بلدیاتی الیکشن کے انعقاد پرسیاسی جماعتوں کے تحفظات

بلوچستان کے32 اضلاع میں 778 وارڈز پر مشتمل انتخابی حلقوں میں انتخابات ہوں گے، الیکشن کمیشن بلوچستان

بدامنی اور امن و امان سے متاثرہ صوبے میں الیکشن کا انعقاد دیگر صوبوں میں التواء کے باوجود بدنیتی پر مبنی ہے، سیاسی جماعتیں۔ فوٹو: فائل

بلوچستان میں 7 دسمبر کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلئے تیاریوں کا آغاز کردیا گیا ہے۔

اس سلسلے میں الیکشن کمیشن آف بلوچستان کا کہنا ہے کہ صوبے کے32 اضلاع میں 778 وارڈز پر مشتمل انتخابی حلقوں میں انتخابات ہوں گے۔ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کیلئے تقریبا70 لاکھ بیلٹ پیپرز کی ضرورت ہوگی۔ بلوچستان میں634 یونین کونسلز ہیں۔

دوسری جانب صوبے کی مختلف سیاسی جماعتوں نے ان انتخابات کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ بلوچستان کی چھ بڑی سیاسی جماعتوں جن میں جمعیت علماء اسلام (نظریاتی)، اے این پی، مسلم لیگ (ن)، بی این پی مینگل، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی شامل ہیں نے اپنے مشترکہ مشاورتی اجلاس میں بلوچستان میں مجوزہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے میں غیر یقینی و غیر تسلی بخش حالات اور ناگفتہ بہ صورتحال میں بلدیاتی الیکشن کے انعقاد میں جن میں سر فہرست شدید سخت سردیاں، بعض اضلاع میں حالیہ شدید زلزلے اور سردی کے باعث مقامی آبادی کی دوسرے علاقوں میں منتقلی آئینی و قانونی لحاظ سے الیکشن کیلئے پہلے تین ماہ کا دورانیہ دینا مشکل ہے۔

اس دوران سالانہ امتحانات میں اساتذہ سے ڈیوٹیاں لینا سمیت دیگر اُمور پر بھی اجلاس میں غور کیا گیا۔ ان سیاسی جماعتوں کے مشترکہ اجلاس میں کہا گیا کہ بدامنی اور امن و امان سے متاثرہ صوبے میں الیکشن کا انعقاد دیگر صوبوں میں التواء کے باوجود بدنیتی پر مبنی ہے۔ محرم میں صوبے اور خصوصاً کوئٹہ کی غیر یقینی صورتحال، جانبدار انتظامیہ کی تعیناتی متنازعہ ووٹر لسٹوں کی موجودگی سمیت بلدیاتی انتخابات کا عجلت میں اعلان اور انعقاد سے تاریخی دھاندلی اور من پسند نتائج حاصل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ ان سیاسی جماعتوں نے مطالبہ کیا کہ انتخابات کو مارچ2014ء تک ملتوی کرکے تمام سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لے کر اتفاق رائے سے انتخابات کی تاریخ اور شیڈول طے کیا جائے۔

اس کے علاوہ حکمران جماعت نیشنل پارٹی نے بھی بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات پر اپنے خدشات اور تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حصہ لینے کا تو اعلان کیا ہے مگر نیشنل پارٹی کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے حالات انتہائی ناسازگار ہیں ان حالات میں بلدیاتی انتخابات کرانا عوام اور سیاسی جماعتوں کیلئے بھی قابل قبول نہیں کیونکہ بلوچستان میں کہیں قدرتی آفات ہیں تو کہیں سردی کی وجہ سے لوگ نقل مکانی کرکے دوسرے علاقوں میں چلے جاتے ہیں۔تاہم اس کے باوجود نیشنل پارٹی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے ان بلدیاتی انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔


سیاسی حلقوں کے مطابق بلدیاتی انتخابات کا دسمبر میں انعقاد موجودہ صوبائی مخلوط حکومت کیلئے ایک ٹف ٹائم ہوگا اور صوبے میں امن و امان کی جو ناگفتہ بہ صورتحال ہے وہ بھی موجودہ حکومت کیلئے ایک چیلنج سے کم نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے حکومت جو دعوے کر رہی ہے کیا وہ اس میں کامیاب ہوپائے گی یا نہیں۔ ان حلقوں کے مطابق بلوچستان میں ہمیشہ سے قبائلی تنازعات نے انہی بلدیاتی انتخابات میں سر اُٹھایا جو کہ آج قبائل کے درمیان دیرینہ رنجشوں کا پیش خیمہ ثابت ہوئے ہیں۔



عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ارباب عبدالظاہر کاسی اور معروف معالج ڈاکٹر عبدالمناف ترین کو ابھی تک بازیاب نہیں کرایا جاسکا۔ ڈاکٹروں نے تاحال اپنی بھوک ہڑتال کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جبکہ نواب ارباب عبدالظاہر کاسی کی عدم بازیابی کے حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی کا احتجاج اور مظاہرے بھی بدستور جاری ہیں جبکہ ان کی رہائش گاہ پر مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی آمد کا سلسلہ بھی جاری ہے جو ان کے بیٹے کے ساتھ اس واقعے کے خلاف اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔

وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار حسین کے ہمراہ ارباب ہاؤس کا دورہ کیا اور ان سے اس واقعے پر اظہار ہمدردی کیا۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ ہمیں اغواء برائے تاوان کے واقعات گذشتہ حکومت سے ورثہ میں ملے ہیں، ہم ان واقعات کی روک تھام کے لئے اقدامات کر رہے ہیں۔ وزیراعلی بلوچستان نے کہا کہ کوئٹہ سے ایف سی کی نصف پوسٹیں ختم کرنے سے حالات پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے اغوا کے ان بڑے واقعات کے علاوہ صوبے میں مجموعی طور پر حالات بہتر ہوئے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ارباب عبدالظاہر کاسی اور ڈاکٹر مناف ترین کا اغواء انتہائی افسوسناک ہے ان کی بازیابی کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔

بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن جماعت جمعیت علماء اسلام(ف) نے ڈرون حملوں کے خلاف قرار داد جمع کرادی ہے جس پر بحث اسی ہفتے شروع ہونے والے اسمبلی کے اجلاس میں کی جائے گی ۔اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع کا کہنا ہے کہ امریکی ڈرون حملے پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری پر حملے کے مترادف ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن جماعت اے این پی کو بھی اعتماد میں لے کراپوزیشن اسے مشترکہ قرار داد کے طور پر لائے گی اور ہمیں یقین ہے کہ اسمبلی میں دوسری جماعتیں بھی اس قرار داد کی مخالفت نہیں کریں گی۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنزکے زیر اہتمام لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کوئٹہ سے کراچی تک کیلئے لانگ مارچ کا آغاز کردیا گیا، لانگ مارچ کے شرکاء میں لاپتہ افراد کے لواحقین شامل ہیں لانگ مارچ کے شرکاء خضدار پہنچ گئے ہیں جہاں سے وہ کراچی کیلئے روانہ ہوں گے لانگ مارچ کے شرکاء کراچی پہنچ کر کیمپ لگائیں گے تاکہ وہ حکمران طبقے اور اعلیٰ حکام کی توجہ اس اہم مسئلے کی جانب مبذول کراسکیں جس کیلئے وہ کئی سالوں سے جدوجہد کر رہے ہیں۔
Load Next Story