وقت تیزی سے گزر رہا ہے

دنیا کے وہ ممالک جوگرین ہاؤس گیسوں کا سب سے زیادہ اخراج کرتے ہیں


محمود عالم خالد December 25, 2019
[email protected]

عالمی درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے کے تباہ کن نتائج انسانیت کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ یہ عالمی بحران اب ایسے مقام پر پہنچ چکا ہے ، جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہے۔ انسان کئی دہائیوں سے کرہ ارض کے خلاف حالت جنگ میں ہے لیکن اب سیارے نے انسان کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ ہمیں ماحولیاتی بحران کا سامنا ہے، یہ ہمارے سامنے ہے اور تیزی سے ہماری جانب بڑھ رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوٹریس نے یہ خبردارکر دینے والے الفاظ عالمی ماحولیاتی کانفرنس (COP 25) کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہے۔ اسپین کے شہر میڈریڈ میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں تقریباً 200 ملکوں کے مندوبین شریک ہوئے۔ کانفرنس 2 دسمبر سے 13 دسمبر تک شیڈول تھی لیکن کسی حتمی اعلامیہ تک پہنچنے کے لیے اس میں مزید 40 گھنٹے کی توسیع کرنا پڑی جو کہ بذات خود ایک ریکارڈ ہے۔

COP 25 کے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ آیندہ برس (COP26) تک کاربن کے اخراج کوکم کرنے سے متعلق وعدوں پر مبنی تجاویز پیش کی جائیں، کہا گیا کہ 2015 کے پیرس معاہدے میں مقررکیے گئے اہداف اور آج کی صورت حال میں اس فرق کو دورکرنے کے لیے تیز رفتار اقدامات کیے جائیں۔ اس حوالے سے دنیا کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مزید کہا گیا کہ گرین ہاؤس گیسوں کے موجودہ اخراج اور پیرس معاہدے پر متفقہ طور پر طے کیے جانے والے اہداف کے درمیان فرق کوکم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

عالمی ماحولیاتی کانفرنس کا بنیادی مقصد 2015 میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں متفقہ طور پر طے پانے والے تاریخی ماحولیاتی معاہدے جسے پیرس کلائمیٹ ڈیل بھی کہا جاتا ہے کے تناظر میں ایک لائحہ عمل ترتیب دینا تھا۔

اس معاہدے میں طے کیا گیا تھا کہ عالمی درجہ حرارت میں اضاے کو 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدودکیا جائے گا جب کہ 2020 سے ایک روڈ میپ کا نفاذ عالمی سطح پر کر دیا جائے گا، لیکن یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ پیرس معاہدے پر دستخط کرنے کے 3 سال بعد بھی دنیا کے صنعتی ممالک معاہدے میں کیے گئے، اپنے وعدے پر قائم نہیں رہے۔ ان ملکوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے 1987میں مونٹریال میں کیے گئے معاہدوں، 1997 میں کیوٹو پروٹوکول اور 2009میں کوپن ہیگن میں کیے گئے معاہدے بھی ناکامی سے دوچار ہوئے۔

اس عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں بھی ہمیشہ کی طرح امیر اور غریب ملکوں میں واضح تقسیم نظر آئی۔ حتمی مسودے پر ترقی پذیر اور غریب ملکوں کی جانب سے شدید اعتراضات اٹھائے گئے۔ ان ملکوں کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں سے سمندروں کی سطح میں اضافے ، شدید گرمی سے ہونے والے سانحات کی ادائیگی اور ان کے ازالے کے لیے دی جانے والی امداد اور ان میں عدم مساوات کے قواعد وضوابط کاربن گیسوں کے حوالے سے مارکیٹ کے قوانین پر مبنی نظام جیسے اہم معاملات پر اٹھائے گئے اعتراضات طے نہیں کیے جا سکے۔

بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی گزشتہ اکتوبر میں جاری کی جانے والی چشم کشا رپورٹ 1.5 C پر کسی قسم کے سنجیدہ رد عمل کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے سائنسی شواہد کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ کچھ قانونی نکات کی زبان کو جو موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے تھی بند کمرے میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی اس وقت غریب ملکوں کے نمائندے موجود ہی نہیں تھے۔

