شیطان اور راستے کے جگنو دوسرا اور آخری حصہ

لاہور میں شعیب اور مرتضیٰ دو بالکل عام سے بچے ہیں۔ یہ دونوں لاہور میں ایچیسن کالج سے پڑھے ہوئے ہیں۔ اس کالج کے...

raomanzar@hotmail.com

لاہور میں شعیب اور مرتضیٰ دو بالکل عام سے بچے ہیں۔ یہ دونوں لاہور میں ایچیسن کالج سے پڑھے ہوئے ہیں۔ اس کالج کے متعلق مختلف مفروضے یقین کی حد تک منجمد ہو چکے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کالج اُمراء کے بچوں کی درسگاہ ہے۔ اور دوسرا یہاں بچوں کو ایسی تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ اپنی روایات اور اپنے نظام سے بالکل دور نکل جاتے ہیں۔ ایک دن ماڈل ٹائون میں اپنے گھر میں بیٹھے بیٹھے ان بچوں نے ایک حیرت انگیز فیصلہ کر لیا۔ یہ فیصلہ تھا کہ لوگوں کو اچھائی کا وعظ دینے سے بہت بہتر ہے کہ وہی کام خود کر کے دکھایا جائے۔ ان بچوں کو قطعاََ اندازہ نہیں تھا کہ یہ فیصلہ جوہری طور پر کتنا بڑا اور اہم فیصلہ ہے۔ ان دونوں نے ایک اور محیرالعقول فیصلہ کیا کہ انھیں لاہور کے مختلف حصوں سے بلا معاوضہ کوڑا اٹھانا ہے اور ان کی صفائی کرنی ہے۔ انٹرنیٹ اور فیس بُک پر انھوں نے مختلف بچوں سے رابطہ کیا کہ ہم کسی مارکیٹ یا محلہ کی صفائی کرنا چاہتے ہیں آپ اس کام میں ہمارا ساتھ دیں۔ ان کا خیال تھا کہ اس کام میں کوئی بھی ان کا ساتھ نہیں دے گا۔ ان بچوں کے پاس پیسے بھی نہ ہونے کے برابر تھے۔ دو ہزار روپوں سے انھوں نے جھاڑو، سستے دستانے، بالٹیاں اور ماسک خریدے۔

ایک اتوار کو انھوں نے اچھرہ پہنچنے کی کال دے دی۔ 9 بجے صبح 50-55 بچے اچھرہ پہنچ گئے۔ اس میں ایچیسن کالج سے بھی بس میں بیٹھ کر 15-20 بچے آئے۔ ان تمام بچوں نے جھاڑو پکڑ لیے اور اچھرہ کے سب سے گندے علاقہ کی صفائی کرنی شروع کر دی۔ یہ کوڑا کو ایک جگہ جمع کرتے تھے اور پھر اسے تلف کر دیتے تھے۔ اچھرہ کے مقامی لوگ اور دکاندار یہ سب کچھ دیکھ کر حیران ہو گئے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ کسی فلم کی شوٹنگ ہو رہی ہے۔ کچھ نے کہا یہ کسی N.G.O کا پروجیکٹ ہے جو صرف نمائش اور پبلسٹی کے لیے کیا جا ر ہا ہے۔ کچھ لوگوں نے انھیں منع کیا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ کیونکہ صبح پھر بازار میں کوڑا جمع ہو جائے گا۔ اچھرہ بازار کو صاف کرنے کے بعد یہ تمام بچے غالب مارکیٹ چلے گئے۔ غالب مارکیٹ میں ان بچوں پر کچھ لوگوں نے آوازیں کسنا شروع کر دیں کہ یہ کام تو اَن پڑھ لوگوں کا ہے۔ یہ کام تو نیچ لوگ کرتے ہیں۔ یہ کام پڑھے لکھے بچوں کا نہیں ہے۔ ان بچوں نے بہت سادہ مگر انتہائی سنجیدہ جواب دیا کہ ہم پڑھے لکھے ہیں۔ اسی لیے تو یہ ہمارا کام ہے اور اسی لیے تو ہم اپنا کام کر رہے ہیں۔

