دھوکے کا گھر
دنیا کی زندگی محدود ہے۔ اس لیے ہمیشہ آخرت کی فکر دامن گیر ہونی چاہیے
اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں کئی جگہ دنیا کی ناپائیداری کو واضح مثالوں کے ذریعے سمجھایا ہے۔ مفہوم: ''دنیا کی زندگی کی وہی مثال ہے جیسے ہم نے پانی اُتارا، پھر رلا ملا نکلا اس سے زمین کا سبزہ، جس کو آدمی اور جانور کھاتے ہیں۔
یہاں تک کہ جب زمین بارونق اور مزیّن ہوگئی اور زمین والوں نے خیال کیا کہ یہ ہمارے ہاتھ لگے گی، کہ اچانک اس پر ہمارا حکم رات یا دن کو آ پہنچا، پھر کر ڈالا اس کو کاٹ کر ڈھیر، گویا کل یہاں نہ تھی آبادی، اسی طرح ہم کھول کر بیان کرتے ہیں نشانیوں کو ان لوگوں کے سامنے جو غور کرتے ہیں۔'' (سورۃ یونس) یعنی جس طرح زمین سیرابی کے بعد شاداب نظر آتی ہے مگر یہ شادابی عارضی ہے۔ اگر کوئی آسمانی آفت اس پر نازل ہوجائے، تو اس کی شادابی چند لمحوں میں ختم ہوکر رہ جائے۔
نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اگر اﷲ تعالیٰ کی نظر میں دنیا کی حیثیت ایک مچھر کے پَر کے برابر بھی ہوتی، تو اس میں سے کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نصیب نہ فرماتا۔
نبی کریمؐ صحابہ کرامؓ کے ہم راہ جارہے تھے۔ راستے میں بکری کا ایک مرا ہوا بچہ پڑا نظر آیا۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا: ''کیا خیال ہے اس بچے کے گھر والوں نے اسے بے حیثیت سمجھ کر یہاں پھینک دیا ہے؟'' صحابہ کرامؓ نے اس کی تائید فرمائی، تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: ''اﷲ تعالیٰ کے نزدیک دنیا اس بکری کے بچے کے اپنے گھر والوں کی نظر میں ذلیل ہونے سے زیادہ بے وقعت ہے۔'' دنیا کی زندگی محدود ہے۔ اس لیے ہمیشہ آخرت کی فکر دامن گیر ہونی چاہیے۔ کفّار کی دنیوی شان و شوکت دیکھ کر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ''آپ کو دھوکا نہ دے کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا، یہ فائدہ ہے تھوڑا سا، پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔''
دراصل اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں پر واضح فرما دیا کہ دنیا کی چمک دمک اور کفّار کے پاس مال کی فراوانی کام یابی کی دلیل نہیں ہے، یہ مال و دولت عارضی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ دنیا کے بہ جائے اپنی آخرت سنوارنے کے لیے جدوجہد اور فکر کریں۔ دنیا عافیت کی جگہ نہیں ہے۔ اس لیے دنیوی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہوئے احکامِ الٰہی کی روشنی میں زندگی بسر کرنا چاہیے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''دنیا مومن کے لیے قیدخانہ اور کافر کے لیے جنّت ہے۔''
حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''تم دنیا میں اس طرح رہو گویا کہ تم مسافر ہو۔''
اﷲ تعالیٰ ہمیں دنیا و آخرت میں کام یابی عطا فرمائے
یہاں تک کہ جب زمین بارونق اور مزیّن ہوگئی اور زمین والوں نے خیال کیا کہ یہ ہمارے ہاتھ لگے گی، کہ اچانک اس پر ہمارا حکم رات یا دن کو آ پہنچا، پھر کر ڈالا اس کو کاٹ کر ڈھیر، گویا کل یہاں نہ تھی آبادی، اسی طرح ہم کھول کر بیان کرتے ہیں نشانیوں کو ان لوگوں کے سامنے جو غور کرتے ہیں۔'' (سورۃ یونس) یعنی جس طرح زمین سیرابی کے بعد شاداب نظر آتی ہے مگر یہ شادابی عارضی ہے۔ اگر کوئی آسمانی آفت اس پر نازل ہوجائے، تو اس کی شادابی چند لمحوں میں ختم ہوکر رہ جائے۔
نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اگر اﷲ تعالیٰ کی نظر میں دنیا کی حیثیت ایک مچھر کے پَر کے برابر بھی ہوتی، تو اس میں سے کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نصیب نہ فرماتا۔
نبی کریمؐ صحابہ کرامؓ کے ہم راہ جارہے تھے۔ راستے میں بکری کا ایک مرا ہوا بچہ پڑا نظر آیا۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا: ''کیا خیال ہے اس بچے کے گھر والوں نے اسے بے حیثیت سمجھ کر یہاں پھینک دیا ہے؟'' صحابہ کرامؓ نے اس کی تائید فرمائی، تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: ''اﷲ تعالیٰ کے نزدیک دنیا اس بکری کے بچے کے اپنے گھر والوں کی نظر میں ذلیل ہونے سے زیادہ بے وقعت ہے۔'' دنیا کی زندگی محدود ہے۔ اس لیے ہمیشہ آخرت کی فکر دامن گیر ہونی چاہیے۔ کفّار کی دنیوی شان و شوکت دیکھ کر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ''آپ کو دھوکا نہ دے کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا، یہ فائدہ ہے تھوڑا سا، پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔''
دراصل اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں پر واضح فرما دیا کہ دنیا کی چمک دمک اور کفّار کے پاس مال کی فراوانی کام یابی کی دلیل نہیں ہے، یہ مال و دولت عارضی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ دنیا کے بہ جائے اپنی آخرت سنوارنے کے لیے جدوجہد اور فکر کریں۔ دنیا عافیت کی جگہ نہیں ہے۔ اس لیے دنیوی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہوئے احکامِ الٰہی کی روشنی میں زندگی بسر کرنا چاہیے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''دنیا مومن کے لیے قیدخانہ اور کافر کے لیے جنّت ہے۔''
حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''تم دنیا میں اس طرح رہو گویا کہ تم مسافر ہو۔''
اﷲ تعالیٰ ہمیں دنیا و آخرت میں کام یابی عطا فرمائے