اماں کہتی ہیں…

بچپن میں اسلامیات کی ٹیچر سبق پڑھایا کرتی تھیں کہ صفائی نصف ایمان ہے اور ہم ہوم ورک میں کاپی پر نصف ایمان کا۔۔۔



بچپن میں اسلامیات کی ٹیچر سبق پڑھایا کرتی تھیں کہ صفائی نصف ایمان ہے اور ہم ہوم ورک میں کاپی پر نصف ایمان کا سبق لکھا کرتے تھے۔ لیکن نصف ایمان کا مطلب معلوم نہ تھا اور جب مطلب کا پتہ چلا تو نصف ایمان کہیں کھوگیا۔ ایک ایمان ہی کی تو دولت تھی وہ بھی کھودی، باقی کیا بچا بے ایمانی جو۔ اب ہر جگہ نظر آنے لگی ہے۔ بات ہورہی تھی صفائی کی اور بیچ میں آگئی بے ایمانی، خیر اس میں ہمارا کیا قصور۔ جو چیز کثرت کے ساتھ ہر جگہ پائی جائے گی وہی تحریر میں بھی نظر آنے لگتی ہے۔ کہتے ہیں کہ تحریر سماج کا آئینہ ہوتی ہے۔

ہائے آئینہ دیکھ کر اب تو شرم سی آنے لگی ہے۔ چلو کہیں تو شرم آئی۔ ورنہ آج کا دور تو بے شرمی کا ہے۔ بقول اماں۔ شرم نام کی تو کوئی چیز رہی ہی نہیں ۔ اماں کا دوپٹہ تو آج بھی سر سے نہیں اترتا اور ہمارا دوپٹہ سر پر ٹھہرتا نہیں توبہ توبہ ہمارا کیا قصور۔ آنچل پھسل پھسل جاتاہے۔ بے چارہ آنچل ہم نے تو یہاں بڑوں بڑوں کو پھسلتے ہوئے دیکھا ہے۔ آنچل بے چارہ کیا چیز ہے۔ ڈر لگتاہے کسی دن بے چارہ دوپٹہ مشرق کے آثار قدیمہ میں نہ رکھ دیاجائے کہ کبھی مشرقی ثقافت، تہذیب اور تمدن کا حصہ تھا۔ اف توبہ یہ حصہ بھی بری چیز ہے۔ ہر شخص اپنا اپنا حصہ مانگتا ہوا نظر آتا ہے۔ جائز و ناجائز کسی کو پرواہ ہی نہیں، ناحق سے ''نا''ہٹادیں تو حق بن جاتاہے۔ ویسے مانگنے کی عادت قوم کی پہچان بنتی جارہی ہے۔ نتیجے سے اوپر تک اندر سے باہر تک سب مانگ رہے ہیں۔ ہم کوئی مانگ تھوڑی رہے ہیں ہم تو قرض لیتے ہیں۔

ہائے یہ قرض کی لت بری لگ گئی۔ اصل تو ادا نہیں ہوتا سود ہی ادا کرتے ہیں عمر بھر۔ اب تو بچے بھی مقروض پیدا ہوتے ہیں۔ پیدا ہونے سے یاد آیا کہ پہلے کہاجاتاتھا اور ہم نے سنا بھی تھا کہ مسلم امہ میں کثرت پیدائش کو خوبی کی نظر سے دیکھا جاتاتھا کہ مسلمانوں کی تعداد بڑھے گی۔ مگر اب تو ہر طرف دو بچوں کا نعرہ لگ رہا ہے۔ خیر آبادی کی افزائش کو جتنا روکنے کی کوشش کی جارہی ہے کامیابی ہو یا نہیں جرائم کی پیدائش روز افزوں ہے۔ ڈاکٹرز کی تو دکانیں چمک رہی ہیں۔

ہمیں یاد ہے کہ بچپن میں ہر مرض کے لیے ایک ہی ڈاکٹر کے پاس جاتے تھے مگر اب سر سے پاؤں تک انگلی سے ناخن تک ہر مرض کا ایک الگ ڈاکٹر ہے۔ آج کل کے ڈاکٹروں کو تو مرض ہی سمجھ میں نہیں آتا۔ ایکسرے پر ایکسرے یا لیب ٹیسٹ۔ اماں کہتی ہیں کہ ڈاکٹر اور لیب کا آپس میں کوئی تعلق ضرور ہے۔ ہاں تعلق پر یاد آیا کہ صفائی اور صحت کا بھی آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے لیکن جہاں تک صفائی کا تعلق ہے تو لوگ ہاتھوں کی صفائی دکھانے اور تجوریاں صاف کرنے میں ماہر نظر آتے ہیں مگر باقی جگہ تو گندگی ہی گندگی ہے جو ہر شعبہ زندگی میں داخل ہوچکی ہے۔ خیر ہمیں کیا سب کی اپنی اپنی زندگی ہے ہم کون ہوتے ہیں مداخلت کرنے والے۔ لیکن جہاں تک ہمارا تعلق ہے وہاں تو ہم بولیں گے۔

اب دیکھیں نا کل ہی ہم (اسکوٹر پر جارہے تھے کہ ایک کچرے کا ٹرک وہ بھی کھلا ہوا پوری سڑک کو مہکاتاہوا ہمارے ساتھ ساتھ تھا۔ ہم نے جلدی سے دوپٹہ ناک پر رکھ لیا۔ ٹرک اپنا بوجھ سڑک پر چلتے ہوئے ہلکا کرتا جارہاتھا۔ گویا کچرا اٹھانے کا کام بھی ہورہاتھا اور سڑک پر دوران سفر اپنی نشانیاں چھوڑنے کا کام بھی۔ خیر ہوئی کہ کسی کے سر پر کچرے کی تھیلی نہیں گری۔ آزادی کا ایک ہی تو فائدہ ہے کہ کوئی دیکھنے سننے اور کہنے والا نہیں ہے کہ بھائی کچرے کی گاڑی ڈھکی ہوئی ہونی چاہیے۔ ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ ہماری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ٹوٹی پھوٹی پچاس ساٹھ سال پرانی زبوں حال کچرے کی گاڑی یا ٹرک پر نہیں بلکہ اپنے نئے جوڑے کے برباد ہونے پر۔

قریب سے نئی نسل کے نمایندے اس قدر تیز رفتاری سے کار لے گئے کہ گٹر کے ابلتے ہوئے پانی نے جو سڑک کو سیراب کررہاتھا اپنے چھینٹوں سے ہمارے لباس کو گل وگلزار کردیا۔ ہائے ہماری جگہ اس وقت کوئی نمازی ہوتا اور سفید کپڑے، مسجد کی طرف رواں دواں تو کیا ہوتا۔ گھر لوٹ کر آئے لباس تبدیل کیا اور دیر سے پہنچنے پر اہل محفل سے معذرت ۔ ویسے اس تکلف کی ضرورت نہ تھی۔ اکثر وبیشتر مہمان دیر سے آتے ہیں وقت کی پابندی تو محض ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ پابندی تو اس وقت ہو جب کہ وقت کی کوئی قدر و قیمت ہو۔ خیر اب تو سب ہی چیزیں ارزاں ہورہی ہیں۔ اپنی کرنسی ہی کو دیکھ لیجیے روز بروز قیمت گررہی ہے۔ مزے ان کے ہیں جن کے گھر باہر سے ڈالر آرہے ہیں۔

گھر سے یاد آیا کہ کل کوئی ہمارے گھر کے دروازے پر کچرے کی تھیلی رکھ گیا تھا۔ اماں کہتی ہیں کہ کام والیوں کی حرکت ہے۔ ماسی بھی بے وقوف ہے گلی کے کونے پر جو کچرے کا ڈھیر لگا ہے وہاں ڈال دیتی مگر کونے تک جانے کی زحمت کون کرے۔ اب ڈھیر تک کون تھیلی کا وزن لے جائے۔ ڈھیر خود یہیں آجائے گا۔

آنے کا کیا ہے لوگ بڑے ذوق وشوق کے ساتھ ریسٹوران آتے ہیں۔ فٹ پاتھ پر کھانے کی میز اور لب سڑک ابلتا گٹر اور باقی کنارے کچرے کا ڈھیر۔ اماں کہتی ہیں کہ کھانے کی جگہ صاف ستھری ہونی چاہیے۔ اب تو بس کھانا ہے۔ جگہ خواہ کیسی بھی ہو۔ اماں ایک بات اور بھی کہتی ہیں یوں فٹ پاتھ پر کھانا غیر مہذبانہ ہے۔ اب اماں کو کون بتائے کہ تہذیب تو آہستہ آہستہ رخصت ہورہی ہے۔ کاش! یہ گندگی بھی رخصت ہوجائے اور شفاف سڑکیں ہماری قوم کا بھی مقدر بنیں۔ اب دیکھیں نا ذرا سی بارش ہوئی اور سڑکوں کا حشر خراب، خیر گھر والے سڑکوں کو شفاف رکھنے کے لیے اتنا پانی بہاتے ہیں کہ سڑکیں دھل جاتی ہیں اور چہرہ اتنا شفاف ہوجاتاہے کہ پہچاننے میں ہی نہیں آتا۔ اسی لیے اکثر نلکوں میں پانی آنا بند ہوجاتاہے۔ کیا کیا جائے۔ ٹینکروں کا بھی تو خیال کرنا پڑتاہے۔

ہاں تو بات ہورہی تھی کہ صفائی نصف ایمان ہے، اﷲ ہمارے ایمان کو سلامت رکھے ورنہ صفائی ہاتھ سے گئی تو صحت بھی جائے گی۔ صحت خراب ہوئی تو ڈاکٹرز کی دکان چمکے گی۔ ڈاکٹر اصل ہو یا نقلی کوئی ہم ڈگری تھوڑی چیک کرتے ہیں اور اگر ڈگری کا معاملہ اٹھا تو پھر...!! بات بگڑجائے گی اور اگر بات بگڑگئی تو... تو خیر ہماری قوم میں باتیں بنتی بگڑتی رہتی ہیں قوم عادی ہے بھول جانے کی۔ ہم تو بچپن کا سبق بھی بھول گئے۔ اسلامیات کی مس نے یاد کرایا تھا ''صفائی نصف ایمان ہے''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