اس اتوار کے بعد ان بچوں کے گروپ میں مرتضیٰ کا چھوٹا بھائی مبین بھی شامل ہو گیا۔ یہ لوگ اب مِشن کے طور پر چھٹی والے دن لاہور کے گلی کوچوں میں جانا شروع ہو گئے۔ کبھی مین مارکیٹ کبھی برکت مارکیٹ اور کبھی کسی ایسی جگہ جہاں پر سبزی اور فروٹ بیچنے والوں کے ٹھیلے موجود ہوں۔ ان بچوں نے بہت سے عجیب واقعات دیکھے۔ نوجوان جوڑے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو جنکی عمر 5-6 سال کی ہوتی تھی، اس صفائی کی مہم میں شامل کرنے کے لیے لاتے تھے تا کہ ان بچوں کو صفائی کی اہمیت کا علم ہو۔ مین مارکیٹ میں ان بچوں کو صفائی کرتے دیکھ کر ایک بزرگ شخص لینڈ کروزر سے اترا۔ اس نے جھاڑو پکڑ کر مارکیٹ کی صفائی کرنا شروع کر دی۔ ہر اتوار وہ اپنی قیمی گاڑی پر آتا تھا اور جہاں بھی یہ بچے کام کر رہے ہوتے تھے، پہنچ کر انتہائی احساس ذمے داری سے علاقے کی صفائی کر کے اپنی گاڑی میں واپس چلا جاتا تھا۔ اس نے کسی کو اپنا نام تک نہیں بتایا۔ وہ صرف کام اور کوڑا اٹھانے سے مطلب رکھتا تھا۔

ایک دن، شعیب مرتضیٰ اور مبین مارکیٹ میں گائے کی اوجھڑی ہٹا رہے تھے جو وزنی ہونے کی وجہ سے ان سے اٹھ نہیں پا رہی تھی۔ ایک رکشہ والے نے رکشہ روکا۔ بغیر کوئی بات کیے، ان بچوں کے ساتھ شامل ہو گیا اور یہ سب مل کر اوجھڑی کو ایک جگہ پر چھوڑ آئے جہاں اسے تلف کر دیا گیا۔ پھر ان بچوں نے "ذمے دار شہری" کے نام سے ایک تنظیم بنائی۔ یہ بچے کسی انعام، کسی ستائش اور کسی معاوضہ کے بغیر لاہور کی ہر اُس جگہ پر پہنچ جاتے جہاں غلاظت، گندگی اور کوڑا کے ڈھیر لگے ہوتے۔ یہ اُس جگہ کو مکمل صاف کرتے اور اپنا کام ختم کر کے واپس اپنے گھروں میں چلے جاتے۔ یہ بچے کہتے ہیں کہ کوڑا کی صفائی پر کوئی شخص اختلاف نہیں کر سکتا اور اس پر کوئی سیاست بھی نہیں کر سکتا۔


ان بچوں نے اپنی پاکٹ منی جمع کر کے اور انتہائی معمولی چندے سے اپنی ٹیم اور دیگر لوگوں کے لیے جھاڑو، ماسک، اور دستانے خریدے۔ سب سے پہلے غیر ملکی چینلز جیسے فرانس کا چینل 4، غیر ملکی اخبارات جیسے نیو یارک ٹائمز، لی مانڈے اور پھر مقامی چینلز نے بھی ان بچوں کی اس انتہائی معقول مگر عجیب رویہ کو رپورٹ کرنا شروع کر دیا۔ مختلف سیاستدانوں نے انکو اپنے ساتھ آنے کی دعوت دی۔ ان بچوں نے اپنی عمر سے بہت زیادہ پختگی دکھائی اور کسی بھی سیاسی جماعت کے ہاتھوں میں کھیلنے سے انکار کر دیا۔ ان بچوں نے مارکیٹوں میں کوڑا کو اکٹھا کرنے والے ڈبے لگا دیے۔ ٹھیلے والوں پر ان کی حرکات کا اتنا اثر ہوا کہ انھوں نے از خود کوڑے دان لگوا لیے اور اپنا کوڑا خود ہی ان میں پھینکنا شروع کر دیا۔ مین مارکیٹ میں ان بچوں کے لگائے ہوئے کوڑے دان ایک دم اتار دیے گئے کیونکہ وہاں ایک اہم سیاسی شخصیت بال کٹوانے کے لیے آتی تھی اور بقول ان کے حفاظتی عملے کے، ان کوڑے دانوں میں بم رکھے جا سکتے ہیں اور دہشت گردی کا خطرہ ہے۔

ان تمام بچوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ کوئی کام بھی چھوٹا نہیں ہوتا۔ اپنا کام خود کرنے سے کسی انسان کی حیثیت کم یا زیادہ نہیں ہوتی۔ ان بچوں نے محسوس کیا کہ کوڑا اٹھانے والے پیشہ ور بچوں اور عورتوں کی کوئی زندگی نہیں۔ وہ پاکستان میں انسانی سطح سے بہت نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔کوڑے میں شیشہ ہونے کی وجہ سے ان کے ہاتھ اکثر زخمی ہو جاتے ہیں اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے کئی بار ان کے ہاتھوں میں ناسور بن جاتے ہیں۔ مسلسل جھک کر کام کرنے سے ان میں سے اکثر ریڑھ کی ہڈی کے درد میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان بچوں نے اپنی بساط کے مطابق، اس کا حل یہ سوچا کہ ان لوگوں کو دستانوں اور ریڑھیوں کی ضرورت ہے جو وہ کر سکے، انھوں نے انتہائی خاموشی سے کر دیا۔

یہ تینوں بچے صاحب ثروت لوگوں کے چشم چراغ ہیں۔ ان بچوں نے ایسا فیصلہ کیوں کیا میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہ بچے اردو بھی ٹھیک طرح سے نہیں بول سکتے کیونکہ انھیں انگریزی زبان میں مافی الضمیر بتانے میں آسانی رہتی ہے۔

مرتضیٰ اب لندن میں اپنی بقیہ تعلیم مکمل کر رہا ہے۔ مبین لاہور کے ایک کاروباری ادارے میں کام کرتا ہے۔ شعیب امریکا کی Yale یونیورسٹی میں واپس جا رہا ہے مگر ان کا تمام کام جاری ہے اور یہ تمام بچے پڑھنے کے بعد پاکستان واپس آنا چاہتے ہیں۔ ان کا نیا کام بالکل ہی اچھوتا ہے۔ وہ یہ کہ ہوٹلوں اور شادی گھروں میں جو کھانا بچ جاتا ہے، اس کو محفوظ کر کے اور بالکل صاف کر کے ایسے دستر خوان بنائیں جہاں عام لوگ مفت کھانا کھا سکیں۔ یہ لوگ اور بھی بہت سماجی اور فلاحی کام کر رہے ہیں۔ مگر ان پر میں کسی اور وقت لکھوں گا۔ یہ کہتے ہیں کہ، اس ملک کی کوئی بھی حکومت لوگوں کے تمام مسائل حل نہیں کر سکتی لہذٰا ہمیں اپنے مسائل خود حل کرنے چاہیں۔

انسان بھی کیا عجب اور مشکل چیز ہے۔ اس کا رویہ کتنا متضاد ہے۔ ہمارے سامنے الیاس اشعر بھی ہے جس کو جیوری کے لوگ سزا سناتے ہوئے زار و قطار رونا شروع کر دیتے ہیں۔ اور دوسری طرف ہمارے پاس اپنے ملک میں یہ بچے بھی ہیں جو کوڑے کو عبادت سمجھ کر اٹھاتے ہیں۔ بغیر کسی صلے کے وہ یہ کام کرتے جا رہے ہیں جسے بہت کم لوگ پذیرائی دیتے ہیں۔ میری نظر میں یہ بچے گھپ اندھیروں میں وہ جگنو ہیں جو ہم سب کو راستہ دکھا رہے ہیں۔ اصل میں یہ راستے کے جگنو ہیں۔ میں ان بچوں سے بہت کچھ سیکھنا چاہتا ہوں۔ مگر کیا ہم سارے لوگ واقعی کچھ سیکھنا بھی چاہتے ہیں یا نہیں؟ اگر یہ جگنوئوں کی روشنی بھی نہ رہی تو کیا ہم اس گھپ اندھیرے میں ایک دوسرے کو بھی دیکھ پائیں گے؟ میں ایسے دن کا تصور بھی کرتے ہوئے خوف زدہ ہو جاتا ہوں جہاں مکمل اندھیرا ہو؟ مجھے آپ کے رد عمل کے متعلق واقعی کچھ علم نہیں؟ کہ آپ ایک مکمل تاریکی میں کیا محسوس کرینگے؟
Load Next Story