دنیا کے وہ ممالک جوگرین ہاؤس گیسوں کا سب سے زیادہ اخراج کرتے ہیں۔ ان میں امریکا، برازیل، چین، بھارت اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے کیے جانے والے مطالبات کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت کرتے نظر آئے۔ اس بات میں اب کوئی ابہام باقی نہیں رہا کہ وہ تمام ممالک جوکاربن اخراج کے بڑے ذمے دار ہیں وہ ہمیشہ اہم معاملات اور معاہدوں کو ناکام بنانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ زمینی حقائق بناتے ہیں کہ ہر ملک زہریلی گیسوں کے اخراج میں یکساں طور پر حصہ نہیں ڈال رہا ہے اور ہر ملک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو روکنے کی استعداد بھی نہیں رکھتا ہے۔

مثال کے طور پر پاکستان کاربن کا اخراج کرنے والے ملکوں کی فہرست میں 135 ویں نمبر پر آتا ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثرہ ملکوں کی فہرست میں 5 ویں نمبر پر ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے لاحق بڑے خطرات میں کون سا ایسا مظہر ہے جس کا شکار پاکستان نہیں۔ رواں برس ستمبر میںکیٹیگری 5 کی طاقت کے سمندری طوفان نے بہاماس میں تباہی مچائی۔ سائنسدانوں کے مطابق اس طوفان میں عالمی حدت کی وجہ سے مزید شدت پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں 70 افراد ہلاک ہوئے، مجموعی طور پر 3.4 بلین ڈالرکا نقصان ہوا۔

اس طوفان کو عالمی حدت کی بدترین مثال قرار دیا گیا۔ بہاماس عالمی سطح پرکاربن کے اخراج میں 0.02 فی صد کا ذمے دار ہے۔ اس کے باوجود وہ موسموں کی شدت کا شکار ہے، اس کے لیے سمندری سطح میں ہونے والے اضافے کے خطرات میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

عالمی ماحولیاتی کانفرنس نے جہاں پیرس معاہدے کے حوالے سے ٹھوس اقدامات اٹھانے سے گریز کرتے ہوئے اہم شعبوں میں کیے جانے والے واضح فیصلوں کو ملتوی کیا وہیں کچھ پیش رفت بھی نظر آئی۔ اس حوالے سے دنیا کے تقریباً 80 ملکوں نے کہا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اپنے لیے زیادہ اہداف کو بھی قبول کریں گے۔ نصف امریکا کی نمائندگی کرنے والے گورنرز اور میئروں کے اتحاد نے کہا کہ وہ پیرس معاہدے کے پابند ہیں جب کہ دنیا کے سب سے بڑے معاشی بلاک یورپی یونین نے تاریخی گرین ڈیل کا اعلان کیا جس کے تحت 2050 تک عالمی موسمیاتی تغیرات کے اثر کو ختم کیا جائے گا۔

دنیا بھر کے سائنس دانوں ، کرہ ارض پر رہائش پذیر اربوں انسانوں کی نظریں اس ماحولیاتی کانفرنس پر مرکوز تھیں جس کا ہیش ٹیگ '' کارروائی کا وقت '' تھا لیکن یہ اپنے بنائے ہوئے نعرے کو عملی جامہ پہنانے میں مکمل طور پر ناکام ہوئی۔

اس بات کی قوی امید کی جا رہی تھی کہ دنیا بھر کے معتبر سائنس دانوں کی جانب سے پیش کردہ تحقیقی رپورٹوں اور ناقابل تردید شواہد اور پورے سال موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف لاکھوں مظاہروں میں کروڑوں لوگوں کی شرکت اور دنیا بھر میں تیزی سے بڑھتے ہوئے موسمیاتی سانحات کے تناظر میں سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات اٹھاتے ہوئے پیرس معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ میں COP25 کے نتائج سے بہت مایوس ہوا ہوں۔ عالمی برادری نے موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے تخفیف ، مطابقت اور مالی اعانت میں اضافے کی خواہش ظاہر کرنے کا اہم موقع گنوا دیا۔

دنیا اس بات پر متفق نظر آئی کہ COP25 موسمیاتی تبدیلی کے خلاف لڑنے کی حکمت طے نہ کرسکی لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ کرہ ارض کو لاحق خطرات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں