طلبا یونین کی بحالی

طلبا یونین کی بحالی کے بغیر نوجوانوں کی جمہوری انداز میں تربیت ممکن نہیں ہے۔ اس رائے سے وہ تمام صاحبان علم متفق ہیں...


Dr Tauseef Ahmed Khan November 05, 2013
[email protected]

طلبا یونین کی بحالی کے بغیر نوجوانوں کی جمہوری انداز میں تربیت ممکن نہیں ہے۔ اس رائے سے وہ تمام صاحبان علم متفق ہیں جنھوں نے 60 برسوں کے دوران معاشرے میں جمہوری اداروں کے ارتقا کا جائزہ لیا ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے طلبا یونین کے منتخب ادارے کا خاتمہ کرکے محض طلبا سے ہی ان کا بنیادی حق نہیں چھینا بلکہ معاشرے میں جمہوری رویوں کو بھی تہس نہس کیا تھا مگر جمہوری حکومتوں کا طلبا یونین کے بارے میں فیصلہ نہ کرنا ایک اور المیہ ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے جب 1979 میں عام انتخابات ملتوی کیے تو سب سے پہلے سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کی۔ اس کے ساتھ ہی اخبارات پر سنسرشپ عائد کردی گئی۔ یہ سنسرشپ تقریباً 3سال تک نافذ رہی۔ پھر مزدور یونینوں پر بھی پابندیاں عائد کردی گئیں۔

مزدور یونینوں سے ہڑتال کا بنیادی حق چھین لیا گیا اور ان کے رہنماؤں کو پابند سلاسل کیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے سامنے صرف ایک چیلنج طلبا یونین کا تھا لہٰذا اس پر بھی پابندی لگادی گئی۔ طلبا یونین کا ادارہ ایک قدیم ادارہ تھا۔ جب انگریزوں کے دور میں جدید یونیورسٹیاں قائم ہوئیں تو ان کے طلبا کو اپنے نمایندوں کو منتخب کرنے کا حق دیا گیا۔ جب کانگریس، مسلم لیگ اور کمیونسٹ پارٹی فعال ہوئیں تو ان جماعتوں نے اپنے حامی طلبا کے لیے طلبا تنظیمیں قائم کیں۔ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن وغیرہ کا قیام عمل میں آیا۔ ان طلبا تنظیموں نے اپنی سرپرست جماعتوں کا پیغام عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایم ایس ایف کے کارکنوں نے قائداعظم کا، پاکستان کی آزادی کا پیغام گاؤں گاؤں پہنچایا ۔یہ طلبا تنظیمیں اپنے نمایندے طلبا یونین کے مختلف عہدوں کے لیے نامزد کرتی تھیں اور یونیورسٹی کے طالب علم اپنی مرضی سے اپنے نمایندوں کا انتخاب کرتے تھے۔ کلاس مانیٹر، کونسلر اور یونین کے دوسرے عہدوں پر منتخب ہونے والے طلبا اپنے ساتھیوں کے مسائل انتظامیہ تک پہنچاتے تھے۔

پاکستان بننے کے بعد کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ایک قانون کے تحت طلبا یونین کا ادارہ قائم ہوا۔ اس قانون کے تحت پرنسپل یا وائس چانسلر کا نمایندہ یونین کا صدر ہوتا تھا۔ نائب صدر، جنرل سیکریٹری اور دوسرے عہدے طلبا کے لے مختص تھے۔ بعض کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبا کی منتخب کونسل ہوتی تھی۔ اس قانون کے تحت نائب صدر سے لے کر کونسلر تک ہر عہدے کی اہلیت واضح طور پر تحریر ہوتی تھی۔ عمومی طور پر ایک سال تعلیمی ادارے میں کامیابی سے گزارنے پر انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت ملتی تھی۔ صرف تمام امتحانات پاس کرنے والے طلبا ہی کسی عہدے پر انتخاب کے اہل ہوتے تھے۔ طلبا کو یہ سرٹیفکیٹ جمع کرانا پڑتا تھا کہ کہیں ملازمت نہیں کرتے، یوں باصلاحیت طلبا ہی انتخابات میں حصہ لے سکتے تھے۔ جب 1972 میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو یونیورسٹی آرڈیننس میں ترمیم ہوئی۔ اب طالب علموں کو یونین کا صدر بننے کی اجازت مل گئی۔ پرنسل اور وائس چانسلر یونین کے سرپرست بن گئے۔

طلبا یونین کا ایک فنڈ ہوتا تھا۔ یونین کے صدر اور جنرل سیکریٹری پورے سال کا بجٹ تیار کرتے تھے۔ منتخب کونسل اس بجٹ کی منظوری دیتی تھی اور سال کے آخر میں تمام اخراجات کی رسیدیں جمع کرائی جاتی تھیں۔ جب طلبا تنظیمیں اپنے نمایندے انتخابات کے لیے نامزد کرتی تھیں تو وہ اگلے سال نئے انتخابات کے موقع پر گزشتہ سال کی کارکردگی تحریری طور پر پیش کرتی تھیں۔ مخالفین اس کارکردگی رپورٹ کے خلاف دستاویز شایع کرتے تھے۔ طلبا یونین کے انتخابات تعلیمی سال کے ابتدائی مہینوں میں ہوتے تھے۔ عمومی طور پر 10 سے 15دن بھرپور انتخابی سرگرمیاں ہوتی تھیں۔ امیدوار اور ان کے حامی ایک ایک فیکلٹی اور کلاس میں جاتے اور اپنا منشور پیش کرتے تھے۔ بعض اداروں میں انتظامیہ مباحثوں کا اہتمام کرتی تھی جس میں اہم عہدوں کے امیدوار زوردار تقاریر کرتے۔

