فلمی صنعت کے نیم حکیم خطرۂ جان
پاکستانی فلمی صنعت کو مختلف ادوار میں تقسیم کیاجائے،تو میری ناقص رائے میں تین مرکزی ادوار بنتے ہیں۔ پہلے دور کاتعلق۔۔۔
پاکستانی فلمی صنعت کو مختلف ادوار میں تقسیم کیاجائے،تو میری ناقص رائے میں تین مرکزی ادوار بنتے ہیں۔ پہلے دور کا تعلق قیام ِپاکستان کے فوراً بعد سے ہے۔ نئے گھر کو آباد کرنے کے جذبے نے فلمی صنعت کو بھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے میں مدد دی۔ بے سروسامانی کے عالم میں ہمارے ہنرمندوں نے اپنی آتشِ شوق کو بڑھایا اور فلمی صنعت کے چراغ کو روشن کرنے کے لیے اپنی جدوجہد اور انتھک محنت کا پسینہ اس چراغ میں اُنڈیلا۔
اس روشنی سے کئی ستارے منور ہوئے اور فلمی صنعت نے پوری دنیا بالخصوص اردو سینما کے شائقین میں اپنا نام اور مقام پیدا کیا۔دوسرے دور میں فلمی صنعت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی اور اعلیٰ معیار کی فلمیں بنیں۔ ستر اور 80 کی دہائی میں بننے والی ان فلموں کے احوال کے متعلق میں کئی مرتبہ لکھ چکا ہوں، آپ سب بھی اس سنہری دور سے واقف ہوں گے۔ تیسرے دور کا تعلق مولا جٹ والی ذہنیت کے عرصے سے ہے، جس نے پاکستان فلمی صنعت کا صرف حلیہ ہی نہیں بگاڑا بلکہ فلمی صنعت کو اغیار کے تیرونشتر کا اہداف بنانے میں بھی آسانیاں پیدا کیں۔
اس دور کو بھگتتے ہوئے ہم اکیسویں صدی میں داخل ہوئے۔چوتھے دور کا ناتا اکیسویں صدی کی پہلی دہائی سے ہے، جب فلمی صنعت سے حقیقی محبت کرنے والوں نے اپنی سی کوششیں کیں، ایک محدود پیمانے تک انھیں کامیابی بھی ملی، مگر مسئلہ یہ ہے، موجودہ دور میں صرف جذباتیت سے کام نہیں چلتا، یہ ٹیکنالوجی اور تکنیک کا دور ہے، اس میں ضروری ہے کہ تخلیقی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ تکنیکی پہلو بھی مضبوط ہوں، مگر یہ دونوں جداگانہ رُخ ہیں، جن کو یکجا کرنا خاصا مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔ ہر دور اپنے ساتھ کچھ اپنے جیسے لوگ بھی لاتا ہے۔
برے وقت میں جی بھر کے برے لوگ اس صنعت میں داخل ہوئے اور باکس آفس کے دروازے سے باہر نکل گئے، اب اچھا وقت آ رہا ہے اور اچھے ہنر مند اس صنعت میں نو وارد ہیں۔گزشتہ دنوں بہت دھوم مچی کہ پہلی مرتبہ پاکستان میں ایک منظم طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے، جس کے تحت نئی بننے والی فلموں میں سے ایک فلم منتخب کر کے عالمی سطح پر مقبول ترین فلمی اعزاز ''آسکر'' کے شعبے کی ''بہترین غیر ملکی فلم'' کے لیے بھیجی جائے گی۔ لہٰذا اس مقصد کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی، جس کی سربراہ ''شرمین عبید چنائے'' تھیں، جنھیں گزشتہ برس ڈاکومینٹری فلم کے شعبے میں مشترکہ طور پر آسکر اعزاز دیا گیا، اس جیت میں ان کے ایک انگریز ساتھی اور معاون بھی حصے دار تھے۔
