کیا خیبر پختونخوا حکومت نیٹو سپلائی روک پائے گی
جب مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے بعد میدان میں اترنے کا وقت آیا تو ایک ڈرون حملہ سب کچھ لے ڈوبا۔
ISLAMABAD:
امریکا نے موقع محل دیکھ کر حکیم اللہ محسود کو نشانہ بنایا یا پھر یہ موقع پیدا کیا گیا اور ایک ایسے وقت میں ڈرون حملہ کیا گیا کہ جس کی وجہ سے پاکستان شدید مشکلات میں گھر گیا ہے۔
کیونکہ جس مذاکراتی عمل کا اختیار 9 ستمبر کو ملک کی سیاسی قیادت نے مرکز کو دیا تھا اس کے حوالے سے اتنے عرصہ کے دوران راہ ہموار کی جارہی تھی اور جب راہ ہموار کرنے کے بعد میدان میں اترنے کا وقت آیا تو ایک ڈرون حملہ سب کچھ لے ڈوبا ،حکومت نے اب تک قیام امن کے سلسلے میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے جو کوششیں کی تھیں وہ سب اس وقت رائیگاں ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں کیونکہ ڈرون حملہ میں صرف حکیم اللہ محسود ہی اس دنیا سے نہیں گئے بلکہ اپنے ساتھ امن کی وہ کوششیں بھی لے گئے ہیں جن کا پوری قوم انتظار کر رہی تھی ، حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد طالبان نے پاکستانی حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل کو نہ صرف ختم کرنے کا اعلان کیا ہے بلکہ وہ مذکورہ ڈرون حملہ کے حوالے سے حکومت کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ۔
مرکزی حکومت نے ڈیڑھ ،دو ماہ کی طویل مشق کے بعد صورت حال کو اس قابل بنایاتھا کہ قیام امن کے لیے مرکزی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی گاڑی چل سکے اور ابھی یہ گاڑی چلنے ہی والی تھی کہ اس کو ایک ڈرون حملے نے کھڈے لائن لگادیا ہے جس کے بعد اب یہ امید کرنا کہ فوری طور پر مذاکراتی عمل دوبارہ شروع ہوجائے گا کسی بھی طور درست نہیں ہے کیونکہ طالبان اس وقت اپنا ردعمل دکھا رہے ہیں۔
جس میں انہوں نے نہ صرف مذاکراتی عمل کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے بلکہ ساتھ ہی حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان بھی کیا ہے ، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چونکہ ان کے سربراہ کو ہلاک کیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ ایسی کیفیت میں ہیں کہ ان کی جانب سے ایسا ردعمل سامنے آنا فطری عمل ہے جبکہ دوسری جانب طالبان تاحال اپنے نئے قائد کا فیصلہ بھی نہیں کر پائے جس کے حوالے سے مشاورتی عمل جاری ہے اور یہ کام قدرے مشکل اس لیے نظر آرہا ہے کیونکہ بیت اللہ محسود کے دور میں طالبان کے تمام گروپ یکجا ہوئے تھے اور بیت اللہ محسود طالبان کے پہلے متفقہ سربراہ کے طور پر منظر پر آئے تھے اور جب 2009 ء میں بیت اللہ محسود ڈرون حملے میں جاں بحق ہوئے تو اس کے بعد طالبان کی کمان حکیم اللہ محسود کے ہاتھ میں آگئی۔
تاہم تب اور اب کے حالات میں کافی تبدیلی آچکی ہے اور معاملات تقسیم درتقسیم کا شکارہیں اور آئندہ سال افغانستان سے امریکی انخلاء اور اس خطے میں ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں یہ فیصلہ مزید مشکل ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ طالبان کا آئندہ امیر جو کوئی بھی ہوگا تاہم وہ نئے امیر کی تقرری کے سلسلے میں ٹی ٹی پی کے بینر تلے شامل تمام گروپوں کے علاوہ ان گروپوں کے ساتھ بھی مشاورتی عمل کریں گے جو افغانستان میں سرحدی علاقوں میں موجود اور ٹی ٹی پی کے ساتھ رابطوں میں ہیں تاکہ نیا امیر متفقہ ہو اور اس پر کوئی نیا تنازعہ نہ کھڑا ہوجائے ۔
