ارے ریفری کو ہی پیٹ ڈالا

انھیں زبردستی میچ نہ صرف دیکھنا پڑا بلکہ چارو ناچار بھگتنا بھی پڑا


خرم علی راؤ December 27, 2019

TEHRAN: ارے یہ کیا کر دیا بھائی ،کچھ تو خیال کرتے ایسا تو نہیں ہوتا، یار ریفری کو ہی پیٹ ڈالا۔ یہ ذکر ہے چند دن قبل لاہور میں ہونے والے مکسڈ مارشل آرٹ کے گروپ میچ کا جس میں وکلاء ان لمیٹڈ اور ڈاکٹرز دی پینتھرزکی ٹیمیں مد مقابل تھیں۔

میچ کی جھلکیوں کی ویڈیوزکئی دن پہلے سے گردش میں تھیں اور جیسا کہ ان للکار سے بھرپور سوشل میڈیائی ویڈیوز سے ظاہر ہو رہا تھا ، میچ نہایت سنسنی خیز ثابت ہوا لیکن کچھ بھی کہا جائے، انصاف کی بات یہ ہے کہ انصاف اور تبدیلی کے اس زریں دورمیں انصافیوں یعنی وکلاء کا پلہ بھاری رہا اور ایسا بھاری رہا کہ افسوسناک طور پر پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے قرب وجوار میں ہونے والا میچ پھیل کر اسپتال کے اندر جا پہنچا اورکہا جاتا ہے ،کچھ مریض بھی اس سارے ہنگامے میں جاں بحق ہوگئے، جوکہ واقعی اس واقعے کی افسوناک ترین بات ہے۔

یہ دل کا اسپتال تھا اور دل کے مریضوں کے لیے سب سے ضروری چیزوں میں سے ایک ہیجان ، خوف ، گھبراہٹ سے بچے رہنا اور سکون ہوتا ہے اسی لیے دنیا بھر میں دل کے اسپتالوں میں ماحول کو انتہائی پرسکون رکھا جاتا ہے اور مذکورہ واقعے کے دوران وہ تمام مریض اور ان کے تیمارداران اور جاں بحق ہونے والے مرحومین اور ان کے لواحقین کس اذیت اور پریشانی سے گزرے ہوں گے، اس کا اندازہ کوئی بھی درد مند دل رکھنے والا لگا سکتا ہے۔

ویسے ایسے دوگروہ یا طبقات جو معاشرے کے بظاہر پڑھے لکھے طبقے کی نمایندگی کے دعوے دار بنتے ہیں ان سے ایسی نادانیوں اور جہالت کی امید نہیں تھی۔ اب دیکھیں نا پورے منظر نامے پر غورکریں تو پہلے دونوں گروہوں کا ایک دوسرے کو بذریعہ ویڈیوز دھمکیاں دینا اور للکارنا اور پھر وکلا کی بہادر فوج کا سر فروشانہ انداز میں ڈاکٹرز کے قلعے پر دھاوا بولنا اور یلغار کے لیے آتے ہوئے پوری ویڈیو کو براہ راست سوشل میڈیا پر نشرکرنا اور پھر گھمسان کا رن پڑنا ، راستے بھر پولیس ، ایجنسیوں انتظامیہ کا میٹھی نیند سوتے رہنا اور میچ کے اختتام پر ہڑ بڑا کر ریفری کی پٹائی کے بعد کہیں جا کر جاگنا وغیرہ ، اب اس سارے جھنجھٹ اور جھنجھال سے بہترکیا یہ نہیں رہتا کہ جیسے پرانے زمانوں کی جنگوں میں ہوا کرتا تھا کہ ایک بہادر یہاں سے آتا اور ایک بہادر وہاں سے آتا ، دونوں فوجیں کھڑے ہو کر ان دلاوروں کی لڑائی دیکھا کیا کرتیں ، اور پھر چینلزکو بھی ایک اچھی فائٹ اپنے ناظرین کو براہ راست دکھانے کو مل جاتی اور یوں دو جنگجو آپس میں دلیرانہ مقابلہ کرتے اور جو جیتتا اس کا گروہ فاتح قرار دے دیا جاتا۔ اور بہتر ہوتا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے مبارک ہاتھوں سے فاتح کو ٹرافی اور باقی ٹیم کو میڈلز سے نوازتے تو یہ نوازنا کتنا زیادہ نوازنا ہو جاتا اور ہر طرف وزیر اعلیٰ کی واہ واہ ہو جاتی۔ کتنا اچھا ہوتا اگر یوں ہوتا اورکتنے فوائد بھی حاصل ہو جاتے، دیکھیں نا سب سے پہلے تو وہ بے چارے مریض جن کا اس مناقشے اور تنازعے سے لینا ایک نہ دینا دو ، والا تعلق تھا وہ خوامخواہ مصیبت میں آئے اور انھیں زبردستی میچ نہ صرف دیکھنا پڑا بلکہ چارو ناچار بھگتنا بھی پڑا۔

