اتحاد بین المسلمین پہلا حصہ

محرم الحرام کی آمد آمد ہے اور جب بھی محرم الحرام کی آمد ہوتی ہے تو حسب روایت علما ونگ، متحدہ قومی موومنٹ کے۔۔۔


الطاف حسین November 04, 2013

محرم الحرام کی آمد آمد ہے اور جب بھی محرم الحرام کی آمد ہوتی ہے تو حسب روایت علما ونگ، متحدہ قومی موومنٹ کے زیر اہتمام اس موقع پر اور اسی طرح ربیع الاول اور دیگر مذہبی تہوار کے مواقع پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے ... اتحاد بین المسلمین کے لیے اجتماعات منعقد کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح آج ایک مرتبہ پھر محرم کی آمد سے قبل ہی متحدہ قومی موومنٹ علماء ونگ نے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام، مشائخ عظام اور ذاکرین کو ایک چھت کے نیچے جمع کرکے اتحاد بین المسلمین کے لیے کردار ادا کیا ہے اس پر نہ صرف یہ کہ خدا کی طرف سے انھیں اجر ملے گا ... اﷲ تعالیٰ ان کے اجر میں اضافہ عطا فرمائے اور جو علمائے کرام، مشائخ عظام اور جن افراد نے اتحاد بین المسلمین کے سلسلے میں اس پروگرام کو تشکیل دینے میں ذرہ برابر ساتھ دیا ہے ... جو علمائے کرام اپنا قیمتی وقت نکال کر اس محفل میں تشریف لائے انھوں نے بھی اجر کمایا ... ثواب کمایا ہے ... اﷲ تعالیٰ انھیں بھی صحت وتندرستی اور طویل عمری عطا فرمائے تاکہ وہ دین وملت کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرسکیں اور اتحاد بین المسلمین میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

ہم بسا اوقات اپنی کم علمی اور علم سے دور ہونے کی وجہ سے اور غور و فکر کے فقدان کی وجہ سے معمولی معمولی باتوں کو نہیں سمجھ سکتے ... چھوٹی چھوٹی باتوں تک کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں، اس میں ہماری اپنی کوتاہیوں کا دخل ہے۔ بنیادی طورپر دین اسلام ایک شجر کی مانند ہے ... ایک ایسے درخت کی مانند ہے جس کی جڑیں زمین کے اندر دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اسی طرح زمین سے اوپر تناور درخت کا تنا ملت اسلامیہ کے ایک تنے کی طرح بڑھتے بڑھتے مختلف شاخوں میں تقسیم ہوکر سایہ دار درخت بن جاتا ہے جس کی چھاؤں میں مختلف عقائد ومسالک کے لوگ انتہائی شدید گرمی میں سکون حاصل کرتے ہیں اور جمع ہوتے ہیں۔ درخت کا تنا تو ایک ہی ہے ... اس کی شاخیں مختلف ہیں... شاخیں مختلف ہونے کے باوجود تنے سے جدا نہیں ہوتے اور تنا شاخوں سے جدا نہیں ہوتا ... درخت کی مختلف شاخیں ہوجانے سے ہر شاخ علیحدہ درخت نہیں بنتی ... وہ درخت کی شاخ تو ہوتی ہے ، تنے کا حصہ تو ہوتی ہے لیکن کوئی شاخ خود ایک درخت نہیں ہوا کرتی ... مختلف شاخیں ہونے سے درخت کی حیثیت بڑھتی ہے ... اس کے سائے میں ... اس کے گھنے پن میں اضافہ ہوتاہے ... کمی نہیں ہوتی۔

مختلف مسالک، عقائد، امامین اور ان کے ماننے والوں کا کردار بھی ایک تناور درخت کی شاخوں جیسا ہی ہے کہ ایک اﷲ ہے ... ایک قرآن ہے ... ایک نبی آخری الزماں سرکار دو عالم ﷺ ہیں باقی مسالک وعقائد اور ائمہ کرام... دین اسلام کے تناور درخت کی شاخیں ہیں۔

میں تو طالب علم ہوں، کہیں اونچ نیچ ... کوئی گستاخی ہوجائے تو آپ مجھے چھوٹا سمجھ کے ... طالب علم سمجھ کے معاف فرمادیا کیجیے ... آپ معاف کردیں گے تو اﷲ تعالیٰ بھی معاف کردے گا۔ اپنی ناقص عقل کے مطابق میں ان خیالات کو جو اﷲ تبارک وتعالیٰ میرے ذہن میں ڈالتا ہے انھیں آگے منتقل کرنے کی کوشش کرتا ہوں... ضروری نہیں کہ میرے ان خیالات سے اتفاق کیا جائے... ان سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے، میں اتفاق اور اختلاف کرنے والے دونوں مکاتب فکر کا احترام کرتا ہوں۔

