سوری جناح

جس شخص نے اس ملک کو بنایا، اس کی پہچان آج ہم اپنے بچوں کو یہ کہہ کر بتاتے ہیں کہ نوٹ والے بابا جی


ذیشان یعقوب December 25, 2019
مزار قائد پر لوگوں کا رش اور ایک طوفانِ بدتمیزی تھا۔ (فوٹو: فائل)

INDIAN WELLS: قائداعظم محمد علی جناح کا مزار بہت بڑے سرسبز اور خشک میدان کے وسط میں تعمیر ایک گنبد نما عمارت ہے۔ جس کے اطراف لوہے کا جنگلہ لگایا گیا ہے اور ہر جانب دروازے بنائے گئے ہیں۔ جب میں اپنے شہر سے کراچی کےلیے نکلا تو پہلے سے کسی خاص جگہ جانے کا کوئی پلان نہیں تھا۔ میرے ذہن میں کراچی کا وہ خاکہ موجود تھا جسے میں نے بچپن میں دیکھا تھا۔ ہر طرف چہل پہل، موت کی رفتار سے تیز چلنے والے انسان اور بے ہنگم ٹریفک۔

میرا کراچی میں دوسرا دن تھا اور پہلی منزل مزار قائد تھی۔ مزار قائد کے اوقات جو ہمیں معلوم تھے وہ صبح 10 بجے سے رات 12 بجے کے تھے۔ جب میں کراچی کی لوکل سواری سے مزار قائد پر پہنچا تو سورج اپنی آب و تاب پر تھا۔ دور سے آرمی کے جوان پریڈ کرتے نظر آرہے تھے، جن کو دیکھ کر قدموں کی رفتار تیز ہوتی گئی اور ایک ہلکی سی پر مسکان سورج کو منہ چڑھانے لگی۔ مزار کے داخلی دروازے پر پہنچنے کے بعد علم ہوا کہ مزار قائد پر 25 دسمبر کے حوالے سے منعقد ہونے والی پریڈ کی ریہرسل کی وجہ سے لوگوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ میں نے مزار کے اوقات انٹرنیٹ پر دیکھے تھے لیکن اب مزار 10 کے بجائے 3 بجے عوام کےلیے کھلنا تھا، جس میں ابھی بہت وقت باقی تھا۔

اب میں اپنے دوست کے رحم و کرم پر تھا، جس کے ساتھ شہر کی سڑکیں ناپنا شروع کیں۔ دوپہر 2:30 بجے کے بعد واپس مزار قائد کی طرف سفر شروع کیا۔ کراچی کی مشہور لوکل ٹرانسپورٹ سے بھی واسطہ اسی سفر کے دوران پڑا، جس کو ٹرک کی مانند سجایا گیا تھا اور رفتار بھی اسی کی طرح، یہ ایک بس نما ٹویوٹا تھی۔ کنڈیکٹر کو سمجھایا کہ مزار قائد پر اتار دینا، جس کے بارے میں نہ مجھے علم تھا اور نہ ہی میرے دوست کو۔ ہمیں معلوم ہورہا تھا کہ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہی نہیں، سب سے بڑے دل والوں کا شہر ہے، جو باپ کی طرح بانہیں پھیلائے سب سے پیار سے بغل گیر ہورہا ہے۔

بس کے کنڈیکٹرنے ہمیں مزار قائد کے جس دروازے پر اُتارا وہ بند تھا اور ہمیں گھوم کر اب مرکزی دروازے تک جانا تھا۔ فٹ پاتھ کے بجائے مجھے مجبوراً سڑک پر چلنا پڑا کیونکہ فٹ پاتھ پر مٹی کی موٹی تہہ موجود تھی، جو جم کر تقریباً 6 سے 8 انچ تک جاپہنچی تھی۔ مٹی نے فٹ پاتھ کو پوری طرح ڈھانپ دیا تھا۔ مرکزی دروازے پر لوگوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ پاس جانے پر علم ہوا کہ سب لوگ اندر جانے کےلیے ٹکٹ خرید رہے ہیں۔ میری آنکھیں حیرت سے کھل گئیں۔ میرا خیال تھا کہ انٹری فری ہوگی اور سیکیورٹی کے انتظامات سخت ہوں گے، جب کہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔ انٹری فیس 30 روپے مقرر کی گئی ہے، جو میری نظر میں کسی نظریے، طریقے اور منطق کے خلاف ہے۔