ایک اور فائدہ یہ ہوتا کہ پنجاب حکومت کے شیر دلیر انصافی وزیر صاحب کو جو رضاکارانہ طور پر ریفری کے فرائض انجام دینے کے لیے میچ کے دوران بن بلائے تشریف لائے تھے۔ خوامخواہ کی بدمزگی اور ہلکی پھلکی پٹائی کا سامنا کرنا پڑگیا حالانکہ وہ لاتوں کے بھوت بالکل بھی نہیں ہیں بلکہ باتوں کے کھلاڑی ہیں تو انھیں بھی صرف سنگل فائٹ کے دو جنگجوؤں کو سنبھالنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آتی ، بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ جتنے والے کو جوش میں آکر چیلنج بھی دے دیتے کہ بہت جوشیلے واقع ہوئے ہیں۔

چلیں خیر اب تو جو ہوا سو ہوا لیکن آیندہ کسی بھی اس طرح کے سنسنی خیز متوقع مقابلے میں امید ہے کہ یہ تجویز بھی ضرور زیر غور لائی جائے گی اور ہمارے وزیرِ با تدبیر صاحب کی اعلیٰ ظرفی دیکھیے کہ اس سارے واقعے کے بعد بھی ہشاش بشاش نظر آ رہے تھے اور اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ میڈیا کو بتا رہے تھے کہ ارے کوئی نہیں ، سب اپنے بچے ہیں ، ہوتا رہتا ہے ، اور میں تو ریفری تھا بیچ بچاؤ کرنا چاہ رہا تھا اور یہ تو اسپورٹس مین اسپرٹ کے بالکل خلاف ہے کہ ریفری کو مارا پیٹا جائے۔ اور ظاہر ہے کہ کوئی بھی عقل سلیم رکھنے والا فرد اس بات سے کیسے انکار کرسکتا ہے جو وزیر صاحب نے فرمایا ! بلکہ عقل سیلم نہ رکھنے والا بھی کسی بھی وزیر کی بات سے کہاں انکار کیا کرتا ہے۔

پھر آپ ہمارے ٹیلنٹڈ وزیرِ اعلیٰ کی ذہانت اور شفقت ملاحظہ فرمائیں کہ انھوں نے واقعے کے دو تین گھنٹے بعد فورا نوٹس لیتے ہوئے جاں بحق ہونے والے بے گناہ مریضوں کے لیے کسی بھی قسم کے ازالے یا مدد کا اعلان نہیں کیا اور قوم کو خود داری کا درس دیا اور بہ زبانِ خاموشی یہ سمجھایا کہ ہم اور ہماری قوم تو جیسے اس قسم کے ہر واقعے کے بعد جو فورا سرکاری امداد کا انتظار کرنے لگتے ہیں ، یہ بہت بری بات ہے اور خود داری کے بالکل منافی ہے۔ پھر وکلاء حضرات کے قائدین نے تو ذہانت کی انتہا کرتے ہوئے اس سارے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کرکے جو ڈاکٹروں کی مظلومیت کے نہلے پر دہلا مارا ہے وہ تو لاجواب ہے۔

یعنی خود ہی منصف اور خود ہی مدعی اور فیصلہ بھی خود ہی کا۔ لیکن ہم پر امید ہیں کہ ڈاکٹرز اور خصوصا ینگ ڈاکٹرز بھی بہت ذہین طبقہ اور گروہ ہوتا ہے ،کیونکہ اگر ذہین نہ ہوتے تو ڈاکٹری میں داخلہ کیسے لے پاتے کہ اب ہر جگہ تو چاچا ، ماما اور دادا گیری نہیں چلتی اور ہمارے میڈیکل کالجز میں تو جتنی میرٹ کی پیروی کی جاتی ہے ، وہ اظہر من الشمس ہے۔ تو یہ ذہین ، نوجوان پرجوش اور متحرک ڈاکٹر لوگ اس جوڈیشل انکوائری والے وکلاء کے اس دہلے پر میڈیکل انکوائری اور ڈوپ ٹیسٹ کرانے کا ترپ کے اکے جیسا مطالبہ ضرور کریں گے اور اگر ایسا ہوا اور وکلاء کا ڈوپ ٹیسٹ اگر مثبت آگیا تو پھر میچ جیتنے کا کریڈٹ بجائے وکلاء کے معالجین کو دیے جانا ہر قسم کے کھیلوں کے بین الاقوامی اصولوں کے عین مطابق ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