ہنگامہ رہا برپا۔۔دنیا بھر کے عوام بپھرگئے احتجاج اور مظاہروں کا سال دیس دیس چناؤ کے میلے سجے

سیاسی کروٹوں سے تنازعات کی حدتوں تک، قتل وغارت گاری سے حادثات اور آفات تک پھیلے عالمی واقعات

سیاسی کروٹوں سے تنازعات کی حدتوں تک، قتل وغارت گاری سے حادثات اور آفات تک پھیلے عالمی واقعات

ابھرتے سورج کے پیچھے سے پھر ایک نیا سال طلوع ہونے والا۔ 2020کا دنیا بھر میں جشن منا کر استقبال کیا جائے گا۔

اس جشن کے شور میں پھر ایک بار پرانے سال کو فراموش کردیا جائے گا۔ گزرا ہوا سال ہو یا انسان شاید سب کا مقدر یہی ہے کہ اسے بھلا دیا جائے۔ لیکن بہت کچھ بھولتے بھولتے اگر بہت کچھ ہم اپنی یادداشت کے خانوں میں محفوظ کرلیں تو آگے کا سفر کم تکلیف دہ اور شاید کچھ آسان ہوجائے۔ 2019 میں دنیا کے عالمی سیاسی منظرنامے نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مرکوز کیے رکھی۔ یہ بین الاقوامی سیاست کا وہ عجیب سال رہا جس میں ''طاقت کے توازن'' اور ''قوانین پر مبنی حکم رانی '' کے اصولوں کی کوئی اہمیت نہ رہی۔

بین الاقوامی ادارے ثانوی بلکہ غیر اہم ہوگئے۔ ایک طرف عالمی دورے اپنے عروج پر رہے، سفارتی ملاقاتیں ہوتی رہیں لیکن دوسری طرف ذہنی ہم آہنگی کا فقدان رہا۔ خلل ڈالنے والے عناصر فائدہ اٹھاتے رہے او ر تقریباً تمام بڑے بڑے مسائل جوں کے توں حل طلب پڑے رہ گئے۔ عالمی اسٹریٹیجک ایشوز، چاہے ان کا تعلق مشرقِ وسطی میں قیامِ امن سے ہو، یوکرین کا تنازعہ ہو یا پھر جزیرہ نما کوریا کا تناؤ ہو، منجمد حالت میں رہے، ان کے حل کے لیے اگر کوششیں کی بھی گئیں وہ اس قدر بودی تھیں کہ ان کے مستقل مثبت نتائج برآمد نہ ہوسکے۔

گزرے سال کی عالمی سیاست میں ٹیکنالوجی کا بہت عمل دخل رہا۔ ڈیٹا اور معلومات پر عبور حاصل کرنے کی جدوجہد نے بیشتر ممالک کے درمیان مسابقت کی ایک نئی دوڑ شروع کردی۔ فائیو جی موبائل نیٹ ورک ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کو میدانِ جنگ کے طور پر استعمال کیا گیا۔

یہ امر بھی دل چسپ رہا کہ دنیا کی سب سے بڑے طاقت قرار دیا جانے والا امریکا، اپنے یورپی اتحادیوں کے تعاون کو معمولی ترین خیال کر کے ان سے نالاں رہا اور بالآخر خود کو اتحادی سیاست سے الگ کر بیٹھا۔ ایشیائی اتحادیوں سے بھی امریکا شکوہ کناں رہا کہ اس کے اڈوں کے لیے یہ ممالک جو قیمت وصول کرتے ہیں۔ اس کے بدلے میں امریکا کے ساتھ بہت کم تعاون کرتے ہیں۔ اس سال میں بین الاقوامی تنازعات بھی بڑھتے چلے گئے، جنگ زدہ خطوں کی صورت حال مزید ابتر ہوئی۔ 2019 میں اور مزید کیا کیا اور کب ہوا اس کا مکمل جائزہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔

مظاہروں کا سال

2019 میں پوری دنیا میں جس بڑی تعداد میں عوامی مظاہرے دیکھنے کو ملے، اس کی مثال ماضی میں بہت کم ملتی ہے ۔ 1989 ، 1968 اور2011کے بعد2019 ہی وہ سال رہا جب عوامی مظاہروں نے بے شمار خطوں کے حکم رانوں کو گھٹنے ٹیکنے ہر مجبور کردیا ۔ الجیریا، سوڈا ن اور بولیویا میں سالوں سے مسلط چہروں پہ ہوائیاں اڑی رہیں، تو دوسری جانب عراق اور لبنان کے وزرائے اعظم کی جان وہاں کے عوام نے استعٰفی لے کر ہی چھوڑی۔ چلی، ایکواڈور، ارجینٹینا، ہانگ کانگ، مصر، ہیٹی اور گیانا میں بھی لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔

برطانیہ، روس اور فرانس جیسے ترقی یافتہ ممالک کی سڑکوں پر بھی شور مچا رہا۔ ان مظاہروں میں جان دالنے اور ہوا دینے میں بلاشبہہ سوشل میڈیا نے ایک اہم کردار ادا کیا ، جس کی وجہ سے لوگ ایک پکار پر جمع ہوتے چلے گئے۔

16فروری میں الجیریا میں عوامی مظاہروں کی ابتدا ہوئی۔ اس کو Revolution of Smile کا نام دیا گیا ۔ الجیریا کے صدر عبدالعزیز بوتفلیقہ نے اپنے منصب کے پانچویں دور کا حلف اٹھایا تو عوام بپھر گئے اور انہوں نے مظاہرے کیے اور صدر کے خلاف فوج سے مدد مانگی، بالآخر اپریل تک جاری مظاہروں میں عوام کی فتح ہوئی اور صدر کو مستعفی ہونا پڑا ۔ سوڈان میں عوامی مظاہروں کی ابتدا گر چہ 19دسمبر2018 میں مہنگائی کے خلاف عوام کے سڑکوں پہ نکل آنے سے ہوئی تھی لیکن 2019یہاں ہونے والے مظاہروں کے عروج کا سال رہا۔ سول نافرمانی کی تحریک میں عوام نے تیس سال سے قابض حکم راں عمرالبشیر کو منصب سے ہٹا تو دیا لیکن اس کے بعد بھی امن سوڈان کا مقدر نہ بن سکا۔

صدر کا تختہ الٹنے کے بعد فوج یہاں قابض ہو گئی اور دو سال تک حکومت کرنے کا اعلان کردیا۔ مشرقِ وسطیٰ کی طاقتیں موقع سے فائدہ اٹھا کر خرطوم میں مداخلت کرنے لگیں ، جس کی وجہ سے سڑکیں عوام کے خون سے رنگ گئیں۔ اگست کے مہینے میں ایک خود مختار کونسل کے قیام کے بعد بالآخر مظاہروں میں ٹھہراؤ آیا اور امن اس خطے کا نصیب بنا۔

لاطینی امریکا کے ممالک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ بولیویا، وینیزویلا، چلی، ہیٹی، ایکواڈور، کولمبیا اورپیٹرو رائیکو میں کم آمدنی، سیاسی اور مالی کرپشن، سیاست دانوں کے اسکینڈلز اور نجی ملکیت کے معاملات ان مظاہروں کی بڑی وجہ بنے۔ ان تمام ممالک میں عوام کے مطالبات تقریباً ایک جیسے رہے، جس میں جمہوریت، سالوں سے مسلط حکم راں چہروں کی تبدیلی، اصلاحات اور کرپشن کا خاتمہ سر فہرست تھے ۔ لاطینی امریکا کے ان ممالک میں سول نافرمانی کی تحریکوں نے زور پکڑا اور اس کے لیے انٹرنیٹ اور سماجی میڈیا کے بہت زیادہ استعمال کیا گیا۔ ہڑتالیں ہوئیں، نظام زندگی مفلوج کر دیا گیا، بغاوتوں نے جنم لیا، جس کے نتیجے میں ہلاکتیں بھی ہوئیں اور املاک کو نقصان بھی پہنچا۔

ہیٹی میں بھی مظاہروں کی ابتدا اگرچہ2018کے وسط سے ہوئی لیکن تا حال ہیٹی میں امن قائم نہیں ہو سکا۔ وینیزویلا سے ملنے والے فنڈ کے استعمال میں بے ضابطگی پر صدر موائس کے خلاف اپوزیشن نے مظاہرے شروع کیے جو جلد ہی ایک عوامی تحریک میں تبدیل ہو گئے ۔ جون تک ان مظاہروں میں شدت آگئی۔ مظاہرین صدر سے استعفٰی کا مطالبہ کرتے کرتے پر تشدد کاروائیوں پر اتر آئے اور اکتوبر تک پورے ملک میں حالات اس قدر بگڑ گئے کہ نظام ِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔ اب تک ان مظاہروں میں سترہ افراد ہلاک جب کہ ایک سو نوے زخمی ہو چکے ہیں۔



اکتوبر2019میں بولیویا میں ہونے والے انتخابات کو متنازعہ قرار دیتے ہوئے یہاں بہت بڑے عوامی مظاہروں کا آغاز ہوا ۔ یہ مظاہرے گیس کی قیمتوں کے خلاف اور دوبارہ الیکشن کروانے کے لیے کیے جا رہے تھے۔ صدارتی انتخابات میں موریلز نے کامیابی حاصل کی تھی جس پر عوام میں غصہ اور بے چینی عروج پر پہنچ گئی اور وہ سڑکوں پر جمع ہوگئے۔ ان خونی مظاہروں میں تینتیس ہلاکتیں ہوئیں جب کہ آٹھ سو چار افراد زخمی اور پندرہ سو کے قریب گرفتار ہوئے۔

وینیزویلا کا کئی سال سے جاری تنازعہ اس سال بھی سر فہرست رہا۔ صدر مدورو کے خلاف یہ مظاہرے جنوری کے مہینے سے تاحال جاری ہیں۔ احتجاج کے دوران مظاہرین پر فائرنگ، شیلنگ اور آنسو گیس کا بد ترین استعمال کیا جاتا رہا ، مارپیٹ اور بدترین تشدد کیا گیا لیکن اقوام ِ متحدہ بس چیخ چلا کر اپنا حق ادا کرتی رہی اور باقی عالمی طاقتیں چین کی بانسری ہاتھ میں لیے اونگھتی رہیں ۔

اس وقت بھی یہاں کے عوام کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک سڑکوں پہ رہیں گے جب تک انہیں ظلم کے اس نظام سے آزادی نہیں مل جاتی۔ وینیزویلا کے اس بحران پر دنیا کے بڑے ممالک بھی گروہ بندی کا شکار ہو کر سیاست چمکا رہے ہیں۔ روس، چین، ترکی اور کیوبا نکولس مدورو کی حمایت پر ہیں تو دوسری جانب برطانیہ، امریکا، کینیڈا اور جرمنی جوآن گوائیڈو کی صدارت تسلیم کرتے ہیں۔ اسی سیاست میں پس کر وینیزویلا کے اس بحران کا تاحال کوئی حل برآمد نہ ہوسکا۔

تین اکتوبر کو ایکوا ڈور کی سڑکوں پر عوام، حکومت کے اس اعلان کے بعد نکل پڑے جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ حکومت ایندھن پر کئی دہائیوں سے جاری سبسڈی کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں ختم کر رہی ہے۔ اس کے بعد پٹرول کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا اور لوگوں کی قوتِ خرید دم توڑ گئی ۔ یوں یہاں پُرتشدد مظاہرے شروع ہوگئے، جس کے بعد ایمرجینسی نافذ کردی گئی۔ صدر لینن کی کفایت شعاری مہم کو لوگوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا اور قومی اسمبلی میں داخل ہو کر ''ہم عوام ہیں '' کہ نعرے لگاتے رہے۔ مظاہرین نے صدر سے استعفٰی کا مطالبہ بھی کیا، ایکواڈور کے صدر کو سات لاطینی ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے لہٰذا وہ اس عہدے پر تاحال موجود ہیں لیکن مظاہروں میں سات افراد کی ہلاکت کے بعد بالآخر ایک سمجھوتے کے نتیجے میں مہینے بھر کے اندر اندر یہ مظاہرے ختم ہوگئے۔

اکتوبر کا مہینہ چلی کی حکومت پر بھی بھاری رہا جب دس لاکھ افراد سڑکوں پہ نکل آئے اور معاشی اصلاحات کا مطالبہ کیا ۔ صدر نے اہم اقدامات لیتے ہوئے کابینہ کو برطرف کر دیا اور تمام وزراء کو نوٹس بھیجا کہ کابینہ کو از سر نو ترتیب دیا جائے تاکہ نئے مطالبات کو پورا کیا جاسکے۔ ان مظاہروں میں پرتشدد واقعات بھی پیش آئے جس کے نتیجے میں سترہ افراد ہلاک اور سات ہزار گرفتار ہوئے۔ صدر کی طرف سے مظاہرین کو وحشی قرار دیے جانے پر ہنگامے مزید پھوٹ پڑے، جس کے بعد یہاں کرفیو نافذ کردیا گیا۔

سال کے اختتام پر بھی دنیا بھر میں تشدد کی وبا رکی نہیں۔ ایسا تاثر ملا جیسے عالمی سطح پر سازش رچانے والے اپنی چالیں چل رہے ہیں کہ مختلف ممالک کے لوگ خانہ جنگی کی طرف جا رہے ہیں۔ کہیں حکومت آس پاس کے علاقوں کو زبردستی اپنے علاقے میں ضم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے اور کہیں ریاستیں اپنی خود مختاری کے لیے حکومت کے ساتھ برسرپیکار ہے۔

ایسی ہی خانہ جنگی انڈیونیشیا میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے جہاں دنگے فساد کے نتیجے میں درجنوں لوگ ہلاک ہوگئے۔ انڈونیشیا کے علاقے پاپوا میں نسل پرستی کے خلاف ستمبر میں مظاہروں کے بعد احتجاج کا سلسلہ وسیع ہوگیا اور مظاہرین نے خطے کی خودمختاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی سرکاری عمارتوں کو نذر آتش کردیا جس کے نتیجے میں کم ازکم 27 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ نیوگینیا جزیرے کے مغربی علاقے پاپوا میں کئی ہفتے قبل نسل پرستی پر مظاہروں میں شدت آگئی تھی اور اب یہ پر تشدد احتجاج علاقے کی خودمختاری کے مطالبے میں تبدیل ہوگیا ہے۔ مقامی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ 16 افراد وامیرا شہر میں جاں بحق ہوئے جہاں سیکڑوں مظاہرین نے احتجاج کے دوران کئی سرکاری عمارتوں اور دفاتر کو آگ لگادی۔

ستمبر 2019مصر کی سرزمین پر ایک بار پھر بھاری ثابت ہوا۔ ہزاروں افراد نے قاہرہ سمیت کئی شہروں میں مظاہرے شروع کردیے اور صدر عبد الفتح سیسی کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ ایک ہفتے تک یہاں بھرپور مظاہرے ہوئے جن میں درجنوں افراد گرفتار کر لیے گئے ۔2014میں سیسی کے بر سر اقتدار آنے سے لے کر اب تک ان کے خلاف مظاہرے ہونا معمول بن چکا ہے۔ حالیہ مظاہرے سیسی کے شاہانہ طرزِ زندگی اور عام آدمی کے گرتے ہوئے معیارزندگی پر شروع ہوئے۔ حیرت کی بات ت یہ تھی کہ مصر کے کسی مغربی اتحادی نے ان مظاہروں پہ ایک لفظ ادا کرنے کی بھی زحمت نہ کی۔