مزار کے مرکزی دروازے کے بائیں جانب ایک چھوٹا سا کیفے ٹیریا بنایا گیا ہے، جہاں پر لوگ مختلف اشیا کھارہے تھے۔ مرکزی عمارت کی جانب بہت سے راستے جاتے ہیں، کچھ ساختہ اور کچھ غیر ساختہ۔ آپ جس راستے پر مرضی چل پڑیں بدقسمتی اور لاپرواہی آپ کا استقبال کرے گی۔ بیشتر جگہوں پر موجود گھاس مردہ ہوچکی ہے، جس کی وجہ موسم نہیں پانی کا وقت پر نہ دیا جانا ہے۔ جس جگہ گھاس موجود ہے وہاں بے ترتیب بڑھی ہوئی نظر آئے گی۔ جو ساختہ راستے مرکزی عمارت کی طرف جاتے ہیں، ان کی حالت غیر ہے۔ پتھر بالکل بھی ہموار نہیں اور گندے بھی ہیں۔ گرد نے پورے راستے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ چلتے ہوئے آپ کے جوتے اور کپڑے گرد سے بھر جاتے ہیں۔

مرکزی عمارت کی سیڑھیوں سے نیچے ایک اسٹال سا لگایا گیا تھا جس پر آپ اپنے جوتے جمع کروا سکتے ہیں اور اگر آپ جوتوں سمیت جانا چاہیں تو بھی جاسکتے ہیں۔ جوتا جمع کروانے کے بھی آپ کو 10 روپے دینے پڑیں گے۔ جبکہ اسی عمل کی اجرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر 5 روپے ہے۔

مزار قائد پر لوگوں کا رش تھا اور طوفانِ بدتمیزی۔ لوگ دعا کرنے کے بجائے فانوس پر کام کرتے ہوئے کاریگروں کو دیکھ رہے تھے اور سیلفیاں لے رہے تھے۔ مزار کے اندر بھی گرد آپ اپنے پاؤں تلے محسوس کرسکتے ہیں۔ ایک غبارہ کسی بچے کے ہاتھ سے چھوٹ کر گنبد کی چھت پر جالگا تھا، جس سے مزار کے محافظوں کو شاید انسیت سی ہوگئی ہے کیونکہ کسی نے اسے وہاں سے ہٹانے کی زحمت نہیں کی۔

میں ابھی ان تمام صدموں سے اُبھرنے کےلیے خود کو تیار ہی کررہا تھا کہ ایک بچے کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی، جو اپنی والدہ سے پوچھ رہا تھا کہ یہ کس کا مزار ہے۔ جس پر اس کی ماں نے کہا کہ ''قائد اعظم کا''۔ اس نے پلٹ کر سوال کیا ''وہ کون ہیں؟'' تو جواب آیا ''جن کی نوٹ پر تصویر ہے۔'' جوتے پہنتے ہوئے میرا دماغ سن ہوچکا تھا اور اپنی قوم پر افسوس ہورہا تھا۔

تمام ترصورتِ حال دیکھ کر سوالوں کا ایک انبار میرے ضمیر کو کوس رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ یہ کیسا سلوک ہم اپنے محسن سے کررہے ہیں؟ جس شخص نے اس ملک کو بنایا، اس قوم کو غرور کرنے کا حق دیا۔ جس شخص نے خودداری سکھائی۔ جس نے اپنا حق مانگنا بلکہ لینا سکھایا۔ جس شخص نے دنیا کو اپنے سامنے جھکایا۔ اس شخص کی آج ہم اپنے بچوں کو یہ پہچان بتاتے ہیں کہ نوٹ والے بابا جی!

ایک شخص جس کی روزانہ کی آمدن 1500 روپے تھی۔ جس کی وفات کے دن اس کی الماری میں 200 سے زائد سوٹ تھے۔ جس شخص نے زندگی میں ایک بار پہنی ٹائی دوبارہ نہیں پہنی اور جب پاکستان کے گورنر لگے تو اپنی تنخوا صرف ایک روپیہ مقرر کی۔ اس شخص کے دیدار کےلئے محض 30 روپے؟

کراچی کی بہت سی جگہوں پر میں نے سائن بورڈ دیکھے ''Thank You Jinnah'' اور مزار پر جاکر میرا ضمیر کہہ رہا تھا سوری جناح! آج ہم اپنے بچوں کو آپ کی پہچان بتاتے ہیں نوٹ والے بابا جی۔

سوری جناح! ہم آپ کے ساتھ وہ سلوک نہیں کرپارہے جس کے آپ حق دار ہیں۔ ہمیں معاف کیجیے گا۔ ہم آپ کے ساتھ آپ کے شایان شان سلوک کر ہی نہیں سکتے۔ ہم اپنے محسن کو بھول گئے۔ اب آپ ہماری آنے والی نسلوں کےلیے صرف نوٹ والے بابا جی ہیں۔ جو غلط کام کرکے آپ کی وجہ سے سرخرو ہوکر نکل جاتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں