برجستگی

ایسی لونڈی تھی جو نہایت اعلیٰ ذوق کی مالک ہونے کے ساتھ ساتھ زبردست قسم کی جمالیاتی حس بھی رکھتی تھی ۔

s_nayyar55@yahoo.com

حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کے پاس ایک ایسی لونڈی تھی جو نہایت اعلیٰ ذوق کی مالک ہونے کے ساتھ ساتھ زبردست قسم کی جمالیاتی حس بھی رکھتی تھی ۔ ایک دن امام صاحب نے اس لونڈی کو بلایا اور کہا '' مجھے ایک ضروری کام سے اسی وقت باہر جانا ہے ، لیکن میرا ایک ملاقاتی بھی مجھ سے ملنے کے لیے آنے والا ہے ۔ ملاقاتی کا نام عبداللہ ہے ۔ اگر میرے جانے کے بعد وہ آجائے تو اس سے کہہ دینا کہ میں ایک ضروری کام سے باہر گیا ہوا ہوں ۔ لہذا وہ شام کو کسی وقت تشریف لے آئیں اور میری طرف سے عبداللہ سے معذرت بھی کر لینا ۔''

امام صاحب کے جانے کے کچھ ہی دیر بعد ان کا ملاقاتی عبداللہ ، ان سے ملاقات کے لیے آیا تو لونڈی نے عبداللہ کو امام صاحب کا پیغام پہنچا دیا اور ان کی طرف سے معذرت بھی کر لی ۔ لونڈی نے دیکھا کہ عبداللہ نامی اس ملاقاتی کی دائیں آنکھ کے پپوٹے پر ایک بڑا سا، مسہ موجود ہے ۔

عبداللہ واپس چلا گیا۔ امام صاحب جب واپس گھر تشریف لائے تو انھوں نے لونڈی سے پوچھا '' کیا میرا ملاقاتی آیا تھا '' ؟ لونڈی نے جواب دیا '' جی ہاں آپکا ملاقاتی '' غبداللہ '' آیا تھا اور میں نے اسے آپکا پیغام پہنچا دیا تھا ۔ '' غبداللہ '' اب شام کو آئے گا '' ۔ امام صاحب نے حیرت سے کہا '' میرے ملاقاتی کا نام تو عبداللہ ہے ، تم اسے '' غبداللہ '' کیوں کہہ رہی ہو''؟ لونڈی نے جواب دیا '' اس کا نام بجائے عبداللہ کے '' غبداللہ '' ہی ہونا چاہیے تھا کیونکہ اس کی عین ( آنکھ ) پر ایک نقطہ ( مسہ ) لگا ہوا ہے ۔'' امام ابو حنیفہ اپنی لونڈی کی اس نکتہ رسی اور برجستگی پر عش عش کر اٹھے اور خوش ہو کر اسے آزاد کردیا ۔

برجستگی ایک ایسی خدا داد صلاحیت ہے جو کسی کسی کے ہی حصے میں آتی ہے ۔ برجستہ جواب ، سننے والوں کو کچھ اس طرح محظوظ کرتا ہے کہ سننے والا بے اختیار داد دینے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ میں نے سوچا سیاست اور حالات حاضرہ پر کالم پڑھ پڑھ کر قارئین یقیناً بور ہوچکے ہوں گے۔ کیونکہ جب لکھنے والے ، لکھ لکھ کر اتنا بور ہوچکے ہیں تو پڑھنے والوں کا کیا حال ہوگا ؟ کیونکہ انھیں تو ایک سے زیادہ کالم پڑھنا ہوتے ہیں اور زیادہ تر کالم سیاست اور حالات حاضرہ پر ہی لکھے جاتے ہیں ۔ اور پاکستان کے حالات حاضرہ کئی عشروں سے جوں کے توں چلے آرہے ہیں ۔

لہذا ان حالات کو جوں کا توں چھوڑ کر آج کا کالم زبان کا نہیں بلکہ ذہن کا ذائقہ بدلنے کی خاطر میں برجستگی کے نام کرتا ہوں ،امید ہے کہ آپ یقیناً لطف اندوز ہوں گے ۔ اس موضوع پر لکھنے کا خیال میں مجھے حکمران جماعت کے ایک لیڈر کا بیان پڑھ کر آیا ، جنہوں نے فرمایا تھا کہ '' ہم جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں '' اب آپ اندازہ لگائیں کہ یہ بیان پڑھ کر آپ کا ہنسنے کو دل چاہتا ہے یا رونے کی طرف طبیعت مائل ہوتی ہے ؟ بیان پڑھ کر میرے ذہن میں اس کا برجستہ جواب بجلی کی طرح کوندا ، مگر میں نے قلم روک لیا ۔ اور سوچا جب برجستگی کا مظاہرہ کرنا ہے تو پھر کچھ ایسی شخصیات کا تذکرہ ہی کیوں نہ کیا جائے جو واقعی علم و فضل اور ذہانت میں اپنی مثال آپ تھے اور جن کا نام زبان و ادب اور تاریخ میں آج بھی زندہ ہے ۔


مولانا ظفر علی خان سے کون واقف نہیں ہے ؟ مولانا نے صحافت ، شاعری اور نثر نگاری سمیت علم و ادب کے ہر میدان میں طبع آزمائی کی ۔ ایک مرتبہ وہ ایک مشاعرے میں شریک تھے ۔ ایک نامور شاعر اپنا کلام سنا رہے تھے ، انھیں ایک شعر پر بے حد داد ملی ۔ داد کے اسی وقفے میں انھوں نے مشاعرے کے منتظمین سے پانی کے ایک گلاس کی فرمائش کی ۔ یہ سن کر ایک سفید ریش اور خمیدہ کمر بزرگ اٹھے اور بڑی عقیدت اور احترام کے ساتھ ان کی خدمت میں پانی کا ایک گلاس پیش کیا ۔ شاعر صاحب نے گلاس لیتے ہوئے فی البدیہہ ایک مصرعہ پڑھا '' لے کے خود پیر مغان ساغر و مینا آیا '' ۔ قبل اس کے کہ وہ اگلا مصرعہ پڑھ کر شعر مکمل کرتے ۔ مولانا ظفر علی خان اسٹیج پر کھڑے ہوئے اور برجستگی سے انھوں نے بھی ، فی البدیہہ دوسرا مصرعہ پڑھ کر شعر مکمل کردیا ۔