ڈرون حملے اور نیٹو سپلائی کے معاملات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور جب ،جب بھی ڈرون حملے ہوتے رہے ہیں تب ،تب نیٹو کی سپلائی کی بندش کا مطالبہ بھی اٹھتا اور زور پکڑتا رہا ہے تاہم اب جبکہ ایک امید بندھ چلی تھی کہ مرکزی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل شروع ہوگا اور امن کے قیام کی راہ نکل آئے گی ،ایسے موقع پر ایک ڈرون حملہ نے جب سب کچھ تہس نہس کردیا ہے ،نیٹو کو رسد کی سپلائی بند کرنے کا معاملہ کیسے دبا رہ سکتا تھا یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے مرکز کو کوسوں پیچھے چھوڑتے ہوئے بڑے واضح انداز میں اعلان کردیا کہ ''صوبائی حکومت جاتی ہے تو جائے لیکن نیٹو سپلائی کو ہر صورت بند کیاجائے گا''،
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ان کی پارٹی یہ تجویز نہ مانتی تو وہ اپنے پارٹی تک سے الگ ہو جاتے، وہ اس حد تک اسی لیے گئے ہیں کہ انھیں پتا ہے کہ اس وقت ایسا ہی موقف اپنانے کی ضرورت ہے اور پھر ایسے سخت موقف کے ذریعے مرکزی حکومت کو بھی اس بات پر مجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کوئی سخت قدم اٹھائے اسی لیے عمران خان کی ہدایت پر ہی صوبائی حکومت نے اسمبلی کا اجلاس بلاتے ہوئے نیٹو کو سپلائی کی بندش کی قرارداد منظور کرائی ہے حالانکہ یہ بات اپنی جگہ موجود ہے کہ صوبائی حکومت اپنے طور پر نیٹو کو رسد کی بندش کرسکتی ہے کیونکہ افغانستان میں موجود نیٹو افواج کو جانے والی رسد کے حوالے سے جو بھی معاہدہ ہے وہ مرکزی حکومت کے ساتھ ہی ہوا ہے اور مرکزی حکومت ہی اس بات کی ضامن ہے کہ یہ سامان پاکستان کی حدود سے گزرتا ہوا افغانستان پہنچ جائے ،
ایسے میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی ایک صوبائی حکومت مرکز سے آگے جاتے ہوئے نیٹو کو جانے والے سامان کو اپنے طور پر روک سکتی ہے یا نہیں ؟تاہم عام خیال یہی کیا جا رہا ہے کہ اتنا سخت موقف اور اسی موقف کے تحت ایسا قدم اٹھانے کی بات اسی لیے کی گئی ہے کہ مرکزی حکومت خود ہی نیٹو کو رسد کی سپلائی بند کرنے کا اعلان کردے جیسا کہ اس سے پچھلی حکومت بھی کرچکی ہے حالانکہ پیپلزپارٹی کی حکومت موجودہ حکومت کے مقابلہ میں کمزور تھی جو اتحادیوں کے زور پر چل رہی تھی اور اس کے مقابلہ میں موجودہ حکومت کافی مضبوط ہے ، تاہم یہ فیصلہ آسان نہیں ہے اسی لیے مرکز پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت کی مشاورت ہی سے فیصلہ کرے گا تاکہ ذمہ داری کا بوجھ اسے اکیلے نہ اٹھانا پڑے بلکہ سب مل کر یہ بوجھ اٹھائیں ۔
نیٹو کو سپلائی کی بندش کے معاملہ پر جماعت اسلامی ،تحریک انصاف کے شانہ بشانہ کھڑی ہے بلکہ اس سے ایک قدم آگے جانے کے لیے تیار ہے جس نے نیٹو سپلائی کو بندش کے خلاف مظاہرہ کا اعلان بھی کردیا ہے ، حالانکہ یہ مظاہرہ تو بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا تاہم غالباًپانچ ماہ جماعت اسلامی اقتدار کی نزاکتوں کا شکار تھی اور اب اس کے ہاتھ یہ موقع آیا ہے جس پر اس نے فوری طور پر مظاہرہ کا اعلان کردیا ہے تاہم جہاں تک قومی وطن پارٹی کا تعلق ہے تو قومی وطن پارٹی نے اس فیصلہ پر اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ اسے مذکورہ فیصلہ پر اعتماد میں نہیں لیا گیا ،یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ قومی وطن پارٹی نے حکومت کے کسی فیصلہ کے حوالے سے احتجاج کیا ہے ، اس سے قبل وزیراعلیٰ کے چیمبر میں قومی وطن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر کی پی ٹی آئی کے وزیر سے جھڑپ اور پھر اسراراللہ گنڈا پور کی شہادت کے حوالے سے بحث کے لیے بلائے گئے اسمبلی اجلاس سے مسلسل پانچ دن بائیکاٹ جیسا قدم بھی قومی وطن پارٹی کے ارکان نے اٹھایا ہے جن کا شکوہ ہی یہ ہے کہ تحریک انصاف جو بھی فیصلے کرتی ہے اس میں پہلے فیصلہ کیاجاتا ہے اور بعد میں یہ فیصلہ اتحادیوں کو سنادیاجاتا ہے ۔
