں سندھ کا زرخیز میدان واقع ہے، جسے گڈو اور سکھر بیراج سے نکلنے والی کئی نہریں سیراب کرتی ہیں۔ ضلع کے جنوبی کونے میں ''چونے کے پتھر'' کی 25 میل لمبی اور 10 میل چوڑی ایک پٹی ہے جسے ''روہڑی ہلز'' کہا جاتا ہے۔

اِن پہاڑیوں میں وادیٔ مہران کے چند تاریخی آثارِقدیمہ واقع ہیں۔ دریائے سندھ سکھر اور روہڑی کے شہروں کے درمیان سے گزرتا ہے جہاں اس پر سکھر بیراج تعمیر کر کے اس سے کل 5 بڑی نہریں نکالی گئی ہیں۔بھارتی شہر جیسلمیر کی طرح سکھر بھی ایک دِل کش نخلستانی شہر ہے جو کسی حد تک اپنے ثقافتی ورثے، طرزِتعمیر اور اسٹائل میں جیسلمیر کی مشابہت رکھتا ہے لیکن بلاشبہہ سکھر میں موجود پرانے زمانے کی خوب صورت عمارتیں اور حویلیاں اپنے شوخ رنگوں اور نقش و نگار کی بدولت ممتاز حیثیت رکھتی ہیں۔یہ شہر دیکھنے والوں کے لیے انتہائی کشش کا حامل ہے اور کسی بھی اچھے سیاح کو بالکل بھی مایوس نہیں کرتا۔ یہاں مسلم فنِ تعمیر کے علاوہ ہندومذہب سے جُڑی چند مشہور جگہیں بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ آئیے اس شہر کے ورثے کو کھنگالتے ہیں۔

1۔ لینس ڈاؤن برج:
لینس ڈاؤن انیسویں صدی میں ''دریائے سندھ'' پر بنایا گیا لوہے کا عالیشان پُل ہے جو سکھر کو روہڑی سے مِلاتا ہے۔ اس کا نام برطانوی ہند کے وائسرائے لارڈ لینس ڈاؤن کے نام پر رکھا گیا اور یہ 25 مارچ 1889ء میں تعمیر ہوا۔ اس زمانے میں یورپی طرز کی بھاری وردیاں سکھر کی شدید گرمی میں انتہائی تکلیف دہ لگتی تھیں، اس لیے پُل کی افتتاحی تقریب صبح سویرے رکھی گئی۔

اپنی تعمیر کے وقت یہ دنیا کا سب سے لمبا ''معلق آہنی پُل'' تھا جو ریلوے کے زیرِانتظام تھا۔ تقریباً 3300 ٹن وزنی اس کا ڈھانچا لندن سے بن کہ آیا جسے ''الیگزینڈر میڈوز'' نامی انجنیئر نے ڈیزائن کیا تھا۔ اس کی تعمیر میں 6 انسانی زندگیاں کام آئیں۔

پھر جب 6 مئی 1962ء میں ایوب پل تعمیر ہوا تو اس پل کو ٹرینوں کے لیے بند کر دیا گیا اور ریلوے ٹریفک نئے پل پر منتقل کردیا گیا۔ اب یہ پل صرف گاڑیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس پل سے متعلق ایک نہایت مزے دار قصہ آپ کو سناتا ہوں۔ سِندھ میں خوشی کی اکثر تقاریب کا آغاز اور اِختتام مشہور لوک گیت ''ہو جمالو'' پر ہوتا ہے۔ اس گیت کی تخلیق کا سبب بھی سکھر کا یہ لینس ڈاؤن پُل ہے۔



1932 میں جب ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریائے سندھ پر لوہے کا یہ پُل تعمیر ہو چکا تب ریلوے کا کوئی بھی ڈرائیور اس پل پر ریل گاڑی چلانے کو آمادہ نہیں ہوا کیوںکہ یہ پُل بغیر کسی ''کھمبے'' یا ستون کے تھا۔ اس مسئلے کا حل انگریز انتظامیہ نے ایسے نکالا کہ سکھر جیل میں قید سزائے موت کے قیدیوں کو ٹرین چلانے کی تربیت دی جائے اور ان سے ٹرین چلوائی جائے۔ سکھر جیل کے ایک قیدی ''جمالے'' کے ساتھ یہ معاہدہ کیا گیا کہ وہ اس پل پر سے ریل گاڑی چلا کر لے جائے گا تو اس کی سزا معاف کردی جائے گی۔

پُل کے ٹرائل کی تقریب ہوئی اور جمالا ریل گاڑی کو پُل پر سے کام یابی سے گزار کر، سکھر سے روہڑی کی طرف لے گیا۔ اس کی سزا معاف کر دی گئی۔ بڑا میلا لگا اور جشن منایا گیا اور اس جشن میں جمالے کی بیوی نے یہ گیت گایا:

ہو منجھو کھٹی آیا خیر ساں
ہو جمالو
ہو جیکو روہڑی واری پُل تاں
ہو جمالو
ہو جیکو سکھر واری پُل تاں
ہو جمالو
ہو منجھو جمالو جتن ساں
ہو جمالو
ترجمہ: میرا وہ جیت کے آیا خیر سے، ہو جمالو۔
وہ جو روہڑی والے پل سے، ہوجمالو۔
وہ جو سکھر والے پل سے، ہو جمالو۔
میرا جمالو جیت کے آیا، ہو جمالو
اور اب ہو جمالو کا یہ گیت سندھی ثقافت کی روح اور سندھ میں خوشی کی پہچان بن گیا ہے۔

2۔ ایوب برِج :
ایوب خان کے دور میں سندھو ندی کو دوبارہ تسخیر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا اور اِس بار ایک کمان دار اور خوب صورت محرابی پل سندھ دھرتی کے جڑواں شہروں، سکھر اور روہڑی کو ملا رہا تھا۔ اس پل کا نام پاکستان کے سابق صدر جرنل ایوب خان کے نام پر ایوب برِج رکھا گیا۔ اس کا سنگ بنیاد 9 دسمبر 1960ء کو رکھا گیا اور اس کا افتتاح 6 مئی 1962ء کو اس وقت کے صدر جرنل ایوب خان نے کیا۔ سِلور گرے رنگ کا چمچماتا یہ پل فولاد سے تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ دنیا کا تیسرا پڑا محرابی پل تھا اور دنیا کا پہلا ریلوے پل ہے جو فولادی رسیوں سے لٹکا ہوا ہے۔ اس پل کو بنانے والی کمپنی وہی ہے جس نے آسٹریلیا کا مشہورِزمانہ '' سڈنی ہاربر برج'' تعمیر کیا ہے۔

ایوب پل کی تعمیر سے پہلے ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے لینس ڈاؤن پل استعمال ہوتا تھا لیکن اس پل کی تعمیر کے بعد پرانے پل کو ٹرینوں کے لیے بند کر دیا گیا اور ریلوے ٹریفک کو ایوب پل پر منتقل کر دیا گیا۔ سو فٹ کے فاصلے پر بنے یہ دونوں شاہ کار دور سے دیکھنے پر ایک ہی دیوہیکل پُل لگتے ہیں۔

3۔ ستین جو آستان:
ہمارا اگلا شاہ کار روہڑی میں سندھو ندی کے بائیں کِنارے واقع سات سہیلیوں کا مزار ہے جسے عرفِ عام میں ''ستین جو آستان'' کہا جاتا ہے۔ یہ اُن سات بہنوں یا سہیلیوں کی آخری آرام گاہ ہے جن کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں لیکن وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں سے کون سی کہانی حقیقت سے قریب ہے۔

پہلی روایت ہے کہ محمد بِن قاسم کے سندھ فتح کرنے کے بعد یہ سات سہیلیاں اس مقام پر رہائش پذیر ہوئیں۔

