کراچی سمیت اندرون سندھ میں آبادی کم ووٹرز زیادہ ہوگئے

مردم شماری نہ ہونے اور2011کی خانہ شماری کی بنیاد پربلدیاتی حلقے بنانے سے فرق سامنے آیا۔

مردم شماری نہ ہونے اور2011کی خانہ شماری کی بنیاد پربلدیاتی حلقے بنانے سے فرق سامنے آیا۔ فوٹو فائل

KARACHI:
مردم شماری کے نہ ہونے کے باعث کراچی سمیت اندرون سندھ میں بلدیاتی حلقہ بندیوں کی تشکیل کے موقع پر کئی اضلاع میں آبادی کم اور ووٹرز کی تعداد زیادہ آرہی ہے۔

کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جن کا وجود 98ء کی مردم شماری میں نہیں ہے تاہم نئی آبادکاری اور 2011ء کی خانہ شماری کی بنیاد پرہونے والی انتخابی فہرستوں کے باعث یہاں بلدیاتی حلقے تشکیل دیے جارہے ہیں،ضلع غربی میں لیاری ایکسپریس وے کے نوآبادکار تیسرٹاؤن،ہاکس بے اور بلدیہ ٹاؤن میں چند سال قبل آباد ہوئے ہیں تاہم اب یہاں بلدیاتی حلقے بنائے جارہے ہیں،متعلقہ اداروں کے مطابق بلدیاتی حلقوں کی تشکیل کے لیے اس میں کوئی قانونی مسئلہ نہیں ہے تاہم فنڈز کے اجراکے موقع پریہاں قانونی پیچیدگی آئے گی اور عوام اپنے جائزحق سے محروم رہیں گے۔

تفصیلات کے مطابق کراچی کی آبادی 98ء کی مردم شماری میں 98لاکھ سے زائد ہے جبکہ 2011ء کی خانہ شماری کے بلاکس کی بنیاد پر انتخابی فہرستوں میں کراچی میں ووٹرز کی تعداد 71لاکھ سے زائد ہے، قانون کے مطابق فنڈز کا اجرا آبادی و غربت اور دیگرعوامل کے مطابق کیا جاتا ہے۔




کراچی میں 98ء کی مردم شماری کے موقع پرکئی مقامات پر آبادی کا یا تو وجود ہی نہیں تھا یا آبادی100افراد سے بھی کم تھی تاہم 15سال کے دوران ہزاروں افراد کی نقل مکانی بالخصوص کراچی کے مضافات میں تعمیرنوسے کئی بستیاں وجود میں آگئیں۔

ذرائع نے بتایا کہ 98ء کی مردم شماری کے لحاظ سے ضلع غربی میں دیہہ مٹھان کی آبادی صرف 99افراد پرمشتمل تھی تاہم اب یہ گلشن بہارکی توسیع ہے اور ہزاروں افراد رہائش پذیر ہیں، ضلع شرقی میں باغ کورنگی میدانی علاقہ تھا اور آبادی کا کوئی وجود نہیں تھا، 5 سال قبل یہاں ہزاروں افراد کی آبادکاری ہوچکی ہے، 15 سال قبل گلستان جوہر کی میونسپل حدود الہ دین پارک سے پہلوان گوٹھ کی آبادی صرف 43ہزار تھی، اب یہاں فلیٹوں کے جنگل تعمیر ہونے سے آبادی لاکھوں تک پہنچ چکی ہے، متعلقہ ڈپٹی کمشنرز نے بتایا کہ سندھ حکومت کی ہدایت کے مطابق 98ء کی مردم شماری اور 2011ء کی خانہ شماری کی بنیاد پر بلدیاتی حلقے تشکیل دیے جارہے ہیں جس کے باعث کچھ مقامات پر آبادی کم اور ووٹرز کی تعداد زیادہ آرہی ہے تاہم اس میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔

Recommended Stories

Load Next Story