راز ہائے درونِ خانہ کی خبر رکھنے والے
پتہ نہیں کیوں میرا دل ہے کہ مانتا نہیں۔ مگر اسلام آباد میں بیٹھے کئی پاکستانی اور غیر ملکی جورازہائے درونِ خانہ کی...
پتہ نہیں کیوں میرا دل ہے کہ مانتا نہیں۔ مگر اسلام آباد میں بیٹھے کئی پاکستانی اور غیر ملکی جو رازہائے درونِ خانہ کی خبر رکھتے ہیں بڑے اعتماد سے یہ دعویٰ کرتے پائے جا رہے ہیں کہ حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے کے ذریعے ہلاکت کے ایک روز بعد چوہدری نثار علی خان نے جو پریس کانفرنس کی، وہ ان کے سیاسی کیرئیر کا ایک فیصلہ کن مرحلہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ چوہدری صاحب ایک تنہائی پسند انسان ہیں۔ صحافیوں سے زیادہ میل جول نہیں رکھتے۔ ان میں سے صرف چند کے ساتھ دل کی بات کبھی کبھار کھول کر بیان کرتے ہیں۔ میں 1988ء سے اکثر ان کی سیاست کا ناقد رہا ہوں۔ اس کے باوجود فون کے ذریعے ان کے مصاحبین کو بات کرنے کا پیغام دوں تو جوابی فون ضرور کرتے ہیں۔ کئی برس سے ان کے ساتھ اکیلے میں بات چیت کا موقع نہیں ملا۔ مگر جب بھی ملاقات ہوئی انھوں نے مجھ سے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اصل بات چھپائی تو غلط راہ پر بھی نہیں لگایا۔ مجھے ذاتی طور پر ان کے رویے میں کبھی وہ رعونت نظر نہیں آئی جس کا مسلم لیگ کے کئی بہت ہی سینئر اور اپنے اپنے طور مضبوط کِلّے اور دھڑے والے رہنما شکوہ کیا کرتے ہیں۔
چند مہینوں سے مگر حکمران جماعت کے وہ لوگ جو نواز شریف کے دربار میں کافی موثر اور متحرک سمجھے جاتے ہیں، سرگوشیوں میں اصرار کر رہے ہیں کہ ان دنوں چوہدری نثار علی خان تنہا تنہا سے دِکھ رہے ہیں۔ نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت کے ابتدائی برسوں میں بھی کچھ ایسا ہی ماحول نظر آ رہا تھا۔ ضرورت سے کہیں زیادہ طاقت ان دنوں احتساب بیورو والے سیف الرحمن نے Enjoy کی۔ لوگوں کا دعویٰ تھا کہ نواز شریف صاحب کو قائل کر دیا گیا ہے کہ ان کے پہلے دورِ حکومت میں وزیر اعظم اور اس وقت کے صدر اور بعدازاں عسکری قیادت کے درمیان غلط فہمیاں درحقیقت چوہدری نثار اور شہباز کی ''پھرتیوں'' کی وجہ سے پیدا ہوئیں۔ اسی لیے غلام اسحاق خان کو ان کی حکومت کو معطل کرنا پڑا اور بات نئے انتخابات تک پہنچی جس کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ اس ملک کی وزیر اعظم بن گئیں۔ اپنے دوسرے دورِ حکومت میں نواز شریف صاحب یقیناً نثار علی خان سے چند مہینوں تک کچھ فاصلے پر رہے۔ مگر جب حکیم سعید کے قتل کے بعد سندھ میں گورنر راج لگانے کا فیصلہ ہوا تو نثار علی خان سیاسی معاملات کے حوالے سے ایک بار پھر سب سے موثر نظر آنا شروع ہو گئے۔
ہو سکتا ہے اس بار بھی نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان دکھائی دینے والا فاصلہ عارضی رہا ہو۔ مگر راز ہائے درونِ خانہ کی خبر رکھنے والے میری اس سوچ سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس بار نواز شریف اپنے وزراء میں سب سے زیادہ اسحاق ڈار پر اعتماد کرتے ہیں۔ ڈار صاحب کو سنا ہے کہ خواجہ آصف بھی دل و جان سے چاہتے ہیں اور ان دونوں کے مراسم ان دنوں چوہدری نثار علی خان سے کچھ اتنے دوستانہ نہیں۔ باہمی چپقلش بلکہ کافی عیاں ہو چکی ہے اور کم از کم اپنے قریبی دوستوں کے سامنے خواجہ آصف جیسے دبنگ شخص اس سے انکار بھی نہیں کرتے۔