اس موقع پر خوب نعرے لگتے۔ بعض اوقات پرانے دوست ایک دوسرے کے سامنے نعرے لگاتے۔ بڑی یونیورسٹیوں میں طلبا تنظیمیں بڑے بڑے جلسے کرتیں، رنگارنگ بینر اور پوسٹر لگائے جاتے، اپنے اپنے منشور پیش کرنے کے لیے پمفلٹ شایع کیے جاتے، یوں خوبصورت تحریروں کا مقابلہ بھی ہوتا۔ عام طور پر ان انتخابات کے دوران ایسے مناظر بھی نظر آتے کہ ایک دوسرے کے خلاف دھواں دار نعرے لگانے والے طلبا دوپہر کو ایک ساتھ چائے پیتے دکھائی دیتے تھے۔ طلبا میں پہلی دفعہ اپنے مخالفانہ خیالات کو سننے کی صلاحیت پیدا ہوتی تھی اور اپنے پسندیدہ امیدوار کی شکست کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی پیدا ہوتا تھا۔ بعض اداروں میں تشدد کی وارداتیں ہوتیں تو نوجوان ایک دوسرے پر گھونسے برساتے، عموماً ایسے مواقع پر دونوں طرف کے طلبا بیچ بچاؤ کراتے۔ پھر انتخابات ختم ہونے کے بعد سب کچھ معمول پر آجاتا۔

جب ملکی سیاست میں فاشسٹ رجحانات ابھرے تو اس کے اثرات طلبا سیاست پر بھی پڑے۔ پنجاب یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی سمیت مختلف یونیورسٹیوں میں تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں کلاشنکوف کلچر نے کیمپوں میں بھی جگہ بنالی۔ حکومت کی سرپرستی میں ایک طلبا تنظیم نے پنجاب اور کراچی یونیورسٹی میں مخالفین کے راستے روک دیے، جس کا ذرایع ابلاغ پر خاصا پروپیگنڈا ہوا۔ جنرل ضیاء الحق نے طلبا یونین کے منتخب ادارے پر پابندی عائد کردی۔ اس پابند ی کے خلاف ان کی حامی جماعت اسلامی نے بھی تحریک چلائی، نتیجتاً جنرل ضیاء الحق نے طلبا تنظیموں کو کام کرنے کا موقع دے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کی حامی طلبا تنظیمیں بغیر کسی رکاوٹ کے سرگرم عمل ہوگئیں۔ ان طلبا تنظیموں کا کوئی آئین نہیں ہے، سیاسی جماعتوں کی قیادت عمومی طور پر اپنی حامی تنظیم کے عہدیدار کو نامزد کرتی ہے۔

ان میں سے بیشتر طالب علم نہیں ہوتے، صرف دائیں بازو کی طلبا تنظیم اسلامی جمعیت طلبا اپنے آئین کے تحت کام کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جمعیت کے انتخابات ہر سال ہوتے ہیں۔طلبا تنظیموں نے تعلیمی اداروں میں اپنی اپنی ریاستیں قائم کی ہوئی ہیں۔ ان تنظیموں کے عہدیدار ہر معاملے کو طاقت کے ذریعے حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ عمومی طور پر بہت سے لوگ طلبا یونین اور طلبا تنظیم میں فرق کو محسوس نہیں کرتے۔ سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو کے دورِ حکومت میں سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کی ایک کمیٹی نے طلبا یونین کے ادارے کی بحالی کا جائزہ لیا تھا۔ اس کمیٹی نے بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کی تھیں اور کیمپوں میں امن و امان کے لیے ان کی مدد طلب کی تھی مگر ہر معاملہ داخل دفتر ہوگیا۔ پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو آکسفورڈ یونیورسٹی کی طلبا یونین کی منتخب صدر رہ چکی تھیں۔

اس بناء پر وہ طلبا یونین کی بحالی کے حق میں تھیں مگر وہ مقتدرہ قوتوں کے دباؤ پر فیصلہ نہیں کرسکیں مگر پیپلز پارٹی کی حکومت کے تیسرے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اقتدار سنبھالتے ہی طلبا یونین بحال کرنے کا اعلان کیا تھا مگر خفیہ ایجنسیوں کے دباؤ پر وہ اپنے اعلان کو عملی شکل نہیں دے سکے۔ نئی صدی میں فری مارکیٹ اکانومی کی بناء پر تعلیم بھی صنعت کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ڈھانچوں میں تبدیلیاں آئیں مگر نوجوانوں کی جمہوری انداز میں تربیت کا معاملہ زیادہ اہم ہوگیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے وزیراعظم کے اعلان کے مضمرات کا جائزہ لینے کے لیے اس موضوع پر بحث تک شروع نہیں کی۔ یہ بحث چند غیر سرکاری تنظیموں (NGO's) کے فورم اور اخبارات کے صفحات تک ہی محدود رہی۔ حکومت کو چاہیے کہ یونیورسٹیوں کے بنیادی اداروں میں اس مسئلے پر بحث کرائے۔ ماہرین تعلیم، دانش ور، اساتذہ اور طلبا کی کانفرنس منعقد ہونی چاہیے۔ ان کا موضوع نئے تقاضوں کے مطابق طلبا یونین کا کردار ہونا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں