’’تم ادھر ہم ادھر‘‘
عبرت ناک اور دردناک قسم کے الفاظ کو چھوڑیئے وطن عزیز کی صورت حال المناک نہیں دلچسپ بن چکی ہے۔ ہم بدستور امریکا کی۔۔۔
JOHANNESBURG:
عبرت ناک اور دردناک قسم کے الفاظ کو چھوڑیئے وطن عزیز کی صورت حال المناک نہیں دلچسپ بن چکی ہے۔ ہم بدستور امریکا کی مکمل غلامی میں ہیں لیکن غلامی چونکہ کوئی بھی قبول نہیں کرتا، اس لیے ہم بھی امریکا کی حکومت کے نیچے کسمساتے رہتے ہیں اور شور مچاتے رہتے ہیں مگر صرف اتنا کہ جس سے امریکا ڈسٹرب نہ ہو کیونکہ جب امریکا کسی کی وجہ سے ڈسٹرب ہوتا ہے تو وہ اس وجہ کا قلع قمع کرنا ضروری سمجھتا ہے چونکہ وہ یہ سب کچھ کر سکتا ہے اس لیے اسے بھی لہو گرم رکھنے کا اک بہانہ سمجھ لیتا ہے اور جس طرف منہ اٹھاتا ہے اسی طرف چڑھ دوڑتا ہے اور یہ دوڑ چونکہ بے تابانہ اور بے رحمانہ قسم کی ہوتی ہے اس لیے یہ نارمل نہیں رہتی، دائیں بائیں آگے پیچھے ہر طرف تباہی مچاتی جاتی ہے اور اس بے تحاشا قسم کے حالات میں اسے لطف آتا ہے۔ امریکا کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی مزاحمت کی جائے کیونکہ مزاحمت میں ہی زندگی ہے۔ ایک امریکی رسالے ریڈر ڈائجسٹ میں پڑھا تھا کہ جب آپ کے سامنے لڑاکا قسم کا کتا آ جائے تو اس کا مقابلہ نہ کریں، اس کے سامنے چپ کر کے بیٹھ جائیں، وہ بھونک بھونک کر خود ہی تھک کر چلا جائے گا کیونکہ اس کی مزاحمت نہیں ہو گی، اس لیے اس کے اندر جارحیت اور حملہ آور ہونے کی طاقت ماند پڑ جائے گی۔ امریکا اپنی اس جارحانہ طاقت کو کمزور نہیں دیکھنا چاہتا اور لڑائی بھڑائی میں ہی اپنی طاقت کی بقاء اور سلامتی سمجھتا ہے۔ ہمارے ایک اردو شاعر سیف الدین سیف نے یہی کہا تھا کہ
دشمن گئے کہ کشمکش زندگی گئی
دشمن گئے کہ دوست ہمارے چلے گئے
امریکا کی کشمکش زندگی بھی اسی لڑائی بھڑائی میں ہے۔ کبھی وہ خود لڑتا ہے کبھی اپنے اسلحہ کی مدد سے دوسروں کو آپس میں لڑاتا ہے جن کے پاس امریکا سے خریدا ہوا اسلحہ ہوتا ہے۔
اب جس کے پاس امریکا کا اسلحہ ہو گا، وہ امریکی مرضی کے مطابق لڑائی شروع کریں گے اور ختم کریں گے۔ بھارت کے ساتھ ہماری جنگ میں امریکا نے بھارت کے حق میں یہی حربہ استمال کیا تھا اور ہمیں تاشقند کرنا پڑا تھا۔ میں نے تاشقند میں وہ عمارت اور اس کے وہ کمرے دیکھے ہیں جن میں امریکی مرضی بلکہ حکم سے ایوب خان اور شاستری نے جنگ کا اختتام کیا تھا۔
ابھی ہماری یہ خوش فہمی ہوا ہی میں ہوتی ہے کہ ایک ڈرون حملہ ہو جاتا ہے اور ایسے وقت میں اور ایسے نشانے پر کہ جس سے وقتی طو رپر ہی سہی ساری صورت حال بدل جاتی ہے لیکن کس کے حق میں اس کا پتہ بعد میں چلے گا بہرحال امریکا کے حق میں ہی۔
یہ درست کہ امریکا ہر جگہ موجود ہے اور ہر ملک کا پڑوسی ہے لیکن کون نہیں جانتا کہ طالبان اپنے اس پڑوسی امریکا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اگر طالبان امریکا کا کچھ بگاڑنے کی پوزیشن میں ہیں تو پھر امریکا کو اپنا سپرپاور ہونے کا دعویٰ واپس لے لینا چاہیے اور اقوام متحدہ میں بیٹھ کر دنیا جہاں کو نصیحتیں کرنی چاہئیں۔ یہ سب سے آسان طریقہ اور محفوظ قسم کی مصروفیت ہے۔ طالبان امریکا کا تو ظاہر ہے کہ کچھ نہیں بگاڑ سکتے لیکن امریکا جس کا کچھ بگاڑنا چاہتا ہے، طالبان اس کا بہت کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور اس کی تازہ مثال پاکستان ہے جہاں طالبان نے سب کچھ الٹ پلٹ کر رکھا ہے اور جہاں کے حکمران ملک کی سلامتی کی کوئی پالیسی نہیں بنا سکتے اور نہ ہی بنا سکیں گے۔
پرانی بات ہے کہ اگرچہ اس وقت طالبان نوعیت کے ہنگامے تو نہیں تھے لیکن ملک میں افراتفری بہت تھی' بدنظمی تھی' رشوت تھی اور ٹریفک خراب ہونی شروع ہوئی تھی تو ان دنوں کسی محفل میں فیض صاحب سے پوچھا گیا کہ جناب اب کیا ہو گا اور ایسا آخر کب تک چلے گا تو فیض صاحب کا دھیمے لہجے میں جواب تھا بس ایسا ہی چلتا رہے گا چنانچہ ویسا ہی چلتا رہا لیکن پھر بہت زیادہ چلنے لگ گیا، اتنا زیادہ کہ افغانستان میں جنگ در جنگ شروع ہو گئی' روس گیا تو امریکا آ گیا اور پھر عالمی گڑبڑ میں کہیں سے طالبان بھی آ گئے۔
کون نہیں جانتا اور نہیں جانتا تو جان لے کہ طالبان کی اصل طاقت اگرچہ امریکا ہے لیکن اس کے ذریعے عملاً طاقت بھارت ہے۔ ہمارے حکمران بھارت کو خطرہ تسلیم نہیں کرتے کیونکہ امریکا بھارت کا حقیقی سرپرست ہے اور ہم امریکا کے بہت ہی زیادہ دوست ہیں چنانچہ اسی امریکی صورت حال میں ہی ہم چلے جا رہے ہیں اور مزے کر رہے ہیں۔ حکومتیں بھی ہیں، رعایا بھی ہے اور مراعات بھی ہیں، بس خدا اتنی صحت دے کہ ہم اس آسان اور سازگار صورت حال سے لطف اندوز ہوتے رہیں اور طالبان ہم سے دور اپنی رونق لگاتے رہیں، وہ ادھر خوش ہم ادھر خوش وہی پرانی بات کہ تم ادھر ہم ادھر۔ درست ہے کہ سیاست دان کچھ بھی کر سکتے ہیں لیکن فی الحال ہمارے ہاں اتنا سنگدل سیاست دان کوئی نہیں جو یہ منحوس جملہ ادا کر سکے۔
یہ تو درست ہے کہ ہمارے سیاست دان اس قدر غیرمحب وطن اور غدار نہیں ہیں لیکن ہمارے دشمن زندہ سلامت ہیں' طاقت ور ہیں، ان کے ہاتھ لمبے ہیں اور بہت دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ بھارت اور امریکا وغیرہ ہمارے لیے سب ایک ہیں اور ایک جیسے مہربان ہیں اور ان کے لیے ہم ادھر تم ادھر کا تاریخی جملہ بہت ہی پسندیدہ ہے مگر بات ختم یہاں ہوتی ہے کہ ہم خود کیا ہیں، کیا اپنے دشمنوں کا مرغوب نرم نوالہ ہیں یا کسی حد تک لوہے کے چنے۔ خدا جانے ہم کیا ہیں، اپنے اندر جھانک کر دیکھیں کہ کیوں ہمارے بارے میں ہی ہم ادھر تم ادھر کہا جاتا ہے۔