عالمی ثالثی عدالت کشن گنگا بجلی گھر کیخلاف سماعت مکمل حکم امتناع برقرار
بجلی گھر کی تعمیر سے پاکستان کا نیلم جہلم بجلی گھر30فیصد پیداوار,وادی نیلم کا حصہ 2 ہزارکیوسک پانی سے محروم ہوجائیگا
پاکستان اوربھارت کے درمیان مقبوضہ کشمیر میں متنازع کشن گنگا بجلی گھر پرعالمی ثالثی عدالت میں سماعت مکمل ہوگئی۔
عدالت نے بجلی گھر کی تعمیر پر حکم امتناع برقرار رکھا۔اتوار کوپاکستان کے کمشنر سندھ طاس آصف بیگ مرزا اور وزیر اعظم کے مشیر برائے آبی وسائل کمال مجید اللہ کی سربراہی میں ہالینڈ جانے والی ٹیم کے ایک رکن نے وطن واپسی پر نجی ٹی وی کو بتایا کہ ثالثی عدالت نے دس روز سماعت کے بعد کشن گنگا بجلی گھر تنازع کا فیصلہ دسمبر میں سنانے کا عندیہ دیا ہے،عدالت کے سربراہ اور امریکا کے سابق چیف جسٹس اسٹیفن ایم شوایبل نے دریا کے بیڈ میں ڈیم کی دیوار تعمیر کرنے پر حکم امتناع برقرار رکھا ہے۔
پاکستانی وکلا جیمز کرافورڈ، وان لو ای اور سیمپسن وڈز ورتھ نے منصوبے پر دو اہم اعتراضات کیے اور سندھ طاس معاہدے اور بین الاقوامی انجینئرنگ پریکٹس کی روشنی میں دلائل دیے۔ پاکستانی وکلا نے مقبوضہ وادی میں بانڈی پورہ کے قریب دریائے کشن گنگا کا رخ موڑنے اور پاور ہاؤس کے گیٹ نچلی سطح پر نصب کرنے کو معاہدہ سندھ طاس کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے منصوبہ ختم یا اس کا ڈیزائن تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا۔
کشن گنگا بجلی گھر کے موجودہ ڈیزائن سے پاکستان کا نیلم جہلم بجلی گھر 30فیصد پیداوار اور وادی نیلم کا ایک حصہ 2 ہزار کیوسک پانی سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجائے گا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشن گنگا بجلی گھر کا تنازع اٹھارہ سال پرانا ہے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ ثالثی عدالت کے فیصلے سے بھارت کے بہت سے مجوزہ بجلی گھروں کے مستقبل کا فیصلہ بھی ہوجائے گا،جن کی وہ پاکستانی دریائے جہلم،چناب اور سندھ پر منصوبہ بندی کررہا ہے۔
عدالت نے بجلی گھر کی تعمیر پر حکم امتناع برقرار رکھا۔اتوار کوپاکستان کے کمشنر سندھ طاس آصف بیگ مرزا اور وزیر اعظم کے مشیر برائے آبی وسائل کمال مجید اللہ کی سربراہی میں ہالینڈ جانے والی ٹیم کے ایک رکن نے وطن واپسی پر نجی ٹی وی کو بتایا کہ ثالثی عدالت نے دس روز سماعت کے بعد کشن گنگا بجلی گھر تنازع کا فیصلہ دسمبر میں سنانے کا عندیہ دیا ہے،عدالت کے سربراہ اور امریکا کے سابق چیف جسٹس اسٹیفن ایم شوایبل نے دریا کے بیڈ میں ڈیم کی دیوار تعمیر کرنے پر حکم امتناع برقرار رکھا ہے۔
پاکستانی وکلا جیمز کرافورڈ، وان لو ای اور سیمپسن وڈز ورتھ نے منصوبے پر دو اہم اعتراضات کیے اور سندھ طاس معاہدے اور بین الاقوامی انجینئرنگ پریکٹس کی روشنی میں دلائل دیے۔ پاکستانی وکلا نے مقبوضہ وادی میں بانڈی پورہ کے قریب دریائے کشن گنگا کا رخ موڑنے اور پاور ہاؤس کے گیٹ نچلی سطح پر نصب کرنے کو معاہدہ سندھ طاس کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے منصوبہ ختم یا اس کا ڈیزائن تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا۔
کشن گنگا بجلی گھر کے موجودہ ڈیزائن سے پاکستان کا نیلم جہلم بجلی گھر 30فیصد پیداوار اور وادی نیلم کا ایک حصہ 2 ہزار کیوسک پانی سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجائے گا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشن گنگا بجلی گھر کا تنازع اٹھارہ سال پرانا ہے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ ثالثی عدالت کے فیصلے سے بھارت کے بہت سے مجوزہ بجلی گھروں کے مستقبل کا فیصلہ بھی ہوجائے گا،جن کی وہ پاکستانی دریائے جہلم،چناب اور سندھ پر منصوبہ بندی کررہا ہے۔