پہلی بات تو یہ ہے، شرمین عبید چنائے کا آسکر اعزاز حاصل کرنا ہی مشکوک ہے، کیونکہ جس ڈاکومنٹری فلم ''سیونگ فیس'' پر ان کو یہ اعزاز دیا گیا، اسے یہ کئی برسوں تک پاکستان میں مختلف پروگراموں میں دکھاتی رہیں، ایک پروگرام کا میں خود بھی عینی شاہد ہوں۔ لہٰذا ایک ''ایوریج'' اور عام سی ڈاکو مینڑی فلم کو یہ آسکر مل جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں! اب اس پر ستم یہ کہ ایک ڈاکو مینڑی فلم میکر آسکر ایوارڈ کے لیے پاکستانی فیچر فلموں کا مستقبل طے کریں گی۔ یہ ''نیم حکیم خطرہ ٔجان'' رویہ ہماری فلمی صنعت برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔
اس کام کے لیے سنجیدہ اور متعلقہ شعبے کا تجربے رکھنے والے ہنرمندوں کو آگے آنا چاہیے۔ ان باکمال ''فراموش کردہ '' فلمی شخصیات کو آنا چاہیے جو فلم میکنگ آرٹ اور سینماٹوگرافی کی جدید ترین جہتوں اور بے پناہ فنی ایجادات سے استفادہ کا ہنر جانتے ہوں۔پاکستان سے آسکرکے لیے نامزد کی گئی فلم کانام ''زندہ بھاگ'' ہے، جس میں سوائے نصیر الدین شاہ کے اور کوئی چیز قابل ذکر نہیں۔ اس آسکر اعزاز کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے اراکین میں سے ایک رکن میرے دوست بھی ہیں اور اپنے شعبے کے مستند شخص بھی، بقول ان کے ''اس فلم کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتاہے کہ یہ فیچر فلم کم اور ڈاکومینڑی فلم زیادہ ہے۔'' اس بات کے بعد باقی کچھ کہنے کونہیں رہتا۔جہاں تک نصیرالدین شاہ کی بات ہے، وہ بہت منجھے ہوئے اداکار ہیں، مگر جس طرح کاکام انھوں نے فلم ''زندہ بھاگ'' میں کیا ہے، اسی سے ملتاجلتا کام ہمارے بہت ہی باصلاحیت اداکار سلمان شاہد بھارتی فلم ''عشقیہ'' میں نصیر الدین شاہ ہی کے مدمقابل ہی کر چکے ہیں۔
سمجھ نہیں آتی، ہم ایک طرف فلمی صنعت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی بات کرتے ہیں، مگر دوسری طرف پڑوسی کا کندھا بھی چاہیے۔ بھارتی فلم سازوں کو سلمان شاہد نظر آ گئے، مگر ہمارے فلم سازوں کی نظر میں یہ اب تک نہ آ سکے۔میرے خیال میں یہ رویہ کا مسئلہ ہے۔ بہرحال یہ فلم کسی بھی طرح سے آسکر کی نامزدگی کی اہلیت نہیں رکھتی، البتہ اس کی وجہ سے جس فلم کو نظر انداز کیاگیا، وہ تخلیقی اور تیکنیکی اعتبار سے کہیں بہتر فلم ہے، جس کا ثبوت باکس آفس پہ بھی مل گیا۔ دو سو ملین روپے میں بننے والی فلم ''وار'' جس نے اپنے پہلے ہی ہفتے میں آدھی لاگت وصول کرلی، اس کے مقابلے میں پاکستان میں شاہ رخ خان کی فلم ''چنائے ایکسپریس'' سمیت گزشتہ ادوار میں ریلیز ہونے والی تمام فلموں کے ریکارڈ توڑ ڈالے۔
