بھارت میں شادی کرنے والی پاکستانی و کشمیری خواتین کو مشکلات
درجنوں بیوائیں اور طلاق یافتہ خواتین شدید متاثر، شہریت مل سکی نہ واپسی کی راہ
ببھارت میں شہریت کے نئے قانون کیخلاف جہاں بھارت کی مختلف ریاستوں میں احتجاج اورہنگاموں کا سلسلہ جاری ہے وہیں پاکستان اور آزاد کشمیرسے تعلق رکھنے والی ایسی خواتین کا وہاں قیام اورواپسی بھی مشکل ہوگئی ہیں جن کی شادیاں مقبوضہ کشمیراوربھارت کے مختلف شہروں میں ہوئی ہیں۔
مقبوضہ کشمیرسمیت بھارت کے مختلف شہروں میں مقیم پاکستانی اورآزادکشمیرسے تعلق رکھنے والی ایسی خواتین کی مشکلات بڑھ گئی ہیں جن کی شادیاں مقبوضہ کشمیرمیں ہوئی تھیں۔ انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنیوالی ایک تنظیم کے مطابق ایسی خواتین کی تعداد 300 کے قریب ہے جوگزشتہ 10 سے 15 برسوں کے دوران مقبوضہ کشمیر اوربھارت کے مختلف شہروں میں بیاہی گئیں مگران کوابھی تک شہریت نہیں مل سکی ہے۔ ان میں سے درجنوں خواتین ایسی ہیں جن کے شوہرفوت ہوچکے ہیں یاپھرانہیں طلاق ہوگئی اوراب ان کاوہاں کوئی سہارانہیں ہے اوروہ خواتین اپنے بچوں سمیت کسمپرسی کی زندگی گزاررہی ہیں۔ ان خواتین کوبھارتی حکومت واپس پاکستان آنے کی اجازت بھی نہیں دے رہی ہے.
ان خواتین میں مقبوضہ کشمیر میں محصور کبریٰ گیلانی بھی شامل ہیں جن کے شادی وہاں مقیم اپنے رشتہ دارسے ہوئی تاہم بعدمیں طلاق ہوگئی اوراب وہ کسی کے گھرکام کرتی ہیں اوروہیں مقیم ہیں۔ ایک اورخاتون بشری فاروق ہیں جو کپواڑہ میں مقیم ہیں ، بشری فاروق کے مطابق ان کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے ان کی شادی 2008 میں مقبوضہ جموں کشمیرمیں ہوئی تھی اب ان کے دو بیٹے محمدثاقب اورعبدالمنان ہیں، ان کے شوہر نے ان کو طلاق دے دی ہے لیکن اب انہیں واپس پاکستان نہیں آنے دیا جارہا ہے۔ایک اور پاکستانی خاتون زیبا اس وقت کپواڑہ میں محصورہیں۔ وہ سات سال پہلے شادی کے بعد جموں کشمیرگئیں اوراب انہیں واپس آزاد کشمیر آنے کی اجازت نہیں مل رہی ہے، زیبا کے مطابق انہوں نے واپس جانے کے لئے بہت کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوسکیں.
انصاربرنی ٹرسٹ کے سربراہ انصاربرنی نے ایکسپریس کوبتایا کہ وہ گزشتہ ایک سال سے ان خواتین کی آوازاٹھارہے ہیں اوران کا مسلہ حل کروانے تک اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے بھارتی حکومت کو ان خواتین سے متعلق تین تجاویز بھیجی ہیں۔ ایک یہ کہ ان خواتین کو سفری دستاویزات جاری کی جائیں تاکہ یہ واپس پاکستان اورآزادکشمیرآسکیں اوریہاں اپنے خاندانوں سے ملنے کے بعد واپس اپنے شوہر اورگھروں میں جاسکیں گی۔ دوسری تجویزیہ ہے کہ ان خواتین کو بھارت شہریت دے کیونکہ وہ گزشتہ 10 سے 15 برس پہلے وہاں مقیم ہیں اوربھارت نے شہریت سے متعلق قانون اب پاس کیاہے۔ تیسری تجویزیہ دی ہے کہ ان خواتین کواگربھارت نے شہریت نہیں دینی توانہیں واپس پاکستان بھیج دیاجائے۔
انصاربرنی نے بتایا کہ بھارت نے ان کی تیسری تجویزپرخواتین کو پاکستان واپس بھیجنے پرآمادگی ظاہرکی تھی تاہم بھارتی حکام کا کہنا تھا کہ ان خواتین کے بچوں کو واپس نہیں بھیجا جائیگا کیونکہ ان کی پیدائش وہاں ہوئیں اوروہ اب بھارتی شہری ہیں۔ انصاربرنی کہتے ہیں کہ انہوں نے بھارتی حکام پر واضع کیا کہ یہ ظلم ہوگا، ماؤں کوان کے بچوں سے الگ کیسے کیاجاسکتاہے۔ انہوں نے کہا انہیں پاکستانی حکومت پربھی انتہائی افسوس ہے جس نے ابھی تک ان خواتین کوواپس لانے سے متعلق کوئی اقدام اٹھایا ہے اورنہ رابطوں کا کوئی جواب دیاہے۔
مقبوضہ کشمیرسمیت بھارت کے مختلف شہروں میں مقیم پاکستانی اورآزادکشمیرسے تعلق رکھنے والی ایسی خواتین کی مشکلات بڑھ گئی ہیں جن کی شادیاں مقبوضہ کشمیرمیں ہوئی تھیں۔ انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنیوالی ایک تنظیم کے مطابق ایسی خواتین کی تعداد 300 کے قریب ہے جوگزشتہ 10 سے 15 برسوں کے دوران مقبوضہ کشمیر اوربھارت کے مختلف شہروں میں بیاہی گئیں مگران کوابھی تک شہریت نہیں مل سکی ہے۔ ان میں سے درجنوں خواتین ایسی ہیں جن کے شوہرفوت ہوچکے ہیں یاپھرانہیں طلاق ہوگئی اوراب ان کاوہاں کوئی سہارانہیں ہے اوروہ خواتین اپنے بچوں سمیت کسمپرسی کی زندگی گزاررہی ہیں۔ ان خواتین کوبھارتی حکومت واپس پاکستان آنے کی اجازت بھی نہیں دے رہی ہے.
ان خواتین میں مقبوضہ کشمیر میں محصور کبریٰ گیلانی بھی شامل ہیں جن کے شادی وہاں مقیم اپنے رشتہ دارسے ہوئی تاہم بعدمیں طلاق ہوگئی اوراب وہ کسی کے گھرکام کرتی ہیں اوروہیں مقیم ہیں۔ ایک اورخاتون بشری فاروق ہیں جو کپواڑہ میں مقیم ہیں ، بشری فاروق کے مطابق ان کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے ان کی شادی 2008 میں مقبوضہ جموں کشمیرمیں ہوئی تھی اب ان کے دو بیٹے محمدثاقب اورعبدالمنان ہیں، ان کے شوہر نے ان کو طلاق دے دی ہے لیکن اب انہیں واپس پاکستان نہیں آنے دیا جارہا ہے۔ایک اور پاکستانی خاتون زیبا اس وقت کپواڑہ میں محصورہیں۔ وہ سات سال پہلے شادی کے بعد جموں کشمیرگئیں اوراب انہیں واپس آزاد کشمیر آنے کی اجازت نہیں مل رہی ہے، زیبا کے مطابق انہوں نے واپس جانے کے لئے بہت کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوسکیں.
انصاربرنی ٹرسٹ کے سربراہ انصاربرنی نے ایکسپریس کوبتایا کہ وہ گزشتہ ایک سال سے ان خواتین کی آوازاٹھارہے ہیں اوران کا مسلہ حل کروانے تک اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے بھارتی حکومت کو ان خواتین سے متعلق تین تجاویز بھیجی ہیں۔ ایک یہ کہ ان خواتین کو سفری دستاویزات جاری کی جائیں تاکہ یہ واپس پاکستان اورآزادکشمیرآسکیں اوریہاں اپنے خاندانوں سے ملنے کے بعد واپس اپنے شوہر اورگھروں میں جاسکیں گی۔ دوسری تجویزیہ ہے کہ ان خواتین کو بھارت شہریت دے کیونکہ وہ گزشتہ 10 سے 15 برس پہلے وہاں مقیم ہیں اوربھارت نے شہریت سے متعلق قانون اب پاس کیاہے۔ تیسری تجویزیہ دی ہے کہ ان خواتین کواگربھارت نے شہریت نہیں دینی توانہیں واپس پاکستان بھیج دیاجائے۔
انصاربرنی نے بتایا کہ بھارت نے ان کی تیسری تجویزپرخواتین کو پاکستان واپس بھیجنے پرآمادگی ظاہرکی تھی تاہم بھارتی حکام کا کہنا تھا کہ ان خواتین کے بچوں کو واپس نہیں بھیجا جائیگا کیونکہ ان کی پیدائش وہاں ہوئیں اوروہ اب بھارتی شہری ہیں۔ انصاربرنی کہتے ہیں کہ انہوں نے بھارتی حکام پر واضع کیا کہ یہ ظلم ہوگا، ماؤں کوان کے بچوں سے الگ کیسے کیاجاسکتاہے۔ انہوں نے کہا انہیں پاکستانی حکومت پربھی انتہائی افسوس ہے جس نے ابھی تک ان خواتین کوواپس لانے سے متعلق کوئی اقدام اٹھایا ہے اورنہ رابطوں کا کوئی جواب دیاہے۔