گورودوارہ دربار صاحب کرتارپور کا لنگر بین المذاہب ہم آہنگی کی بڑی مثال
گورودوارے میں آنے والوں کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو وہ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھ کر لنگر کھاتے ہیں
BRUSSELS:
گورودوارہ دربار صاحب کرتارپورمیں بھارت سمیت دنیا بھر سے آنیوالے یاتریوں کو لنگر دیا جاتا ہے، یہاں آنے والوں کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو وہ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھ کر لنگر کھاتے ہیں جو بین المذاہب ہم آہنگی کی ایک بڑی مثال ہے۔
بھارت سے آنے والے یاتری اپنے پاس ٹماٹر، ادرک اورپیاز سمیت کئی دیگر سبزیاں اور اجناس بھی لے کر آتے ہیں تاکہ لنگر سیوا میں حصہ ڈال سکیں، بھارت سے آنے والی خواتین بھی کھانے کی تیاری اور برتن صاف کرنا خود کے لئے خوش قسمتی تصور کرتی ہیں۔
گورودوارہ دربار صاحب کرتار پورمیں درشن کے لئے بھارت سے روزانہ سیکڑوں یاتری ویزا کے بغیر پاکستان آتے ہیں۔ بھارت کے علاوہ اندرون ملک اور بیرونی ممالک سے بڑی تعداد میں سیاح اور یاتری یہاں پہنچتے ہیں۔ گورودوارہ دربارصاحب آنے والے ان یاتریوں کی سیوا کے لئے 24 گھنٹے لنگر کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہاں ایک وسیع و عریض لنگرہال بنایا گیا ہے جہاں آنے والے مہمان سر کو کپڑے سے ڈھانپ کر دسترخوان پر بیٹھ جاتے ہیں اور پھرسیوادار ان کے سامنے پلیٹ میں لنگر پیش کرتے ہیں۔
گورودوارہ دربارصاحب کے گرنتھی سردار گوبند سنگھ نے بتایا کہ یہاں ایک ہی دسترخوان پر مسلمان ، سکھ ، مسیحی اور ہندو اکھٹے بیٹھ کر لنگرکھاتے ہیں جو بین المذاہب ہم آہنگی کی بہترین مثال ہے۔
گوردوارہ دربار صاحب میں روزانہ سبزی، دال ، چنے، چاول اور روٹی کا لنگر دیا جاتا ہے۔ جمعرات کے روز یہاں سویٹ ڈش بھی تیار ہوتی ہے۔ اسی طرح چائے کا لنگر بھی دن بھر چلتا رہتا ہے۔ لنگر کی تیاری پاکستان سکھ گورودارہ پربندھک کمیٹی اور متروکہ وقف املاک بورڈ کی ذمہ داری ہے۔ تاہم بھارت سے آنے والی کئی سکھ خواتین بھی اس سیوا میں شریک ہوجاتی ہیں ،وہ سبزی کاٹنے ،روٹیاں بنانے اور برتن صاف کرنے کو سیوا سمجھتی ہیں۔ سردار گوبند سنگھ کہتے ہیں گورو کے لنگر پر بیٹھنے والے سے اس کا دھرم نہیں پوچھا جاتا، گورونانک دیوجی نے مل بیٹھ کر لنگر کھانے کا جو پیغام دیا تھا ہم اس پر کاربند ہیں۔
گورو دوارہ دربار صاحب میں لنگرکی تیاری متروکہ وقف املاک بورڈ کی ذمہ داری ہے تاہم بھارت سے آنے والے یاتری ساتھ ادرک، ٹماٹر،لہسن ، پیاز سمیت کئی سبزیاں اور چاول بھی لے آتے ہیں جنہیں لنگرہال میں جمع کروا دیا جاتا ہے اور اس کی باقاعدہ رسید دی جاتی ہے۔ گوردواسپور سے آنیوالے سردار صورت سنگھ اپنے ساتھ ٹماٹر اور چاول لے کرآئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ سبزیاں اس لیے لے کر آتے ہیں کہ ان کے کھیتوں میں برکت ہوگی اور دوسرا انہوں نے سنا تھا کہ پاکستان میں ٹماٹر اور ادرک کافی مہنگا ہے۔
ایک خاتون رمندیب کور چندی گڑھ سے یہاں درشن کرنے آئی تھیں ، انہوں نے بتایا کہ انہیں لنگرہال میں برتن صاف کرنے میں جوسکون ملا ہے وہ بیان نہیں کرسکتیں، یہ ان کے لیے ایک سعادت ہے کہ انہیں گورو کے گھر میں برتن صاف کرنے کا موقع ملا ہے۔
سردار گوبند سنگھ نے بتایا کہ بھارت سمیت دنیا بھر سے آنے والے سکھ لنگرہال میں بیٹھنے کے اصول اورادب واحترام سے واقف ہوتے ہیں ، یہاں ننگے سربیٹھنا منع ہے ، سکھ چونکہ ویسے بھی پگڑی پہنتے ہیں تاہم دوسرے مذاہب کے جو لوگ یہاں آتے ہیں مسلمان، مسیحی اور ہندو ان کو کہا جاتا ہے کہ وہ کھانا کھانے سے پہلے رومالے سے سرڈھانپ لیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سکھ دھرم میں پلیٹ میں کھانا باقی چھوڑا معیوب سمجھا جاتا ہے۔اس لئے تمام لوگ ضرورت کے مطابق ہی کھانا لیتے ہیں جس سے کھانا ضائع نہیں ہوتا۔
گورودوارہ دربار صاحب کرتارپورمیں بھارت سمیت دنیا بھر سے آنیوالے یاتریوں کو لنگر دیا جاتا ہے، یہاں آنے والوں کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو وہ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھ کر لنگر کھاتے ہیں جو بین المذاہب ہم آہنگی کی ایک بڑی مثال ہے۔
بھارت سے آنے والے یاتری اپنے پاس ٹماٹر، ادرک اورپیاز سمیت کئی دیگر سبزیاں اور اجناس بھی لے کر آتے ہیں تاکہ لنگر سیوا میں حصہ ڈال سکیں، بھارت سے آنے والی خواتین بھی کھانے کی تیاری اور برتن صاف کرنا خود کے لئے خوش قسمتی تصور کرتی ہیں۔
گورودوارہ دربار صاحب کرتار پورمیں درشن کے لئے بھارت سے روزانہ سیکڑوں یاتری ویزا کے بغیر پاکستان آتے ہیں۔ بھارت کے علاوہ اندرون ملک اور بیرونی ممالک سے بڑی تعداد میں سیاح اور یاتری یہاں پہنچتے ہیں۔ گورودوارہ دربارصاحب آنے والے ان یاتریوں کی سیوا کے لئے 24 گھنٹے لنگر کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہاں ایک وسیع و عریض لنگرہال بنایا گیا ہے جہاں آنے والے مہمان سر کو کپڑے سے ڈھانپ کر دسترخوان پر بیٹھ جاتے ہیں اور پھرسیوادار ان کے سامنے پلیٹ میں لنگر پیش کرتے ہیں۔
گورودوارہ دربارصاحب کے گرنتھی سردار گوبند سنگھ نے بتایا کہ یہاں ایک ہی دسترخوان پر مسلمان ، سکھ ، مسیحی اور ہندو اکھٹے بیٹھ کر لنگرکھاتے ہیں جو بین المذاہب ہم آہنگی کی بہترین مثال ہے۔
گوردوارہ دربار صاحب میں روزانہ سبزی، دال ، چنے، چاول اور روٹی کا لنگر دیا جاتا ہے۔ جمعرات کے روز یہاں سویٹ ڈش بھی تیار ہوتی ہے۔ اسی طرح چائے کا لنگر بھی دن بھر چلتا رہتا ہے۔ لنگر کی تیاری پاکستان سکھ گورودارہ پربندھک کمیٹی اور متروکہ وقف املاک بورڈ کی ذمہ داری ہے۔ تاہم بھارت سے آنے والی کئی سکھ خواتین بھی اس سیوا میں شریک ہوجاتی ہیں ،وہ سبزی کاٹنے ،روٹیاں بنانے اور برتن صاف کرنے کو سیوا سمجھتی ہیں۔ سردار گوبند سنگھ کہتے ہیں گورو کے لنگر پر بیٹھنے والے سے اس کا دھرم نہیں پوچھا جاتا، گورونانک دیوجی نے مل بیٹھ کر لنگر کھانے کا جو پیغام دیا تھا ہم اس پر کاربند ہیں۔
گورو دوارہ دربار صاحب میں لنگرکی تیاری متروکہ وقف املاک بورڈ کی ذمہ داری ہے تاہم بھارت سے آنے والے یاتری ساتھ ادرک، ٹماٹر،لہسن ، پیاز سمیت کئی سبزیاں اور چاول بھی لے آتے ہیں جنہیں لنگرہال میں جمع کروا دیا جاتا ہے اور اس کی باقاعدہ رسید دی جاتی ہے۔ گوردواسپور سے آنیوالے سردار صورت سنگھ اپنے ساتھ ٹماٹر اور چاول لے کرآئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ سبزیاں اس لیے لے کر آتے ہیں کہ ان کے کھیتوں میں برکت ہوگی اور دوسرا انہوں نے سنا تھا کہ پاکستان میں ٹماٹر اور ادرک کافی مہنگا ہے۔
ایک خاتون رمندیب کور چندی گڑھ سے یہاں درشن کرنے آئی تھیں ، انہوں نے بتایا کہ انہیں لنگرہال میں برتن صاف کرنے میں جوسکون ملا ہے وہ بیان نہیں کرسکتیں، یہ ان کے لیے ایک سعادت ہے کہ انہیں گورو کے گھر میں برتن صاف کرنے کا موقع ملا ہے۔
سردار گوبند سنگھ نے بتایا کہ بھارت سمیت دنیا بھر سے آنے والے سکھ لنگرہال میں بیٹھنے کے اصول اورادب واحترام سے واقف ہوتے ہیں ، یہاں ننگے سربیٹھنا منع ہے ، سکھ چونکہ ویسے بھی پگڑی پہنتے ہیں تاہم دوسرے مذاہب کے جو لوگ یہاں آتے ہیں مسلمان، مسیحی اور ہندو ان کو کہا جاتا ہے کہ وہ کھانا کھانے سے پہلے رومالے سے سرڈھانپ لیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سکھ دھرم میں پلیٹ میں کھانا باقی چھوڑا معیوب سمجھا جاتا ہے۔اس لئے تمام لوگ ضرورت کے مطابق ہی کھانا لیتے ہیں جس سے کھانا ضائع نہیں ہوتا۔