قائداعظم کا یوم پیدائش اورکرسمس
ہمیں قائداعظم کے خطبات پرغوروفکرکرنے کے ساتھ ساتھ خود احتسابی کی بھی ضرورت ہے
وطن عزیزمیں پچیس دسمبرکا دن دو اہم ترین حوالوں سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، پہلاحوالہ بانی پاکستان کے یوم پیدائش کا ہے اور دوسرا حوالہ مذہبی تہوارکرسمس کا ہے، جسے پاکستان میں بسنے والے مسیحی اپنے روایتی مذہبی جوش وخروش اورمکمل آزادی سے مناتے ہیں۔
قائد اعظم جیسی سحر انگیزشخصیت ہزاروں برس بعد پیدا ہوتی ہے۔ جناح ، پاکستان کو ایک ترقی پسند اور خوشحال ملک دیکھنا چاہتے تھے۔ بلاشبہ قائد اعظم کی سیاسی بصیرت نے آج ثابت کر دیا ہے کہ دو قومی نظریہ درست تھا۔ قائداعظم نے اپنے خطبات میں اس بات کا ہمیشہ عزم کیا کہ ہمارا پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ ایسی ریاست حاصل کرنا ہے جہاں پر اسلام کے سنہری اصولوں کو آزما سکیں۔
ہمیں قائداعظم کے خطبات پرغوروفکرکرنے کے ساتھ ساتھ خود احتسابی کی بھی ضرورت ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح قانون اور انصاف کی بالا دستی پر یقین رکھتے تھے۔ صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قائد اعظم محمد علی جناح کو ''دوراندیش انسان'' قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے برصغیرکے مسلمانوں کی ایک الگ شناخت ، اہمیت اور سیاسی سمت کا تصور پیش کیا۔ انتہائی صائب بات کا اظہار صدرمملکت نے کیا ہے۔ آج جوکچھ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس نے دوقومی نظریے اور قائدکی جدوجہد پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔
دراصل قائد اعظم کے پاکستان میں انتہا پسندوں اور شرپسندوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، ہم وطنوں کے درمیان نفرت پھیلانے والے دراصل وطن دشمنوں کے آلہ کارہیں۔ ہمیں نفرت ، انتہا پسندی، فرقہ واریت کے خلاف جدوجہد جاری رکھنی چاہیے، ہمیں بحیثیت پاکستانی آج فیصلہ کرنا ہوگا کہ وطن عزیز سے انتہا پسندی کے خلاف متحد ہوکر میدان عمل میں اتریں گے اور اس ناسور سے وطن کو پاک کرکے قائدکی روح کو شاد کریں گے اور ہم اس جدوجہد کو جاری رکھیں گے اور اس پیغام کو ہر پاکستانی تک پہنچائیں گے۔ آج ہمیں ایمان، اتحاد اور تنظیم کی اشد ضرورت ہے۔
آج ہمارا ملک مشکل ترین حالات سے گزر رہا ہے جس کی وجہ قائداعظم کے سنہری اصولوں کو فراموش کرنا ہے۔ ملک میں قوم، زبان اور مذہب کی بنیاد پرتقسیم نظر آتی ہے۔ قائداعظم کے بیان کردہ اصولوں ایمان ، اتحاد اور تنظیم کے فروغ کے لیے ہمیں مصروف عمل رہنا ہے اور قائداعظم کے یوم پیدائش پر اس عزم کو دہرانے کی ضرورت ہے۔ قائد اعظم پاکستان کو ایک ایسی ریاست بنانا چاہتے تھے جہاں ریاست میں بسنے والے ہر شخص کو بنیادی حقوق کی فراہمی ہو، افسوس کہ 72 سال گزرنے کے باوجود قائد کے افکار کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا ہے۔
عالمی سطح پر منائے جانے والے مذہبی تہواروں میںکرسمس کو روحانی اعتبار سے ایک غیر معمولی حیثیت حاصل ہے ، ان عبادات میں کرسمس کے مخصوص روحانی نغمے گائے جاتے ہیں، پاک اور سنجیدہ ماحول میں یسوع مسیح کی پیدائش کی اہمیت کو بیان کیا جاتا ہے چھوٹے اور بڑے پیمانے پرمنعقدہ جلسے، جلوسوں اور روحانی محفلوں میں ان کے ارشادات کو یاد کیا جاتا ہے کیونکہ یسوع مسیح کی تعلیمات پر عمل کرنا ہی اصل اورحقیقی کرسمس ہے۔ پاکستان میں بسنے والے مسیحی اس مقدس تہوارکی تقریبات بہت روایتی مذہبی جوش و خروش اورمکمل آزادی سے مناتے ہیں۔
