یوٹیوب کی بندش پروکسی ویب سائٹس نے پابندی کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے

مسئلے کا حل ہے ’’الیکٹرانک کرائم بل‘‘ میں ترمیم


Sana Ghori November 05, 2013
مسئلے کا حل ہے ’’الیکٹرانک کرائم بل‘‘ میں ترمیم۔ فوٹو : فائل

دنیا بھر کی سماجی ویب سائٹس کا ذکر کیا جائے تو یو ٹیوب سر فہرست قرار پائے گی۔

دنیا کے نمبر ون سرچ انجن گوگل کی ملکیتی ویب سائٹ ''یو ٹیوب'' انتہائی مشہور ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ سے متنازع بھی ہے۔ یو ٹیوب کو 14فروری2005 کو متعارف کرایا گیا جس کا مرکزی دفتر ''سین بورونو'' کیلی فورنیا امریکا میں ہے۔ یوٹیوب ویب سائٹ کو اسٹیوچن، چاڈیرلی اور جاوید کریم نے ''براڈ کاسٹ یورسیلف'' کے سلوگن کے ساتھ لاؤنچ کیا۔ یہ ایک ویڈیو ہوسٹنگ ویب سائٹ ہے، جس کے ذریعے صارفین اپنی ویڈیوز، انٹرنیٹ کی دنیا میں بہ آسانی لاسکتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر یہ پہلی ویب سائٹ ہے جو 54مختلف زبانوں میں ویڈیوز سرچ کرنے کی سہولت دیتی ہے۔

گوگل میلنگ اکاؤٹ سے رجسٹرڈ صارفین یو ٹیوب پر اپنا مواد بہ آسانی دے سکتے ہیں، جب کہ غیر رجسٹرڈ صارفین یہاں موجود ویڈیوز سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ سی بی ایس، بی بی سی او پولو، ویوو سمیت دیگر کمپنیاں یو ٹیوب کی شراکتی تنظیم کا حصہ ہیں، یو ٹیوب کے قانون کے تحت 16سال سے بڑے افراد ہی اس کے رجسٹرڈ صارفین بن سکتے ہیں۔

یو ٹیوب ایک ایسی ویب سائٹ ہے جس نے سماجی طور پر اپنے بہت گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس کے ذریعے عام فرد کو سوسائٹی اور دنیا تک رسائی کا موقع ملا۔ یو ٹیوب سے لاتعداد گُم نام لوگ سیلیبریٹی بن کر سامنے آچکے ہیں۔ جہاں کسی بھی سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹ کے فوائد ہیں وہاں اس کے نقصانات بھی ہیں اور یہ نقصانات انسان ہی کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ یو ٹیوب پر ایسی ویڈیوز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جن میں مخالفین کی طرف سے کسی فردِ واحد، تنظیم یا مذہب کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہو، جب کہ مختلف تعلیمی شعبوں سے متعلق معیاری ویڈیوز، زبانوں کو سیکھنے کے لیے باقاعدہ درجہ بہ درجہ کلاسز کا اہتمام، ہنر،آرٹ، ڈرائنگ، اسکیچ پینٹنگ سے متعلق ویڈیوز غرض یہ کہ ہر قسم کا معلوماتی اور مفید مواد اس ویب سائٹ پر موجود ہے، جس کے ذریعے دنیا کے کسی بھی کونے میں گھر میں بیٹھے فرد کے لیے بھی تعلیم اور ہنر اور معلومات کے دروازے کھل جاتے ہیں۔



دنیا بھر میں مختلف اوقات میں یو ٹیوب کی سروسز کو بلاک کیا جاتا رہا ہے۔ فی الوقت پاکستان میں یوٹیوب بند کردی گئی ہے، جس کی وجہ گذشتہ سال امریکا میں تیار کی گئی ایک اسلام مخالف فلمکی ریلیز تھی، اس فلم کی وجہ سے مسلمانوں کے جذبات کو شدید دھچکا پہنچا۔ چناںچہ پاکستان نے گوگل کمپنی کی انتظامیہ سے اس فلم کے تمام مواد کو ہٹانے کا مطالبہ کیا، لیکن گوگل نے اس مواد کو حذف کرنے سے صاف انکار کردیا، جس کے باعث پاکستان میں یوٹیوب کی سروس بند کردی گئی۔

یوٹیوب کہنے کو تو پاکستان میں بند ہے لیکن جو لوگ جانتے ہیں وہ اس ویب سائٹ تک ایک سافٹ ویئر یا پروکسی ویب سائٹس کے ذریعے بہ آسانی رسائی حاصل کرلیتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت یوٹیوب کی طرز پر چلنے والی ایک اور ویب سائٹ بھی کام کررہی ہے جس پر وہ تمام قابل اعتراض مواد موجود ہے جس کی وجہ سے یو ٹیوب کو بند کیا گیا، لیکن حکومت شترمرغ کی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکومت کی طرف سے یو ٹیوب کی مالک کمپنی گوگل کی انتظامیہ، تیکنیکی ماہرین اور ان ممالک کے حکام سے بھی، جہاں یو ٹیوب پر متنازع ویڈیوز بلاک کی گئی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے لیے مخصوص قابل اعتراض مواد کو خود بلاک کرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک یو ٹیوب کا پاکستان کے لیے ڈومین حاصل نہ کیا جائے۔

اس ڈومین کے حصول کے لیے حکومت کو کمپنی کو تحفظ کی ضمانت دینا لازم ہے، جس کے لیے قانون سازی یعنی الیکٹرانک کرائم بل میں ترمیم کی ضرورت ہے، حکومت کو چاہیے کہ جلدازجلد قانونی باریکیوں اور وقت کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے اس مسئلے پر توجہ دے، کیوںکہ دوسری صورت میں تو اب بھی لوگ اس مواد تک رسائی حاصل کررہے ہیں، جب کہ یوزرز کی بڑی تعداد کے لیے یوٹیوب پر موجود معلوماتی اور مثبت تفریح کے خزانے تک رسائی کا راستہ بند ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں