اے غیرت مسلم جاگ ذرا
مودی کے اس بھیانک روپ نے ہٹلر کے مظالم کی یاد تازہ کردی
بندر کے ہاتھ ماچس لگ جائے تو پھر وہی حشرہوتا ہے جو مودی نے اقتدار ملنے کے بعد بھارت کاکردیاہے۔ انتہاپسندانہ و دہشت گردانہ سوچ کے حامل اور ہندو دہشت گرد تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)کے دیرینہ ورکر مودی اور اس کی سرکار کے شر سے صرف خطے کے ممالک ہی غیر محفوظ نہیں بلکہ بھارت کے عوام خصوصاً وہاں بسنے والے غیر ہندو(اقلیتیں) شدیدعتاب کا شکار ہیں۔
بھارت میں اقلیتوں پر اتنے حملے پچھلے ستر برسوں میں نہیں ہوئے جتنے صرف مودی سرکار کی موجودگی میں ہوچکے ہیں۔ اقتدار تک رسائی کے بعد مودی نے ہندوتوا کا نہایت بھونڈے انداز میں پرچار کیا اور دہشت گردی کو ناصرف اپنے ملک میں فروغ دیا بلکہ آس پڑوس کے ممالک میں بھی ایکسپورٹ کیا۔
مودی کے اس بھیانک روپ نے ہٹلر کے مظالم کی یاد تازہ کردی۔ وہ سانپ بن کر بار بار ناصرف بھارت کے مسلمانوں کو ڈس رہا ہے بلکہ اس کی پھنکار جنوبی ایشیاء کے دیگر مسلمان ممالک تک بھی پہنچ رہی ہے، جب تک اس ناگ کا زہر نہیں نکالا جائے گا تب تک اس کی سرپرستی میں حملہ آور ہونے والے دیگر ہندو سنپولیوں کو بھی چین نہیں آئے گا۔
بھارت کے ہمسایوں میں پاکستان وہ ملک ہے جو بھارت کی دہشت گردی کا سب سے زیادہ نشانہ بنا۔ ہزاروں جانیں قربان ہوگئیں، اربوں کی املاک تباہ ہوگئی لیکن پاکستان نے امن کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ مودی سرکار کا جارحانہ و متشددانہ رویہ پاک بھارت تعلقات کی راہ میںہمیشہ رکاوٹ بنا رہا، اس کا رویہ ہمیشہ اس جملے کا مصداق بنا رہا کہ ''ہم نہ آپ سے بات کریں گے اورنہ ہی آپ کی بات سنیں گے''۔
خطے کے مسائل ان کے پیش نظررہے اور نہ ہی پاک بھارت تناؤکا خاتمہ ان کے پیش نظرہے۔جب اشتعال انگیز گفتگو اور دہشت گردانہ کارروائیاں ہوںگی تو اس سے ہمسایہ ممالک کے تعلقات میں بہتری کے امکانات معدوم ہونا فطری بات ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے الزامات لگانے والے بھارت کا بھیانک چہرہ بارہا دنیا کو دکھایا۔ ہم دنیا کو بتاتے رہے کہ اس وقت بھارت میں 132دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں۔ بھارت میں جتنی اقلیتیں ہیں ان میں کوئی ایک اقلیت بھی ایسی نہیں ہے جس کی عبادت گاہوں پر حملے نہ ہوئے ہوں۔
سکھوںکے گولڈن ٹیمپل اور مسلمانوں کی بابری مسجد پر حملے ہوئے ، حتیٰ کہ بابری مسجدکو شہید کر دیا گیا اور بابری مسجد کیس میں بھارتی سپریم کورٹ نے دہشت گرد ہندو تنظیموں اور سرکار کے دباؤ میں انصاف کے گلے پر جو چھری پھیری، دنیا نے کھلی آنکھ سے اس کا نظارہ کیا۔ بھارت میں دو سو سے زائد چرچ جلائے گئے۔ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ چارماہ سے لگاتار کرفیو لگا کر کشمیریوں پر زندگی کے دروازے بند کرنے کی کوشش جاری ہے۔
رہی سہی کسر متنازع شہریت بل نے پوری کردی۔ شہریت کے متنازع کالے قانون پر پورا بھارت خصوصاً مسلمان سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور بھارت کے عوام نے مودی سرکار کے اس بدترین قانون کو مسترد کردیا ہے۔ مودی سرکار کے ہر ہرعمل نے بھارت کے سیاہ چہرہ سے نام نہاد سیکولر ازم کا نقاب نوچ ڈالا۔ مودی آج کے دور کا ہٹلر بن کر مسلمانوں کے قتل عام میں پیش پیش ہے۔