اکتوبر کے مہینے میں ہی لبنان میں ہونے والے عوامی مظاہرے گزشتہ ایک دہائی میں ملک میں ہونے والے سب سے بڑے اور منظم مظاہرے تھے۔ عوام میں غصے کی لہر دیکھتے ہوئے حکومت نے پارلیمان کے ارکان کی تنخواہوں میں کٹوتیوں کا اعلان کردیا۔ لبنان میں مظاہروں کا آغاز واٹس ایپ کی کال پر مجوزہ ٹیکسوں کی وجہ سے ہوا۔ اگرچہ احتجاج کے بعد یہ ٹیکس واپس لے لیا گیا لیکن عوام معاشی بدعنوانی اور بد نظمی کے خلاف متحد ہو گئے۔

واضح رہے کہ لبنان میں عوامی قرضوں کا بوجھ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ جو کہ یہاں کے جی ڈی پی کے ڈیڑھ سو فی صد سے بھی زیادہ ہے۔ ہر تین میں سے ایک شخص غربت کی لکیر سے نیچےزندگی گزار رہا ہے۔ عدم مساوات اپنے عروج پہ ہے۔ اسی بنا پر یہاں عوام میں غم و غصہ اپنے عروج پہ تھا ۔ ان مظاہروں کی ایک خاص بات یہ تھی کہ یہ کسی بھی قسم کے فرقہ وارانہ تعصب سے پاک تھے، جب کے لبنان کا ماضی اس تعصب میں لتھڑا ہوا ہے۔

مختلف سماجی گروہوں نے ان مظاہروں میں حصہ لیا۔ ان مظاہرین کا مطالبہ وزیر اعظم سعد الحریری کا استعفا تھا۔ استعفٰی کے بعد یہ مظاہرے ذرا دیر کو تھمے لیکن نومبر کے مہینے میں ایک بار پھر لبنان کی سڑکوں پہ مظاہرین کے چھوٹے چھوٹے گروہ نکل آئے، اس بار ان کا مطالبہ عوام کی امنگوں کے مطابق نئی حکومت کی تشکیل تھا۔ لبنان میں ہونے والے ان مظاہروں میں دس لاکھ افراد سڑکوں پر جمع ہوئے۔ قومی یکجہتی کا ایسا عظیم مظاہرہ بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ عام افراد کا کہنا ہے کہ ہم احتساب کا عمل مکمل ہونے تک سڑکوں سے نہیں جائیں گے اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم نے ان مظاہروں میں فرقہ واریت پہ قابو پاکر لبنان کو نئی پہچان دی ہے۔

عراق میںاکتوبر سے جاری مظاہرے تادمِ تحریر جاری ہیں۔ دسمبر میں، ان مظاہروں میں شدت کے بعد عراقی پارلیمان نے وزیراعظم عبدالمہدی کا استعفی منظور کرلیا۔ اکتوبر کے اوائل میں بغداد سمیت عراق کے دیگر شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے ۔ حکومتی غلط ردِعمل کی وجہ سے یہ مظاہرے جلد ہی پرتشدد مظاہروں میں بدل گئے، جس میں چار سو افراد ہلاک جب کہ ہزاروں عراقی شہری زخمی ہو گئے۔ ان مظاہرین کا مطالبہ نوکریوں کی فراہمی ، کرپشن کا خاتمہ اور بہترین شہری سہولیات کا حصول ہے۔

افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے ان مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے مسلسل آتشیں اسلحے کا استعمال کیا جارہا ہے۔ مظاہرین میں ایران کے خلاف کافی غم و غصہ پایا گیا، ان کا کہنا تھا کہ ایران عراق کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے ، اسی لیے انہوں نے ایرانی قونصل خانے کو بھی نذر ِ آتش کر دیا۔ عراق کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے باعث وہاں کرفیو بھی نافذ رہا اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس بلاک کردی گئیں۔ ان مظاہروں میں پانچ سو کے قریب مظاہرین ہلاک ، جب کہ بیس ہزار کے قریب زخمی ہو ئے ۔

water revolutionکے نام سے ہانگ کانگ میں چھے ماہ سے مظاہرے جاری ہیں ، جن میں اب تک گیارہ افراد ہلاک جب کہ ڈھائی ہزار زخمی ہو گئے ہیں۔ اس وقت بھی سڑکوں پر عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موجود ہے۔ چین کی حکومت کی جانب سے ملزمان کی حوالگی سے متعلق قانون سازی کی جو کوشش کی گئی اس کے خلاف عوام ہانگ کانگ میں مظاہروں پر عائد پابندی کو جوتوں تلے روندتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ اب ہانگ کانگ اور چین ، دونوں حکومتوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود پانی سر سے اونچا ہو چکا ہے اور مظاہرین قابو سے باہر ہو چکے ہیں۔

مظاہرین کی یہ جدوجہد جمہوریت کے لیے ہے ۔ واضح رہے کہ ہانگ کانگ چین کا حصہ ہے لیکن 2047تک اسے خصوصی آزادیاں دی گئی ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ چین ہانگ کانگ کو اپنا ایک شہر بنانا چاہ رہا ہے ، جو انہیں قبول نہیں۔ ہانگ کانگ کے اندرونی معاملات میں چین کی راہِ راست مداخلت ایک عرصے سے جاری ہے ، جس سے لوگ بری طرح خائف ہیں۔ چین ہانگ کانگ کو مزید سیاسی اور جمہوری آزادی دینا نہیں چاہتا، لہٰذا یہ مظاہرے چین کی حاکمیت کے لیے ایک بہت بڑا چیلینج بن چکے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہانگ کانگ مظاہروں کے حق میں بل کی منظوری دے ڈالی، جس پر چین نے شدید ردِعمل دیتے ہوئے سخت جوابی اقدام کی دھمکی دی۔

21اکتوبر کو بنگلادیش میں ایک فیس بک پوسٹ پر مظاہرے شروع ہوگئے۔ ہزاروں مظاہرین پر پولیس نے فائرنگ کردی جس سے 4 افراد جاں بحق جبکہ سو کے قریب زخمی ہوگئے۔ فیس بک پوسٹ ایک ہندو کی تھی جسے توہین مذہب پر مبنی قرار دیا گیا۔ 16 کروڑ 80 لاکھ مسلمانوں کی آبادی والے ملک بنگلادیش میں گستاخانہ سمجھی جانے والے فیس بک پوسٹس پرہجوم کے حملے سکیورٹی فورسز کے لیے بڑا مسئلہ بن کر سامنے آئے۔ جزیرے بھولا کے علاقے برہان الدین میں نمازکی اجتماع گاہ میں اندازاً 20 ہزار افراد نے مظاہرہ کرتے ہوئے مذکورہ ہندو نوجوان کی پھانسی کا مطالبہ کیا۔

اکتوبر میں ہی ایتھوپیا کے وزیراعظم ابی احمد کیخلاف پُرتشدد مظاہرے شروع ہوگئے، جن میں 5 پولیس اہلکاروں سمیت 67 افراد ہلاک ہوئے۔ ایتھوپیا میں وزیراعظم ابی احمد کے خلاف سماجی کارکن جوار محمد کی اپیل پر ہونے والے مظاہروں نے دیکھتے ہی دیکھتے تشدد کی صورت اختیار کرلی اور اسی دوران نسلی جھڑپوں کا آغاز ہوگیا۔

2019میں روس کی سڑکوں پر بھی تماشا لگا رہا۔ ماضی کے مقابلے میں سب سے زیادہ مظاہرین گرفتار کرکے جیلوں میں ٹھونسے گئے۔ صرف جولائی کے مہینے میں ایک ہزار گرفتاریاں ہوئیں۔ روس میں یہ مظاہرے اپوزیشن کی طرف سے مقامی انتخابات کے شفاف انعقاد کے لیے شروع کیے گئے۔

2018میں فرانس میں شروع ہونے والے یلو ویسٹ مظاہروں کا زور 2019میں بھی رہا۔ فرانس کے صدر میکرون کی پالیسیوں پر مظاہرین پورا سال عدم اعتماد کا اظہار کر تے ہوئے چھوٹے بڑے مظاہرے کرتے رہے۔ فرانس میں یہ مظاہرے دراصل سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف شروع کیے گئے، ان کو کچلنے کے لیے فرانسیسی حکومت نے اکثر سختی سے بھی کام لیا اور گرفتاریاں بھی کی گئیں۔ ان مظاہروں میں فرانس میں اب تک گیارہ افراد ہلاک ، ساڑھے چار ہزار زخمی اور بارہ ہزار سے زائد افراد گرفتار ہو چکے ہیں۔

صرف بات یہیں تک محدود نہیں بلکہ اسکاٹ لینڈ کی سڑکوں کو بلاک کیے ہوئے ہزاروں مظاہرین برطانیہ سے علیحدگی کے لیے ریفرنڈم کا مطالبہ کرتے ہوئے نظر آئے۔ دوسری طرف اگست کے مہینے میں برطانیہ میں پارلیمنٹ کی معطلی ملک بھر میں شدید مظاہروں کا باعث بن گئی۔ یہ مظاہرین بریگزٹ کے خلاف بھی نعرے لگاتے رہے اور یہ اعلان بھی ہوا کہ آنے والے مہینوں میں یہ مظاہرے پورے برطانیہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے ۔

سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں اس قدر بڑے پیمانے پر عوامی مظاہرے کیوں دیکھنے کو ملے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیشن کی ترجمان روینہ شامد اسانی کہتی ہیں کہ اس کی وجہ عدم مساوات اور معاشی مسائل ہیں۔ ان مظاہروں پر اقوام ِ متحدہ نے بھی بار بار تشویش کا اظہار کیا۔ ان مظاہروں نے کم از کم ایک بات پہ تو مہر ثبت کردی کہ پوری دنیا میں عوام اپنے حکم رانوں اور ان کی بنائی گئی پالیسیوں سے خائف ہیں۔ عدم مساوات، بد عنوانی اور سماجی و معاشی حالات نے ان کا جینا دوبھر کر دیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عوام سیاست دانوں ، اشرافیہ اور اداروں پر سے اپنے اعتماد کو کھو چکے ہیں۔

یہ تو وہ بڑے واقعات تھے جو عوامی مظاہروں کا روپ دھار کر پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر وقوع پذیر ہوئے، ان کے علاوہ کتنے ہی مظاہرے تو وہ ہیں پوری دنیا میں چھوٹے پیمانے پر ہوتے رہے۔ ان سب کا جائزہ لے کر ذہن میں صرف ایک ہی بات کی تکرار ہوتی ہے کہ، دنیا میں چاروں طرف آگ لگ چکی ہے، ایک نہ تھمنے والا ہنگامہ برپا ہے۔

ناقابل ِ برداشت شوروغل نے کانوں کے پردے پھاڑ رکھے ہیں۔ ہر کوئی بے چین ہے، ہر کونے میں افراتفری کا منظر ہے، ایسا لگتا ہے کہ کوئی اپنی زندگی اور اطراف ہونے والے واقعات سے خوش نہیں۔ کہنے کو تو یہ بے چینی اور افراتفری تبدیلی کے لیے ہے لیکن تبدیلی کے نام پر ماضی میں بھی بے شمار ہنگامے اور مظاہرے ہوتے رہے، ان کے نتیجے میں بڑی بڑی تبدیلیاں بھی لائی گئیں یہاں تک کہ انقلاب نے بھی دروازوں پہ دستک دی مگر ان تبدیلیوں نے بھی انسانیت کو آخر کیا دیا۔ شاید مزید بے سکونی اور مزید بے چینی۔ شاید اسی لیے امن اور سکون اس زمین کی زینت نہ بن سکا۔

انتخابات کا سال

2019کا سال انتخابات کے حوالے سے وہ دلچسپ سال رہا جب دنیا بھر کے لوگوں نے اتنی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے جس کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔ 53ممالک کے تقریباً دو بلین شہریوں نے اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے ملک کے سربراہ کا انتخاب کیا۔

ان پچاس ممالک میں سے تین ممالک کے انتخابات دنیا کے بڑے انتخابات میں شامل کیے گئے جن میں پہلا نمبر انڈیا کا رہا، جہاں آٹھ سو ملین افراد نے ووٹ کاسٹ کیا، جس کے لیے گیارہ ملین الیکشن آفیسرز کو ڈیوٹی پہ تعینات کیا گیا۔ 187 ملین رجسٹرڈ ووٹرز کے ساتھ انڈونیشیا دوسرے نمبر پر جب کہ نائیجیریا تیسرے نمبر پہ رہا جہاں84ملین افراد نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ فروری کے مہینے میں تین ممالک میں انتخابات ہوئے، مارچ میں سات ممالک میں، اپریل میں دس، مئی میں بھی دس، جون کے مہینے میں چار، جولائی میں تین، اکتوبر میں نو، نومبر میں دو جب کہ دسمبر کے مہینے میں چار ممالک انتخابات کے عمل سے گزرے۔

اپریل کے آخر میں یوکرین میں صدارتی انتخاب میں ٹیلی ویژن پر طنزیہ مزاحیہ پروگرام پیش کرنے والے کامیڈین ولودومیر زیلینسکی نے واضح برتری سے کامیابی حاصل کی۔ ایگزٹ پول کے مطابق تین ہفتے قبل صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں بھی سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے نوآموز سیاست داں کو 70 فیصد سے زیادہ ووٹروں کی حمایت ملی۔

41 سالہ زیلینسکی نے اس الیکشن میں ملک کے موجودہ صدر پیٹرو پوروشنکو کو چیلنج کیا تھا اور پوروشنکو نے اپنی شکست تسلیم کرلی۔ ان نتائج کو ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی شکست کے طور پر دیکھا گیا۔ زیلینسکی ایک مقامی ٹیلی ویژن پر پیش کیے جانے والے طنزیہ ڈرامے میں استاد کا کردار ادا کررہے تھے جو کرپشن کے خلاف لڑتے ہوئے صدر منتخب ہو جاتا ہے اور ممکنہ طور پر اب انھوں نے اس خیال کو حقیقت کا روپ دے دیا۔ انھوں نے اپنی سیاسی جماعت کا نام بھی وہی رکھا جو ڈرامے میں دیا گیا تھا۔

انھوں نے انتخابات کے تمام روایتی اصولوں اور ضابطوں کے برخلاف کوئی جلسے منعقد نہیں کیے اور چند ایک انٹرویو دیے۔ ان کے بظاہر کوئی سیاسی نظریات نہیں ، سوائے اس کے کہ وہ یہ کہتے تھے کہ میں پچھلے صدور سے مختلف انداز میں ملک چلاؤں گا۔ زیلینسکی کے سوشل میڈیا پر بہت زیادہ فعال پونے کی وجہ سے انہیں نوجوان ووٹرز کی بہت حمایت ملی۔ یوکرین میں یوکرینی اور روسی زبانیں بیک وقت بولنا کافی مشکل سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ ملک علاقائی سیاست کی وجہ سے زبانوں کی سیاست پر تقسیم ہو چکا ہے۔ تاہم ولودومیر دونوں زبانوں میں گفتگو کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ یوکرین کے روسی زبان بولے جانے علاقوں میں کافی مقبول ہیں۔

مئی کے مہینے میں جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے خاتمے کے بعد نچویں پارلیمانی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں افریکن نیشنل کانگریس نے بھاری کامیابی حاصل کی۔ نومنتخب صدرCyril Ramaphosa نے یہ کامیابی مرحوم لیڈر نیلسن منڈیلا کے نام کی۔ ان انتخابات میں تقریباً 2کروڑ 68لاکھ رجسٹرڈ شہریوں نے اپنا ووٹ ڈالا۔ جنوبی افریقا کی کیبنٹ میں نصف سے زیادہ خواتین منتخب کی گئیں۔ جو یہاں ایک تاریخی قدم ثابت ہوا۔

2011کے عرب اسپرنگ کے بعد تیونس وہ واحد ملک ہے جو جمہوریت کی طرف منتقل ہوا۔ 2019کے انتخابات میں عوام نے تاریخ میں دوسری بار جمہوری طریقے سے صدر کا چناؤ کیا۔ جولائی2019 میں تیونس کے پہلے جمہوری صدر کی اچانک وفات کے بعد مقررہ مدت سے دو ماہ قبل یعنی ستمبر میں انتخابات کا انعقاد کیا گیا ۔ ان انتخابات کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس دوران عرب ممالک میں پہلی بار ٹی وی چینلز نے صدارتی امیدواروں کے درمیان مباحثے پیش کیے۔

اکتوبر کے مہینے میں جنوبی امریکی ملک ارجنٹینا میں ہونے والے عام انتخابات میں حکمراں جماعت ری پبلکن پارٹی اور صدر موریسیو ماکری کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے البرٹو فرنانڈز نے کامیابی حاصل کی۔ اطلاعات کے مطابق ارجنٹینا میں جنرل الیکشن میں جسٹسلسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے امیدوار البرٹو فرنانڈز 45 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے صدر منتخب ہوگئے۔ انہوں نے موجودہ صدر موریسیو ماکری کو شکست دے دی۔ صدر موریسیو ماکری نے شکست تسلیم کرتے ہوئے زمام کار البرٹو فرنانڈز کے حوالے کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ البرٹو فرنانڈز کے حامیوں اور کارکنوں نے ان کی کامیابی پر خوب جشن منایا اور آتش بازی کی۔ پہلا بار ایسا ہوا ہے کہ ارجنٹینا میں کوئی صدر دوبارہ منتخب ہونے میں ناکام ہوگیا ہو۔

جس وقت یہ تحریر پڑھی جا رہی ہوگی اس وقت تک فن لینڈ میں سنا مارین وزیراعظم کی حیثیت سے دفتر سنبھال چکی ہوں گی۔ چونتیس سالہ سنا مارین کو دنیا کی کم عمر ترین سربراہِ مملکت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ فن لینڈ کی سابق وزیر اعظم آنتی رائے کے استعفے کے بعد حکم راں جماعت نے کابینہ کی رکن سنا مارین کو دسمبر میں اس عہدے کے لیے منتخب کرلیا۔

اس سے قبل وہ وزیرِٹرانسپورٹ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہی تھیں۔ زیادہ دل چسپ امر یہ ہے کہ فن لینڈ حکومت میں شامل تمام چاروں اتحادی جماعتوں کی سربراہ خواتین ہی ہیں۔ اگست کے مہینے میں دنیا کی سب سے چھوٹی جمہوریہ میں بھی انتخابات ہوئے، جس میں ووٹرز کی تعداد پوری دنیا میں سب سے کم ہے۔ گیارہ ہزار دو سو کل آبادی کے حامل ملک میں صرف سات ہزار افراد نے سربراہِ مملکت کے انتخاب میں ووٹ کاسٹ کیا۔ نورو ویٹیکن سٹی اور موناکو کے بعد دنیا کا سب سے چھوٹا ملک ہے۔

دسمبر 2019کو برطانیہ میں انتخابی میلہ سجا، جس میں بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی نے اکثریت حاصل کرلی۔ الیکشن سے قبل برطانیہ کی دو بڑی روایتی حریف جماعتوں کنزرویٹو پارٹی اور لیبر پارٹی میں سخت مقابلے کی توقع کی جارہی تھی تاہم بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی 365 سیٹیں جیت کر دارالعوام (ہاؤس آف کامنز) میں تن تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔

کنزرویٹو پارٹی نے 365 نشستوں کے ساتھ ایوان نمائندگان میں دیگر پارٹیوں پر 80 سیٹوں کی برتری حاصل کی ۔ برطانیہ میں 650 انتخابی حلقے ہیں جب کہ حکومت بنانے کے لیے دارالعوام میں 326 نشستیں درکار ہوتی ہیں۔

یہ کنزرویٹو پارٹی کی 1987 کے بعد سے سادہ اکثریت سے دوسری بڑی کامیابی ہے جب مارگریٹ تھیچر تیسری مرتبہ برطانیہ کی وزیراعظم منتخب ہوئی تھیں۔ بورس جانسن نے تاریخی فتح اور الیکشن میں واضح برتری حاصل ہونے کے بعد بکنگھم پیلس میں جا کر ملکہ برطانیہ سے ملاقات کی اور ان سے نئی حکومت بنانے کی درخواست کی۔

بورس جانسن کا کہنا ہے کہ عوام نے یہ مینڈیٹ یورپی یونین سے نکلنے کے لیے دیا ہے اس لیے برطانیہ آئندہ ماہ یورپی یونین چھوڑ دے گا۔ بورس جانسن کا مزید کہنا ہے کہ وہ عوام کے اعتماد پر پورا اُترنے کے لیے دن رات کام کریں گے۔ دوسری جانب لیبر پارٹی کے رہنما جیریمی کاربن نے انتخابات میں شکست پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے لیبر پارٹی کی سربراہی سے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے برطانوی میڈیا پر الزام عائد کیا ہے کہ انہیں میڈیا کی جانب سے ذاتی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ برطانوی میڈیا کے مطابق اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن کی لیبر پارٹی203 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

معاہدے اور مذاکرات

یمن 2019میں بھی سلگتا رہا۔ ایک لاکھ عام شہریوں کی ہلاکت کے بعد اقوام ِ متحدہ نے اسے دنیا کا بدترین بحران قرار دیا ہے۔ امن کے قیام کے لیے بارہا تجاویز دی گئیں لیکن یمن کے صدر ہادی منصور نے انہیں مسترد کردیا۔ ستمبر کے آغاز میں ہی یمن کے ایک حراست مرکز پر سعودی اتحادیوں کی بم بار ی سے سو افراد ہلاک ہوئے ۔

5نومبر2019کو یمنی حکومت اور جنوبی یمن کی علیحدگی پسند عبوری کونسل کے درمیان ریاض معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اقوام ِ متحدہ کے خصوصی ایلچی نے اس کو ایک تاریخی موقع قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ سمجھوتا عدن میں استحکام کو مضبوط بنائے گا اور یمنی شہریوں کی زندگی میں بہتری لائے گا۔ اس معاہدے کے وقت سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، یمنی صدر منصور ہادی اور ابوظبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید بھی موجود تھے۔ اس معاہدے کے مطابق یمنی حکومت چوبیس وزرا پر مشتمل ہو گی اور تمام ملٹری فورسز وزارتِ داخلہ کی ماتحت ہوں گی۔ یہ بھی طے پایا کہ فریقین سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد کے ذریعے بغاوت کچلنے کے لیے جدوجہد کریں گے ۔

پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں 13 فروری کو دوروزہ خصوصی وارسا کانفرنس کا انعقاد ہوا، جس میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور نائب امریکی صدر مائیک پینس کی شرکت کو خاصی اہمیت دی گئی ہے۔ شرکا میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی شامل ہیں جبکہ بعض عرب ممالک سمیت تقریباً ساٹھ اقوام کے نمائندے بھی شریک ہیں۔ کانفرنس میں خاص طور پر شرکاء کی توجہ مشرق وسطیٰ اور ایران پر مرکوز کی گئی ، ساتھ ہی مشرقِ وسطیٰ کو درپیش خطرات اور چیلنجز کا احاطہ بھی کیا گیا۔

امریکی وزیر خارجہ کا مزید نے اس موقع پہ کہا کہ خطے میں امن و استحکام کا حصول اُسی صورت میں ممکن ہے جب ایران کو مناسب انداز میں مختلف ممالک کے معاملات میں مداخلت سے روک دیا جائے۔ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں اس کانفرنس کو اپنے ملک کی خارجہ پالیسی میں ایک انقلاب قرار دیا ہے۔ نیتن یاہو نے اس کانفرنس میں اعلیٰ سطحی عرب وفود کی شرکت کا پرزور انداز میں خیرمقدم کیا۔ انہوں نے کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے کہا کہ یہ علاقائی ترجیحات میں تبدیلی کا واضح مظہر ہے۔

اس بین الاقوامی کانفرنس میں یورپ سے صرف برطانیہ کے وزیرخارجہ جیریمی ہنٹ شریک ہوئے۔ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے وارسا کانفرنس کو ایک سنگ میل قرار دیا۔ وارسا کے اجتماع میں جرمنی اور فرانس کی نمائندگی وزیر کی سطح پر نہیں کی گئی۔ اسی طرح یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیدریکا موگرینی بھی وارسا کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔

یورپی سفارت کاروں اور تجزیہ کاروں نے اہم یورپی اقوام کی عدم شرکت کو غیر معمولی قرار دیا ہے۔ دوسری طرف ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اس کانفرنس کو استہزائیہ انداز میں 'وارسا سرکس' کا نام دیا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ وارسا کانفرنس کا اہتمام اُسی روز کیا گیا جب روسی بندرگاہی شہر سوچی میں ایران، ترکی اور روس کے صدور شام کی تازہ ترین صورت حال پر غور و خوص کررہے تھے۔



وسطی امریکی ملکوں سے امریکا کی جانب غیرقانونی ہجرت کے انسداد کے لیے میکسیکو اور امریکا کے مابین بھی ایک معاہدہ سات جون کو طے پایا۔ امریکی محکمہ خارجہ میں تین دن تک جاری رہنے والے مذاکراتی عمل کے بعد اس ڈیل کو حتمی شکل دی گئی۔ ڈیل کے تحت میکسیکو نے گوئٹے مالا، ہنڈراس اور السلواڈور کے مہاجرین کو واپس لینے کی حامی بھر لی ہے۔ امریکی صدر نے میکسیکو پر جو پابندیاں عائد کرنے کا کہہ رکھا تھا، اس ڈیل کے نتیجے میں پابندیوں کا نفاذ ٹل بھی ٹل گیا۔

اس سال ترکی اور لیبیا کے درمیان ہونے والا سمجھوتا اس سال کا ایک اور بڑا عالمی واقعہ ہے۔ سلامتی و فوجی تعاون اور بحری اختیار کے علاقوں کی حد بندی کے سمجھوتے ستائیس نومبر کو کیے گئے۔ ان سمجھوتوں سے بحیرہ روم کے بعض ممالک میں تناؤ پیدا ہونے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔ یہ سمجھوتا اس لیے بھی اہم ہے کہ لیبیا میں اقوامِ متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کے سربراہ فائز السراج کو بین الاقوامی حمایت کی اشد ضرورت ہے ، کیوں کہ اپریل کے مہینے سے لیبین نیشنل آرمی دارالحکومت طرابلس میں برسرِپیکار ہے، اس کانہ جنگی کو ہوا دینے کے لیے اسے سعودی عرب اور مصر کی حمایت حاصل ہے ، جب کہ ترکی ، لیبیا کا پشت پناہ ہے ۔ قطر نے بھی اس معاملے مین ترکی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

اکتوبر کے مہینے میں روس اور ترکی کے درمیان تاریخی معاہدہ عمل میں آیا، جس میں دونوں ممالک نے کرد ملیشیا کو ترک سرحد کے ساتھ شام کے علاقوں سے نکالنے پر اتفاق کیا۔ نو اکتوبر کو ترکی نے شام کے شمال مشرقی سرحدی علاقوں مین موجود کرد ملیشیا کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تھا۔

طیب اردگان نے اس کارروائی کو آپریشن آف پیس اسپرنگ کا نام دیا تھا۔ حالیہ ہونے والیروس ترکی معاہدے کے مطابق ملیشیا کو ان کے اسلحے سمیت ہٹانے میں روسی ملٹری پولیس اور شام کے بارڈر گارڈز ترکی کی مدد کریں گے۔ روسی صدر نے ترکی اور شام کی سرحد پر کشیدگی کے خاتمے کے لیے اس معاہدے کو بہت اہم قرار دیا ۔ اس معاہدے میں یہ بھی طے پایا کہ دونوں ممالک شام میں جاری جنگ کا سیاسی حل نکالنے کی کوشش کریں گے اور علیحدگی پسند تنظیموں کے ایجنڈے کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ساتھ ہی دونوں ممالک نے شام کے مہاجرین کی اپنے ملک واپسی پر بھی اتفاق کیا ۔

دسمبر کے وسط میں جنوبی سوڈان کے دارالحکومت ''جوبا'' میں سوڈانی مذاکرات کے ذمہ داروں نے ایک دائمی اور ایسا جامع معاہدہ کرنے کے لیے اپنی تیاری کا اظہار کیا جس کی وجہ سے سوڈان میں جنگ کا خاتمہ ہو سکے اور آزادی، امن وسلامتی اور انصاف کے سلسلہ میں سوڈانی انقلاب کے اہداف ومقاصد مکمل ہو سکے۔ جنوبی سوڈان کے صدر سالوا کیئر مایارڈیت کے اقدام کے جواب میں ایک مذاکراتی معاہدہ کے بعد ہی تقریباً دو ماہ تک جاری رہنے والی تعطل کے بعد جنوبی سوڈان کے زیراہتمام سوڈانی امن مذاکرات کا یہ تیسرا دور ''جوبا'' میں شروع ہوا۔ اس دور میں شریک مسلح تحریکوں نے امن وسلامتی کا معاہدہ کرنے کی تیاری کا اظہار کیا اور انہوں نے اس مرحلہ کو فیصلہ کن کہا جبکہ جنوبی سوڈان کے صدر کے مشیر توت قلواک کی سربراہی میں ثالثی نے فریقین کے مابین اس دورہ کو فیصلہ کن بنانے کی حقیقی خواہش کی تصدیق بھی کی ۔

یوکرین اور روس کے درمیان سالوں سے جاری تنازعہ کے حل کے لیے دسمبر کے مہینے میں مذاکرات ہوئے۔ نارمنڈی گروپ کے نام سے مشہور روس، یوکرین، فرانس اور جرمنی کا سربراہی اجلاس نو دسمبر کو پیرس کے ایلزا پیلس میں منعقد ہوا جس کے بعد ایک مشترکہ بیان بھی جاری کیا گیا۔ اس بیان میں یوکرین میں مکمل جنگ بندی، تمام قیدیوں کے تبادلے اور مشرقی یوکرین کے بارے میں مینسک معاہدے پر مکمل عملدرآمد کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ ان مذاکرات میں فرانس کے صدر عمانوعیل میکرون، روس کے صدر ولادی میر پوتین، یوکرین کے صدر ولودی میر زیلنسکی اور جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے شرکت کی۔ یوکرین کا بحران شروع ہونے کے بعد سے روس اور یوکرین کے اعلٰی عہدیداروں کے درمیان یہ پہلی ملاقات تھی۔

مذاکرات میں رواں سال کے آخر تک مشرقی یوکرین میں مکمل جنگ بندی پر عملدرآمد پر اتفاق کیا گیا جس کے بعد جنگ اور جھڑپوں سے متاثرہ علاقوں کو بارودی سرنگوں سے صاف کرنے کا کام شروع کیا جاسکے گا۔ روس، یوکرین، فرانس اور جرمنی نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ تیس روز کے اندر اندر تمام جنگی قیدیوں کا تبادلہ بھی مکمل کرلیا جائے گا، جبکہ مینسک معاہدے کی بنیاد پر مشرقی یوکرین کے علاقوں لوھانسک اور دونتسک کو خصوصی خود مختاری دی جائے گی۔ نارمنڈی گروپ کے سربراہی اجلاس کا مقصد مشرقی یوکرین کے تنازعے کے سیاسی حل کی راہوں کا جائزہ لینا ہے۔

اس سے پہلے نارمنڈی گروپ کا سربراہی اجلاس اکتوبر دوہزار سولہ میں ہوا تھا۔ یوکرین رابطہ گروپ یا نارمنڈی گروپ کا قیام سن دوہزار چودہ میں عمل میں آیا تھا اور اس کا مقصد مشرقی یوکرین میں جاری جنگ اور جھڑپوں کو ختم کرنا ہے۔ مشرقی یوکرین میں سرکاری فوجوں اور حکومت کے مخالفین کے درمیان جھڑپوں کا آغاز سن دوہزار چودہ میں ہوا تھا اور اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق دس ہزار سے زائد لوگ اس تنازعے کے نتیجے میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان گذشتہ 10 ماہ سے جاری مذاکرات 8ستمبر2019 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تین 'بم شیل ٹویٹس' پر ختم ہوگئے۔ کچھ سیکنڈز میں کیے گئے مسلسل تین ٹویٹس میں امریکی صدر نے طالبان پر الزام لگایا کہ وہ اپنی سودے بازی کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کی منسوخی کی وجہ 5ستمبر کو کابل میں ہونے والے خودکش حملہ کو قرار دیا، جس میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کو قریب سے دیکھنے والے مبصرین نے صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کے بارے میں کہا کہ صرف ایک امریکی فوجی کی ہلاکت پر اُنھوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کر کے درست اقدام نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے پیچھے امریکی سیاست میں متحرک وہ لابی ہو سکتی ہے جو امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے خلاف ہے اور سمجھتی ہے کہ اس معاہدے کے بعد بھی افغانستان میں امن ممکن نہیں۔ بعدازاں دونوں فریق مذاکرات جاری رکھنے پر راضی ہوگئے۔

سیاسی کروٹیں

نو دسبر کو بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ میں وزیرِداخلہ امیت شاہ کی جانب سے ایک بل پیش کیا گیا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلادیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیرمسلموں کو شہریت دی جائے گی ہے لیکن مسلمانوں کو نہیں۔ بھارت کے ایوان زیریں لوک سبھا میں تارکین وطن کو بھارت کی شہریت دینے کا متنازع بل پیش کیا گیا۔

اس قانون کے تحت مسلمانوں کے علاوہ 6 مذاہب کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت دینے کی تجویز پیش کی گئی اور پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے ہندوؤں سمیت دیگر اقلیتوں کو بھارت کی شہریت دینے کی تجویز دی جبکہ مسلمانوں کو شہریت نہیں دی جائے گی۔ اس ضمن میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بل لوک سبھا سے منظور ہونے پر ٹوئٹ میں کہا کہ شہریت سے متعلق بل، بھارت کی صدیوں پرانی خواہش کا امتزاج ہے، جو انسانیت پسندی کا جزو ہے۔ مسلم تنظیموں، انسانی حقوق گروپوں اور دیگر لوگوں کے نزدیک یہ بل نریندر مودی کی جانب سے بھارت کے 20 کروڑ مسلمان کو پسماندہ کرنے کا حصہ ہے۔

پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے پنی ایک ٹوئٹ میں اس بل کی مذمت کرتے ہوئے اسے پاکستان کے ساتھ دو طرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھی بھارتی لوک سبھا سے منظور ہونے والے متنازع بل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر شہریت ترمیمی بل بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں منظور ہوتا ہے تو امریکی حکومت کو وزیر داخلہ امیت شاہ اور دیگر اہم قیادت کے خلاف پابندیوں پر غور کرنا چاہیے۔



اس کے علاوہ خود بھارتی اور بین الاقوامی اداروں کے تقریباً 100 سائنسدانوں اور اسکالرز نے بھی ایک مشترکہ خط جاری کیا جس میں اس قانون سازی کے عمل پر مایوسی کا اظہار کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی آئین میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو برابر کا درجہ دیا گیا ہے۔ تاہم مودی حکومت کے مجوزہ بل کی وجہ سے بنیاد پرستی تاریخ کا حصہ بن جائے گی اور یہ آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متضاد ہوگا۔ خط میں کہا گیا کہ بل سے انتہائی ہوشیاری سے مسلمانوں کو نکالنے سے بھارت کی اجتماعیت پر گہرا داغ لگے گا۔

یاد رہے کہ مودی حکومت نے اپنے گذشتہ دور میں بھی یہ متنازع قانون بنانے کی کوشش کی تھی، تاہم ایوان بالا (راجیا سبھا) میں یہ بل منظور نہیں ہو سکا تھا جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کی اتحادی جماعتوں کو اکثریت حاصل نہیں ہے۔ شہریت بل کا مقصد پاکستان، بنگلادیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت کی فراہمی ہے، اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔

اس بل کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ مرکز اس بل کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

بھارتی شہریت کے ترمیمی بل 2016 کے تحت شہریت سے متعلق 1955 میں بنائے گئے قوانین میں ترمیم کی جائے گی۔ اس بل کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھسٹ، جین، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی۔ اس بل کے خلاف بھارت کی متعدد ریاستوں میں تادمِ تحریر مظاہرے جاری ہیں۔

امریکی صدر کا مواخذہ

ڈیموکریٹک پارٹی نے سیاسی مخالفین کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے دوسرے ملک پر دباؤ ڈالنے کے الزام میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک پیش کر دی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک پیش کرنے والی ڈیموکریٹس نینسی پلوسی نے کہا کہ امریکی صدر کو اس کا جواب دینا پڑے گا۔

دوسری طرف امریکی صدر نے اپنے خلاف لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے مواخذے کی کارروائی کو 'کچرا' قرار دیا۔ ڈیموکریٹکس کو صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کے لیے امریکی ایوان نمائندگان میں مکمل حمایت حاصل ہے تاہم اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک پر امریکی کانگریس میں کارروائی کی جائے گی۔

امریکی ایوان نمائندگی کی اسپیکر نینسی پلوسی نے الزام عائد کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کے صدر پر اپنے سیاسی مخالف جو بائیڈن کے خلاف تحقیقات کے لیے دباؤ ڈالا جس سے 2020 کے انتخابات سے قبل ڈیموکریکٹس اور صدر کے درمیان لفظوں کی جنگ کی بنیاد پڑی۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق اگر صدر ٹرمپ کے خلاف کارروائی آگے بڑھتی ہے اور امریکی ایوان نمائندگان جہاں ڈیموکریٹس کی اکثریت ہے ان کے خلاف ووٹ دیتی ہے تو ایسی صورت میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے تیسرے صدر ہوں گے جن کے خلاف مواخذے کی کارروائی ہو گی۔

امریکا کی تاریخ میں آج تک صرف دو صدور کا مواخذہ ہوا ہے، مواخذے کا سامنا کرنے والے پہلے صدر اینڈریو جانسن تھے جنہیں 1868 میں اپنے خلاف تحریک کا سامنا کرنا پڑا تھا جب کہ 1998 میں بل کلنٹن کے خلاف مواخذے کی تحریک کامیاب ہوئی تھی۔ رچرڈ نکسن نے 1974 میں اپنے خلاف مواخذے کی تحریک پیش ہونے سے قبل ہی استعفیٰ دیدیا تھا۔

لیکن سینیٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ریپبلکن جماعت اکثریت میں ہے اور ٹرمپ کو صدارت سے ہٹانے سے بچانے کے لیے مضبوط پوزیشن میں ہے۔ یاد رہے کہ پہلے ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر بھی نینسی پلوسی کی جانب سے ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی کی مخالفت کی جا رہی تھی لیکن ٹرمپ کی جانب سے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی کو ایک یا زائد ٹیلی فون کالز کے انکشاف کے بعد ڈیموکریٹس لیڈر شپ نے پارٹی رہنماؤں کو اس معاملے پر متفق کیا۔ ٹرمپ انتظامیہ تاحال افشا ہونے والی ٹیلی فون کالز کی تفصیلات کانگریس میں پیش کرنے کو مسترد کر تی رہی جب کہ ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے یوکرین کے صدر کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے جو بائیڈن کے خلاف تحقیقات شروع نہ کیں تو ان کی فوجی امداد روک لی جائے گی۔

اسرائیلی وزیراعظم کٹہرے میں

اکتوبر کے مہینے میں اسرائیلی وزیرِاعظم بنجامن نتن یاہو پر بدعنوانی، دھوکادہی اور رشوت کے تین الزامات ثابت ہوئے، اسرائیلی تاریخ میں پہلی مرتبہ دورانِ اقتدار کسی وزیرِاعظم پر ایسا جرم ثابت ہوا۔

اٹارنی جنرل ایوی ہائی مینڈل بِلٹ نے اکتوبر کے مہینے میں اسرائیلی وزیرِاعظم پر رشوت، فراڈ، اور بدعنوانی کے تین مقدمات میں فردِ جرم عائد کی اور ان مقدمات کو 4000، 2000 اور 1000 کے نام دیے گئے ہیں، ایک ماہ تک ان مقدمات پر اٹارنی جنرل کے دفتر میں دھواں دھار بحث ہوئی اور اکتوبر میں چار روز مسلسل اس کی سماعت جاری رہی، جس میں نتن یاہو کے وکلا نے صفائی میں اپنے دلائل دیے۔

اٹارنی جنرل مینڈلبلیٹ نے فروری میں کہا تھا کہ وہ تین مقدمات کیس 1000، کیس 2000 اور کیس 4000 کے سلسلے میں نیتن یاہو پر فردِجرم عائد کرنا چاہتے ہیں۔ ان کیسز کی تفصیلات کچھ یوں ہیں۔

کیس 1000: اس مقدمے میں نیتن یاہو پر فراڈ اور اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے کئی بیش قیمت تحائف بشمول پنک شیمپیئن اور سگار وصول کیے اور اس کے بدلے ایک دولت مند دوست پر مہربانیاں کیں۔ نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ یہ دوستی کے تحفے تھے اور انھوں نے ان کے بدلے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ اسی طرح ان کے دوست بھی کسی غلط کام کے الزامات کا انکار کرتے ہیں۔

کیس 2000: اس مقدمے میں بھی نیتن یاہو پر فراڈ اور اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے الزامات ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے مثبت کوریج کے بدلے میں ایک بڑے اخبار کے پبلشر کے ساتھ معاہدہ کیا تاکہ اس اخبار کو کمزور کرنے والا ایک قانون لایا جا سکے۔ ان پبلشر پر رشوت دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ وزیرِاعظم کی طرح انھوں نے بھی کسی غلط کام کرنے سے انکار کیا ہے۔ دونوں ہی افراد کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ملاقاتوں میں زیرِبحث آنے والے معاملات کو آگے بڑھانے کی نیت نہیں رکھتے تھے اور مذکورہ قانون منظور نہیں ہوا تھا۔

کیس 4000: یہ نیتن یاہو کے خلاف سب سے سنگین کیس تصور کیا گیا کیوں کہ اس میں نیتن یاہو پر فراڈ اور اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے ساتھ ساتھ رشوت کا الزام بھی لگایا گیا۔ اس کے مطابق نیتن یاہو نے ایسے ریگولیٹری فیصلوں کو فروغ دیا جن سے ایک صفِ اول کی ٹیلی کام کمپنی کو رعایتیں حاصل ہوئیں جب کہ اس کے بدلے میں انھیں کمپنی کی ایک ویب سائٹ سے مثبت نیوز کوریج حاصل ہوئی، اور یہ سب کمپنی کا کنٹرول رکھنے والے شیئرہولڈر کے ساتھ معاہدے کے تحت ہوا۔

نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ ماہرین نے ان ریگولیٹری فیصلوں کی حمایت کی تھی اور انھیں اس کے بدلے میں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ساتھ ہی جن شیئرہولڈر پر رشوت دینے کا الزام عائد کیا گیا انھوں نے بھی کوئی غلط کام کرنے کا انکار کردیا۔ ان میں 4000 نامی کیس کو سب سے سنجیدہ قرار دیا گیا جس میں نتن یاہو اور ان کے تاجر دوست شول ایلووِچ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس میں نتن یا ہو نے شول کی ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی اور والہ نیوز ویب سائٹ کو 50 کروڑ ڈالر کا فائدہ پہنچایا تھا اور اس کے بدلے ویب سائٹ نے نتن یاہو کو خصوصی اہمیت اور کوریج دی تھی۔

بنجامن نتن یاہو اور ان کی بیگم نے بار بار ویب سائٹ سے اپنی خبروں کی درخواست کی اور جواب میں شول ایلووِچ نے اپنے تمام ایڈیٹر پر دباؤ بڑھا کر نتن یاہو اور ان کے مفادات کو تقویت دی تاہم بنجامن نتن یاہو کے وکیل نے اس سارے عمل کو رشوت ستانی سے ماورا قرار دیا۔ دوسری جانب بنجامن نتن یاہو نے تمام مقدمات کی صحت سے انکار کرتے ہوئے مستعفی ہونے سے انکار کردیا لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق اس فیصلے سے اپریل اور ستمبر2020 میں ہونے والے عام انتخابات میں انہیں شدید دھچکا پہنچ سکتا ہے۔

دہشت گردانہ حملے


گزرے ہوئے سال میں دہشت گردی کے واقعات بھی ایک تسلسل کے ساتھ رونما ہو کر انسانیت کو مشکل میں مبتلا کرتے رہے۔ جنوری کے وسط میں کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے ایک پر تعیش ہوٹل میں بم دھماکے کیے گئے اس واقعے میں اکیس افراد جاں بحق ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں امریکی اور برطانوی شہری بھی شامل تھے۔

ان حملوں کی ذمہ داری الشہاب نامی مسلح تنظیم نے قبول کی۔ اس سے قبل 2013اور 2015میں بھی اس تنظیم نے کینیا میں بدترین حملے کیے تھے جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس سے اگلے دن شام میں خودکش دھماکے ہوئے جن میں چار امریکی فوجیوں سمیت انیس افراد جان سے گئے۔ کولمبیا پولیس اکیڈمی پر حملوں میں بیس شہری، افغانستان سیکیوریٹی فورسز پر حملے میں میں 126، فلپائن کے گرجا گھر میں ہونے والے حملے میں 22 جب کہ پاکستان کے علاقے لورالائی میں ڈی آئی جی آفس پر ہونے والے حملے میں میں نو افراد ہلاک ہوئے۔

فلپائن، صومالیہ، نائیجیریا، ایران، جموں و کشمیر، افغانستان، مصر، پاکستان، اسپین اور بنگلادیش فروری کے مہینے میں دہشت گردی کی لپیٹ میں رہے، جن میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بیشتر ممالک میں یہ حملے سیکیورٹی فورسز پہ کیے گئے ۔ مارچ کے حادثات کی ابتدا میکسیکو میں نائٹ کلب میں بم دھماکوں سے ہوئی، جن میں پندرہ افراد ہلاک ہوئے لیکن نیوزی لینڈ کی دو مساجد پر حملہ اس ماہ کاہی نہیں بلکہ اس پورےسال کا سب سے اندوہ ناک حادثہ تھا۔ نیوزی لینڈ پولیس کے مطابق کرائسٹ چرچ شہر کی دو مساجد میں اندھادھند فائرنگ کے نتیجے میں49 نمازی ہلاک ہوئے۔

مسجد میں فائرنگ کا مرتکب حملہ آور بھی گرفتار کرلیا گیا، جس کی شناخت برنٹن ٹرنٹ کے نام سے ہوئی۔ اس نے قتل عام کی یہ دل خراش واردات پندرہ منٹ تک فیس بک پر نشر کی۔ کرائسٹ چرچ کے کمشنر کے مطابق فائرنگ کے نتیجے میں ہلاکتیں ڈین ایوینیو اور لِن ووڈ ایوینیو پر واقع مساجد میں ہوئیں۔

قاتل کے علاوہ پولیس نے چار مزید افراد، جن میں ایک عورت بھی شامل تھی کو حراست میں لیا۔ نیوزی لینڈ کی وزیرِاعظم جاسنڈا آرڈرن نے اسے 'نیوزی لینڈ کی تاریخ کا سیاہ ترین د ن قرار دیا۔ بنگلادیش کی کرکٹ ٹیم بھی جائے حادثہ کے قریب تھی اور اس جگہ پر کچھ دیر بعد اسکول کے بچوں کی گلوبل اسکول اسٹرائیک بھی ہونی تھی۔ حملہ آور کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے تارکین ِ وطن اور مسلمانوں کے خلاف مواد بھی ملا۔ اس کے علاوہ شام ، ویسٹ بینک ، مالی، صومالیہ، برازیل اور نیدر لینڈ میں بھی دہشت گرد کارروائیوں نے مارچ کے مہینے کو خون آلود کیے رکھا تھا۔

21 اپریل 2019ء کے دن مسیحی تہوار ایسٹر کے موقع پر سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو کے تین پرتعیش ہوٹلوں اور ملک کے تین گرجا گھروں میں بم دھماکے ہوئے۔ ان خودکش دھماکوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 321 تک جا پہنچی جبکہ پانچ سو سے زائد زخمی ہوئے، جس کے بعد ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی۔

خود کو دولتِ اسلامیہ کہنے والی شدت پسند تنظیم نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ سری لنکا کی حکومت نے ان حملوں کے لیے ایک غیر معروف مقامی جہادی گروپ 'قومی توحید جماعت' کو ذمہ دار قرار دیا۔ ان حملوں میں 35 غیرملکیوں کے علاوہ بڑی تعداد میں سری لنکن مسیحی مارے گئے۔ ہلاک ہونے والے غیرملکیوں میں کم از کم آٹھ انڈین باشندے اور آٹھ برطانوی شہری اور ڈنمارک کے ارب پتی اینڈرس ہولچ پوولسین کے تین بچے بھی شامل تھے۔

جون کو نائجیریا کے شہر کنڈوگامیں خودکش حملہ آور نے ایک ویڈیو ہال میں داخل ہو کر خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں اڑھائی درجن کے قریب افراد جان کی بازی ہار گئے جب کہ اتنے ہی شدید زخمی بھی ہو ئے۔ خودکش حملہ شام کو اس وقت پیش آیا جب لوگ ایک ویڈیو ہال میں فٹ بال میچ دیکھنے میں مصروف تھے ۔ اس سے قبل آخری بار اپریل کے مہینے میں خود کش حملہ کیا گیا تھا۔

جس میں درجن بھر کے قریب لوگ موت کے گھاٹ اتر گئے تھے۔ بوکوحرام کی طرف سے کیے جانے والے خودکش حملوں کے نتیجے میں اب تک ہزاروں افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ تاہم اس حملے کے نتیجے میں ہونے والی اموات رواں برس کے خود کش حملوں میں سب سے زیادہ ہیں۔ حملہ آوروں نے خود کش دھماکے کے بعد جمع ہونے والے افراد کو نشانہ بناتے ہوئے راکٹ بھی فائر کیے جس کے باعث ہلاکتوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔



3جولائی کو لیبیا میں غیرقانونی طور پر یورپ جانے والے تارکین وطن کے حراستی کیمپ پر فضائی حملے میں کم از کم 40 افراد ہلاک ہو گئے۔ لیبیا کے دارالحکومت طرابلس کے مشرقی علاقے میں قائم حراستی مرکز میں بمباری کے باعث 80 افراد زخمی بھی ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد افریقی تارکین وطن افراد کی تھی۔ حالیہ برسوں میں لیبیا غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے تارکین وطن کے لیے اہم گزرگاہ بنا ہوا ہے۔ لیبیا سنہ 2011 میں طویل عرصے سے حکمرانی کرنے والے معمر قذافی کی حکومت گرائے جانے اور ان کے قتل کیے جانے کے بعد سے تشدد اور معاشرتی تقسیم کا شکار بھی ہے۔ فضائی حملے کا نشانہ بننے والے حراستی مرکز میں 120 تارکین وطن موجود تھے۔

سعودی عرب کا ابہا ایئرپورٹ ایک مصروف ترین ہوائی اڈہ ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں لوگ آمدورفت کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ گزرے ہوئے سال میں ابہا ایئرپورٹ حوثی باغیوں کا خصوصی ہدف رہا، اس ایئرپورٹ پر کئی بار ڈرون حملے کیے گئے۔

جولائی کے مہینے میں بھی اسی ایئرپورٹ پر حوثی باغیوں کے ایک میزائل حملے میں ایک شخص جاں بحق اور 21 زخمی ہوگئے تھے۔ اس سے قبل 12 جون کو بھی ابہا ایئرپورٹ پر حوثی باغیوں کے میزائل حملے میں 26 افراد زخمی ہوگئے تھے۔ حوثی باغیوں نے اس سے قبل نجران کے ایئرپورٹ کو بھی نشانہ بنایا۔ حوثی باغیوں کے میڈیا نے حملے کی ذمہ داری قبول کی اور کہا کہ ابہا ایئرپورٹ پر 'کروز' میزائل سے حملہ کیا گیا جو عین نشانے پر لگا۔ بریگیڈیئر المالکی نے مزید کہا کہ 'جدید ترین اسلحہ کے ذریعے سعودی عرب کو نشانہ بنانا اس امر کی واضح دلیل ہے کہ باغیوں کو ایران سے مسلسل کمک اور اسلحہ کی فراہمی جاری ہے جو امن کونسل کے قانون کی شق 2216 اور 2231 کی صریح خلاف ورزی ہے۔

28جولائی کو نائیجیریا کی جنوبی ریاست بورنو میں بوکو حرام کے دہشت گردوں نے قبرستان میں جنازے کے ساتھ تدفین اور تعزیت کے لیے 65 افراد کو قتل کردیا۔ بوکو حرام کے حملہ آوار موٹرسائیکلوں اور کاروں میں آئے اور سوگواروں پر فائرنگ کردی۔ واقعے میں کئی افراد زخمی بھی ہوئے۔

اگست کے پہلے ہفتے میں کابل میں ہونے والے ایک خود کش حملے میں ایک سو پندرہ افراد زخمی اور چودہ ہلاک ہوئے۔ دھماکا اس وقت ہوا، جب ایک چیک پوائنٹ پر سیکیوریٹی اہلکاروں نے ایک گاڑی کو تلاشی کے لیے روکا۔ متاثرین میں زیادہ تر عام شہری شامل تھے جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔

طالبان نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ اُن کا ہدف سیکیوریٹی فورسز کا دفتر تھا اور اس حملے میں بڑی تعداد میں فوجی اور پولیس اہلکار مارے گئے ہیں۔ افغانستان میں یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب طالبان اور امریکا ملک میں قیام امن کی کوششوں کا سلسلہ تیز کر کرنے کے خواہاں تھے۔ تاہم مذاکراتی عمل کے باوجود افغانستان میں پرتشدد واقعات میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔18اگست کو کابل میں شادی کی ایک تقریب میں خود کش حملہ آور نے خود کو اڑا لیا۔ اس سانحے میں63افراد جاں بحق ہوئے۔ اس کے علاوہ اگست کے وسط میں افغانستان کے دارالحکومت کابل میں شیعہ مسجد میں حملے کے نتیجے میں 20 افراد ہلاک اور 40 زخمی ہوگئے۔

10اگست کو ناروے کے شہر اوسلو کی ایک مسجد پہ حملہ کیا گیا۔ مسجد میں حملے کے وقت تین لوگ موجود تھے۔ پولیس کے پہنچنے سے پہلے یہ افراد حملہ آور پر قابو پاچکے تھے۔ حملہ آور عمارت میں ہیلمٹ اور بلٹ پروف جیکٹ پہنا ہوا تھا اور اس کے پاس کئی ہتھیار تھے۔ متعدد گولیاں چلانے کے باوجود مسجد میں موجود کوئی شخص زیادہ زخمی نہیں ہوا۔ 65 سالہ محمد رفیق پاکستان فضائیہ کے ریٹائرڈ اہلکار ہیں جو کہ حملے کے وقت مسجد میں موجود تھے اور انھوں نے حملہ آور پر قابو پالیا تھا۔ ان کے اس عمل پر ان کی وہاں بہت تعریف کی گئی۔

17ستمبر کو افغانستان میں دو بم دھماکے ہوئے جن میں 48افراد جان سے گئے۔ ایک بم دھماکہ الیکشن ریلی پر جب کہ دوسرا امریکی سفارت خانے کے نزدیک کیا گیا۔ ان دونوں حملوں کی ذمہ داری طالبان نے قبول کر لی ۔22ستمبر کو افغانستان میں ہی ایک فورسز نے طالبان کے شبہہ میں شادی کی ایک تقریب پر حملہ کردیا، جس میں چالیس شہری جاں بحق ہوئے۔

2نومبر کو مالی کے شمال مشرق میں نائجر سرحدوں کی چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے حملے میں 35 فوجی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ملک کے شمال مشرقی علاقے میناکا میں نائجر کی سرحد کے قریب نامعلوم مسلح آوروں نے فوجی اڈے پر دھاوا بول کر 53 فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مالی میں 'جی 5 کوسٹل فورس' کے نام سے 5 ممالک کی افواج بھی القاعدہ اور داعش سمیت دیگر مسلح تنظیموں کے خلاف کارروائی کے لیے تعینات ہیں۔ ان ممالک میں برکینا فاسو، چاڈ، مالی، موریطانیہ اور نائجر شامل ہیں۔

2نومبر ہی کو شام میں ترک سرحد کے نزدیکی شہر تل ابیض میں بارودی مواد سے بھری ایک کار کو دھماکے سے اُڑا دیا گیا جس کے نتیجے میں 10 افراد ہلاک اور 20 زخمی ہوگئے۔ اس سرحدی شہر پر ترکی کی فوج کا کنٹرول ہے۔ ترک وزارت دفاع کی جانب سے جاری بیان میں حملے کی ذمہ داری کرد جنگجوؤں پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ کار دھماکا صنعتی علاقے میں کیا گیا ہے، کرد باغی مسلسل امن معاہدے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ تل ابیض میں یہ ایک ماہ کے دوران ہونے والا یہ تیسرا کار بم دھماکا تھا۔

قدرتی آفات

فروری کا مہینہ آفات سے جنم لینے و الے حادثات کا بھی تھا۔ آسٹریلیا کے شمال مشرقی علاقوں میں من سون نے خوف ناک تباہی مچا دی۔ صدی میں ایک بار آنے والا یہ سیلاب اس قدر خوف ناک تھا کہ آسٹریلیا کے شہر ٹاؤنز ول میں سڑکوں پر مگرمچھ اور سانپ تیرنے لگے۔ ہفتے بھر کی ریکارڈ بارشوں کے بعد حکام کو ڈیم کے بند کھولنے پڑے۔ ان سیلاب اور بارشوں سے ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے۔ اسکول، دفاتر اور ائیر پورٹ بند کردیے گئے۔ کوئینز لینڈ شہر میں فوج کی مدد سے گھروں میں محصور افراد کو نکالا گیا۔ چند علاقے تو وہ تھے جہاں سال بھر کے برابر بارشیں ہوئیں اور توقع سے کہیں زیادہ تباہی پھیلی۔

قدرتی آفات نے بھی مارچ کے مہینے کو مشکل وقت دیا۔ زمبابوے، موزمبیق اور ملاوی طوفان میں گھر گئے۔ مہینے کے وسط سے شروع ہونے والے اس طوفان نے اختتام تک تیرہ سو افراد کی جان لے لی۔ ساتھ ہی مارچ کے اختتام پر نیپال میں طوفانی بارشیں شروع ہوگئیں، جس سے بے انتہا تباہی پھیلی۔ گیارہ سو افراد زخمی اور اٹھائیس ہلاک ہوگئے۔

اپریل کے مہینے میں ہی ایران میں تاریخ کا بدترین سیلاب آیا۔ جس میں 1900 شہر، قصبے اور دیہات شدید متاثر ہوئے ہزاروں سڑکیں، پل اور عمارتیں سیلاب کے باعث تباہ ہوگئی جبکہ شہریوں کی ہزاروں گاڑیاں بھی بے رحم موجوں کی نذر ہوگئیں۔ تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب میں 70 افراد زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ ہزاروں زخمی ہوئے ۔ ایک لاکھ کے قریب افراد ہنگامی پناہ گاہوں میں پہنچائے گئے۔ تقریباً ایک ہزار افراد کو متاثرہ علاقوں سے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے نکال کر محفوظ مقامات تک پہنچایا گیا۔ ایران مجموعی طور پر 31 صوبوں پر مشتمل ملک ہے، سیلاب میں اس کے 15 صوبے پانی میں ڈوب گئے یعنی آدھا ایران سیلاب کی نذر ہوگیا، اس بدترین سیلاب سے فارس، گلستان، خوزستان، ہمدان، لرستان، کرمانشاہ، کہگیلویہ و بویراحمد اور چھارمحال بختیاری شدید متاثر ہوئے۔

مئی کے آغاز میں فانی نامی طوفان نے تباہی مچائے رکھی۔ اس طوفان سے آٹھ اعشاریہ ایک بلین ڈالر کا نقصان ہوا اور89جانیں ضایع ہوئیں۔ بھارت کی مشرقی ریاست اڑیسہ کے ساحل سے ٹکرانے والے طاقت ور طوفان 'فانی' کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی ۔ خلیج بنگال میں بننے والا سمندری طوفان 'فانی' بھارت کے مشرقی ساحلی علاقوں سے ٹکرایا، جس کے باعث 125 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز ہوائیں چلیں۔ طوفان کی وجہ سے بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ریاست اڑیسہ کے حکام نے 5 فٹ اونچے طوفان کے امکانات کے پیشِ نظر 10 لاکھ سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا۔ طوفان کے باعث 622 ہلاکتوں کے بعد فلپائن میں ڈینگی کو قومی سطح کی وبا قرار دے دیا گیا۔ جنوری سے اگست کے درمیان ڈینگی کے 146000 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے 622ہلاک بھی ہوگئے ۔

11اگست کو تنزانیہ کے علاقے ڈوڈوما میں سڑک پر گرے آئل ٹینکر سے مقامی رہائشی پٹرول جمع کر رہے تھے کہ اچانک دھماکا ہوگیا اور آگ بھڑک اُٹھی جس کے نتیجے میں سو سے زائد افراد ہلاک اور 70 زخمی ہوگئے۔ تنزانیہ میں موٹر سائیکل کو بچاتے ہوئے ایک آئل ٹینکر الٹ کر مصروف شاہراہ پر گرگیا اور آئل ٹینکر سے پٹرول بہنا شروع ہو گیا، مقامی افراد گھر سے برتن لے آئے اور پٹرول جمع کرنے لگے کہ اسی دوران خوفناک دھماکا ہوا اورآگ بھڑک اُٹھ گئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مقامی رہائشی آئل ٹینکر سے بہنے والا پٹرول جمع کر رہے تھے کہ اسی دوران کسی نے سگریٹ سلگانے کے لیے ماچس جلائی تو خوفناک آگ بھڑک اُٹھی جس کی زد میں آکر آئل ٹینکر بھی پھٹ گیا۔

باعث بھارتی ریاست میں تعلیمی ادارے بند جب کہ ٹرینیں اور پروازیں بھی منسوخ کردی گئیں۔ مذکورہ طوفان کو بھارت کی 2 دہائیوں کا بدترین طوفان قرار دیا گیا۔ طوفان نے اڑیسہ کے شہر پوری اور دارالحکومت بھونیشور سے ہوتا ہوا بنگلادیش اور سری لنکا کا رخ کیا۔ اس کے علاوہ امریکا اور برطانیہ میں بھی طوفان اور بارشوں سے بدترین تباہی پھیلی۔

چین میں 6.0 شدت سے زلزلے سے 12 افراد ہلاک جبکہ 134 زخمی ہوگئے جبکہ ہزاروں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔ 17جون کو یہاں دو مقامات پر زلزلہ آیا، جس میں سے ایک کی شدت ریکٹر اسکیل پر 6 جب کہ دوسرے کی 5 اعشاریہ 1 ریکارڈ کی گئی۔ زلزلے سے سیچوان کے 10 گاؤں اور قصبے بری طرح متاثر ہوئے اور سڑکیں، بجلی اور مواصلات کے نظام کو نقصان پہنچا۔

جون کے مہینے میں فرانس، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ سمیت یورپ کے کئی ملکوں میں شدید گرمی سے نظام زندگی بری طرح متاثر ہوا۔ فرانس کی تاریخ میں پہلی بار درجہ حرارت46 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا، شدید گرمی کے باعث فرانس کے 4 ہزار اسکول بند کردیے گئے۔ گرمی کی لہر کے باعث پیرس سمیت کئی شہروں میں آلودگی کم رکھنے کے لیے ٹریفک کو بھی کنٹرول کیا گیا۔ فرانسیسی حکام نے شدید گرمی کی لہر کے سبب انسانی جانوں کو لاحق خطرات کی وارننگ جاری کی اور کئی شہروں کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔

شمالی افریقا سے چلنے والی غیرمعمولی گرم ہواؤں کو یورپ میں ہیٹ ویو کی وجہ قرار دیا گیا۔ دوسری جانب جرمنی میں بھی ملکی تاریخ کا بلند ترین درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ محکمہ موسمیات کے مطابق جرمنی میں تاریخ کا بلند ترین درجۂ حرارت پولینڈ کی سرحد پر واقع شہر کَوشن میں ریکارڈ کیا گیا جو 44.1 سے 44.3 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ یاد رہے کہ 2003ء میں فرانس میں ہیٹ ویو کے باعث 15 ہزار افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔

جاپان نے مسلسل زلزلوں سے نمٹنے کے لیے خود کو تیار کر لیا لیکن اسے پہلی بار3جولائی کو شدید سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔ جاپان کے مغربی علاقوں میں آنے والے سیلاب میں ایک سو سے زیادہ افراد ہلاک جب کہ50 سے زیادہ لاپتا ہوگئے۔

ہیروشیما اور دوسرے علاقوں میں ریکارڈ بارش کے سبب پانی نے دریا کے بند توڑ دیے اور تقریباً 20 لاکھ لوگوں نے علاقے خالی کر کے نقل مکانی کی۔ دوسری طرف2 جولائی کو بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں مون سون کی بارشوں اور پانی کی طغیانی کے باعث ڈیم کا حفاظتی بند ٹوٹ گیا جس کے نتیجے میں 23 افراد ہلاک اور تیس کے قریب لاپتا ہوگئے۔ مہاراشٹرا میں ہونے والی مون سون کی بارشوں نے بڑے پیمانے پر تباہی مچادی۔ 4جولائی کو امریکی ریاست کیلیفورنیا میں آنے والے شدید زلزلہ آیا۔ اس سے چند دن قبل ایک اور زلزلہ آیا تھا۔

جس کی شدت رکٹر اسکیل پر 6.4 تھی اور اسے گذشتہ دو دہائیوں کا شدید ترین زلزلہ قرار دیا جا رہا تھا، لیکن اس کے بعد آنے والا زلزلہ اس سے بھی زیادہ شدید نوعیت کا تھا جس کی شدت ریکٹر سکیل پر 7.1 ریکارڈ کی گئی۔ ساتھ ہی گرمی کی لہر نے امریکا کو گھیرے میں رکھا۔ گرمی کی شدید لہر سے 6 افراد جان کی بازی ہار گئے جس کے بعد نیویارک میں ہیٹ ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔

ہیٹ ویو کے سبب اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ فلپائن کے صوبے بتانیس میں بھی جولائی کے آخر میں زلزلہ آیا جس کے نتیجے میں 8 افراد ہلاک جبکہ 60 زخمی ہوگئے۔10اگست کو مشرقی چین کی ساحلی پٹی سے طاقتور سمندری طوفان لیکیما ٹکرا گیا، جس سے تیرہ افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی۔ مشرقی چینی صوبے زی جیانگ میں سمندری طوفان لیکیما کے ساتھ آنے والی موسلا دھار بارشوں اور زوردار جَھکّڑوں کی وجہ سے مٹی کے تودے بھی گرے۔ ایسے ہی ایک تودے کی زد میں آ کر کم از کم تیرہ افراد ہلاک اور سولہ لاپتا ہوئے۔

16اگست کو بنگلادیش کے دارالحکومت ڈھاکا کی ایک کچی بستی میں سیکڑوں گھروں کو آگ لگنے سے کم از کم 30 ہزار افراد بے گھر ہو گئے۔ جنوبی امریکا کے ملک برازیل میں واقع ایمیزون کے جنگل میں اگست کے مہینے میں خطر ناک آگ لگی۔ ماحولیات کے سائنسدانوں نے خطرہ ظاہر کیا ہے کہ اس آگ پر جلد قابو نہ پایا گیا تو موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ کو ایک تباہ کن دھچکا لگ سکتا ہے۔ کرہ ارض پر پھیپھڑوں کی حیثیت رکھنے والے سب سے بڑے برساتی جنگل دی ایمیزون میں آگ نے زمین کے ایک بڑے رقبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔



آگ کی وجہ سے اٹھتے شعلے کئی کلو میٹر دورسے دیکھے جارہے تھے۔ برازیل میں قائم نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ریسرچ کی جانب سے جاری کی گئی تصاویر میں دیکھا گیا کہ جنگلات میں آگ کے پھیلنے کا تناسب خطرناک حد تک تیز ہے۔ادارے کی جانب سے جار ی کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال برازیل کے جنگلات میں 72 ہزار 843 مرتبہ آگ لگ چکی ہے جو کہ گذشتہ سال کی نسبت 80 فیصد سے زائد ہے۔ خطرناک حد تک بڑھی اس آگ کے نتیجے میں جہاں دنیا بھر کا ماحول متاثر ہو گا وہیں اس کے اثرات بھی دیرپا قائم رہیں گے اور انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب کریں گے۔ ماحولیات سے وابستہ ایک تنظیم گلوبل فائر ایمشن ڈیٹا بیس کے مطابق شہر میں دھوئیں کی مقدار اس قدر بڑھ چکی ہے جو خلا سے لی گئی تصویروں میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ ان تمام منفی نتائج کو دیکھتے ہوئے سوشل میڈیا صارفین نے بھی ٹرینڈز سیٹ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

ستمبر کے مہینے میں اسپین میں موسلا دھار بارشیں شروع ہوئیں جن میں کئی جانوں کا ضیاع ہوا۔ 25ستمبر کو پاکستان میں 5 اعشاریہ8شدت کا زلزلہ آیا۔ دوسری طرف پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد، لاہور، پشاور اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سمیت پاکستان کے شمالی علاقوں میں بھی زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے ۔ زلزلہ پیما مرکز کے مطابق اس کی گہرائی 10 کلومیٹر تھی۔ زلزلے سے 26افراد جاں بحق اور 300 سے زائد زخمی ہو ئے۔

اکتوبر کا مہینہ بھی قدرتی آفات کا مہینہ رہا۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا کے جنگلات میں مختلف مقامات پر لگی آگ نے لاکھوں ایکڑ رقبہ جلا دیا، تیز ہواؤں نے شعلوں کو مزید بھڑکا کر صورت حال سنگین بنا ڈالی۔

پہاڑی جنگلات میں لگی خوفناک آگ، کئی فٹ بلند ہوتے شعلے دیکھنے والوں کے دل دہلا دیتے ہیں۔ جنگلات میں بڑے پیمانے پر لگی آگ نے ریاست کے لیے خوفناک صورتحال پیدا کردی، لاکھوں ایکڑ رقبہ جل کر راکھ کا ڈھیر بن گیا جب کہ درجنوں رہائشی اور کاروباری عمارتیں بھی جل کر راکھ ہوگئیں۔

12اکتوبر کو جاپان کے کئی علاقوں میں تیز ہواؤں اور طوفانی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ گذشتہ 60 برسوں میں ملک کا سب سے بڑا طوفان ثابت ہوا۔ سمندری طوفان 'ٹائفون ہگی بس' جاپان کے جنوب مغرب میں واقع ایزو جزیرے نما علاقے میں رونما ہوا۔ سیلاب اور لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے 70 لاکھ افراد کو اپنے گھربار چھوڑ کر محفوظ مقامات میں منتقل کر دیا گیا اور ٹرین کی سروس بھی معطل کردی گئی جبکہ ہزاروں پروازیں روک دی گئیں۔19اکتوبر کو سائبیریا میں تیز بارشوں کے باعث ڈیم ٹوٹنے کا خوف ناک حادثہ پیش آیا جس کے باعث پندرہ افراد جاں بحق ہو گئے۔ اسی مہینے کے آخر میں اسپین اور اٹلی میں بدترین سیلاب آیا، جس سے لاکھوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ سیکڑوں لوگ ہلاک اور لاپتا بھی ہوگئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ کیمرون میں بھی لینڈ سلائیڈنگ سے 42 افراد جاں بحق ہوئے۔

قدرتی حادثات اور تباہیوں نے نومبر میں بھی انسانیت کا پیچھا نہ چھوڑا۔ صومالیہ میں بدترین سیلاب آیا جس کی وجہ سے دو لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے۔ آسٹریلیا کے جنگلات میں خوف ناک آگ لگ گئی اور ایران میں پانچ اعشاریہ نو شدت کا زلزلہ آیا جس سے پانچ افراد ہلاک جب کہ سیکڑوں لاپتا ہوگئے۔

2019کے دیگر اہم واقعات:

جنوری میں برازیل میں ڈیم ٹوٹنے کا بدترین حادثہ پیش آیا جس کے باعث ڈھائی سو کے قریب افراد ہلاک اور درجنوں لاپتا ہوگئے۔

جنوری ہی میں ہی جرمن پارلیمانی ارکان کے ڈیٹا پر سائبر حملہ کیا گیا۔ یہ حملہ جرمن بنڈس ٹاگ یا پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کے اراکین کے ڈیٹا پر کیا گیا۔ سائبر حملے سے چانسلر انجیلا میرکل بھی متاثر ہوئیں۔ ہیکرز نے جرمن پارلیمنٹ کی تقریباً سبھی پارٹیوں کو ہدف بنایا، سوائے دائیں بازو کی سیاسی جماعت الٹرنیٹیو فارڈوئچ لینڈ (AfD) کے۔ اس ہیکنگ کے ذریعے اراکین کی مالی تفصیلات اور ذاتی گفتگو کا ریکارڈ بھی چرا لیا گیا۔ چانسلر میرکل کے ذاتی فیکس نمبر اور ای میل ایڈریس بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیے گئے۔

جرمن سیاستدانوں کی ذاتی معلومات عام کرنے والے ہیکر کو بعد میں گرفتار کر لیا گیا، جس نے پولیس کو بتایا کہ اس کا کسی تنظیم یا گروپ سے کوئی تعلق نہیں اور اس نے یہ کارروائی اکیلے کی ، کیوں کہ اسے ہیکنگ کا نشانہ بننے والے سیاستدانوں کے بیانات پر شدید غصہ تھا اور اسی لیے اس نے ان کا پرسنل ڈیٹا لیک کر دیا۔ جنوری کے مہینے میں ہی فلپائن میں خسرے کی بدترین وبا پھیلی ۔ وہ وبا جس کا خاتمہ پندرہ سال قبل فلپائن سے ہو چکا تھا۔ اس وبا میں تینتیس ہزار کیس رپورٹ ہوئے جب کہ466بچے ہلاک بھی ہوئے۔ خسرے کی اس وبا نے پوری دنیا میں ویکسین کے حوالے سے لاتعداد سوالات کو جنم دیا۔

مارچ کے ہی مہینے میں وزیراعظم تھریسامے کی جانب سے برطانیہ کو یورپی یونین سے نکالنے کی ڈیل کو پارلیمانی اراکین نے دوسری بار مسترد کردیا، جس کے بعد اس معاہدے کے لیے اپنائے گئے لائحہ عمل پر مزید ابہام پیدا ہوگیا۔ جنوری کے بعد ایوان میں اراکین نے مارچ میں اس معاہدے کو 242 کے مقابلے میں 391 ووٹ سے مسترد کیا۔

برطانوی وزیراعظم نے اس نتیجے کے بعد کہا کہ اب اراکین پارلیمان اس بارے میں ووٹ ڈالیں گے کہ کیا برطانیہ کو معاہدے کے بغیر ہی 29 مارچ کو یورپی یونین سے نکل جانا چاہیے اور اگر اس میں بھی ناکامی ہوئی تو پھر سوال یہ ہو گا کہ کیا بریگزیٹ کو التوا میں ڈال دیا جائے۔ بریگزٹ ڈیل پر اراکینِ پارلیمان کی ووٹنگ سے پہلے برطانوی وزیرِاعظم تھریسا مے نے کہا کہ وہ اس ڈیل پر 'لازمی قانونی' تبدیلیوں کے حصول میں کامیاب رہی ہیں۔ تاہم یورپی کمیشن کے صدر ژان کلاؤڈ جنکر نے متنبہ کیا تھا کہ اگر اس ڈیل کو ووٹنگ میں شکست ہوئی تو تیسرا موقع نہیں ملے گا۔

ایتھوپیا کی قومی فضائی کمپنی Ethiopian ایئرلائنز کا ایک طیارہ ماسی مہینے میں نیروبی جاتے ہوئے گر کر تباہ ہو گیا۔ بوئنگ 737-800 طیارے میں 149 مسافر اور عملے کے 8 افراد سوار تھے۔ حادثہ مقامی وقت کے مطابق صبح 8:44 پر دارالحکومت ادیس ابابا سے 62 کلو میٹر جنوب مشرق میں واقع قصبے بیشوفتو کے نزدیک پیش آیا۔

اپریل میں امریکی نائب صدر مائیک پینسے نے رکی کو روس سے میزائل کی خریداری پر وارننگ دی۔ روس نے ترکی سے ایس۔400میزائل سسٹم کی فروخت کا معاہدہ کیا جسے امریکا نے انتہائی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔ امریکا کے نزدیک ترکی کا یہ قدم امریکا سے تعلقات خراب کردے گا لیکن ترکی نے کسی وارننگ کی پروا نہ کی اور اس ڈیک کو پتھر پہ لکیر قرار دیا۔ ترکی کی طرف سے ان میزائلوں کے حصول سے امریکا اور ترکی کے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ امریکا نے ترکی کو خبردار کیا کہ اگر اس نے روس سے یہ میزائل نظام حاصل کیا تو وہ ترکی کو ایف 35 طیاروں کی ترسیل روک دے گا۔

ترکی اور امریکا دونوں شمالی بحیرہ اوقیانوس کے ملکوں کے اتحاد نیٹو کا حصہ ہیں لیکن گذشتہ چند برس سے ترکی روس سے بھی بہتر دفاعی اور معاشی تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ترکی نے امریکا سے ایف35۔ لڑاکا طیارے خریدنے کا معاہدہ کر رکھا ہے اور ان طیاروں کی خریداری میں کافی سرمایہ بھی لگا چکا ہے۔ امریکی دفاعی ماہرین نے اس حوالے سے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ امریکی ساخت کے ایف 35۔ طیارے اور روسی ساخت کے ایس چار سو میزائلوں کو ایک جگہ رکھا جائے کیوںکہ اس طرح روسی دفاعی ماہرین کو امریکی طیاروں کی تمام خامیوں اور خوبیوں کا علم ہو جائے گا۔

11 اپریل کو وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو برطانیہ میں ایکواڈور کے سفارت خانے سے گرفتار کرلیا گیا گرفتاری ایکواڈور کی طرف سے جولین اسانج کی سیاسی پناہ ختم کرنے پر کی گئی جس کے بعد برطانوی پولیس نے جولین اسانج کو گرفتار کرکے سینٹرل لندن کے پولیس اسٹیشن منتقل کردیا۔ وکی لیکس کے بانی جولین اسانج سویڈن میں جنسی زیادتی کے مقدمے میں مطلوب تھے، جب کہ وہ گذشتہ 7 سال سے لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے میں مقیم تھے۔

امریکا کی جانب سے جولین اسانج پر سابق انٹیلی جنس تجزیہ کار چیلسا میننگ کے ساتھ مل کر مارچ 2010 میں محکمہ دفاع کے پاسورڈ توڑنے کی سازش کرنے کے الزام عائد کیے گئے۔ چیلسا میننگ نے بغداد میں بطور انٹیلی جنس تجزیہ کار کام کے دوران عراق اور افغانستان جنگ سے متعلق ہزاروں رپورٹس، خفیہ دستاویزات اور کئی ممالک سے متعلق سفارتی راز ولی لیکس کو فراہم کیے تھے۔ بعدازاں دسمبر 2010 میں جولین اسانج نے برطانوی پولیس کے سامنے سرنڈر کیا تھا لیکن وہ 10 روز کی ضمانت پر رہا ہوگئے، تاہم حوالگی کی کارروائی کو چیلنج کرنے میں ناکامی کے بعد انہوں نے ضمانت کی خلاف ورزی کی اور فرار ہوگئے، جس کے بعد اگست 2012 میں ایکواڈور کی جانب سے انہیں سیاسی پناہ دی گئی تھی اور اس کے بعد سے وہ لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے میں مقیم تھے۔

مصر کی پارلیمان نے16اپریل کو آئینی ترامیم منظور کرلیں جن کے مطابق صدر عبدالفتح السیسی 2030 تک اقتدار میں رہ سکتے ہیں، مذکورہ ترامیم صدر سیسی کو عدلیہ پر مزید اختیارات دیں گی اور سیاست میں فوج کا کردار یقینی بنائیں گی۔

2022 میں اپنی دوسری چار سالہ مدت کے اختتام پر عہدہ صدارت سے سبکدوش ہونے والے صدر عبد الفتح السیسی نئی ترامیم کی منظوری کے بعد 2030 تک اقتدار سنبھال سکتے ہیں اور مذکورہ ترامیم کے باعث مدت اقتدار بھی چھ سال ہوجائے گی، انھیں ایک اور مدت کے لیے انتخابات میں کھڑے ہونے کی اجازت مل جائے گی۔ نئی ترامیم صدر سیسی کو عدلیہ پر مزید اختیارات دیں گی اور سیاست میں فوج کا کردار بھی یقینی بنائیں گی، 2013 میں صدر سیسی نے مصر کے پہلے منتخب کردہ جمہوری صدر محمد مُرسی کے اقتدار کے خلاف جاری احتجاج کے پیشِ نظر فوج کی قیادت میں اقتدار حاصل کیا تھا۔

ایلن گارسیا 1985 سے 1990 اور 2006 سے 2011 تک پیرو کے صدر رہے تھے۔ ان کو بدعنوانی کے الزامات کا سامنا تھا اور ان پر الزام تھا کہ انہوں نے برازیلی تعمیراتی کمپنی کو ملک میں بڑے پیمانے پر سرکاری کاموں کے ٹھیکوں کے عوض اس سے رشوت وصول کی تھی۔ 17اپریل کو پولیس گارسیا کو گرفتار کرنے پہنچی تو انہوں نے خود کو گولی مارلی جس کے بعد گارسیا کو شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ انتقال کرگئے۔ پیرو کے دفتر استغاثہ کے مطابق وارنٹس کے تحت گارسیا کو 10روز کے لیے زیر حراست رکھا جاسکتا تھا جس کے دوران ان کے خلاف شواہد جمع کئے جانے تھے، اس کے علاوہ ان کو گرفتار کئے جانے کا مقصد انہیں ملک سے فرار ہونے سے روکنا بھی تھا۔



اپریل کے اختتام پر جاپان کے ولی عہد ناروہیتو نے اپنے والد اکیہیتو کی دراز عمری کے باعث تخت سے کنارہ کشی کے بعد بطور شہنشاہ تخت سنبھال لیا۔ شہنشاہ ناروہیتو نے30اپریل کو ایک سادہ لیکن علامتوں سے بھرپور تقریب میں 'امپیریئل ٹریژرز' یعنی شاہی خزانوں پر مشتمل ورثے کو وصول کیا جس سے ان کے شہنشاہ بننے کی تصدیق ہوئی۔

جاپان میں شہنشاہ کا عہدہ علامتی ہے اور ان کے پاس حکومت کرنے کے لیے کوئی سیاسی طاقت نہیں ہوتی لیکن وہ قومی ہم آہنگی کی علامت ہوتے ہیں۔ شہنشاہ ناروہیتو کے والد اور سابق شہنشاہ، 85 سالہ اکیہیتو نے بگڑتی ہوئی صحت اور بڑھتی ہوئی عمر کے باعث تاج سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔ عہدے سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے بعد وہ دو سو سالوں میں پہلے جاپانی شہنشاہ تھے جنھوں نے شہنشاہ کے عہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا۔ جاپان کے نئے شہنشاہ، 59 سالہ ناروہیتو کو پہلے ایک تلوار پیش کی گئی اور اس کے ساتھ ایک ہیرا دیا گیا۔ یہ دونوں اشیا جاپان کے شہنشاہوں کے خاندان میں نسلوں سے منتقل ہوتی رہی ہیں اور شاہی طاقت کی علامت ہیں۔ ان اشیا میں تیسرا اور سب سے اہم حصہ ایک شاہی آئینہ ہے اور ان تینوں کو ملا کر 'امپیریئل ٹریژر' یعنی شاہی خزانہ کہا جاتا ہے۔

4مئی کو تھائی لینڈ میں نئے بادشاہ کی رسمِ تاج پوشی ہوئی۔ تھائی لینڈ میں آئینی سلطنت ہے لیکن تھائی افراد شاہی خاندان کا بہت احترام کرتے ہیں اور شاہی خاندان کا اچھا اثرورسوخ ہے۔ تھائی لینڈ میں سخت قوانین بھی ہیں جنھیں 'لیسے میجیسٹ' کہتے ہیں۔ ان قوانین کے تحت بادشاہت پر تنقید کرنے پر پابندی ہے۔ ان قوانین نے شاہی خاندان کو عوامی نقطہ نظر اور جانچ سے بچائے رکھا ہے۔ تاج پوشی کے لیے جاری رہنے والی تین روزہ تقریبات کے دوران تھائی لینڈ کے بادشاہ مہا وجیرالونگ کورن کی تاج پوشی کی گئی۔ بادشاہ مہا وجیرالونگ کورن کو یہ تخت سنہ 2016 میں طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے اپنے والد بھومبول ایڈلیڈ جج کی وفات کے بعد وراثت میں ملا تھا۔

دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سَر کرنے کی کوشش کے دوران 25مئی کو 10 کوہ پیما جان کی بازی ہار گئے۔ ان ہلاکتوں کی وجہ ماؤنٹ ایورسٹ پر ہونے والے 'خطرناک رش' کو قرار دیا گیا۔ ان میں سے کچھ رش کی وجہ سے ڈھلوان پر پھنس گئے جس کے بعد تھکن اور پیاس کی شدت سے ان کی موت واقع ہوگئی۔ 8 ہزار 850 میٹرز یعنی 29 ہزار 35 فٹ بلند ماؤنٹ ایورسٹ سَر کرنے کے دوران بھارت سے تعلق رکھنے والے تین کوہ پیما، جن میں دو خواتین اور ایک مرد شامل تھا، تھکن سے ہلاک ہو گئے۔ اس کے علاوہ آئرلینڈ اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک ایک کوہ پیما کی بھی ہلاکت ہوئی۔ تبت کی جانب بھی 56 سالہ آئرش کوہ پیما کی موت واقع ہوئی۔ صرف اس سیزن میں ماؤنٹ ایورسٹ سَر کرنے کی کوشش کے دوران ہلاک افراد کی تعداد گذشتہ سال میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد سے تجاوز کر چکی ہے۔ گذشتہ برس یہ تعداد پانچ تھی۔

جون کو خلیج عمان میں دو ٹینکرز حملے میں تباہ ہوگئے جس کا ذمہ دار امریکا نے ایران کو ٹھہرایا۔ اس حملے کے بعد امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ دونوں ٹینکرز پر موجود عملے کے ارکان محفوظ رہے ۔ امریکا نے ایران پر حملے کا الزام ان میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی قسم سے متعلق انٹیلیجنس معلومات کی بنیاد پر لگایا۔ جہاز رانی کی کمپنیوں کا کہنا تھا کہ کوکوکا کریجیئس ٹینکر جو کہ جاپان کی ملکیت ہے پر موجود 21 افراد جبکہ فرنٹ الٹیئر جو کہ ناروے کی ملکیت ہے پر موجود 23 افراد کو نکال لیا گیا ہے۔

یہ واقعہ متحدہ عرب امارات کے قریب چار ٹینکروں پر ہونے والے حملوں کے ٹھیک ایک ماہ بعد پیش آیا۔ امریکا نے اس حملے کو ایران کی جانب سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مفادات پر کیے جانے والے مسلسل حملوں میں تازہ ترین حملہ قرار دیا۔ ان حملوں کے پیشِ نظر ایران اور امریکا اور خلیج میں موجود اس کے حامیوں کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی۔ امریکا کے مطابق امریکی فورسز پر ایسے عناصر کی طرف سے حملہ کرنے کا خدشہ تھا جس کی پشت پناہی ایران کر رہا ہے۔ اس خدشے کے پیشِ نظر مئی کی شروعات میں امریکہ نے علاقے میں طیارہ بردار بیڑا اور B-52 بومبرز بھیجے۔

30جون کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا پہنچے۔ وہ شمالی کوریا کی زمین پر قدم رکھنے والے پہلے امریکی صدر ہیں۔ یہاں دونوں سربراہان نے جوہری اور تجارتی معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔ اس دوسرے کے بعد اگست کے مہینے میں شمالی کوریا نے پھر نئے ہتھیاروں کے تجربے کر ڈالے۔ وہ امریکا اور جنوبی کوریا کی مشترکہ سالانہ جنگی مشقوں کے ردعمل میں احتجاج کے طور پر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے تجربات مسلسل تجربات کرتا رہا اور ان دونوں ملکوں کی مشترکہ مشقوں پر چڑھائی کے لیے تیاری کی دھمکیاں دیتا رہا۔

6جولائی کو مظاہرین کی ایک بڑی تعداد پیرس میں جمع ہوئی اور انہوں نے عورتوں کے قتل اور گھریلو تشدد کے خلاف بھرپور مظاہرے کرتے ہوئے مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ بھی کیا۔

18جولائی کو جاپان کے کیوٹو اینی میشن اسٹوڈیو میں آگ لگنے کے واقعے میں 33 افراد ہلاک ہوگئے۔ واقعہ جاپان کے شہر کیوٹو میں پیش آیا۔ ایک آدمی نے سٹوڈیو میں گھس کر توڑ پھوڑ کی جس کے بعد ایک مادہ پھینکا جس سے اسٹوڈیو میں آگ بھڑک اٹھی۔ واقعہ میں مجرم سمیت 37 افراد زخمی بھی ہوئے۔ گذشتہ بیس سالوں میں یہ جاپان میں ہونے والی سب سے بڑی ہلاکتیں تھیں۔

24جولائی کو بورس جانسن کی صورت میں برطانیہ کو نیا وزیراعظم ملا۔ جانسن اور سیکریٹری خارجہ جیریمی ہنٹ کے درمیان ایک مہینے تک جاری رہنے والی انتخابی مہم کے بعد حکمران کنزرویٹو پارٹی کے تقریباً دو لاکھ نچلی سطح کے ارکان نے پیر کو ووٹنگ میں حصہ لیا، جس کے بعد کنزرویٹو پارٹی کی جانب سے نئے وزیراعظم اور پارٹی چیئرمین کا اعلان کیا گیا۔

ان کی نامزدگی سے چند منٹ قبل وزیر تعلیم این ملٹن نے اپنے عہدے سے یہ کہتے ہوئے استعفی دے دیا کہ وہ بورس جانسن کی بریگزٹ سے متعلق پالیسی سے مطمئن نہیں۔ برطانیہ میں اقتدار کی یہ منتقلی ایک ایسے وقت میں ہوئی جب تین مہینے بعد 31 اکتوبر کو برطانیہ یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرنا طے تھا۔ ایسی صورتحال میں بریگزٹ ڈیل کے کٹر حامی اور نئے وزیراعظم کو یورپی یونین اور برطانوی پارلیمنٹ میں دشواریوں کا سامنا کرنے کے اندیشے ظاہر کیے گئے۔ ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد یورپ اور امریکہ سے تعلقات کے ذمہ دار جونیئر وزیرخارجہ ایلن ڈنکن بھی یہ کہہ کر مستعفی ہوگئے کہ بورس جانسن حکومتی بحران کا سبب بنیں گے۔

13جولائی کو امریکا کے فیڈرل ٹریڈ کمیشن نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بُک پر پانچ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کردیا۔ فیس بک پر یہ جرمانہ صارفین کے ڈیٹا اور نجی معلومات کے تحفظ میں ناکامی کے تناظر میں کیا گیا۔ ناقدین نے اتنے بڑے جرمانے کو غیر مناسب قرار دیا ہے، یہ جرمانہ فیس بک کے خلاف ڈیٹا کے تحفظ میں متعدد ناکامیوں کے حوالے سے جاری تفتیشی عمل پر فریقین کے درمیان ڈیل کی روشنی میں طے کیا گیا۔ غیرملکی خبررساں ادارے کا کہنا تھا کہ جرمانے کی حتمی منظوری ہوجاتی ہے تو یہ کسی ادارے پر عائد کیا جانے والا سب سے بڑا جرمانہ ہوگا۔

اکتوبر کی بائیس تاریخ کو برطانیہ کے علاقے ایسکس میں ایک ٹرالر پر موجود کنٹینر سے 39 لاشیں ملیں۔ بعد میں تحقیقات سے معلوم ہوا کہ یہ سب لاشیں چینی باشندوں کی تھیں۔ دن ایک بج کر چالیس منٹ پر پولیس کو لاشوں کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ یہ کنٹینر گریز ایریا کی ایسٹرن ایوینیو پر واٹرگلی انڈسٹریل پارک میں پایا گیا ۔25 اکتوبر کو منگولیا کی سرحد کے نزدیک فوجی ملٹری بیس میں روسی فوج کے اہلکار نے اپنے ہی ساتھیوں پر فائرنگ کرکے 8 اہلکاروں کو ہلاک کردیا، فائرنگ سے 2 اہلکار شدید زخمی بھی ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق روسی فوجی اہلکار نے ذہنی دباؤ اور گھریلو مسائل کی وجہ سے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔

اکتوبر کے ہی مہینے میں ایتھوپیا کے جواں سال اور ذہین حکم راں ایبی احمد، جو اس سال نوبیل امن انعام کے حق دار ٹھہرے ۔ ایتھوپیا کے نومنتخب اور باہمت وزیر اعظم ایبی احمد، اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلے دن سے جو حکمتِ عملی اپنا کر چلے، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تھوڑے ہی عرصے میں ایتھوپیا کی تقدیر بدلنا شروع ہوگئی۔

وہ ایتھوپیا جہاں سالوں سےخانہ جنگی کا راج تھا، قومی وسائل کا ایک بڑا حصہ اریٹیریا کے ساتھ جاری سرحدی تنازعات کی نذر ہورہا تھا، وہاں ایبی احمد کی لائی گئی اصلاحات قابلِ قدر تبدیلیوں کا باعث بننے لگیں۔ عوام کے چہروں پُرسکون اترا۔ معیشت کے ڈولتے پہیے کو قرار آیا اور پھر مختصر وقت میں ہی ایک ایسا نظام تشکیل پانے لگا کہ دنیا بھر کی نگاہیں ایتھوپیا کی جانب مرکوز ہونے پر مجبور ہو گئیں اور ایبی احمد کو بلاشبہہ ایک جینوئین لیڈر قرار دیا جانے لگا۔

ایتھوپیا سو ملین باشندوں کی سرزمین اور نائیجیریا کے بعد براعظم افریقا میں آبادی کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے، لیکن اس کی معیشت کی ترقی کی رفتار اس وقت خطے میں سب سے زیادہ تیز ہے، جس کا سہرا بلاشبہ نئے وزیراعظم کے سر جاتا ہے۔ ان کی اصلاحات دیکھ کر بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ صرف ایتھوپیا ہی نہیں بلکہ افریقا کی تاریخ میں ایبی احمد جیسا ریفارمر پہلے کبھی نہیں آیا۔ ایبی احمد نہایت قابل اور تعلیم یافتہ وزیراعظم ہیں، جن کا سب سے بڑا مقصد ایتھوپیا کو نسلی گروہوں کی باہمی چپقلش سے نجات دلا کر پُرامن اور متحد ملک کی حیثیت سے ابھارنا ہے۔



لیتھیم آئن بیٹری کی دریافت ایک ایسا منفرد کارنامہ ہے جس کی بنا پر اکتوبر میں کیمیا کا نوبیل انعام تین سائنس دانوں کا نصیب بنا ، جن میں امریکا کے جان بی گوڈاینوف (J.B Goodenough)، برطانیہ کے ایم اسٹینلے (Michel Stanley) اور جاپانی کیمیا داں اکیر ایو شینو (Akira Yoshino) شامل ہیں۔ اس بات سے بھلا کون واقف نہیں کہ لیتھیم آئن بیٹریوں سے انسانی زندگی میں ایک انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ موجودہ دور میں استعمال ہونے والی لیتھیم بیٹریاں کم وزن، بے پناہ طاقت کی حامل اور دوبارہ چارج ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان بیٹریوں کو روز ہم اپنے موبائل فون، لیپ ٹاپ اور گاڑیوں میں دیکھتے اور استعمال کرتے ہیں۔

26اکتوبر کو امریکی دستوں کے ایک آپریشن میں آئی ایس آئی ایس کے لیڈر ابو بکر بغدادی مارا گیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام کے علاقے ادلب میں امریکی فوجی کارروائی کے دوران شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کے سربراہ ابوبکر بغدادی کے مارے جانے کا بڑے فاتحانہ انداز میں اعلان کیا۔ بین الاقوامی تھنک ٹینک چیٹم ہاؤس میں مشرق وسطیٰ کے پروگرام کی ڈائریکٹر ڈاکٹر لینا خطیب ابوبکر البغدادی کے بعد کے حالات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ بغدادی کی ہلاکت کو یہ نہ سمجھا جائے کہ اس سے اب شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کا خاتمہ ہو چکا ہے۔

ابوبکر البغدادی کی موت سے دولت اسلامیہ پر مستقبل قریب میں زیادہ فرق نہیں پڑے گا لیکن اس گروپ کے زندہ رہنے کا انحصار شام کے حالات پر ہو گا بجائے یہ کہ اس کا کوئی رہنما ہے یا نہیں۔ بغدادی دولت اسلامیہ کے لیے بہت اہم تھا خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب یہ گروپ اپنی ریاست بنانے کے منصوبے بنارہا تھا۔ اس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہ خلیفہ کے بغیر خلافت بھی قائم نہیں کی جا سکتی دولت اسلامیہ نے بغدادی کو دنیا کے سامنے ایک چہرے کے طور پر پیش کیا تاکہ ان کے حمایتی یہ جان سکیں کہ اس گروپ کا کوئی رہنما بھی ہے۔ دولتِ اسلامیہ کی شام اور عراق میں شکست کے باوجود ان کے حمایتی بغدادی کے روپ میں ایک خلیفہ دیکھ رہے تھے جو کسی نہ کسی دن خلافت کی بحالی کو ممکن بنا سکے گا۔

نومبر کے مہینے میں جرمنی کا مشرقی شہر ڈریسڈن اسلام مخالف تحریک پیگیڈا کا گڑھ بنا رہا۔ 3نومبر کو اس شہر کی بلدیہ نے ایک ایسی قرار داد منظور کی ہے جس میں دائیں بازو کی انتہاپسندی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے شہر میں 'نازی ایمرجنسی' نافذ کر دی گئی۔ ڈریسڈن کی سٹی کونسل نے ارکان کی منظوری کے بعد ایک پالیسی بیان جاری کیا جس میں کہا گیا، ''ڈریسڈن شہر میں جمہوریت اور تکثیریت مخالف، نفرت اور دائیں بازو کی انتہا پسندی پر مبنی رویے اور تشدد پر مبنی اقدامات بڑھ رہے ہیں۔'' جرمنی کی انتہا پسند تنظیم اے ایف ڈی نے ستمبر میں مقامی انتخابات میں 28 فیصد کامیابی حاصل کی تھی۔

ڈریسڈن کی سٹی کونسل نے گزشتہ بدھ 'نازی ایمرجنسی' کے عنوان سے دائیں بازو کی انتہا پسندی کے خلاف قرارداد کی حمایت کی۔ قرارداد بائیں بازو کی جماعت ڈائی پارٹی کے مقامی کونسلر میکس اسچنباچ نے پیش کی تھی۔ انہوں نے مقامی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ اس شہر میں اب 'نازی مسئلہ' ہے۔

25نومبر کو جرمنی کے گرین والٹ ہسٹوریکل میوزیم ڈریسڈن سے چور18 ویں صدی کے تین ہیرے اور روبی جیولری کے سیٹ جرمنی کے تاریخی میوزیم ''لا واپے ورٹے'' سے چوری کرنے میں کامیاب ہوگئے جو یورپ کے خزانے کا ایک اہم ذخیرہ تھے۔ چور لاکرز توڑنے میں کامیاب ہوگئے۔

تاریخ کی اس سب سے بڑی چوری پہ دنیا حیران رہ گئی ۔ میوزیم کے نگراں نے بتایا کہ یہ ہیرے فروخت کے لئے نہیں ہیں۔ شہر کے عجائب گھروں کے ایک اور سربراہ نے بتایا کہ چوری شدہ زیورات ''دنیا کے ثقافتی ورثے کا حصہ'' تھے۔ ان کی ساکھ کو دیکھتے ہوئے بات چیت کرنا مشکل ہے کیوں کہ مارکیٹ میں اور میوزیم کے عہدیدار اس بات کو خارج نہیں کرتے کہ چور ان کو کسی اور شکل میں ری سائیکلنگ کرکے نقش بنانے کی کوشش کریں گے۔

نومبر کے مہینے میں دوائیوں کی امریکی کمپنی ''میرک اینڈ کو'' نے ایبولا وائرس کے لیے تیار کرہ اپنی اولین ویکسین کے لیے سب سے پہلی قانونی منظوری حاصل کرلی۔ اس جان لیوا مرض کے خلاف جنگ میں یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ 10 نومبر کو یورپی کمیشن نے 18 سال سے زائد عمر کے بالغ افراد کو میرک ارویبو ویکسین کے استعمال کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا۔

یہ فیصلہ مکمل منظوری کی جانب پہلا قدم ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مملکتِ جمہوریہ کانگو (یا ڈی آر سی) میں یہ وبا پہلے پھیلی ہوئی ہے اور گزشتہ برس اس کے آغاز سے لے کر آج تک 2,100 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ گو کہ یہ منظوری یورپی یونین کے لیے ہے مگر دوائیوں کے یورپی ادارے (ای ایم اے) کے مطابق یہ ویکسین پہلے ہی ''ہمدردانہ استعمال'' کے ایک پروگرام کے تحت ڈی آر سی میں استعمال کی جا چکی ہے۔

اس کا مقصد صحت کے شعبے میں کام کرنے والے افراد اور متاثرہ مریضوں سے رابطے میں آنے والے دیگر افراد سمیت اُن سب افراد کو محفوظ بنانا ہے جن کو اس بیماری کے لگنے کے سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ ای ایم اے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر گوائیڈو راسی نے اس منظوری کو ''اس مہلک بیماری کے بوجھ کو کم کرنے کی جانب ایک اہم قدم'' قرار دیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ارویبو متاثرہ ممالک میں انسانی جانیں بچائے گی۔12 نومبر کو صحت کی عالمی تنظیم (ڈبلیو ایچ او) نے ارویبو کو ''منظوری کا اہل ہونے'' کا درجہ دیا۔

اس کے بعد اقوام متحدہ کے ادارے اور ویکیسن کا اتحاد، گاوی اِس ویکسین کو خطرات سے دوچار ممالک میں استعمال کے لیے خرید سکیں گے۔ ڈبلیو ایچ او ویکسین کی منظوری دینے والے افریقی فورم کے ساتھ مل کر انفرادی ممالک میں اس ویکسین کی رجسٹریشن اور منظوری پر کام کر رہا ہے ایبولا کے خلاف جنگ میں امریکا کسی واحد ملک کی طرف سے عطیات دینے والے ممالک کی فہرست میں اول نمبر پر ہے۔ اِن عطیات میں انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد اور ڈی آر سی اور ہمسایہ ممالک میں ایبولا کی تیاری کے لیے امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے کے ذریعے 2018ء سے لے کر اب تک دی جانے والی 266 ملین ڈالر سے زائد کی امداد بھی شامل ہے۔

دسمبر کی 8تاریخ کو انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں ایک فیکٹری میں آگ لگنے سے43 افراد ہلاک ہوگئے۔ آگ پرانی دہلی کی اناج منڈی میں ایک فیکٹری میں لگی جب یہ واقعہ پیش آیا تو اس چار منزلہ عمارت میں کم از کم 10 افراد سو رہے تھے۔ اس عمارت میں سکول بیگ تیار کیے جاتے تھے۔ جائے حادثہ سے مجموعی طور پر 63 افراد کو نکالا گیا لیکن ان میں سے 43 کی موت ہوگئی ۔ آگ نیچے کی منزل پر لگی تھی لیکن جلد ہی وہ تیسری منزل تک پہنچ گئی جہاں بہت سے لوگ سو رہے تھے۔

انڈیا میں شہریت کا متنازع بل

انڈیا میں شہریت کا متنازع بل اور اس پر پھوٹنے والے ہنگاموں نے 2019کو جاتے جاتے بھی آلودہ کردیا۔ 11دسمبر کو ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں شہریت کے ترمیمی بل کو اکثریت رائے سے منظور کر لیا ہے لیکن اس کے بعد ملک کے مختلف حصے میں بل کے خلاف مظاہرے پھوٹ پڑے۔ وزیرداخلہ امت شاہ کی بار بار اس بات کی یقین دہانی کہ یہ بل مسلمان مخالف نہیں، اس کے باوجود شمال مشرقی ریاستوں آسام، تریپورہ اور میگھالیہ سے شروع ہونے والے مظاہرے دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں پھیل گئے۔

امیت شاہ نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ شمال مشرقی ریاستوں کے لوگوں کو اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں لیکن آسام میں طلبہ کی جماعتوں کے ایک اتحاد نارتھ ایسٹرن اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے ریاست کے تقریبا تمام تعلیمی اداروں میں مظاہرہ کیے۔ آسام میں کوئی ایسی یونیورسٹی نہیں ہے جہاں دن میں مظاہرے اور رات میں مشعل کے ساتھ جلوس نہ نکلے ہوں۔ اس بل کے مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ بل انڈین آئین کے آرٹیکل 5، 10، 14 اور 15 کی روح کے منافی ہے۔ بہت سے سیاسی اور سماجی حلقے بھی اس بل کو متنازع قرار دے رہے ہیں جس میں بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان کی چھ اقلیتی برادریوں (ہندو، بدھ، جین، پارسی، عیسائی اور سکھ) سے تعلق رکھنے والے افراد کو انڈین شہریت دینے کی تجویز ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ اس میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔ کانگریس کے راہنما ادھیر رنجن چودھری نے بھی اس بل کو آرٹیکل 5، 10، 14 اور 15 کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اس وقت یہ مظاہرے انڈیا کے تمام بڑے شہروں میں پھیل چکے ہیں۔ نئی دلی کے علاوہ ہزاروں مظاہرین مغربی بنگال، کلکتہ اور تامل ناڈو میں بھی بائیں بازو کی طلبا تنظیموں نے مظاہرے کر رہے ہیں۔

پولیس کی فائرنگ سے 20 سے زایادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں ، کلکتہ میں طلبا کا مشعل بردار جلوس بھی نکالا گیا۔ اس ترمیمی قانون کو عام طور پر مسلم مخالف بل کہا جا رہا ہے اور اسے انڈین آئین کی روح کے منافی قرار دیا جا رہا ہے۔ انڈیا کے مسلمان گروپ، اپوزیشن جماعتیں، اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بل کو وزیراعظم نریندر مودی کے 20 کروڑ سے زائد مسلمانوں کو پسماندہ رکھنے کے ہندو قوم پرست ایجنڈے کا حصہ گردانتے ہیں۔ تاہم مودی اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ایک مسلم جماعت نے اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ بل انڈیا کے آئین اور ملک کی سیکولر روایات کے خلاف ہے۔

'او آئی سی' کی طرز پر مسلمان ممالک کے اتحاد کی کوششیں

18 دسمبر 2019ء کو ملائیشیا کے شہر کوالالمپور میں مسلمان ممالک کی عالمی تنظیم 'آو آئی سی' کے متوازی اتحاد بنانے کے لیے ایک کانفرنس منعقد کی گئی، جس میں دعوت تو او آئی سی کے تمام 57 رکن ممالک کو دی گئی تھی، لیکن اس میں سے صرف 20 ممالک شریک ہوسکے، جس میں میزبان ملائیشیا کے علاوہ ترکی، قطر اور ایران نمایاں ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی اور انہی کی ایما پر پاکستان نے بھی آخر میں اس میں شرکت سے معذرت کرلی۔

او آئی سی نے اس اجلاس کی شدید مذمت کی اور اسے غیرمناسب قرار دیا، مہاتیر محمد نے کہا کہ یہ اجلاس مسائل حل کرنے کی ایک کوشش ہے، ہم کوئی دھڑے بندی کی کوشش نہیں کر رہے۔ پاکستان کے وزیراعظم ابتدا میں اس کانفرنس میں شرکت پر رضامند تھے لیکن عین موقع پر سعودی عرب کے دورے کے بعد انھوں نے کانفرنس میں شرکت سے معذرت کرلی۔ n
Load Next Story