جس کے بعد رائے دینے کی کوئی تک ہی نہیں بنتی ،قومی وطن پارٹی کا یہ موقف اپنی جگہ بالکل بجا ہے کیونکہ مخلوط حکومتوں میں جب بھی معمول سے ہٹ کر کوئی اہم فیصلہ کیا جاتا ہے تو اس سے قبل اتحادی جماعتوں کے قائدین کو اعتماد میں لیاجاتا ہے تاکہ جو بھی فیصلہ کیاجائے اس میں سب کی رائے بھی شامل ہو اور اس کی پشت پر بھی سب کھڑے ہوں تاہم اگر وہ پارٹی جو اقتدار کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہو وہ اپنے اتحادیوں کو اس طرح نظر انداز کرنا شروع کردے کہ فیصلے کرنے کے بعد اتحادیو ں پر ان کو مسلط کیاجائے تو ممکنہ طور پر کوئی دوسری پارٹی تو ایسے فیصلے تسلیم کرلے ۔
تاہم جہاں تک آفتاب احمد شیر پاؤ کی بات ہے تو وہ ایسا کوئی بھی فیصلہ جس میں ان کی رائے شامل نہ ہو اسے کیسے تسلیم کرسکتے ہیں اور پھر وہ بھی اس صورت میں کہ موجودہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک ان کے نشیب وفراز کے ساتھی رہ چکے ہوں، ایسے ساتھی پر اگر ایک جانب گلہ کیا جاتا ہے دوسری جانب اس زعم کے ٹوٹنے کا بھی افسوس ہوتا ہے کہ قریبی ساتھی اس طرح نظر انداز کر رہا ہے، اس لیے پرویز خٹک اور ان کی پارٹی، نیٹو سپلائی کی بندش کرتی ہے یا کوئی دوسرا اہم فیصلہ، تاہم اسے اپنے اتحادیوں کو ساتھ لے کر ہی چلنا چاہیے کیونکہ مخلوط حکومت اور موجودہ حالات اسی بات کے متقاضی ہیں ۔
امریکا نے موقع محل دیکھ کر حکیم اللہ محسود کو نشانہ بنایا یا پھر یہ موقع پیدا کیا گیا اور ایک ایسے وقت میں ڈرون حملہ کیا گیا کہ جس کی وجہ سے پاکستان شدید مشکلات میں گھر گیا ہے۔
کیونکہ جس مذاکراتی عمل کا اختیار 9 ستمبر کو ملک کی سیاسی قیادت نے مرکز کو دیا تھا اس کے حوالے سے اتنے عرصہ کے دوران راہ ہموار کی جارہی تھی اور جب راہ ہموار کرنے کے بعد میدان میں اترنے کا وقت آیا تو ایک ڈرون حملہ سب کچھ لے ڈوبا ،حکومت نے اب تک قیام امن کے سلسلے میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے جو کوششیں کی تھیں وہ سب اس وقت رائیگاں ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں کیونکہ ڈرون حملہ میں صرف حکیم اللہ محسود ہی اس دنیا سے نہیں گئے بلکہ اپنے ساتھ امن کی وہ کوششیں بھی لے گئے ہیں جن کا پوری قوم انتظار کر رہی تھی ، حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد طالبان نے پاکستانی حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل کو نہ صرف ختم کرنے کا اعلان کیا ہے بلکہ وہ مذکورہ ڈرون حملہ کے حوالے سے حکومت کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ۔
مرکزی حکومت نے ڈیڑھ ،دو ماہ کی طویل مشق کے بعد صورت حال کو اس قابل بنایاتھا کہ قیام امن کے لیے مرکزی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی گاڑی چل سکے اور ابھی یہ گاڑی چلنے ہی والی تھی کہ اس کو ایک ڈرون حملے نے کھڈے لائن لگادیا ہے جس کے بعد اب یہ امید کرنا کہ فوری طور پر مذاکراتی عمل دوبارہ شروع ہوجائے گا کسی بھی طور درست نہیں ہے کیونکہ طالبان اس وقت اپنا ردعمل دکھا رہے ہیں۔
جس میں انہوں نے نہ صرف مذاکراتی عمل کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے بلکہ ساتھ ہی حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان بھی کیا ہے ، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چونکہ ان کے سربراہ کو ہلاک کیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ ایسی کیفیت میں ہیں کہ ان کی جانب سے ایسا ردعمل سامنے آنا فطری عمل ہے جبکہ دوسری جانب طالبان تاحال اپنے نئے قائد کا فیصلہ بھی نہیں کر پائے جس کے حوالے سے مشاورتی عمل جاری ہے اور یہ کام قدرے مشکل اس لیے نظر آرہا ہے کیونکہ بیت اللہ محسود کے دور میں طالبان کے تمام گروپ یکجا ہوئے تھے اور بیت اللہ محسود طالبان کے پہلے متفقہ سربراہ کے طور پر منظر پر آئے تھے اور جب 2009 ء میں بیت اللہ محسود ڈرون حملے میں جاں بحق ہوئے تو اس کے بعد طالبان کی کمان حکیم اللہ محسود کے ہاتھ میں آگئی۔
تاہم تب اور اب کے حالات میں کافی تبدیلی آچکی ہے اور معاملات تقسیم درتقسیم کا شکارہیں اور آئندہ سال افغانستان سے امریکی انخلاء اور اس خطے میں ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں یہ فیصلہ مزید مشکل ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ طالبان کا آئندہ امیر جو کوئی بھی ہوگا تاہم وہ نئے امیر کی تقرری کے سلسلے میں ٹی ٹی پی کے بینر تلے شامل تمام گروپوں کے علاوہ ان گروپوں کے ساتھ بھی مشاورتی عمل کریں گے جو افغانستان میں سرحدی علاقوں میں موجود اور ٹی ٹی پی کے ساتھ رابطوں میں ہیں تاکہ نیا امیر متفقہ ہو اور اس پر کوئی نیا تنازعہ نہ کھڑا ہوجائے ۔
ڈرون حملے اور نیٹو سپلائی کے معاملات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور جب ،جب بھی ڈرون حملے ہوتے رہے ہیں تب ،تب نیٹو کی سپلائی کی بندش کا مطالبہ بھی اٹھتا اور زور پکڑتا رہا ہے تاہم اب جبکہ ایک امید بندھ چلی تھی کہ مرکزی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل شروع ہوگا اور امن کے قیام کی راہ نکل آئے گی ،ایسے موقع پر ایک ڈرون حملہ نے جب سب کچھ تہس نہس کردیا ہے ،نیٹو کو رسد کی سپلائی بند کرنے کا معاملہ کیسے دبا رہ سکتا تھا یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے مرکز کو کوسوں پیچھے چھوڑتے ہوئے بڑے واضح انداز میں اعلان کردیا کہ ''صوبائی حکومت جاتی ہے تو جائے لیکن نیٹو سپلائی کو ہر صورت بند کیاجائے گا''،
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ان کی پارٹی یہ تجویز نہ مانتی تو وہ اپنے پارٹی تک سے الگ ہو جاتے، وہ اس حد تک اسی لیے گئے ہیں کہ انھیں پتا ہے کہ اس وقت ایسا ہی موقف اپنانے کی ضرورت ہے اور پھر ایسے سخت موقف کے ذریعے مرکزی حکومت کو بھی اس بات پر مجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کوئی سخت قدم اٹھائے اسی لیے عمران خان کی ہدایت پر ہی صوبائی حکومت نے اسمبلی کا اجلاس بلاتے ہوئے نیٹو کو سپلائی کی بندش کی قرارداد منظور کرائی ہے حالانکہ یہ بات اپنی جگہ موجود ہے کہ صوبائی حکومت اپنے طور پر نیٹو کو رسد کی بندش کرسکتی ہے کیونکہ افغانستان میں موجود نیٹو افواج کو جانے والی رسد کے حوالے سے جو بھی معاہدہ ہے وہ مرکزی حکومت کے ساتھ ہی ہوا ہے اور مرکزی حکومت ہی اس بات کی ضامن ہے کہ یہ سامان پاکستان کی حدود سے گزرتا ہوا افغانستان پہنچ جائے ،