متنازع شہریت بل پر مظاہروں کے دوران جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 30ہو گئی ہے۔ اتر پردیش میں عوامی اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی ہے اور مظاہرین کی جائیدادیں ضبط کی جا رہی ہیں۔ بھارت میں اٹھارہ کروڑ مسلمانوں کی جان، مال اور آبرو مودی سرکار کے اقدامات کے باعث خطرے میں ہے۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں شدت پسندوں کی حکومت والی ریاست اتر پردیش میں ہوئیں جہاں 16افراد گولیاں لگنے سے مر چکے ہیں۔
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق بھارتی پولیس مظاہرین پر تشدد اور گولیاں چلانے کے الزامات تسلیم نہیں کر رہی مگر بہت سی تصاویر اور ویڈیو میں پولیس اہلکاروں کو گولیاں چلاتے اور پستول لہراتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس صورتحال پر صرف مسلمان ہی سراپا احتجاج نہیں بنے ہوئے بلکہ وہاں بسنے والے دیگر مذاہب کے لوگ بھی احتجاج کر رہے ہیں، حتیٰ کہ ہندو بھی مودی سرکار کے اس کالے قانون کے خلاف سڑکوں پر نظر آرہے ہیں۔ پیر کو بھارتی حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کی جانب سے بھی نئی دہلی میں بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ جس کی قیادت پارٹی لیڈر سونیا گاندھی نے کی۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ متنازع شہریت قانون مودی سرکارکے لیے گلے کی ہڈی بن چکا ہے، اقلیتوں کے احتجاج میں طلبا بھی شامل ہو گئے۔ نئی دہلی سمیت ملک بھر میں کالج اور یونیورسٹیوں کے طلبا سڑکوں پر نکل آئے ہیں، پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں متعدد زخمی بھی ہوئے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہونے والی پولیس گردی کے خلاف علی گڑھ یونیورسٹی سمیت پورے بھارت میں تعلیمی اداروں کے طلبا و طالبات سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ احتجاج کی اس لہر کو روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے، چھٹیوں کا اعلان کرکے تعلیمی ادارے بند کیے جارہے ہیں۔ تمام تر اقدامات کے باوجودناصرف احتجاج کا دائرہ وسعت پکڑ رہا ہے بلکہ اس میں شدت بھی آرہی ہے جو مودی سرکار کے گرد گھیرا تنگ ہونے کے مترادف ہے۔
اب اطلاع یہ ہے کہ صورتحال سے توجہ ہٹانے کے لیے مودی سرکارکوئی بڑا ڈرامہ اسٹیج کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ ڈرامہ کرنے میں بھارتی وزیر اعظم یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بڑی شد و مد کے ساتھ اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ بھارتی حکومت اپنے ملک میں جاری احتجاج سے توجہ ہٹانے کے لیے کسی بھی وقت ایل او سی پر شرارت کر سکتی ہے۔
انھوں نے اپنی گفتگو میں اس بات کا اظہار بھی کیا کہ لائن آف کنٹرول پر بھارت کی جانب سے براہموس اور اسپائیک اینٹی ٹینک میزائل نصب کرنے کی اطلاعات بھی ہیں۔ دوسری طرف پاک فوج کی جانب سے بھی دشمن کو واضح طور پر پیغام دے دیا گیا ہے کہ دشمن کے مس ایڈونچر کا بھرپور جواب دینے کے لیے ہم تیار ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ لائن آف کنٹرول پہنچ گئے وہاں انھوں نے فوجی افسران اور جوانوں کے حوصلوں کو سراہا اور کہا کہ امن کی خواہش کو کسی صورت کمزوری نہ سمجھا جائے، مادر وطن کے لیے ہر جارحیت کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
دنیا اس بات کو بخوبی جانتی ہے، دونوں ملک ایٹمی پاور ہیں، دونوں کے پاس کروز اور بیلسٹک ایٹمی ہتھیار ہیں۔ دونوں کے پاس سیکنڈ اسٹرائیک صلاحیت موجود ہے یعنی دونوں میں سے ایک ملک چھپ کردوسرے کو برباد کرنے کے لیے حملہ کر دے گا تو وہ خود بھی برباد ہوجائے گا۔
مودی نے ''وکاس ''(ڈویلپمنٹ )کے نعرے پر الیکشن جیتا تھا لیکن اب تک وہ اپنے ملک کو قطعی طور پر ڈویلپمنٹ نہیں دے سکے۔ وہ اپنی کارکردگی سے توجہ ہٹانے کے لیے کبھی ہمسایوں سے چھیڑچھاڑ کرتے ہیں اور کبھی ملک کے اندر موجود اقلیتوں کا جینا حرام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عالمی برادری کی اس صورتحال پر خاموشی تشویش کا باعث ہے، اقوام متحدہ ، او آئی سی اور بڑی عالمی طاقتیں محض بیان بازی سے نکل کر بھارت کی انتہا پسند سرکار کے شر سے ناصرف بھارت کے عوام کو بچائیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک کا بھی تحفظ کریں۔
اس وقت بھارت دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد ریاست بنی ہوئی ہے، جوناصرف جنوبی ایشیاء بلکہ پوری دنیا کے امن کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے ، اس کے بڑھتے ہوئے قدم روکنا ناگزیر ہے۔اس کی سرپرستی میں مسلمان خواتین کی بے حرمتی کا لامتناہی سلسلہ بند کرنے کے لیے آج پھر ایک حجاج بن یوسف کی ضرورت ہے، جو ایک مظلوم مسلمان بچی کی پکار پر تڑپ اٹھا اور محمد بن قاسم جیسے جرات و بہادری کے پیکر نوجوان کو بھیج دیا جس نے ہندوستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ بھارت اور خصوصاً کشمیر کی مسلمان بچیاں آج پھر کسی حجاج بن یوسف کی منتظر ہیں۔
اس وقت دنیا کے نقشے پر ستاون مسلمان ممالک موجود ہیں اور ان تمام کے درمیان تعاون کو فروغ دینے کے لیے او آئی سی ایک عالمی تنظیم ہے جس نے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم نے بھارت سے کہا ہے کہ بھارتی حکومت مسلمانوں اور ان کے مقدس مقامات کی حفاظت یقینی بنائے لیکن کیا اتنا کہنا کافی ہے؟ کیا ان ستاون اسلامی ممالک میں ایک بھی حجاج بن یوسف نہیں؟ آج ہندوستان خصوصاً کشمیر کی بچیاں دوہائی دے رہی ہیں ''اے غیرت مسلم جاگ ذرا''۔
بھارت میں اقلیتوں پر اتنے حملے پچھلے ستر برسوں میں نہیں ہوئے جتنے صرف مودی سرکار کی موجودگی میں ہوچکے ہیں۔ اقتدار تک رسائی کے بعد مودی نے ہندوتوا کا نہایت بھونڈے انداز میں پرچار کیا اور دہشت گردی کو ناصرف اپنے ملک میں فروغ دیا بلکہ آس پڑوس کے ممالک میں بھی ایکسپورٹ کیا۔
مودی کے اس بھیانک روپ نے ہٹلر کے مظالم کی یاد تازہ کردی۔ وہ سانپ بن کر بار بار ناصرف بھارت کے مسلمانوں کو ڈس رہا ہے بلکہ اس کی پھنکار جنوبی ایشیاء کے دیگر مسلمان ممالک تک بھی پہنچ رہی ہے، جب تک اس ناگ کا زہر نہیں نکالا جائے گا تب تک اس کی سرپرستی میں حملہ آور ہونے والے دیگر ہندو سنپولیوں کو بھی چین نہیں آئے گا۔
بھارت کے ہمسایوں میں پاکستان وہ ملک ہے جو بھارت کی دہشت گردی کا سب سے زیادہ نشانہ بنا۔ ہزاروں جانیں قربان ہوگئیں، اربوں کی املاک تباہ ہوگئی لیکن پاکستان نے امن کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ مودی سرکار کا جارحانہ و متشددانہ رویہ پاک بھارت تعلقات کی راہ میںہمیشہ رکاوٹ بنا رہا، اس کا رویہ ہمیشہ اس جملے کا مصداق بنا رہا کہ ''ہم نہ آپ سے بات کریں گے اورنہ ہی آپ کی بات سنیں گے''۔