'' مے کشو ، شرم ، تمہیں پھر بھی نہ پینا آیا '' ۔ مولانا نے صرف اسی ایک مصرعہ سے پورا مشاعرہ لوٹ لیا ۔ حفیظ جالندھری مرحوم جہلم شہر میں مشاعرہ پڑھنے گئے ۔ مشاعرہ ایک سینما ہال میں منعقد کیا گیا ۔ حاظرین میں طلباء کی اکثریت تھی ، جنہوں نے ہوٹنگ کر کر کے پورا ہال سر پر اٹھارکھا تھا ۔ ہوٹنگ کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھی شاعر مقطع تک نہ پہنچ سکا ۔ حفیظ صاحب حاضرین کو ڈانٹ ڈپٹ کراور خدا خدا کر کے اپنی غزل کے آخری شعر تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ۔ اتفاق سے آخری شعر میں انھوں نے اپنے نام کے ساتھ ''جناب حفیظ '' کہہ کر خود کو مخاطب کیا تھا ۔

یہ سن کر ایک طالب علم اٹھا اور ہاتھ نچا کر با آواز بلند بولا '' یہ کیا بات ہوئی ؟ آپ نے خود ہی اپنے نام کے ساتھ جناب لگا لیا '' ؟حفیظ صاحب نے اپنی گرجدار آواز میں اسے ڈانٹتے ہوئے کہا '' بیٹھ جا ، بے !اپنے نام کے ساتھ ہی''جناب '' لگایا ہے ، تیرے نام کے ساتھ لگاؤں تو تب اعتراض کیجیو ۔'' ایک طرحی مشاعرے میں ایک شاعر اپنا کلام پڑھ رہے تھے۔ مصرعہ طرح یہ تھا '' تو رنج نہ کر تیرے غم کا خوگر میں ہوں '' اگلی صف میں موجود ایک صاحب ہر شعر پر اپنا سر دھن رہے تھے ، شاعر صاحب کے '' میں ہوں '' کہنے سے قبل ہی وہ صاحب کھڑے ہو کر '' میں ہوں '' کا زور دار نعرہ لگاتے اور داد دے کر بیٹھ جاتے ۔ شاعر کو شرارت سوجھی انھوں نے اگلے شعر کا مصرعہ اولیٰ پڑھا اور اگلا مصرعہ یہ لگایا '' ناریل ہاتھ لگا جس کے وہ بندر '' وہ صاحب اچھل کربولے '' میں ہوں '' ۔ اور پورا پنڈال کشت زعفران بن گیا ۔

برنارڈشا کا ذکرکیے بغیر انگریزی زبان وادب کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی ۔ برنارڈشا کی برجستگی کے بے شمار واقعات آج بھی تاریخ کا حصہ ہیں ۔ شا کے ایک ہم عصر کا نام '' چسٹر ڈین '' تھا ۔ دونوں میں ادبی چپقلش چلتی رہتی تھی اور ملاقاتیں بھی برابر ہوتی تھیں ۔ برنارڈشا دبلے پتلے،دھان پان سے اور طویل قامت کے مالک تھے ، جب کہ چسٹر ڈین نہایت موٹا اور پستہ قد تھا ۔ ایک دن چسٹر ڈین نے ہوٹل میں شا کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے ان کی کمزور صحت پر طنز کرتے ہوئے کہا '' یار شا تم کو کوئی اگر دیکھے تو یقینا یہی سمجھے گا کہ انگلینڈ میں قحط پڑا ہوا ہے''۔

برنارڈشا نے برجستہ جواب دیا '' لیکن تم کو دیکھ کر وہ قحط کی وجہ بھی ضرور جان لے گا '' ۔ ایک مرتبہ یہ دونوں حریف اتفاقاً ایک ایسی گلی میں آمنے سامنے آگئے جہاں گندہ پانی پڑا ہوا تھا اور خشک راستہ اتنا تنگ تھا کہ ایک وقت میں ایک ہی شخص گزر سکتا تھا ۔ چسٹر ڈین ، برنارڈشا کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور غرا کربولا '' میں کم ظرف آدمیوں کو راستہ نہیں دیتا ہوں '' برنارڈ شار فوراً دیوار کے ساتھ چپک گیا اور چسٹر ڈین کو راستہ دیتے ہوئے بولا '' لیکن میں دے دیتا ہوں '' شا کے جملے کی معنویت چسٹر ڈین کی سمجھ میں اس وقت آئی جب وہ شا کے قریب سے گزر چکا تھا ۔ امریکی مزاح نگار مارک ٹوئین امریکی عوام میں بے حد مقبول تھا ۔ ایک محفل میں ایک پریس رپورٹر نے مارک ٹوئین کو مشورہ دیتے ہوئے کہا '' آپ اتنے مقبول مصنف ہیں اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ امریکا کی صدارت کا الیکشن کیوں نہیں لڑتے '' ؟ مارک ٹوئین نے سنجیدگی سے برجستہ جواب دیا '' میں ایسا کوئی عہدہ نہیں لینا چاہتا ، جس میں مزید ترقی کی گنجائش نہ ہو۔ ''
Load Next Story