بہر حال ہمیں تو فی الوقت دیکھنا یہ ہے کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے فوری بعد کی جانے والی پریس کانفرنس کو راز ہائے درونِ خانہ کی خبر رکھنے والا کس نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کی بے پناہ اکثریت کا خیال ہے کہ وزیر داخلہ نے اپنی پریس کانفرنس میں وہ سب کچھ کہہ ڈالاجو وزارتِ خارجہ کے اہم افراد دُنیا کے سامنے نہیں لانا چاہ رہے تھے۔ چوہدری صاحب نے کھل کر بیان کر دیا کہ امریکی سفیر کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں انھوں نے بار ہا کہا کہ نواز شریف کی حکومت ڈرون حملے رکوانے کے بارے میں بہت سنجیدہ ہے۔ اس کی کم از کم خواہش یہ بھی ہے کہ چونکہ طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں، اس لیے TTP کے سرکردہ لوگوں کو ڈرون حملوں کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ امریکی سفیر نے بقول چوہدری نثار علی خان حکیم اللہ محسود کے بارے میں ایسی کوئی یقین دہانی مہیا کرنے سے انکار کر دیا۔ چوہدری صاحب نے یہ بات شہباز شریف کو بتائی جنہوں نے اپنے طور پر وہی بات دہرائی جس کا تقاضا ہمارے وزیر داخلہ نے کیا تھا۔ بالآخر طے یہ ہوا کہ حکیم اللہ محسود کے خلاف ڈرون حملے نہ کرنے کی ضمانت فراہم کرنا پاکستان میں مقیم امریکی سفیر کے بس کی بات نہیں۔ بہتر ہے اس کا تقاضا وزیر اعظم امریکی صدر کے ساتھ اپنی ملاقات میں کریں۔
چوہدری نثار علی خان کی بیان کردہ کہانی درست مان لی جائے تو پیغام یہ ملتا ہے کہ شاید وزیر اعظم نے صدر اوبامہ کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں حکیم اللہ محسود کے تحفظ کا تقاضہ ہی نہیں کیا اور اگر کیا بھی تو امریکی صدر نے ان کی بات نہیں مانی۔ دونوں میں سے جو بھی صورت رہی ہو چوہدری نثار علی خان نے اپنی پریس کانفرنس کے ذریعے ڈرون حملوں اور اس کے ساتھ حکیم اللہ محسود کا ذکر کرتے ہوئے نواز شریف صاحب کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ بات صرف ان کی ذات تک محدود رہتی تو شاید اتنی اہم نظر نہ آتی۔ مگر وزیر اعظم کی عدم موجودگی میں ہمارے وزیر داخلہ نے پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات کا از سر نو جائزہ لینے کے فیصلے کا اعلان بھی کر ڈالا۔ ایسا کرتے ہوئے وہ راز ہائے درونِ خانہ کی خبر رکھنے والوں کو پاکستان کے موثر ترین فیصلہ ساز نظر آئے۔ اب وزیر اعظم کے لیے ضروری ہے کہ وہ آیندہ آنے والے کچھ دنوں میں ایسے ٹھوس اقدامات کریں جن سے دُنیا کو یہ تاثر ملے کہ چوہدری نثار علی خان جو کچھ کہہ رہے تھے اس کا ایک ایک لفظ ان کی مرضی اور منظوری سے ادا ہوا۔ یہ نہ ہوا تو محسوس یہ ہو گا کہ چوہدری صاحب شاید ضرورت سے زیادہ Solo Fly کر گئے۔
پنجابی محاورے والا میٹھا زیادہ ڈال دیا۔ ایسا ''میٹھا'' ریمنڈ ڈیوس والے واقعے کے بعد شاہ محمود قریشی نے بھی ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ انجام کیا ہوا؟ یوسف رضا گیلانی نے انھیں وزارتِ خارجہ سے ہٹا کر بجلی اور پانی کا محکمہ دینا چاہا۔ قریشی صاحب نے حلف نہ لیا۔ کابینہ سے باہر آ کر یوسف رضا گیلانی اور آصف علی زرداری کا ''تاشقند'' بنانا چاہا۔ ناکام رہے۔ آج کل قومی اسمبلی میں عمران خان کے ساتھ اداس ہوئے بیٹھے رہتے ہیں۔ میں ہرگز نہیں مانتا کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے ایک روز بعد کی جانے والی پریس کانفرنس میں بہت کچھ کہہ دینے کے بعد چوہدری نثار علی خان نے نواز شریف کا ذوالفقار علی بھٹو یا شاہ محمود قریشی بننا چاہا ہے۔ راز ہائے درونِ خانہ کی خبر رکھنے والے مگر میری اس بات کو تسلیم نہیں کرتے۔ بجائے چوہدری نثار تک محدود رہنے کے بار بار یہ پوچھنا شروع کر دیتے ہیں کہ شہباز شریف حالیہ دورہ امریکا میں اپنے بھائی کے ساتھ کیوں نہیں گئے تھے۔ کیوں عین ان ہی دنوں کہ جب وزیر اعظم امریکا میں تھے شہباز صاحب سنکیانگ اور ترکی کے دورے پر روانہ ہو گئے؟