ایسے میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی ایک صوبائی حکومت مرکز سے آگے جاتے ہوئے نیٹو کو جانے والے سامان کو اپنے طور پر روک سکتی ہے یا نہیں ؟تاہم عام خیال یہی کیا جا رہا ہے کہ اتنا سخت موقف اور اسی موقف کے تحت ایسا قدم اٹھانے کی بات اسی لیے کی گئی ہے کہ مرکزی حکومت خود ہی نیٹو کو رسد کی سپلائی بند کرنے کا اعلان کردے جیسا کہ اس سے پچھلی حکومت بھی کرچکی ہے حالانکہ پیپلزپارٹی کی حکومت موجودہ حکومت کے مقابلہ میں کمزور تھی جو اتحادیوں کے زور پر چل رہی تھی اور اس کے مقابلہ میں موجودہ حکومت کافی مضبوط ہے ، تاہم یہ فیصلہ آسان نہیں ہے اسی لیے مرکز پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت کی مشاورت ہی سے فیصلہ کرے گا تاکہ ذمہ داری کا بوجھ اسے اکیلے نہ اٹھانا پڑے بلکہ سب مل کر یہ بوجھ اٹھائیں ۔
نیٹو کو سپلائی کی بندش کے معاملہ پر جماعت اسلامی ،تحریک انصاف کے شانہ بشانہ کھڑی ہے بلکہ اس سے ایک قدم آگے جانے کے لیے تیار ہے جس نے نیٹو سپلائی کو بندش کے خلاف مظاہرہ کا اعلان بھی کردیا ہے ، حالانکہ یہ مظاہرہ تو بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا تاہم غالباًپانچ ماہ جماعت اسلامی اقتدار کی نزاکتوں کا شکار تھی اور اب اس کے ہاتھ یہ موقع آیا ہے جس پر اس نے فوری طور پر مظاہرہ کا اعلان کردیا ہے تاہم جہاں تک قومی وطن پارٹی کا تعلق ہے تو قومی وطن پارٹی نے اس فیصلہ پر اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ اسے مذکورہ فیصلہ پر اعتماد میں نہیں لیا گیا ،یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ قومی وطن پارٹی نے حکومت کے کسی فیصلہ کے حوالے سے احتجاج کیا ہے ، اس سے قبل وزیراعلیٰ کے چیمبر میں قومی وطن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر کی پی ٹی آئی کے وزیر سے جھڑپ اور پھر اسراراللہ گنڈا پور کی شہادت کے حوالے سے بحث کے لیے بلائے گئے اسمبلی اجلاس سے مسلسل پانچ دن بائیکاٹ جیسا قدم بھی قومی وطن پارٹی کے ارکان نے اٹھایا ہے جن کا شکوہ ہی یہ ہے کہ تحریک انصاف جو بھی فیصلے کرتی ہے اس میں پہلے فیصلہ کیاجاتا ہے اور بعد میں یہ فیصلہ اتحادیوں کو سنادیاجاتا ہے ۔
جس کے بعد رائے دینے کی کوئی تک ہی نہیں بنتی ،قومی وطن پارٹی کا یہ موقف اپنی جگہ بالکل بجا ہے کیونکہ مخلوط حکومتوں میں جب بھی معمول سے ہٹ کر کوئی اہم فیصلہ کیا جاتا ہے تو اس سے قبل اتحادی جماعتوں کے قائدین کو اعتماد میں لیاجاتا ہے تاکہ جو بھی فیصلہ کیاجائے اس میں سب کی رائے بھی شامل ہو اور اس کی پشت پر بھی سب کھڑے ہوں تاہم اگر وہ پارٹی جو اقتدار کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہو وہ اپنے اتحادیوں کو اس طرح نظر انداز کرنا شروع کردے کہ فیصلے کرنے کے بعد اتحادیو ں پر ان کو مسلط کیاجائے تو ممکنہ طور پر کوئی دوسری پارٹی تو ایسے فیصلے تسلیم کرلے ۔
تاہم جہاں تک آفتاب احمد شیر پاؤ کی بات ہے تو وہ ایسا کوئی بھی فیصلہ جس میں ان کی رائے شامل نہ ہو اسے کیسے تسلیم کرسکتے ہیں اور پھر وہ بھی اس صورت میں کہ موجودہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک ان کے نشیب وفراز کے ساتھی رہ چکے ہوں، ایسے ساتھی پر اگر ایک جانب گلہ کیا جاتا ہے دوسری جانب اس زعم کے ٹوٹنے کا بھی افسوس ہوتا ہے کہ قریبی ساتھی اس طرح نظر انداز کر رہا ہے، اس لیے پرویز خٹک اور ان کی پارٹی، نیٹو سپلائی کی بندش کرتی ہے یا کوئی دوسرا اہم فیصلہ، تاہم اسے اپنے اتحادیوں کو ساتھ لے کر ہی چلنا چاہیے کیونکہ مخلوط حکومت اور موجودہ حالات اسی بات کے متقاضی ہیں ۔