ہم کسی پاکستانی فلم کا بزنس کروڑوں میں ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے، مگر اب ایسا ہوا ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں، کسی اعزاز کے لیے نامزد ہوجانا اس فلم کے معیاری ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ اکتیس سالہ ''بلال لاشاری'' اس فلم ''وار'' کا ہدایت کار ہے، اس کے علاوہ کئی میوزک ویڈیوز بھی بنائیں، جن میں جل بینڈ کی ویڈیو ''سجنی'' اور صوفی موسیقی سے آراستہ ''میکال حسن بینڈ'' کی ویڈیو ''چل بلھیا'' ان کی تخلیق کردہ شاہکار ویڈیوز ہیں۔یہ نوجوان مغرب سے فلم پڑھ کر آیا ہے اور مشرق سے طلوع ہونے کی ابتدا کر چکا ہے۔ بطور ہدایت کار اس کی یہ پہلی فلم ہے، جس میں اس نے تکنیک اور تخلیق دونوں کے امتزاج سے فلم بینوں کو ایک شاندار فلم کا تحفہ دیا۔ بھارتی ایکشن فلموں کے معروف ہدایت کار ''رام گوپال ورما'' اس قدر پُر تجسس ہوئے کہ پائریٹڈ ڈی وی ڈی پر یہ فلم دیکھ ڈالی اورپسند بھی کی۔
اسے کہتے ہیں اپنا آپ منوانا۔کچھ حلقے بلال لاشاری کی اس فلم ''وار'' کو پروپیگنڈہ فلم قرار دے رہے ہیں، سمجھ میں نہیں آتا، یہی لوگ شاہ رخ خان، سیف علی خان، سنی دیول اور ان کے علاوہ ہالی ووڈ کی لاتعداد پروپیگنڈہ فلموں پر جھوم جھوم کر خود کو ہلکان کر لیتے ہیں اور ہماری فلمی صنعت کو ہمیشہ جہالت کی آماجگاہ کہہ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے، اب اگر کوئی نوجوان فلم کا عملی نصاب پڑھ کر سیکھ کر آیا، اس نے اپنے مقامی وسائل کو بروئے کار لاکر تخلیق اور تکنیک کو یکجا کیا اور باکس آفس پر بھی کامیابی حاصل کی، تواس کی بنائی ہوئی فلم انھیں پروپیگنڈہ لگتی ہے۔ بڑے اسکرین کے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ٹیلنٹ کو راستہ دیں۔ اس کے سامنے بند نہیں باندھنے چاہئیں۔ موقع ملے تو یہ فلم ضرور دیکھیں، آپ خود فیصلہ کرسکیں گے، حقیقت کیا ہے۔
یہ رویہ صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے، بھارتی فلمی صنعت بھی انھی رویوں کاشکار ہے۔ وہاں نصیرالدین شاہ سے لے کر عرفان خان تک اور اب نواز الدین صدیقی تک جتنے منجھے ہوئے اور اپنے فن کی گہرائی میں اترے ہوئے فنکار تھے، انھیں کئی دہائیاں لگ گئیں، تب کہیں جاکر وہ اپنی شناخت حاصل کر سکے، جب کہ کمرشل سینما کے اداکاروں کے نام ہر ایک کوازبر ہیں۔ رواں برس وہاں جس فلم کا آسکرکے شعبے ''بہترین غیرملکی فلم'' کے لیے انتخاب کیا گیا،اس کا نام ''دی گُڈ روڈ'' ہے۔
یہ بھی ایک ایوریج گجراتی سینما کی فلم ہے، اس سے کہیں زیادہ بہتر فلم ''لنچ بکس'' بنائی گئی، جس کی کہانی، تکنیک اورتخلیق کے تمام معاملات دل کوچھولینے والے ہیں، مگر یہ فلم بھی ناانصافی کاشکار ہوئی۔قصہ مختصر، کسی بھی شعبے کے مستقبل کا فیصلہ اسی سے متعلقہ ہنر مندوں کو کرنا چاہیے۔ ایک اچھی فلم کا فیصلہ شائقین کرتے ہیں اور یہ فیصلہ فلم ''وار'' کے حق میں ہوا۔ 2014 کے آسکر ایوارڈ کے لیے کون سی فلم جا رہی ہے، یہ بے معنی ہو گیا۔ کلینک پر بیٹھا ہوا اتائی ڈاکٹر ہو، چاہے ادب کی دنیا میں جعلی دانشور اور چاہے وہ کوئی فلمی دنیا کا نیم ہدایت کار ہو، ان سے سچے فن اور حقیقی فنکاروں کو بچانا ہو گا۔ ہماری فلمی صنعت اپنی جدید سوچ کے ساتھ کامیابی کے دروازے پر دستک دے رہی ہے، اب اسے کسی نیم حکیم خطرۂ جان کے ہتھے نہیں چڑھنا چاہیے۔
اس روشنی سے کئی ستارے منور ہوئے اور فلمی صنعت نے پوری دنیا بالخصوص اردو سینما کے شائقین میں اپنا نام اور مقام پیدا کیا۔دوسرے دور میں فلمی صنعت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی اور اعلیٰ معیار کی فلمیں بنیں۔ ستر اور 80 کی دہائی میں بننے والی ان فلموں کے احوال کے متعلق میں کئی مرتبہ لکھ چکا ہوں، آپ سب بھی اس سنہری دور سے واقف ہوں گے۔ تیسرے دور کا تعلق مولا جٹ والی ذہنیت کے عرصے سے ہے، جس نے پاکستان فلمی صنعت کا صرف حلیہ ہی نہیں بگاڑا بلکہ فلمی صنعت کو اغیار کے تیرونشتر کا اہداف بنانے میں بھی آسانیاں پیدا کیں۔
اس دور کو بھگتتے ہوئے ہم اکیسویں صدی میں داخل ہوئے۔چوتھے دور کا ناتا اکیسویں صدی کی پہلی دہائی سے ہے، جب فلمی صنعت سے حقیقی محبت کرنے والوں نے اپنی سی کوششیں کیں، ایک محدود پیمانے تک انھیں کامیابی بھی ملی، مگر مسئلہ یہ ہے، موجودہ دور میں صرف جذباتیت سے کام نہیں چلتا، یہ ٹیکنالوجی اور تکنیک کا دور ہے، اس میں ضروری ہے کہ تخلیقی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ تکنیکی پہلو بھی مضبوط ہوں، مگر یہ دونوں جداگانہ رُخ ہیں، جن کو یکجا کرنا خاصا مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔ ہر دور اپنے ساتھ کچھ اپنے جیسے لوگ بھی لاتا ہے۔
برے وقت میں جی بھر کے برے لوگ اس صنعت میں داخل ہوئے اور باکس آفس کے دروازے سے باہر نکل گئے، اب اچھا وقت آ رہا ہے اور اچھے ہنر مند اس صنعت میں نو وارد ہیں۔گزشتہ دنوں بہت دھوم مچی کہ پہلی مرتبہ پاکستان میں ایک منظم طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے، جس کے تحت نئی بننے والی فلموں میں سے ایک فلم منتخب کر کے عالمی سطح پر مقبول ترین فلمی اعزاز ''آسکر'' کے شعبے کی ''بہترین غیر ملکی فلم'' کے لیے بھیجی جائے گی۔ لہٰذا اس مقصد کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی، جس کی سربراہ ''شرمین عبید چنائے'' تھیں، جنھیں گزشتہ برس ڈاکومینٹری فلم کے شعبے میں مشترکہ طور پر آسکر اعزاز دیا گیا، اس جیت میں ان کے ایک انگریز ساتھی اور معاون بھی حصے دار تھے۔
پہلی بات تو یہ ہے، شرمین عبید چنائے کا آسکر اعزاز حاصل کرنا ہی مشکوک ہے، کیونکہ جس ڈاکومنٹری فلم ''سیونگ فیس'' پر ان کو یہ اعزاز دیا گیا، اسے یہ کئی برسوں تک پاکستان میں مختلف پروگراموں میں دکھاتی رہیں، ایک پروگرام کا میں خود بھی عینی شاہد ہوں۔ لہٰذا ایک ''ایوریج'' اور عام سی ڈاکو مینڑی فلم کو یہ آسکر مل جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں! اب اس پر ستم یہ کہ ایک ڈاکو مینڑی فلم میکر آسکر ایوارڈ کے لیے پاکستانی فیچر فلموں کا مستقبل طے کریں گی۔ یہ ''نیم حکیم خطرہ ٔجان'' رویہ ہماری فلمی صنعت برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔
اس کام کے لیے سنجیدہ اور متعلقہ شعبے کا تجربے رکھنے والے ہنرمندوں کو آگے آنا چاہیے۔ ان باکمال ''فراموش کردہ '' فلمی شخصیات کو آنا چاہیے جو فلم میکنگ آرٹ اور سینماٹوگرافی کی جدید ترین جہتوں اور بے پناہ فنی ایجادات سے استفادہ کا ہنر جانتے ہوں۔پاکستان سے آسکرکے لیے نامزد کی گئی فلم کانام ''زندہ بھاگ'' ہے، جس میں سوائے نصیر الدین شاہ کے اور کوئی چیز قابل ذکر نہیں۔ اس آسکر اعزاز کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے اراکین میں سے ایک رکن میرے دوست بھی ہیں اور اپنے شعبے کے مستند شخص بھی، بقول ان کے ''اس فلم کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتاہے کہ یہ فیچر فلم کم اور ڈاکومینڑی فلم زیادہ ہے۔'' اس بات کے بعد باقی کچھ کہنے کونہیں رہتا۔جہاں تک نصیرالدین شاہ کی بات ہے، وہ بہت منجھے ہوئے اداکار ہیں، مگر جس طرح کاکام انھوں نے فلم ''زندہ بھاگ'' میں کیا ہے، اسی سے ملتاجلتا کام ہمارے بہت ہی باصلاحیت اداکار سلمان شاہد بھارتی فلم ''عشقیہ'' میں نصیر الدین شاہ ہی کے مدمقابل ہی کر چکے ہیں۔
سمجھ نہیں آتی، ہم ایک طرف فلمی صنعت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی بات کرتے ہیں، مگر دوسری طرف پڑوسی کا کندھا بھی چاہیے۔ بھارتی فلم سازوں کو سلمان شاہد نظر آ گئے، مگر ہمارے فلم سازوں کی نظر میں یہ اب تک نہ آ سکے۔میرے خیال میں یہ رویہ کا مسئلہ ہے۔ بہرحال یہ فلم کسی بھی طرح سے آسکر کی نامزدگی کی اہلیت نہیں رکھتی، البتہ اس کی وجہ سے جس فلم کو نظر انداز کیاگیا، وہ تخلیقی اور تیکنیکی اعتبار سے کہیں بہتر فلم ہے، جس کا ثبوت باکس آفس پہ بھی مل گیا۔ دو سو ملین روپے میں بننے والی فلم ''وار'' جس نے اپنے پہلے ہی ہفتے میں آدھی لاگت وصول کرلی، اس کے مقابلے میں پاکستان میں شاہ رخ خان کی فلم ''چنائے ایکسپریس'' سمیت گزشتہ ادوار میں ریلیز ہونے والی تمام فلموں کے ریکارڈ توڑ ڈالے۔
ہم کسی پاکستانی فلم کا بزنس کروڑوں میں ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے، مگر اب ایسا ہوا ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں، کسی اعزاز کے لیے نامزد ہوجانا اس فلم کے معیاری ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ اکتیس سالہ ''بلال لاشاری'' اس فلم ''وار'' کا ہدایت کار ہے، اس کے علاوہ کئی میوزک ویڈیوز بھی بنائیں، جن میں جل بینڈ کی ویڈیو ''سجنی'' اور صوفی موسیقی سے آراستہ ''میکال حسن بینڈ'' کی ویڈیو ''چل بلھیا'' ان کی تخلیق کردہ شاہکار ویڈیوز ہیں۔