میں یہ گزارش کررہا تھا کہ تناور درخت کی شاخیں الگ الگ ہونے سے وہ شاخیں الگ درخت نہیں بن جایا کرتی ہیں... اس کا رشتہ تنے، جڑ ... اور بنیاد سے ختم نہیں ہوتا... آپ یوں سمجھ لیجیے کہ بنیاد ... اﷲ وحدہ لاشریک کی ذات ہے... قرآن اور سرکار دو عالم ﷺ تناور درخت ہیں اور تمام مکاتب فکر اس کی شاخیں ہیں۔ مجھ سے کسی نے ابھی ابھی یہ پوچھا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ شاخیں جدا ہونے سے بنیاد اور درخت میں فرق نہیں آتا، درخت کی حیثیت تو بنیاد کی سی ہے تو بنیاد تو ایک ہی ہوتی ہے۔ سوال میں یہ بھی کہا گیا کہ جب شاخیں ایک ہوتی ہیں، علیحدہ علیحدہ ہونے کے باوجود وہ بنیاد سے علیحدہ نہیں ہوتی تو پھر اہل تشیع اور سنی مسلک کے لوگ نماز مغرب بھی علیحدہ علیحدہ وقت پر پڑھتے ہیں اور دوسری طرف آپ کہہ رہے ہیں کہ شاخیں علیحدہ ہونے سے بنیاد پر فرق نہیں پڑتا ... میں نے کہاکہ ہر شاخ پر جب پھول کھلنے کا وقت آتا ہے تو پہلے کلیاں کھلتی ہیں ... پھر کلیوں سے پھول بنتے ہیں اور پھول کی نشوونما ہوتی ہے ... اس کے حجم اور وزن میں اضافہ ہوتا ہے...

سوال آیا کہ جب شاخیں علیحدہ علیحدہ ہونے کے باوجود جدا نہیں ہوتیں تو پھر ایسا کیوں کہ سنی مغرب کی نماز پہلے پڑھتے ہیں اور اہل تشیع مغرب کی نماز پانچ منٹ بعد پڑھتے ہیں؟ میرا کہنا یہ ہے کہ اگرچہ بنیاد ایک ہی ہوتی ہے... تناور درخت ایک ہی ہوتا ہے ... اس کی شاخیں بھی جدا جدا ہوتی ہیں لیکن ایک ہی درخت میں بھی سارے پھل ایک ہی وقت میں تیار نہیں ہوتے ... کوئی ایسا درخت بتادیجیے جس میں سارے پل ایک ہی دن میں، ایک ہی وقت میں پک کر تیار ہوجاتے ہوں؟ کوئی پھل پہلے تیار ہوجاتا ہے تو کوئی دوسرے دن... کوئی تیسرے دن... کوئی چوتھے دن... جب درخت میں پھل ایک دن میں تیار نہیں ہوتے بلکہ دن بہ دن تیار ہوتے رہتے ہیں تو خوراک و آمدن کا سلسلہ طویل سے طویل ہوتا رہتا ہے... جتنا جزا کا سلسلہ ہوتا ... جتنا ذکر الٰہی ہو جائے... تو جناب ان کو جواب مل گیا ہوگا کہ چاہے تین پانچ منٹ پہلے نماز ادا کرلیں یا پانچ منٹ بعد نماز ادا کرلیں مقصد نماز کی ادائیگی ہے۔ ان باتوں میں الجھنے کے بجائے ہمیں اپنی بنیاد کو دیکھنا چاہیے ...

کیا اہل تشیع اور سنیوں میں اﷲ کی وحدانیت پر اختلاف پایا جاتا ہے؟ اﷲ کی ذات پر، اﷲ کی وحدانیت پر شیعہ بھی یقین رکھتے ہیں، سنی بھی یقین رکھتے ہیں اور قرآن مجید پر کہ یہ اﷲ کی کتاب ہے، اس پر شیعہ بھی یقین وایمان رکھتے ہیں اور سنی بھی یقین اور ایمان رکھتے ہیں۔ اسی طرح روزہ ہو یا نماز ، حج ہو یا زکوٰۃ ... یہاں بنیادی اصولوں پر نہ شیعوں میں، نہ سنیوں میں کوئی اخلاف ہے ۔ اگر جس طرح پھل ایک درخت کی مختلف شاخوں پر... مختلف اوقات کار میں پک کر تیار ہوتے ہیں تو پانچ منٹ پہلے نماز پڑھ لینے سے یا پانچ منٹ بعد نماز پڑھ لینے سے مقصد اور بنیاد ختم نہیں ہوتی ... تعلق خداوندی ختم نہیں ہوتا ... اب اس کا فیصلہ نہ میں کرسکتا ہوں اور نہ آپ کرسکتے ہیں۔ بلکہ روز محشر ہی میں خدا بتائے گا کہ وہ کس کی نماز کو قبول فرماتا ہے ... یہ اﷲ تعالیٰ کا ہی فیصلہ ہے کہ وہ کس شاخ کو زیادہ مبارک سمجھتا ہے ... آیا اس شاخ کو جس پر پہلے پھل پک کے تیار ہوا تھا یا دیر میں پکنے والے پھل کو زیادہ مبارک سمجھتا ہے۔ اگر غلطی کررہاہوں تو فوراً اصلاح فرما دیجیے۔ آپ خواہ دیو بندی مسلک کے ہوں ...

بریلوی مسلک کے ہوں ... فقہ جعفریہ مسلک کے ہوں ... یا کسی اور مسلک کے ہوں ... آپ مجھے بتایئے کہ کس مسلک میں کس امام نے یہ تعلیم دی ہے کہ دوسرے مسلک کے ماننے والوں پر کنکریاں مارو... پتھر مارو ... ان کی عبادت گاہوں پر حملے کرو ...؟ ذرا میں جاننا چاہوںگا کہ کس مسلک میں یہ ہے۔ اس وقت مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام موجود ہیں... یہاں اہل سنت کے بھی ہیں... فقہ جعفریہ کے بھی ہے ... دیوبند کے بھی ہیں اور دیگر مکاتب فکر کے بھی علماء موجود ہیں، آپ مجھے یہ بتائیں کہ یہ کہاں لکھا ہے ... کس مسلک میں یہ تعلیم ہے کہ دوسرے مسلک کے ماننے والوں... ان کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچاؤ ...؟ یا ان کے عقائد کا مذاق اڑاؤ... ان کی تضحیک کرو ... یہ کہاں لکھا ہے؟

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں