فراعنۂ مصر ایک تاریخی پس منظر
ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس کی کنیت ابو مرہ تھی۔
ISLAMABAD:
ایک روایت کے مطابق حضرت یعقوبؑ 1888 ق م اور دوسری ایک روایت کے مطابق 1706 ق م اپنے چہیتے بیٹے حضرت یوسف ؑ کی دعوت پر اپنے70اہل خانہ کے ہمراہ کنعان (عراق) سے مصر تشریف لائے۔ اس وقت حضرت یوسف ؑ عزیزمصر کے منصب پر فائز تھے۔
موجودہ دستور کے مطابق یہ منصب یا عہدہ آج کے وزیر مال یا وزیر خزانہ کے ہم پلہ تھا۔ اس دور میں مصر پر فراعین مصر حکم راں تھے۔ یہ لفظ فراعنہ بھی لکھا اور پڑھا جاتا ہے جو فرعون کی جمع ہے۔ لغت میں اس کے معنی شریر، سرکش لکھے ہوئے ہیں۔ حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں جو فرعون حکم راں تھا وہ خصائل کے اعتبار سے انتہائی شریف اور نیک حکم راں کے طور پر جانا پہچانا جاتا تھا۔
توریت کی ایک روایت کے مطابق حضرت یوسف ؑ نے اپنے خاندان کی رہائش کی خاطر جشن یا جاشان کا علاقہ اس سے مانگا جس پر فرعون نے کہا ''تیرا باپ اور تیرے بھائی تیرے پاس آگئے ہیں مصر کا ملک تیرے آگے پڑا ہے، یہاں کے اچھے سے اچھے علاقے میں اپنے باپ اور بھائیوں کو بسا دے، یعنی جشن کے ہی علاقہ میں انہیں رہنے دے۔'' (توریت پیدائش باب 47آیات5-6) یہ بہترین زمین یا علاقہ رعمیس کا تھا۔ (آیت11)
حضرت یعقوب ؑ کا لقب اسرائیل تھا۔ اسرائیل ایک عبرانی لفظ ہے جو دو الفاظ کا مرکب ہے۔ یعنی اسرا +ایل ۔ اسرا کے معنی عبد اور ایل کے معنی اللہ۔ گویا اسرائیل کے معنی عبداللہ ہوئے۔ اگلے وقتوں میں خاندان کے سربراہ کے نام یا لقب سے نسل چلا کرتی تھی اور اسی طرح علاقے یا خطے کا نام بھی سربراہ کے نام سے رکھا جاتا تھا یا اس کے لقب سے، جیسے قوم نو ح قوم صالح قوم ہود قوم لوط قوم شعیب اور قوم بنی اسرائیل۔ اسی طرح علاقوں میں کنعان اور رعمیس وغیرہ کے علاقے ہیں جو شخصیات کے ناموں سے مشہور ہیں۔ یہ شخصیات اپنی اپنی الگ شناخت اور تاریخ رکھتی ہیں۔ یہ سلسلہ آج بھی پاکستان کے ہر صوبے کے نواحی اور قبائلی علاقہ جات میں مثال بنا ہوا ہے۔
بنی اسرائیل کو عرف عام میں قوم یہود بھی کہا جاتا ہے ۔ یہودا حضرت یعقوب ؑ کے ایک بیٹے کا نام تھا بعض مؤرخین یہودی قوم کو اسی کی نسل بتاتے ہیں جو اصلاً اور نسلاً حضرت ابراہیم ؑ سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کا شجرۂ نسب یوں ہے یوسف ؑ بن یعقوبؑ بن اسحاقؑ بن ابراہیم ؑ۔
حضرت یوسف ؑ نے جا شان کا علاقہ فرعون سے رہائش کے لیے اس لیے مانگا تھا کہ بودوباش کے اعتبار سے ان کا خاندان بدویانہ زندگی گزارنے کا عادی تھا۔ دوم یہ کہ حضرت یعقوب ؑ نے اپنی وفات کے وقت اپنی اولاد سے توحید پر قائم رہنے کا وعدہ لے لیا تھا جس کو قرآن حکیم نے اس طرح بیان کیا ہے۔
ترجمہ''کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت تھا جب کہ اس نے اپنی اولاد سے کہا میرے بعد کس کی پرستش (عبادت) کروگے تو انہوں نے جواب دیا ہم اسی ایک خدا کی پرستش کریں گے جو تیرا اور تیر ے باپ دادا ابراہیم ، اسمٰعیل اور اسحق کا خدا ہے اور جس کا کوئی شریک نہیں''۔ (سورہ البقرہ آیات132-133)
حضرت ابراہیم ؑ کی نبوت سے لے کر حضرت یعقوب ؑ کے دنیا سے پردہ فرمانے تک قوم یہود یا آل ابراہیم ؑ میں شرک وبت پر ستی نہ تھی۔ اگرچہ دیگر قبائل اس میں مبتلا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ نے اپنے خاندان کے لیے مصر میں ایک الگ جگہ کا مطالبہ فرمایا تاکہ مصریوں کے ساتھ رہ کر ان کے عقائد میں مشرکانہ تبدیلی رونمانہ ہوجائے۔
اس کے علاوہ اس وقت مصریوں میں کئی ایک بد اخلاقیاں بھی تھیں جیسے وہ لوگ چرواہوں، کاشتکاروں اور بدوؤں کو اپنے سے کمتر اور نجس جانتے تھے اور ان سے اختلاط کو معیوب گردانتے تھے حضرت یعقوب ؑ کی نسل میں یہ بیک وقت یہ تینوں چیزیں یکجا تھیں۔ مشاہدات عالم میں یہ ایک بات بڑی حیرت سے دیکھی گئی ہے کہ پیغمبر ان کرام کی اکثریت نے بکریاں چرائی ہیں۔
آل ابراہیم ؑ حضرت یوسف ؑ اور حضرت موسٰی ؑ کے درمیانی عرصے میں مصر میں آباد ہوئے تھے جو بعد میں حضرت موسٰی ؑ کے ساتھ مصر سے ہجرت کر کے انبیاء کی سرزمین چلے گئے۔ یہ سر زمین مذہبی کتب تاریخ میں جبرون ، مکفیلہ اور نابلس کے نام سے ہے جب کہ توریت میں یہ جگہ ارض فرائیم لکھی ہے جسے قدیم زمانہ میں شکیم کہتے تھے یہ تمام اراضی فلسطین ہی میں واقع ہیں۔
حضرت موسٰی ؑ کی پیدائش کے وقت کون سا فرعون سلطنت مصر پر حاکم تھا اس کے بارے میں دورجدید اور قدیم میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے کہ فرعون کسی بھی مخصوص بادشاہ یا حکم راں کا نام نہیں ہے بلکہ یہ مصر پر حکم رانی کرنے والوں کا لقب ہے جیسا کہ عصرحاضر میں ہم سربراہ مملکت کو شاہ، صدر، چانسلر اور ہیل سلاسی کے منصب سے پکارتے ہیں۔
تین ہزار سال قبل مسیح سے شروع ہو کر عہد سکندر اعظم تک فراعنہ کے اکتیس 31 خاندان مصر پر حکم رانی کر چکے ہیں سب سے آخری خاندان فارس کی شہنشاہی کا جو 332ق م سکندر کے ہاتھوں مفتوح ہوگیا تھا ان میں سے حضرت یوسف ؑ کے وقت کا فرعون ہیکسوس (مصعب بن ریان) عمالقہ کے خاندان سے تھا جو دراصل عرب ہی کی ایک شاخ ہے عام مؤرخین عرب اور مفسرین اس کو بھی عمالقہ ہی کے خاندان کا، فرد لکھتے ہیں کوئی اس کا نام ولید بن مصعب بن ریان کوئی معصب بن ریان کہتا ہے ، جب کہ ایک روایت میں اس کا نام پتا من جب کہ دوسری روایت میں قابوش بن مصعب بن ریا ن آیا ہے۔
ارباب تحقیق نے اس کا نام ریان ابا بتایا ہے۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس کی کنیت ابو مرہ تھی۔ جدید تحقیق کے مطابق جو پتھر کے کتبے ماہرین کھدائی یا ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے دریافت کیے ہیں اس کے مطابق موسٰی کے زمانے کا فرعون رعمیس دوم کا بیٹا منفتاح (منفطہ) ہے جس کا دورحکومت 1292ق م سے شروع ہوکر 1225ق م ختم ہوتا ہے (قصص القرآن)
ایک اور محقق احمد یوسف آفندی جو مصری دارلآثار کے مصور ہیں اور عصری حجری تحقیق کے بہت بڑے عالم ہیں ان کے ایک مستقل مضمون کا خلاصہ عبدالوہاب نجار نے قصص الانبیاء میں نقل کیا ہے ترجمہ''یہ بات پایۂ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ یوسف ؑ جب مصر میں داخل ہوئے تو یہ فراعنہ کے سولہویں خاندان کا زمانہ تھا اور اس فرعون کا نام ابابی الاوّل تھا۔ میں نے اس کی شہادت اس پتھر کے کتبے سے حاصل کی جو عزیزمصر فوطیفار کے مقبرے میں پایا۔ وہ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل حضرت یوسف ؑ سے تقریباً 27 سال بعد مصر میں داخل ہوئے جس کا ذکر قرآن حکیم اور توریت میں کیا گیا ہے۔''
توریت میں مذکور ہے کہ ''جس فرعون نے بنی اسرائیل کے ساتھ عداوت کا معاملہ کیا اور ان کو سخت مصائب میں مبتلا رکھا اس نے بنی اسرائیل سے دو شہروں رعمیس اور فیثوم کی تعمیر کی خدمت لی اور انہیں مزدور بھی بنایا۔'' اب ان پرانے کھنڈرات کی کھدائی سے ان دونوں شہروں کا پتا لگ چکا ہے اور ایک کے کتبے سے معلوم ہوا ہے کہ اس کا نام پر توم یا فیثوم ہے جس کا ترجمہ ہے ''خدائے توم کا گھر'' اور دوسرے کا نام بر رعمیس ہے جس کا ترجمہ قصر رعمیس ہوتا ہے۔
شہر کی چاردیواری کے جو کھنڈر معلوم ہوئے ہیں وہ بلاشبہہ اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ یہ دونوں شہر مصر کے بہترین حفاظتی قلعہ تھے، جس فرعون نے بنی اسرائیل کو مصائب میں مبتلا کیا وہ اغلب گمان کے مطابق یہی رعمیس دوم ہوسکتا ہے یہ مصر کے حکم رانوں کا انیسویں (19) خاندان تھا۔ حضرت موسٰی اسی کے زمانے میں پیدا ہوئے اور اسی کی آغوش میں پرورش پائی۔ اسویہ قبائل جو مصر کے اطراف آباد تھے ان کے اور فرعون کے اس خاندان کے درمیان نو سال تک سخت جنگ و پیکار رہی جس کے بارے میں یہ بھی قیاس ہے کہ رعمیس دوم نے اس خوف سے کہیں بنی اسرائیل کا یہ عظیم الشان قبیلہ جو لاکھوں نفوس پر مشتمل تھا اندرونی بغاوت پر آمادہ نہ ہوجائے بنی اسرائیل کو ان مصائب میں مبتلا کرنا ضروری سمجھا۔
عصرحاضر کے ایک مفسر ڈاکٹر غلام مرتضی ملک نے اپنی کتاب ''وجود باری تعالیٰ اور توحید'' میں ڈاکٹرغلام جیلانی برق اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے درمیان اس موضوع پر خط و کتابت کا حوالہ دیا ہے۔
ڈاکٹرغلام جیلانی برق اپنی تحقیق میں لکھتے ہیں ''عہد رسالت میں عرب اقوام عالم کی تاریخ، تہذیب، تمدن ان کے آثار اور علوم و فنون سے قطعاًناآشنا تھے۔ انہیں یہ قطعاً معلوم نہ تھا کہ فرعون کتنے تھے اور وہ کب سے مصر پر حکومت کر رہے تھے۔ رہی کھدائیاں تو مصر میں ان کا آغاز پچھلی صدی یعنی انیسویں صدی کے اواخر میں ہوا اور فرعون (حضرت موسٰی ؑ کے وقت) کی لاش 1907ء میں ایک انگریز سر گرافٹن اسمتھ کی کوششوں سے بر آمد ہوئی۔''
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ڈاکٹر برق کے خط کے جواب میں لکھتے ہیں ''برٹا نیکا کے مضمون میں ممی کا ذکر ہے کہ 1906ء میں ایک انگریز ماہر علم و تشریح سر گرافٹن ایلیٹ اسمتھ نے ممیوں کو کھول کھول کر دیکھا اور ان کے حنوط کی تحقیق شروع کی اور چوالس (44) ممیوں کا مشاہدہ کیا تھا۔ گولڈنگ لکھتا ہے کہ 1907ء میں استمھ کو منفطہ کی لاش ملی تھی یہ منفطہ وہی ہے جو حضرت موسٰی ؑ کے زمانے میں غرق ہوا تھا۔ جب اس کی پٹیاں کھولی گئیں تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔
اس کے جسم پر نمک کی ایک تہہ جمی ہوئی تھی جو کسی اور ممی کے جسم پر نہیں تھی۔ گولڈنگ یہ بات بھی بیان کرتا ہے کہ فرعون، بحیرات مرّہ میں غرق ہوا تھا جو اس زمانے میں بحیرۂ احمر سے ملی ہوئی تھی وہ آگے چل کر لکھتا ہے کہ جزیرہ نما سینا کے مغربی ساحل پر ایک پہاڑی ہے جسے مقامی لوگ جبل فرعون کہتے ہیں۔ اس پہاڑی کے نیچے ایک غار میں نہایت گرم پانی کا ایک چشمہ ہے جسے لوگ حمام فرعون کہتے ہیں اور سینہ بہ سینہ روایت کی بنا یہ کہتے ہیں کہ اسی جگہ فرعون کی لاش ملی تھی۔
قرآن حکیم نے ڈیڑھ ہزار سال قبل اس واقعے کے بارے میں بتلا دیا تھا جس کی تائیدوتوثیق آج کا ہر محقق کررہا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ ''اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کر دیا پھر ان کے پیچھے پیچھے فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ظلم اور زیادتی کے ارادہ سے چلا یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا تو کہنے لگا کہ میں ایمان لاتا ہوں کہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں (اللہ نے جواب دیا) اب ایمان لاتا ہے اور پہلے سر کشی کرتا رہا اور مفسدوں میں داخل رہا۔
سو آج ہم صرف تیری لاش کو نجات دیں گے تاکہ تو ان کے لیے نشان عبرت ہو اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔ '' (سورہ یونس آیات 90 تا 92) فرعون کا ذکر قرآن حکیم میں 7مقامات پر آیا ہے۔ سورہ یونس آیات 83، 88 تا92 سورہ ہود آیات 96 تا 99 سورہ القصص آیات1تا 9 اور 38 تا40 سورہ المومن آیات36-37 سورہ النازعات آیات 15تا 26 مزید معجزات انبیاء میں ملاحظہ فرمائیں۔
جب فرعون غرق ہوگیا تو لوگوں کو اس کی موت کا یقین نہ آیا تب اللہ نے سمندر کو حکم دیا اس نے اس کی لاش کو خشکی پر پھینک دیا پھر سب نے اس کی لاش کا مشاہدہ کیا۔ آج بھی یہ لاش مصر کے عجائب گھر میں محفوظ ہے۔