ٹیکسوں میں اضافے پر بزنس کمیونٹی سراپا احتجاج

پاکستان میں بجلی،گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے بعد ڈالر کی قیمت کو بھی پر لگ گئے ہیں۔

روپے کی گرتی ہوئی قدر کے باعث بڑے بڑے کاروباری گروپ پاکستان سے اپنے پلانٹ اور سرمایہ بیرون ملک منتقل کر رہے ہیں۔ فوٹو:فائل

گزشتہ کئی برسوں سے پاکستانی معیشت کوتوانائی بحران سمیت کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔

عام آدمی اور بزنس کمیونٹی ابھی بجلی،گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے مضر اثرات سے سنبھل نہ پائے تھے کہ ڈالر کی قیمت کو پر لگ گئے اور وہ 107روپے کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی اور امپورٹرز نے اپنے درآمدی آرڈرز منسوخ کردیئے۔ ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاؤ سے ملکی معیشت کو روزانہ اربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

بڑے بڑے کاروبار ی گروپ پاکستان سے اپنے پلانٹ اور سرمایہ بیرون ملک منتقل کر رہے ہیں ۔ ایسے نامساعد حالات میں حکومت نے بزنس کمیونٹی کوریلیف دینے کی بجائے سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافے کے ساتھ نئے ٹیکسوںکا نفاذ کر کے صنعتی وتجارتی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے ۔ سیلز ٹیکس کے نفاذ کیلئے حکومت اور کاروباری برادری میں گزشتہ دو عشروں سے آنکھ مچولی جاری ہے۔

پاکستان میں سیلز ٹیکس کی تاریخ 66 سال پرانی ہے سب سے پہلے یہ 1947ء میں لگایا گیا لیکن چند سال بعد ختم کردیا گیا ۔ نواز شریف کی وزارت عظمٰی کے پہلے دور میں دوبارہ سیلزٹیکس آرڈیننس کے ذریعے اس کا اطلاق کیا گیا۔ اس کی شرح 15فیصد رکھی گئی۔ جس پر ملک بھر میں تاجر تنظیموں نے تاجر رہنما اظہر سعید بٹ کی قیادت میں سیلز ٹیکس کے نفاذ کے خلاف احتجاجی تحریک چلائی اور پہلی بار نواز شریف حکومت کے خلاف کامیاب شٹر ڈاؤن ہڑتال ہوئی ، اس دوران تاجروں پر شدید لاٹھی چارج کیا گیا جس میں اظہر سعید بٹ سمیت دیگر کئی تاجر لیڈر زخمی حالت میں گرفتار بھی ہوئے ۔

اب حکومت نے سیلز ٹیکس کی شرح بڑھاکر 17 فیصد کردی ہے جس پر صنعتی و تجارتی تنظیموں کی طرف سے شدید احتجاج کیا گیا اور ہڑتال کی کالز بھی دی گئیں لیکن باہمی اختلافات کی وجہ سے بزنس کمیونٹی اس اہم ترین ایشو پر اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی ۔ تاہم انفرادی طور پر فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس(ایف پی سی سی آئی) کے ریجنل چیئرمین اظہر سعید بٹ نے اس حوالے سے پنجاب بھر کے چیمبرز کی کانفرنس منعقد کرکے بزنس کمیونٹی کیلئے موثر آواز اٹھائی۔

ایف پی سی سی آئی لاہورآفس میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بزنس کمیونٹی سے خطاب میں نئے ٹیکسوں کو ظالمانہ قراردیتے ہوئے کہا کہ ملک اس وقت دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے ہمیں ملک کو بچانے کے لیے کرپشن جیسے ناسور کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے موجودہ ٹیکس سسٹم پر شدید تنقید کی جس کی بدولت پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر مزید 20سے 30فیصد ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے جو کہ ایمانداری سے ٹیکس دینے والوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹیکس دینے والوں کو تنگ کرنے کی بجائے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرے ۔


انہوں نے مزید کہا کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ لوگوں کو سڑکوں پر آ کر احتجاج کرنے پر مجبور کردے گا۔ عمران خان نے بزنس کمیونٹی کو صوبہ خیبر پختونخوا میں سرمایہ کاری کی بھی دعوت دی ۔ یہ دلچسپ امر ہے کہ سیلز ٹیکس کا نفاذ نواز شریف کے سابقہ دور اقتدار میں ہوا اور اب اس ٹیکس کی شرح میں اضافہ بھی ان کے دور میں ہوا ہے ۔ تاہم دونوں بار اس ٹیکس کے نفاذ کے خلاف احتجاجی تحریک کی قیادت وفاق صنعت و تجارت کے پلیٹ فارم پر اظہر سعید بٹ ہی کر رہے ہیں ۔

لاہورچیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر انجینئر سہیل لاشاری سے مختلف صنعتی وتجارتی تنظیموں کے وفود نے ملاقات کرکے سیلزٹیکس کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا جس پر لاہور چیمبر کے صدر نے چیئرمین ایف بی آرکوخط لکھ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا جس میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ کسی بھی نئے ٹیکس کے نفاذ یا ٹیکسوں کی شرح میں اضافے سے پہلے چیمبرز آف کامرس اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اسلام آباد میں پنجاب کی تاجرتنظیموں کے نمائندوں کو مدعو کیا اورچیئرمین ایف بی آر کی موجودگی میں ٹیکسوں کے حوالے سے ان کے مطالبات سنے جن میں سے چند ایک کے فوری حل کا وعدہ بھی کیا گیا۔ لیکن تاجر برادری اس سے مطمئن نہ ہوسکی اور وزیراعلیٰ سے تاجروں کی اس ملاقات کو لیگی کارکنوں کی ملاقات قراردیا۔ تاہم وزیر اعلیٰ کی ٹیم اس ملاقات کا اہتمام کر کے پہلے سے ہی درجنوں دھڑوں میں منقسم تاجر تنظیموں کو مزید تقسیم کرنے میں کامیاب ہوئی کیونکہ ا س اجلاس کے بعد مختلف تاجر تنظیموں کی طرف سے دی گئی ہڑتال کی کالز واپس لینے کے اعلانات کیے گئے۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں آل پاکستان انجمن تاجران کے صدر خالد پرویز اور جنرل سیکرٹری عبدالرزاق ببر نے اس حوالے سے پریس کانفرنس منعقد کر کے کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

تاجرتنظیموں کا کہنا ہے کہ تاجروں پر مقدمات بنائے جا رہے ہیں جس سے بزنس کمیونٹی میں شدید خوف وہراس پایا جاتا ہے۔ سیلز ٹیکس فارم انتہائی پیچیدہ ہے جس کو سنگل صفحے کا ہونا چاہیے۔ ساڑھے 4لاکھ روپے سے زیادہ کی آمدن کو ٹیکس ادائیگی کے قابل قراردیتے ہوئے ساتھ ہی ویلتھ ٹیکس کی سٹیٹمنٹ بھی مانگ لی گئی ہے ۔گزشتہ 13 سال میں یہ مطالبہ نہیںکیا گیا اس لیے تاجروں کے لئے ویلتھ سٹیٹمنٹ دینا ناممکن ہے اور تاجر کسی بھی صورت ویلتھ سٹیٹمنٹ جمع نہیں کروائیں گے۔ 10لاکھ سے زائد کے لین دین کی چیکنگ ومانیٹرنگ کا اختیار ایف بی آر کو دیا گیا ہے اسے ختم کیا جائے۔

سیلزٹیکس رجسٹرڈ فروخت کنندہ ایس ٹی این رکھنے والے کو مال بیچے گا تو4فیصداور غیر رجسٹرڈ ادارے یاکمپنی کو مال فروخت کرے گا تو 5فیصدایڈوانس ٹیکس وصول کرے گا۔ اس طرح ایف بی آر اپنی ذمہ داری تاجروں کے گلے میں ڈال رہی ہے تاجر ود ہولڈنگ ایجنٹ کا کردار ادا نہیں کریں گے اور یہ ٹیکس وصول نہیں کریں گے۔ ماہانہ ٹیکس ریٹرن جمع نہ کروانے پر2500روپے روزانہ کے حساب سے جرمانہ اور اس کے بعد چھ ماہ تک قید وجرمانے کی سزا ہوگی۔ اے کیٹیگری کے علاقے میں پر پراپرٹی ٹیکس کی شرح میں دس گنا اضافے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے ۔

پہلے یہ 12روپے فی مربع گز کے حساب سے لگایا گیا تھا اب نئے شیڈول میں یہ 120روپے فی مربع گز کیا جا رہا ہے، اسے تاجر قبول نہیں کریں گے ۔ جبکہ گزشتہ 13سال سے پراپرٹی سروے نہیں کیا گیا جبکہ یہ سروے ہرتین سے پانچ سال کے بعد ہوتا ہے۔ سروے نہ کرنے پر متعلقہ محکموں کے ذمہ داران کو سزائیں دینی چاہیے۔ ایسے ہتھکنڈوں سے ایف بی آر کا ریونیو میں اضافے کا خواب تو پورا نہیں ہوگا تاہم انڈسٹری بند اور ملک سے سرمایے کا انخلاء تیز ہوجائے گا۔
Load Next Story