یہ نوجوان مغرب سے فلم پڑھ کر آیا ہے اور مشرق سے طلوع ہونے کی ابتدا کر چکا ہے۔ بطور ہدایت کار اس کی یہ پہلی فلم ہے، جس میں اس نے تکنیک اور تخلیق دونوں کے امتزاج سے فلم بینوں کو ایک شاندار فلم کا تحفہ دیا۔ بھارتی ایکشن فلموں کے معروف ہدایت کار ''رام گوپال ورما'' اس قدر پُر تجسس ہوئے کہ پائریٹڈ ڈی وی ڈی پر یہ فلم دیکھ ڈالی اورپسند بھی کی۔
اسے کہتے ہیں اپنا آپ منوانا۔کچھ حلقے بلال لاشاری کی اس فلم ''وار'' کو پروپیگنڈہ فلم قرار دے رہے ہیں، سمجھ میں نہیں آتا، یہی لوگ شاہ رخ خان، سیف علی خان، سنی دیول اور ان کے علاوہ ہالی ووڈ کی لاتعداد پروپیگنڈہ فلموں پر جھوم جھوم کر خود کو ہلکان کر لیتے ہیں اور ہماری فلمی صنعت کو ہمیشہ جہالت کی آماجگاہ کہہ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے، اب اگر کوئی نوجوان فلم کا عملی نصاب پڑھ کر سیکھ کر آیا، اس نے اپنے مقامی وسائل کو بروئے کار لاکر تخلیق اور تکنیک کو یکجا کیا اور باکس آفس پر بھی کامیابی حاصل کی، تواس کی بنائی ہوئی فلم انھیں پروپیگنڈہ لگتی ہے۔ بڑے اسکرین کے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ٹیلنٹ کو راستہ دیں۔ اس کے سامنے بند نہیں باندھنے چاہئیں۔ موقع ملے تو یہ فلم ضرور دیکھیں، آپ خود فیصلہ کرسکیں گے، حقیقت کیا ہے۔
یہ رویہ صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے، بھارتی فلمی صنعت بھی انھی رویوں کاشکار ہے۔ وہاں نصیرالدین شاہ سے لے کر عرفان خان تک اور اب نواز الدین صدیقی تک جتنے منجھے ہوئے اور اپنے فن کی گہرائی میں اترے ہوئے فنکار تھے، انھیں کئی دہائیاں لگ گئیں، تب کہیں جاکر وہ اپنی شناخت حاصل کر سکے، جب کہ کمرشل سینما کے اداکاروں کے نام ہر ایک کوازبر ہیں۔ رواں برس وہاں جس فلم کا آسکرکے شعبے ''بہترین غیرملکی فلم'' کے لیے انتخاب کیا گیا،اس کا نام ''دی گُڈ روڈ'' ہے۔
یہ بھی ایک ایوریج گجراتی سینما کی فلم ہے، اس سے کہیں زیادہ بہتر فلم ''لنچ بکس'' بنائی گئی، جس کی کہانی، تکنیک اورتخلیق کے تمام معاملات دل کوچھولینے والے ہیں، مگر یہ فلم بھی ناانصافی کاشکار ہوئی۔قصہ مختصر، کسی بھی شعبے کے مستقبل کا فیصلہ اسی سے متعلقہ ہنر مندوں کو کرنا چاہیے۔ ایک اچھی فلم کا فیصلہ شائقین کرتے ہیں اور یہ فیصلہ فلم ''وار'' کے حق میں ہوا۔ 2014 کے آسکر ایوارڈ کے لیے کون سی فلم جا رہی ہے، یہ بے معنی ہو گیا۔ کلینک پر بیٹھا ہوا اتائی ڈاکٹر ہو، چاہے ادب کی دنیا میں جعلی دانشور اور چاہے وہ کوئی فلمی دنیا کا نیم ہدایت کار ہو، ان سے سچے فن اور حقیقی فنکاروں کو بچانا ہو گا۔ ہماری فلمی صنعت اپنی جدید سوچ کے ساتھ کامیابی کے دروازے پر دستک دے رہی ہے، اب اسے کسی نیم حکیم خطرۂ جان کے ہتھے نہیں چڑھنا چاہیے۔