خطے کے مسائل ان کے پیش نظررہے اور نہ ہی پاک بھارت تناؤکا خاتمہ ان کے پیش نظرہے۔جب اشتعال انگیز گفتگو اور دہشت گردانہ کارروائیاں ہوںگی تو اس سے ہمسایہ ممالک کے تعلقات میں بہتری کے امکانات معدوم ہونا فطری بات ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے الزامات لگانے والے بھارت کا بھیانک چہرہ بارہا دنیا کو دکھایا۔ ہم دنیا کو بتاتے رہے کہ اس وقت بھارت میں 132دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں۔ بھارت میں جتنی اقلیتیں ہیں ان میں کوئی ایک اقلیت بھی ایسی نہیں ہے جس کی عبادت گاہوں پر حملے نہ ہوئے ہوں۔
سکھوںکے گولڈن ٹیمپل اور مسلمانوں کی بابری مسجد پر حملے ہوئے ، حتیٰ کہ بابری مسجدکو شہید کر دیا گیا اور بابری مسجد کیس میں بھارتی سپریم کورٹ نے دہشت گرد ہندو تنظیموں اور سرکار کے دباؤ میں انصاف کے گلے پر جو چھری پھیری، دنیا نے کھلی آنکھ سے اس کا نظارہ کیا۔ بھارت میں دو سو سے زائد چرچ جلائے گئے۔ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ چارماہ سے لگاتار کرفیو لگا کر کشمیریوں پر زندگی کے دروازے بند کرنے کی کوشش جاری ہے۔
رہی سہی کسر متنازع شہریت بل نے پوری کردی۔ شہریت کے متنازع کالے قانون پر پورا بھارت خصوصاً مسلمان سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور بھارت کے عوام نے مودی سرکار کے اس بدترین قانون کو مسترد کردیا ہے۔ مودی سرکار کے ہر ہرعمل نے بھارت کے سیاہ چہرہ سے نام نہاد سیکولر ازم کا نقاب نوچ ڈالا۔ مودی آج کے دور کا ہٹلر بن کر مسلمانوں کے قتل عام میں پیش پیش ہے۔
متنازع شہریت بل پر مظاہروں کے دوران جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 30ہو گئی ہے۔ اتر پردیش میں عوامی اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی ہے اور مظاہرین کی جائیدادیں ضبط کی جا رہی ہیں۔ بھارت میں اٹھارہ کروڑ مسلمانوں کی جان، مال اور آبرو مودی سرکار کے اقدامات کے باعث خطرے میں ہے۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں شدت پسندوں کی حکومت والی ریاست اتر پردیش میں ہوئیں جہاں 16افراد گولیاں لگنے سے مر چکے ہیں۔
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق بھارتی پولیس مظاہرین پر تشدد اور گولیاں چلانے کے الزامات تسلیم نہیں کر رہی مگر بہت سی تصاویر اور ویڈیو میں پولیس اہلکاروں کو گولیاں چلاتے اور پستول لہراتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس صورتحال پر صرف مسلمان ہی سراپا احتجاج نہیں بنے ہوئے بلکہ وہاں بسنے والے دیگر مذاہب کے لوگ بھی احتجاج کر رہے ہیں، حتیٰ کہ ہندو بھی مودی سرکار کے اس کالے قانون کے خلاف سڑکوں پر نظر آرہے ہیں۔ پیر کو بھارتی حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کی جانب سے بھی نئی دہلی میں بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ جس کی قیادت پارٹی لیڈر سونیا گاندھی نے کی۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ متنازع شہریت قانون مودی سرکارکے لیے گلے کی ہڈی بن چکا ہے، اقلیتوں کے احتجاج میں طلبا بھی شامل ہو گئے۔ نئی دہلی سمیت ملک بھر میں کالج اور یونیورسٹیوں کے طلبا سڑکوں پر نکل آئے ہیں، پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں متعدد زخمی بھی ہوئے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہونے والی پولیس گردی کے خلاف علی گڑھ یونیورسٹی سمیت پورے بھارت میں تعلیمی اداروں کے طلبا و طالبات سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ احتجاج کی اس لہر کو روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے، چھٹیوں کا اعلان کرکے تعلیمی ادارے بند کیے جارہے ہیں۔ تمام تر اقدامات کے باوجودناصرف احتجاج کا دائرہ وسعت پکڑ رہا ہے بلکہ اس میں شدت بھی آرہی ہے جو مودی سرکار کے گرد گھیرا تنگ ہونے کے مترادف ہے۔
اب اطلاع یہ ہے کہ صورتحال سے توجہ ہٹانے کے لیے مودی سرکارکوئی بڑا ڈرامہ اسٹیج کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ ڈرامہ کرنے میں بھارتی وزیر اعظم یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بڑی شد و مد کے ساتھ اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ بھارتی حکومت اپنے ملک میں جاری احتجاج سے توجہ ہٹانے کے لیے کسی بھی وقت ایل او سی پر شرارت کر سکتی ہے۔
انھوں نے اپنی گفتگو میں اس بات کا اظہار بھی کیا کہ لائن آف کنٹرول پر بھارت کی جانب سے براہموس اور اسپائیک اینٹی ٹینک میزائل نصب کرنے کی اطلاعات بھی ہیں۔ دوسری طرف پاک فوج کی جانب سے بھی دشمن کو واضح طور پر پیغام دے دیا گیا ہے کہ دشمن کے مس ایڈونچر کا بھرپور جواب دینے کے لیے ہم تیار ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ لائن آف کنٹرول پہنچ گئے وہاں انھوں نے فوجی افسران اور جوانوں کے حوصلوں کو سراہا اور کہا کہ امن کی خواہش کو کسی صورت کمزوری نہ سمجھا جائے، مادر وطن کے لیے ہر جارحیت کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
دنیا اس بات کو بخوبی جانتی ہے، دونوں ملک ایٹمی پاور ہیں، دونوں کے پاس کروز اور بیلسٹک ایٹمی ہتھیار ہیں۔ دونوں کے پاس سیکنڈ اسٹرائیک صلاحیت موجود ہے یعنی دونوں میں سے ایک ملک چھپ کردوسرے کو برباد کرنے کے لیے حملہ کر دے گا تو وہ خود بھی برباد ہوجائے گا۔
مودی نے ''وکاس ''(ڈویلپمنٹ )کے نعرے پر الیکشن جیتا تھا لیکن اب تک وہ اپنے ملک کو قطعی طور پر ڈویلپمنٹ نہیں دے سکے۔ وہ اپنی کارکردگی سے توجہ ہٹانے کے لیے کبھی ہمسایوں سے چھیڑچھاڑ کرتے ہیں اور کبھی ملک کے اندر موجود اقلیتوں کا جینا حرام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عالمی برادری کی اس صورتحال پر خاموشی تشویش کا باعث ہے، اقوام متحدہ ، او آئی سی اور بڑی عالمی طاقتیں محض بیان بازی سے نکل کر بھارت کی انتہا پسند سرکار کے شر سے ناصرف بھارت کے عوام کو بچائیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک کا بھی تحفظ کریں۔
اس وقت بھارت دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد ریاست بنی ہوئی ہے، جوناصرف جنوبی ایشیاء بلکہ پوری دنیا کے امن کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے ، اس کے بڑھتے ہوئے قدم روکنا ناگزیر ہے۔اس کی سرپرستی میں مسلمان خواتین کی بے حرمتی کا لامتناہی سلسلہ بند کرنے کے لیے آج پھر ایک حجاج بن یوسف کی ضرورت ہے، جو ایک مظلوم مسلمان بچی کی پکار پر تڑپ اٹھا اور محمد بن قاسم جیسے جرات و بہادری کے پیکر نوجوان کو بھیج دیا جس نے ہندوستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ بھارت اور خصوصاً کشمیر کی مسلمان بچیاں آج پھر کسی حجاج بن یوسف کی منتظر ہیں۔
اس وقت دنیا کے نقشے پر ستاون مسلمان ممالک موجود ہیں اور ان تمام کے درمیان تعاون کو فروغ دینے کے لیے او آئی سی ایک عالمی تنظیم ہے جس نے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم نے بھارت سے کہا ہے کہ بھارتی حکومت مسلمانوں اور ان کے مقدس مقامات کی حفاظت یقینی بنائے لیکن کیا اتنا کہنا کافی ہے؟ کیا ان ستاون اسلامی ممالک میں ایک بھی حجاج بن یوسف نہیں؟ آج ہندوستان خصوصاً کشمیر کی بچیاں دوہائی دے رہی ہیں ''اے غیرت مسلم جاگ ذرا''۔