خوبصورت کیک ، مٹھائیوں اور دیگر خوبصورت تحائف سے اپنی خوشی اور محبت کا اظہارکیا جاتا ہے۔ عبادات کے دوران پاکستان کی سلامتی، ترقی، خوشحالی اور استحکام کے لیے خصوصی دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ حکومت کی طرف سے مسیحی عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں اور سرکاری سطح پر اس تہوارکی مناسبت سے تقریبات کا انعقاد کیا گیا ہے جس میں حکومتی اعلیٰ عہدیداروں کے علاوہ مشہور مسلمان علما، مذہبی وسماجی رہنما اپنے مسیحی بھائیوں کی خوشیوں میں برابرکے شریک ہیں۔
ذرائع ابلاغ کی طرف سے بھی یسوع مسیح کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے مذہبی تہواروں کو ہر سال روایتی شان وشوکت سے منانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ تہوار اس قوم سے وابستہ افراد خاص طور پر نوجوان نسل کے اندر مذہبی روح کو زندہ رکھتے ہیں۔
مشینی دور میں مادیت سے معمور مصروفیت نے بھی ان تہواروں میںلوگوں کی دلچسپی اور روایات کو بری طرح متاثرکیا ہے اور ہر سال مذہبی روایات کو دہرائے جانے سے بچوں اورنوجوانوں کے اندر اپنے مذہب سے منسلک اعلی اخلاقی اور دینی اقدار سے محبت ہمیشہ قائم و دائم رہتی ہے۔
پاکستان میں طبقات اور مذاہب کے مابین ہم آہنگی انتہائی خوش آئند ہے، ہماری مسیحی برادری انتہائی ذمے دار ہے، انھوں نے پاکستان کی ترقی وخوشحالی میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔ قائداعظم کے یوم پیدائش اورکرسمس کا مشترکہ پیغام یہ ہے کہ ہم سب ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ملکر بحیثیت پاکستانی کام کریں۔
قائد اعظم جیسی سحر انگیزشخصیت ہزاروں برس بعد پیدا ہوتی ہے۔ جناح ، پاکستان کو ایک ترقی پسند اور خوشحال ملک دیکھنا چاہتے تھے۔ بلاشبہ قائد اعظم کی سیاسی بصیرت نے آج ثابت کر دیا ہے کہ دو قومی نظریہ درست تھا۔ قائداعظم نے اپنے خطبات میں اس بات کا ہمیشہ عزم کیا کہ ہمارا پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ ایسی ریاست حاصل کرنا ہے جہاں پر اسلام کے سنہری اصولوں کو آزما سکیں۔
ہمیں قائداعظم کے خطبات پرغوروفکرکرنے کے ساتھ ساتھ خود احتسابی کی بھی ضرورت ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح قانون اور انصاف کی بالا دستی پر یقین رکھتے تھے۔ صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قائد اعظم محمد علی جناح کو ''دوراندیش انسان'' قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے برصغیرکے مسلمانوں کی ایک الگ شناخت ، اہمیت اور سیاسی سمت کا تصور پیش کیا۔ انتہائی صائب بات کا اظہار صدرمملکت نے کیا ہے۔ آج جوکچھ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس نے دوقومی نظریے اور قائدکی جدوجہد پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔
دراصل قائد اعظم کے پاکستان میں انتہا پسندوں اور شرپسندوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، ہم وطنوں کے درمیان نفرت پھیلانے والے دراصل وطن دشمنوں کے آلہ کارہیں۔ ہمیں نفرت ، انتہا پسندی، فرقہ واریت کے خلاف جدوجہد جاری رکھنی چاہیے، ہمیں بحیثیت پاکستانی آج فیصلہ کرنا ہوگا کہ وطن عزیز سے انتہا پسندی کے خلاف متحد ہوکر میدان عمل میں اتریں گے اور اس ناسور سے وطن کو پاک کرکے قائدکی روح کو شاد کریں گے اور ہم اس جدوجہد کو جاری رکھیں گے اور اس پیغام کو ہر پاکستانی تک پہنچائیں گے۔ آج ہمیں ایمان، اتحاد اور تنظیم کی اشد ضرورت ہے۔
آج ہمارا ملک مشکل ترین حالات سے گزر رہا ہے جس کی وجہ قائداعظم کے سنہری اصولوں کو فراموش کرنا ہے۔ ملک میں قوم، زبان اور مذہب کی بنیاد پرتقسیم نظر آتی ہے۔ قائداعظم کے بیان کردہ اصولوں ایمان ، اتحاد اور تنظیم کے فروغ کے لیے ہمیں مصروف عمل رہنا ہے اور قائداعظم کے یوم پیدائش پر اس عزم کو دہرانے کی ضرورت ہے۔ قائد اعظم پاکستان کو ایک ایسی ریاست بنانا چاہتے تھے جہاں ریاست میں بسنے والے ہر شخص کو بنیادی حقوق کی فراہمی ہو، افسوس کہ 72 سال گزرنے کے باوجود قائد کے افکار کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا ہے۔
عالمی سطح پر منائے جانے والے مذہبی تہواروں میںکرسمس کو روحانی اعتبار سے ایک غیر معمولی حیثیت حاصل ہے ، ان عبادات میں کرسمس کے مخصوص روحانی نغمے گائے جاتے ہیں، پاک اور سنجیدہ ماحول میں یسوع مسیح کی پیدائش کی اہمیت کو بیان کیا جاتا ہے چھوٹے اور بڑے پیمانے پرمنعقدہ جلسے، جلوسوں اور روحانی محفلوں میں ان کے ارشادات کو یاد کیا جاتا ہے کیونکہ یسوع مسیح کی تعلیمات پر عمل کرنا ہی اصل اورحقیقی کرسمس ہے۔ پاکستان میں بسنے والے مسیحی اس مقدس تہوارکی تقریبات بہت روایتی مذہبی جوش و خروش اورمکمل آزادی سے مناتے ہیں۔
خوبصورت کیک ، مٹھائیوں اور دیگر خوبصورت تحائف سے اپنی خوشی اور محبت کا اظہارکیا جاتا ہے۔ عبادات کے دوران پاکستان کی سلامتی، ترقی، خوشحالی اور استحکام کے لیے خصوصی دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ حکومت کی طرف سے مسیحی عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں اور سرکاری سطح پر اس تہوارکی مناسبت سے تقریبات کا انعقاد کیا گیا ہے جس میں حکومتی اعلیٰ عہدیداروں کے علاوہ مشہور مسلمان علما، مذہبی وسماجی رہنما اپنے مسیحی بھائیوں کی خوشیوں میں برابرکے شریک ہیں۔
ذرائع ابلاغ کی طرف سے بھی یسوع مسیح کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے مذہبی تہواروں کو ہر سال روایتی شان وشوکت سے منانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ تہوار اس قوم سے وابستہ افراد خاص طور پر نوجوان نسل کے اندر مذہبی روح کو زندہ رکھتے ہیں۔
مشینی دور میں مادیت سے معمور مصروفیت نے بھی ان تہواروں میںلوگوں کی دلچسپی اور روایات کو بری طرح متاثرکیا ہے اور ہر سال مذہبی روایات کو دہرائے جانے سے بچوں اورنوجوانوں کے اندر اپنے مذہب سے منسلک اعلی اخلاقی اور دینی اقدار سے محبت ہمیشہ قائم و دائم رہتی ہے۔
پاکستان میں طبقات اور مذاہب کے مابین ہم آہنگی انتہائی خوش آئند ہے، ہماری مسیحی برادری انتہائی ذمے دار ہے، انھوں نے پاکستان کی ترقی وخوشحالی میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔ قائداعظم کے یوم پیدائش اورکرسمس کا مشترکہ پیغام یہ ہے کہ ہم سب ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ملکر بحیثیت پاکستانی کام کریں۔