یہ ساتوں کی ساتوں نہایت نیک اور باپردہ خواتین تھیں جنہوں نے عہد کیا تھا کہ وہ کسی بھی نامحرم مرد کو نہیں دیکھیں گی اور نہ ہی کسی نامحرم مرد کو خود کو دیکھنے کی اجازت دیں گی۔ راجا داہر کے دور میں ان سات بیبیوں نے اس کی بُری نظروں سے اپنی عزت بچانے کے لیے دعا مانگی کہ ''اے اللہ! ہماری عصمت و آبرو محفوظ رکھ۔'' ان کی دعا کے نتیجے میں کرشماتی طور پر ایک چٹان بیبیوں پر آکر گری اور وہ اپنی آبرو گنوانے سے محفوظ رہتے ہوئے چٹان میں دب کر دارفانی سے کوچ کرگئیں، آج بھی ان بیبیوں کی تربت والے کمرے میں کوئی مرد داخل نہیں ہوسکتا۔

اس روایت کی وجہ سے یہ مقام سندھ بھر میں ستین جو آستان (سات سہیلیوں کا آستانہ یا مزار) کے نام سے مشہور ہوا۔ تاہم تاریخ اس روایت سے متعلق کوئی مستند ثبوت یا شواہد پیش نہیں کرتی۔ لوگوں کی اکثریت ستین جو آستان سے منسوب سات بیبیوں کو آج بھی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور عوام اس مقام کو ستین جو آستان کے نام سے ہی جانتے، پہچانتے اور مانتے ہیں۔

اِس کے برعکس تاریخ نویسوں اور محققین کا یہ کہنا ہے کہ سات بیبیاں کون تھیں، کہاں سے آئی تھیں، تاریخ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کا جواب نہیں دیتی۔ سات بیبیوں کی کہانی من گھڑت اور روایات کی بنیاد پر قائم ہے۔ ستین جو آستان سے شہرت پانے والی یہ جگہ در حقیقت ''قاسم خوانی'' ہے، جسے خان زمانہ گورنر سندھ ابو قاسم المعروف نمکین نے اپنی آخری آرام گاہ کے طور پر چنا تھا اور اس کا نام ''صفحہ صفا'' رکھا تھا، خان زمانہ چاندنی راتوں میں اس مقام پر اپنی محفلیں بھی سجایا کرتے تھے۔

ستین جو آستان کے نام سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے اس مقام کی تعمیر کے لیے بھارت کے علاقے راجستھان سمیت مختلف علاقوں سے قیمتی پتھر منگوائے گئے۔ آستان پر موجود قبروں کی تعمیر میں اسی پتھر اور کاشی کا استعمال کیا گیا، یہ پتھر مکلی، ٹھٹھہ، چوکنڈی، جام لوہار (تونگ) کیر تھر، سندھ و بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں تاریخی مقامات پر نظر آتا ہے۔ ستین جو آستان میں لائن اسٹون نرم پتھر کا استعمال بھی کیا گیا ہے، جب کہ دائیں ہاتھ پر اروڑ موجود ہے اور اس کی اکثر تعمیرات میں بھی یہ چیز نظر آتی ہے۔

4۔سکھر/لائیڈبیراج:
تقسیمِ ہند سے ساڑھے تین دہائی قبل برٹش گورنمنٹ نے سرزمینِ سندھ کو سرسبزوشاداب بنانے اور پانی کے ضیاع کو روک کر دور دراز علاقوں میں بسنے والے لوگوں تک پہنچانے کے لیے ایک بیراج کی تعمیر کا منصوبہ شروع کیا، جس کے لیے سکھر کا علاقہ منتخب کیا گیا۔ اس جگہ بیراج تعمیر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس علاقے کی زمین بہت زرخیز ہے، جب کہ سیلابی صورت حال میں اس علاقے میں بے پناہ تباہی ہوتی تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ دریا میں سیلابی کیفیت کے دوران علاقے کو پانی کی سرکشی سے محفوظ رکھنے اور زرخیز زمین کو وافر مقدار میں پانی بہ وقت ضرورت فراہم کرنے کے لیے سکھر بیراج قائم کیا گیا، تو بے جا نہ ہوگا۔

جنوری 1932ء کو بمبئی کے گورنر لارڈ لائیڈ نے سکھر کے نزدیک ایک بیراج کا افتتاح کیا، جس کا نام ان کے نام پر لائیڈ بیراج رکھا گیا۔ لائیڈ بیراج دنیا کے چند بڑے بیراجوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ بیراج پاکستان کے نہری نظام کا فخر اور دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا سب سے منفرد آب پاشی کا نظام ہے۔ اس بیراج کی تعمیر 1923ء میں شروع ہوئی تھی اور آٹھ برس میں مکمل ہوئی تھی۔ یہ بیراج زردپتھر اور فولاد سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کی لمبائی 4725 فٹ ہے اور اس کے 46 دروازے ہیں۔



یہ بیراج دنیا میں اپنی نوعیت کا آب پاشی کا سب سے بڑا بیراج ہے۔ اس سے سات نہریں نکالی گئی ہیں (جن میں دادو کینال، رائس کینال، شمال مغربی کینال، خیرپور ویسٹ کینال، روہڑی کینال، نارا کینال اور خیرپور ایسٹ کینال شامل ہیں) جو سندھ کے دوردراز کے اضلاع (بشمول ڈیرہ مراد جمالی، بلوچستان) تک کو سیراب کرتی ہیں۔ ان نہروں کی مجموعی لمبائی تقریباً 5 ہزار میل ہے اور ان میں سے ایک نہر روہڑی نہر کی چوڑائی نہر سوئز اور نہرپانامہ سے بھی زیادہ ہے۔ ان نہروں سے تقریباً 75لاکھ ایکڑ رقبہ پر سیراب ہوتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اس بیراج کا نام تبدیل کرکے سکھر بیراج رکھ دیا گیا اور آج کل یہ اسی نام سے معروف ہے۔

بیراج کے بالکل پاس اس قدیم بیراج کی تعمیر سے متعلق ایک میوزیم بھی بنایا گیا ہے جہاں بیراج سے متعلق قیمتی دستاویزات، پرانی تصاویر، بیراج کے ماڈل اور اخباری تراشے رکھے گئے ہیں۔ تاریخ سے شغف رکھنے والوں کو یہ میوزیم ایک بار ضرور دیکھنا چاہیے۔

5۔ سادھو بیلو کا مندر:
''سادھو بیلو'' سندھی زبان کے الفاظ ہیں، سادھ کے معنی سادھو اور بیلو کے معنی جنگل ہیں۔ اردو میں اسے سادھو بیلا کہا جاتا ہے، یہ ایک ایسا جزیرہ ہے جہاں درختوں کے جھنڈ بھی ہیں اور پتھریلی چٹانیں بھی، جن پر مندروں اور سمادھیوں کی تعمیر کی گئی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ابتدا میں یہاں صرف چٹانیں اور درخت ہی تھے جنہیں بعد میں تعمیر ہونے والی عمارتوں نے اپنے اندر چھپا لیا۔ اس کے باوجود اب بھی پیپل، نیم اور کئی دوسرے صدیوں پرانے درخت ان عمارتوں کو ڈھانپے ہوئے ہیں۔

جزیرے میں داخل ہونے کے لے ایک کشتی ہر وقت تیار رہتی ہے، بتایا جاتا ہے کہ 1823ء میں ایک سادھو ''مہاراج بان کھنڈی'' سکھر شہر سے دور دریائے سندھ کے بیچ میں واقع اس ویران جزیرے پر آئے اور ایک کٹیا میں رہنے لگے، لوگوں کا بھی ان کے پاس آنا جانا شروع ہو گیا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اداسی فرقہ سے تعلق رکھنے والے سکھ ''سادھو بیلو'' کو انتہائی قدر کی نگا ہ سے دیکھتے ہیں، کیوںکہ اس فکر سے تعلق رکھنے والوں کے مطابق بابا بان کھنڈی مہاراج سری چند مہاراج کی تعلیمات سے کافی متاثر تھے۔

تاریخی شواہد کے مطابق بابا بان کھنڈی نے 40 سال تک سادھو بیلا میں قیام کیا، ان کا انتقال1863 میں 100 سال کی عمر میں ہوا۔ ان کے انتقال کے بعد ''سادھو بیلا'' میں ان کے آٹھ جانشین آئے، 9ویں جانشین کا نام بابا ہرنام داس تھا، جو تقسیم ہند کے بعد سادھو بیلا کو بند کر کے آنکھوں کے علاج کے سلسلے میں انڈیا کے شہر گوجرہ چلے گئے اور واپس نہ آئے۔ بعد میں انہوں نے یہاں کی چابی ایک دوسرے آدمی کے ہاتھوں بھجوا دی۔ انڈیا میں سادھو بیلا کے نام سے ہردوار، ممبئی اور دہلی میں تین دھرم شالے بنوائے، مگر ان کا مقابلہ پاکستان کے سادھو بیلا سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ ایک تو یہ تاریخی جگہ ہے، دوسرا دریا کہ بیچ میں ایک جزیرے پر آباد ہونے کی وجہ سے اس کا محل وقوع بہت خوب صورت اور قدرتی ہے۔ پہلے اس جزیرے پر 100 مور بھی پائے جاتے تھے، جنہیں یہاں آنے والے یاتری دانہ دنکا کھلاتے تھے، مگر بعد میں دیکھ بھال نہ ہونے سے وہ مر گئے۔

6۔ اروڑ:
اروڑ یا الور سندھ کا ایک قدیم شہر ہے جو روہڑی شہر کے پاس ہی واقع ہے۔ یہ شہر سندھ کے برہمن خاندان اور بعدازاں محمد بن قاسم کی فتح سندھ کے بعد سندھ میں عرب حکومت کا دارالحکومت رہا۔ اس شہر کے آثار موجودہ روہڑی سے تقریباً تین میل کے فاصلے پر جنوب مشرق کی جانب موجود ہیں۔ تمام عمارتیں تقریباً ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں سوائے'' کالکن دیوی'' کے ایک مندر کے جو آج بھی مقامی ہندوؤں کے زیرِاستعمال ہے۔

7- گھنٹہ گھر سکھر:
برطانوی دورِحکومت میں برِصغیر کے کئی چہروں کے عین وسط میں عوام کی سہولت کے لیے ''گھنٹہ گھر'' بنائے گئے۔ پاکستان میں سیالکوٹ، ملتان، گجرانوالہ، پشاور، فیصل آباد اور سکھر جیسے بڑے شہروں میں آج بھی یہ گھنٹہ گھر موجود ہیں۔ اگرچہ سکھر کا کلاک ٹاور ایک ہندو سیٹھ وادھومل منجھاری نے برطانیہ کے کنگ جارج پنجم کی سلور جوبلی کی خوشی میں بنوایا تھا جس کا افتتاح سکھر کے اس وقت کے کلکٹر مسٹر مرچندانی نے 1937 میں کیا۔ وکٹوریہ مارکیٹ اور مہران مرکز جیسے مصروف کاروباری مراکز سے گھرا سکھر کا گھنٹہ گھر ہمارے شان دار ماضی کی زندہ لاش لگتا ہے جو انتظامیہ کی بے توجہی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

8- معصوم شاہ مینارہ:
گھنٹہ گھر سے چند قدم کے فاصلے پر سکھر کی ایک اور تاریخی جگہ معصوم شاہ مینارہ موجود ہے جہاں بزرگوں کی قبریں موجود ہیں۔ اس گول مینار پر چڑھنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ جتنا مشکل اس مینار پر چڑھنا ہے اتنا ہی مشکل اس پر سے واپس اترنا ہے۔معصوم شاہ مینار سے سکھر شہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔

ایک دفعہ یہاں بھی چلے جائیں تو اچھا ہے مگر ایک بات کا خیال رکھیں اگر آپ کو جوڑوں کی تکلیف ہے تو اس جگہ نہ جائیں اور اگر آپ بہت موٹے ہیں تب بھی نہ جائیں کیوںکہ اس مینارہ پر چڑھنے کے لیے سیڑھیاں بہت چکنے پتھر کی ہیں جن سے پاؤں پھسلتا ہے دوسرا ان کی چوڑائی صرف دوفٹ ہے اور اتنی چوڑائی میں سے ایک انسان بہ مشکل دیوار سے ٹکرا ٹکرا کر اوپر پہنچتا ہے۔ 1003ھ میں میر محمد معصوم بکھری صاحب نے سکھر والے معصومی مینارہ کی تعمیر کا کام شروع کرایا جسے میر صاحب کے انتقال کے بعد ان کے فرزند میر بزرگ نے 1027ھ میں مکمل کرایا۔ یہ مینارہ پہاڑی پر واقع ہے۔ اس مینارہ میں پکی اینٹیں اور چونے کا پتھر استعمال ہوا ہے۔ یہ مینارہ بنیاد سے 84 فٹ چوڑا ہے، لمبائی بھی 84 فٹ ہے اور گولائی میں سیڑھی کے قدموں کی تعداد بھی 84 ہے۔ مینارہ کی چوٹی گنبد نما ہے۔

ان کے علاوہ بکھر جزیرہ، دیو سماج اسکول، مکرانی مسجد، مہادیو مندر اور شاہی مسجد سکھر بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔



اب چلتے ہیں سکھر کی معاشی و معاشرتی زندگی کی جانب۔ سکھر کی معیشت کا تمام تر انحصار زراعت پر اور زراعت کا تمام تر انحصار دریائے سندھ اور اس سے نکلنے والی نہروں پر ہے۔ دریائے سندھ سکھر سے گزرنے والا واحد دریا ہے۔

اس ضلع میں کاشت کی جانے والی اہم فصلوں میں چاول، باجرہ، کپاس، گندم اور چنا شامل ہیں جب کہ آم، کھجور اور امرود کے باغات بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اس علاقے کی آب و ہوا گرم، خشک لیکن خوش گوار ہے۔ مجموعی طور پر 88 ملی لیٹر بارش ہوتی ہے۔

سکھر بلوچستان اور افغانستان کے خشک میوہ جات کے لیے تجارتی مرکز مانا جاتا ہے اور یہ شہر بسکٹ اور اچار کے لیے بھی مشہور ہے۔ یہاں کی بڑی صنعتوں میں کپاس کی صنعت، سیمنٹ، چمڑا، تمباکو، سگریٹ، رنگ، دوائیں، زرعی اوزار، نلکوں و تالوں کی صنعت، چینی، بسکٹ بنانے کی صنعت وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

دوسری چھوٹی صنعتوں میں دھاگا، برتن اور دیگر صنعتیں شامل ہیں۔ صنعتوں کی زیادہ تعداد تحصیل سکھر میں ہے جب کہ سیمنٹ فیکٹری پنو عاقل میں ہے۔ ان کے علاوہ چھوٹی صنعتیں ضلع کے مختلف علاقوں میں قائم ہیں، جن میں پرنٹنگ، کشتی سازی، مچھلی کی ڈور اور پلاسٹک وغیرہ شامل ہیں۔ خواتین گھروں میں خوب صورت کھیس اور دریاں بناتی ہیں۔

یہ ضلع معدنیات کی دولت سے مالامال ہے۔ نمک اور پتھر یہاں پائی جانے والی دو معدنیات ہیں۔ سکھر اور روہڑی میں پتھر کی بھٹیاں لگائی گئی ہیں ان سے حاصل ہونے والا پتھر سڑکوں کی تعمیر میں استعمال ہوتا ہے۔

اس ضلع کی دھرتی نے سیاست میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہاں کی مشہور سیاسی شخصیات میں عبد الستار پیرزادہ (سابق وفاقی وزیر قانون) ، حفیظ پیرزادہ (سابق وفاقی وزیر قانون)، اسلام الدین شیخ ( سابق وفاقی وزیر تعلیم) اور خورشید شاہ اپوزیشن لیڈر، راہنما پاکستان پیپلز پارٹی) شامل ہیں۔ ان کے علاوہ میر محمد معصوم (ادیب) اور ہیمو کالانی (انقلابی راہ نما) بھی اس ضلع کی اہم شخصیات ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں