سوال تو اٹھے گا
’’یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں‘‘
یہ تو کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ برسوں قدم سے قدم ملا کر چلنے والا، یوں اچانک خاموشی سے بتائے بنا چھوڑ جائے گا اور پھر مڑ کے بھی نہ دیکھے گا، کسی پر کیا گزری، تقریباً ڈھائی ماہ سے جو ذہنی کیفیت ہے اس کو لاتعلقی، خود فراموشی، بے خبری کہنا بھی شاید کافی نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ اس بے درد اور بے حس دنیا میں شاہراہ حیات پر تنہا چلنے کا تصور بھی اچھے بھلے انسان کو مضمحل کر دے تو بھری دنیا بھی ایک ویران لق و دق صحرا ہی نظر آئے۔ کہتے ہیں کہ وقت ہر زخم کا مرہم ہے۔
انسان سنبھل جاتا ہے مگر سنبھلتے سنبھلتے جو وقت لگتا ہے جو عرصہ درکار ہوتا ہے اس عرصے میں پہلی شخصیت تو بحال ہو ہی نہیں سکتی۔ ''یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں'' زندہ رہتے ہیں مگر نئے ڈھنگ، دوسرے طور طریقے سے لگتا تھا کہ جو ذہنی کیفیت ہے یہ تو یوں ہی رہے گی ہمیشہ، اب حواس کبھی بجا اور یکجا نہ ہوں گے۔
مگر لاہور میں ہارٹ کے اسپتال پر جنونی حملے نے خود فراموشی کی چادر تار تار کر دی۔ میرا غم جس نے مجھے نڈھال کر رکھا تھا یہ تو اپنی جگہ، اللہ کی امانت تھی اس نے واپس لے لی، زندگی تو موت ہی کا آغاز۔ یقینا تین عشروں پر محیط زندگی کا خوشگوار سفر بلا کسی پیشگی اطلاع کے ہمسفر کے بغیر جس کا تصور بھی محال ہو ایک بھیانک حقیقت بن کر سامنے آجائے تو انسان اپنے حواس کیسے برقرار رکھ سکتا ہے، مگر جب معلوم ہوا کہ قانون کے محافظوں نے قانون ہاتھ میں لے کر انسانیت کا سر نگوں کر دیا تو جیسے کسی نے سخت سردی میں سر پر یخ ٹھنڈا پانی انڈیل دیا ہو۔
ایک جھرجھری کے بعد بے حسی اور ایک دوسرے سے لاتعلق حواس جیسے گہری نیند سے بیدار ہو گئے۔ یا اللہ کسی کا طبی موت مرنا تو وہ حقیقت ہے جس کو سب ہی تسلیم کرتے ہیں ''موت برحق ہے'' پر تو سب کا ایمان ہے مگر ملک الموت کے بجائے انسانوں کے ہاتھوں مرنا؟ اسلام کے قلعے پاکستان کے دل شہر لاہور میں یہ سب کیوں اور کیسے ہوا؟
دنیا کیا واقعی ظلم و جور اور ناانصافی سے بھر چکی ہے؟ کیا قیامت ہمارے سروں پر مسلط ہو چکی ہے جس کا آنا برحق ہے۔ کیا ہم یوم حساب کے منکر ہیں؟ جب انسان مذہب بلکہ انسانیت کو پیروں تلے روندھ ڈالے، حیوانیت درندگی اور وحشت کا مظاہرہ کرے تو کیا یہی قیامت نہیں؟ بار بار اس بات کا اعادہ کیا جا رہا ہے، لکھا جا رہا ہے کہ اسپتالوں پر تو دوران جنگ بھی حملے نہیں کیے جاتے، دشمن کے مریضوں کو بھی تکلیف نہیں دی جاتی پھر آخر اسلامی ریاست بلکہ ریاست مدینہ (نعوذباللہ) میں یہ غیر انسانی عمل کیوں کیا گیا؟ حملہ آور اور حملے کا شکار دونوں ہی معاشرے کے اہم کردار ایک قانون کے محافظ تو دوسرے مسیحا یعنی پڑھے لکھے باشعور طبقے کے نمایندے مگر کیا کسی وکیل کے ساتھ بدسلوکی کسی مسیحا کو زیب دیتی ہے؟ اور کیا قانون کے محافظ بجائے درگزر اور نظر انداز کرنے کی اعلیٰ مثال قائم کرنے کے اپنی توہین کا بدلہ متعلقہ شخص کے بجائے مریضوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال کر لینے لگیں گے۔
کیا یہ صورتحال ہمارے پڑھے لکھے افراد کی ''جہالت'' کی عکاسی نہیں، کیا یہ طرز عمل ہمارے نظام تعلیم پر سوالات نہیں اٹھاتا۔ کیا محض نصاب رٹ کر عملی زندگی میں قدم رکھنا اب بھی ہمیں یہ سوچنے پر آمادہ نہ کرے گا کہ انسان اور اچھا شہری، معاشرے کا ذمے دار فرد بنانا تعلیم کا اصل مقصد ہونا چاہیے۔ کردار سازی کے بغیر آپ قانون داں، استاد، مسیحا، انجینئر حتیٰ کہ اسمبلیوں کے اراکین بناتے رہیں گے تو معاشرہ فلاحی معاشرہ بن جائے گا؟ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں جب ممبران دست و گریباں ہوں ایک دوسرے کو نازیبا الفاظ سے نواز رہے ہوں۔ جب ملک کا سربراہ مخالفین کی ذات پر حملے کرتا ہو، جب قوم کے قائدین (لیڈر) ایک دوسرے کی نقل اتار کر مذاق کا نشانہ بنا رہے ہوں تو پھر کسی وحشت و بربریت پر کف افسوس ملنے کی کیا ضرورت ہے۔
اللہ کے فضل و کرم سے ملک بہت ترقی کر رہا ہے، معیشت دن دو گنی رات چوگنی بحال ہو رہی ہو (ماشا اللہ) جمہوریت مستحکم ہو رہی ہو اور معاشرہ۔۔۔۔۔ رہنے دیجیے اس ذکر کو معاشرہ خود اپنے انجام کو پہنچے گا اور کیا اس واقعے کے بعد پہنچ نہیں چکا؟ فلاحی معاشرہ، فلاحی ریاست اب یہ شور مچانے کا ڈرامہ بند ہونا چاہیے، ہم سب اپنی جگہ معاشرے اور اس واقعے کے مجرم ہیں۔ غضب خدا کا وزیر اعظم کے بھانجے، صحافی (کالم نگار) کے صاحبزادے اس غیر اخلاقی گروہ کی قیادت فرما رہے ہوں تو کیا والدین و بزرگوں کی تربیت پر انگلیاں نہیں اٹھیں گی؟ جب ہر عمر اور ہر رشتے میں ذمے داری کا احساس ہی نہ رہے تو معاشرتی زوال کا کیا گلہ جو بویا جائے گا وہی کاٹا جائے گا۔
ایک ملک میں کئی نظام تعلیم، نجی اسکول نمائش گاہ اور سرکاری ادارے۔ ہونا نہ ہونا برابر پھر مدارس کی بھرمار ان مدارس سے فارغ التحصیل طلبا کو کھپانے کے لیے رہائشی مکانات کو اونے پونے داموں خرید کر مساجد بنائی جا رہی ہیں مساجد بنانا اچھی بات ضرور ہے مگر کیا ہر پانچ دس گھروں کے بعد ایک ہی محلے میں کئی کئی مساجد امت کو تقسیم در تقسیم کرنا نہیں ہے۔ اذان ہوتے ہی ہر گھر سے نکلنے والے مختلف مساجد کا رخ کریں جب پڑوسی کو پڑوسی کا بھائی قرار دیا گیا ہو تو اس صورت میں اخوت کیسے پروان چڑھ سکتی ہے اس طرح تو نفاق ہی پیدا کیا جا سکتا ہے تو اب نظام تعلیم، بزرگوں کا انداز تربیت ہی نہیں ملاؤں کی دینی خدمات پر بھی سوال اٹھتا ہے۔ مختصر یہ کہ اس طرح تو ایسا ہی معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔
جس میں کوئی کسی کا احترام کرے نہ عزت۔ مان لیجیے کہ پی آئی سی کے مسیحاؤں اور قانون کے محافظوں کے درمیان کوئی مسئلہ تھا تو کیا اس کا حل پورے اسپتال کو ملیا میٹ کرنا اور مریضوں سے جینے کا حق چھین لینا کس قانون، کس دین، کس معاشرے یا اقدار میں جائز ہو گا؟ اس کو بھی کچھ دیر کے لیے مان لیں (دل پر بھاری پتھر رکھ کر) مگر بعد ازاں فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی طالبات کی بس میں گھس کر جو اخلاقیات کا مظاہرہ کیا گیا اس کو کس کھاتے میں شمارکیا جائے؟ ان طالبات اور لیڈی ڈاکٹروں سے توکوئی مسئلہ نہ تھا۔ چنانچہ یہ طے ہے کہ یہ جنونی افراد ہرگز تعلیم یافتہ نہ تھے بلکہ ڈگری یافتہ جاہل تھے۔ جاہل کیوں تھے یہی وہ سوال ہے جس کا فوری طور پر جواب تلاش کرنا ہے۔
جب دل میں بغض و کینہ رکھنے والے یہ وکلا جج جسٹس اور چیف جسٹس کے عہدے پر پہنچیں گے تو پھر متنازعہ فیصلے ہی سامنے آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ اس ملک پر رحم فرمائے۔ اتحاد، اخوت، بھائی چارہ فروغ پائے۔ دلوں سے کدورتیں دور ہوں۔( آمین)
انسان سنبھل جاتا ہے مگر سنبھلتے سنبھلتے جو وقت لگتا ہے جو عرصہ درکار ہوتا ہے اس عرصے میں پہلی شخصیت تو بحال ہو ہی نہیں سکتی۔ ''یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں'' زندہ رہتے ہیں مگر نئے ڈھنگ، دوسرے طور طریقے سے لگتا تھا کہ جو ذہنی کیفیت ہے یہ تو یوں ہی رہے گی ہمیشہ، اب حواس کبھی بجا اور یکجا نہ ہوں گے۔
مگر لاہور میں ہارٹ کے اسپتال پر جنونی حملے نے خود فراموشی کی چادر تار تار کر دی۔ میرا غم جس نے مجھے نڈھال کر رکھا تھا یہ تو اپنی جگہ، اللہ کی امانت تھی اس نے واپس لے لی، زندگی تو موت ہی کا آغاز۔ یقینا تین عشروں پر محیط زندگی کا خوشگوار سفر بلا کسی پیشگی اطلاع کے ہمسفر کے بغیر جس کا تصور بھی محال ہو ایک بھیانک حقیقت بن کر سامنے آجائے تو انسان اپنے حواس کیسے برقرار رکھ سکتا ہے، مگر جب معلوم ہوا کہ قانون کے محافظوں نے قانون ہاتھ میں لے کر انسانیت کا سر نگوں کر دیا تو جیسے کسی نے سخت سردی میں سر پر یخ ٹھنڈا پانی انڈیل دیا ہو۔
ایک جھرجھری کے بعد بے حسی اور ایک دوسرے سے لاتعلق حواس جیسے گہری نیند سے بیدار ہو گئے۔ یا اللہ کسی کا طبی موت مرنا تو وہ حقیقت ہے جس کو سب ہی تسلیم کرتے ہیں ''موت برحق ہے'' پر تو سب کا ایمان ہے مگر ملک الموت کے بجائے انسانوں کے ہاتھوں مرنا؟ اسلام کے قلعے پاکستان کے دل شہر لاہور میں یہ سب کیوں اور کیسے ہوا؟
دنیا کیا واقعی ظلم و جور اور ناانصافی سے بھر چکی ہے؟ کیا قیامت ہمارے سروں پر مسلط ہو چکی ہے جس کا آنا برحق ہے۔ کیا ہم یوم حساب کے منکر ہیں؟ جب انسان مذہب بلکہ انسانیت کو پیروں تلے روندھ ڈالے، حیوانیت درندگی اور وحشت کا مظاہرہ کرے تو کیا یہی قیامت نہیں؟ بار بار اس بات کا اعادہ کیا جا رہا ہے، لکھا جا رہا ہے کہ اسپتالوں پر تو دوران جنگ بھی حملے نہیں کیے جاتے، دشمن کے مریضوں کو بھی تکلیف نہیں دی جاتی پھر آخر اسلامی ریاست بلکہ ریاست مدینہ (نعوذباللہ) میں یہ غیر انسانی عمل کیوں کیا گیا؟ حملہ آور اور حملے کا شکار دونوں ہی معاشرے کے اہم کردار ایک قانون کے محافظ تو دوسرے مسیحا یعنی پڑھے لکھے باشعور طبقے کے نمایندے مگر کیا کسی وکیل کے ساتھ بدسلوکی کسی مسیحا کو زیب دیتی ہے؟ اور کیا قانون کے محافظ بجائے درگزر اور نظر انداز کرنے کی اعلیٰ مثال قائم کرنے کے اپنی توہین کا بدلہ متعلقہ شخص کے بجائے مریضوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال کر لینے لگیں گے۔
کیا یہ صورتحال ہمارے پڑھے لکھے افراد کی ''جہالت'' کی عکاسی نہیں، کیا یہ طرز عمل ہمارے نظام تعلیم پر سوالات نہیں اٹھاتا۔ کیا محض نصاب رٹ کر عملی زندگی میں قدم رکھنا اب بھی ہمیں یہ سوچنے پر آمادہ نہ کرے گا کہ انسان اور اچھا شہری، معاشرے کا ذمے دار فرد بنانا تعلیم کا اصل مقصد ہونا چاہیے۔ کردار سازی کے بغیر آپ قانون داں، استاد، مسیحا، انجینئر حتیٰ کہ اسمبلیوں کے اراکین بناتے رہیں گے تو معاشرہ فلاحی معاشرہ بن جائے گا؟ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں جب ممبران دست و گریباں ہوں ایک دوسرے کو نازیبا الفاظ سے نواز رہے ہوں۔ جب ملک کا سربراہ مخالفین کی ذات پر حملے کرتا ہو، جب قوم کے قائدین (لیڈر) ایک دوسرے کی نقل اتار کر مذاق کا نشانہ بنا رہے ہوں تو پھر کسی وحشت و بربریت پر کف افسوس ملنے کی کیا ضرورت ہے۔
اللہ کے فضل و کرم سے ملک بہت ترقی کر رہا ہے، معیشت دن دو گنی رات چوگنی بحال ہو رہی ہو (ماشا اللہ) جمہوریت مستحکم ہو رہی ہو اور معاشرہ۔۔۔۔۔ رہنے دیجیے اس ذکر کو معاشرہ خود اپنے انجام کو پہنچے گا اور کیا اس واقعے کے بعد پہنچ نہیں چکا؟ فلاحی معاشرہ، فلاحی ریاست اب یہ شور مچانے کا ڈرامہ بند ہونا چاہیے، ہم سب اپنی جگہ معاشرے اور اس واقعے کے مجرم ہیں۔ غضب خدا کا وزیر اعظم کے بھانجے، صحافی (کالم نگار) کے صاحبزادے اس غیر اخلاقی گروہ کی قیادت فرما رہے ہوں تو کیا والدین و بزرگوں کی تربیت پر انگلیاں نہیں اٹھیں گی؟ جب ہر عمر اور ہر رشتے میں ذمے داری کا احساس ہی نہ رہے تو معاشرتی زوال کا کیا گلہ جو بویا جائے گا وہی کاٹا جائے گا۔
ایک ملک میں کئی نظام تعلیم، نجی اسکول نمائش گاہ اور سرکاری ادارے۔ ہونا نہ ہونا برابر پھر مدارس کی بھرمار ان مدارس سے فارغ التحصیل طلبا کو کھپانے کے لیے رہائشی مکانات کو اونے پونے داموں خرید کر مساجد بنائی جا رہی ہیں مساجد بنانا اچھی بات ضرور ہے مگر کیا ہر پانچ دس گھروں کے بعد ایک ہی محلے میں کئی کئی مساجد امت کو تقسیم در تقسیم کرنا نہیں ہے۔ اذان ہوتے ہی ہر گھر سے نکلنے والے مختلف مساجد کا رخ کریں جب پڑوسی کو پڑوسی کا بھائی قرار دیا گیا ہو تو اس صورت میں اخوت کیسے پروان چڑھ سکتی ہے اس طرح تو نفاق ہی پیدا کیا جا سکتا ہے تو اب نظام تعلیم، بزرگوں کا انداز تربیت ہی نہیں ملاؤں کی دینی خدمات پر بھی سوال اٹھتا ہے۔ مختصر یہ کہ اس طرح تو ایسا ہی معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔
جس میں کوئی کسی کا احترام کرے نہ عزت۔ مان لیجیے کہ پی آئی سی کے مسیحاؤں اور قانون کے محافظوں کے درمیان کوئی مسئلہ تھا تو کیا اس کا حل پورے اسپتال کو ملیا میٹ کرنا اور مریضوں سے جینے کا حق چھین لینا کس قانون، کس دین، کس معاشرے یا اقدار میں جائز ہو گا؟ اس کو بھی کچھ دیر کے لیے مان لیں (دل پر بھاری پتھر رکھ کر) مگر بعد ازاں فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی طالبات کی بس میں گھس کر جو اخلاقیات کا مظاہرہ کیا گیا اس کو کس کھاتے میں شمارکیا جائے؟ ان طالبات اور لیڈی ڈاکٹروں سے توکوئی مسئلہ نہ تھا۔ چنانچہ یہ طے ہے کہ یہ جنونی افراد ہرگز تعلیم یافتہ نہ تھے بلکہ ڈگری یافتہ جاہل تھے۔ جاہل کیوں تھے یہی وہ سوال ہے جس کا فوری طور پر جواب تلاش کرنا ہے۔
جب دل میں بغض و کینہ رکھنے والے یہ وکلا جج جسٹس اور چیف جسٹس کے عہدے پر پہنچیں گے تو پھر متنازعہ فیصلے ہی سامنے آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ اس ملک پر رحم فرمائے۔ اتحاد، اخوت، بھائی چارہ فروغ پائے۔ دلوں سے کدورتیں دور ہوں۔( آمین)