دوراہا
زندگی میں آپ کسی دوراہے پر لمحہ بھر کے لیے ٹھہرے ہیں؟ خواہ دوراہے کی نوعیت کچھ بھی ہو! لیکن وہ کوئی دوراہا ہو...
زندگی میں آپ کسی دوراہے پر لمحہ بھر کے لیے ٹھہرے ہیں؟ خواہ دوراہے کی نوعیت کچھ بھی ہو! لیکن وہ کوئی دوراہا ہو ... سڑک کا دوراہا، ندی کا یا پھر زندگی کا، چلیے کچھ آگے بڑھ کر سوال کرتے ہیں۔ خوشیوں کا دوراہا، دکھوں کا، سمے کا، گفتگو کا، سپنوں کا یا نیند کا ... شاید نہیں! کیونکہ جب آپ ایک مقررہ رفتار سے محو سفر ہوں تو ظاہر ہے کہ دوراہے کے قریب پہنچتے ہی آپ کی رفتار کم ہو کر یکدم تیز ہو جاتی ہے اور آپ ایک لمحہ خود فراموشی میں دوراہے کے نازک مقام کو پار کر جاتے ہیں۔
دوراہا اس مقام کو کہتے ہیں جہاں پر راستہ دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ہر رکاوٹ رفتار کو بڑھاتی ہے۔ اور سڑک، ندی، یا زندگی کے لیے دوراہا ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور اسی میں دوراہے کی جاذبیت ہے۔ ورنہ ایک سیدھا سا طویل راستہ تو سکوت کی طرح ہے۔ سکوت جو ازل سے ابد کے درمیان بے حس و حرکت ہے۔ پہلے سنگ میل سے آخری موڑ تک سیدھا راستہ ایک سپاٹ، بے رنگ اور بے جان سی شے ہے۔ جس پر سفر کرنے والے کسی نئے پن، نئی چیز کے ہونے یا دیکھنے سے محروم اکتاہٹ اور بد مزگی کا شکار ہو کر دم توڑ دیتے ہیں اور اگر یہی سڑک کسی موڑ پر دوراہے میں تبدیل ہونا شروع ہوتی ہے تو گویا اس میں جان پڑ جاتی ہے۔
کسی بھی راستے یا سڑک کے لیے دورہا ایک دھڑکن ہے اور دھڑکنوں کا یہ سلسلہ جس قدر تیز اور پائیدار ہو گا سڑک اسی قدر جاندار، جاذب نظر اور جیتی جاگتی نظر آئے گی۔ ندی کے حسن کا راز بھی اسی میں ہے اور زندگی ... زندگی میں اگر کوئی دوراہا نہ ہو تو کس کام کی ہے!
دوراہے کی اس اہمیت کا احساس مجھے اچانک سے پیش آ جانے والے ایک واقعے سے ہوا۔ آپ چاہیں تو اسے قصہ یا داستان بھی کہہ سکتے ہیں ... یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اپنے بچپن سے تازہ تازہ فارغ ہو کر Teen age میں داخل ہوا تھا۔ دل میں نا ختم ہونے والی خواہشیں خود رو پودوں کی طرح اگتی چلی جا رہی تھیں، ہزاروں ارادے اور ولولے کروٹیں لے رہے تھے۔ جی چاہتا تھا کہ مشرق و مغرب، شمال و جنوب تک زمین جتنی بچھی ہوئی ہے اس پر چلتا چلا جائوں، جتنے نظارے آسمان سے نیچے فضا میں جڑے ہیں یا زمین پر کھڑے ہیں انھیں دیکھتا رہوں۔ خیال سے خواب کا سفر، خواب سے تصور تک۔ ایک اڑن کھٹولے پر طے کروں۔ کوئی روکنے والا نہ ہو، کوئی راستہ دکھانے والا بھی نہ ہو بقول شاعر:
ہاتھوں میں چاند قدموں تلے آسمان تھا
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں جوان تھا
بہر حال سیاحت کے اس دور میں ایک دن ایسا بھی آیا جب میں وادیٔ مری میں ایک پر فضا مقام پر بڑے بڑے چناروں کے سائے میں سبزے پر لیٹا تھا اور کئی روز کی آوارہ گردی سے اکتایا ہوا ایک ٹھنڈی اور میٹھی نیند سو جانا چاہتا تھا۔ لیکن دل کو قرار کہاں تھا اور پھر وہی عمر ایسی تھی۔ میں نے سنا کوئی شخص اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا ... یار اور کتنا پیدل چلیں آئو فلاں مقام تک جانے کے لیے بس پکڑتے ہیں۔ مجھے یہ سن کر دکھ ہوا۔ اس لیے کہ لوگ کوہسار مری میں بھی بس کے سہارے کے محتاج تھے۔ ایک لحظہ کے لیے مجھے ان کی کاہلی، عافیت کوشی اور آرام طلبی پر غصہ بھی آیا۔ لیکن پھر دوسرے ہی لمحے یہ جذبہ ایک اضطراری کیفیت میں بدل گیا اور میں غیر ارادی طور پر اپنے سامان کو سنبھالتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ چند لمحوں کے بعد میں مری کی ایک سڑک پر اڑا چلا جا رہا تھا۔
سفر کی پہلی منزل تو گویا پلک جھپکتے میں طے ہو گئی اور میں دیکھتے دیکھتے تنگ ہوتی ہوئی وادی کے درمیان تک پہنچ گیا۔ اب اعضاء کچھ بوجھل ہونے لگے اور تھکاوٹ کی ایک ہلکی سی لہر پائوں سے اٹھتی ہوئی جسم کے دوسرے حصوں میں پھیلنے لگی اور پھر یہ لہر بھی بوجھل ہو گئی۔
میں کچھ دیر سستانے کی غرض سے کوئی جگہ دیکھ رہا تھا کہ کچھ دور مجھے ایک بڑا سا پتھر رکھا ہوا دکھائی دیا۔ میں تھکا ہارا اپنا سامان لیے اس چٹان نما پتھر کی جانب بڑھ گیا۔ قریب جا کر دیکھا تو لگا کہ ہر پل ہمارا جائزہ لیتی ہوئی قدرت نے حالات کو بھانپ کر جیسے وہ پتھر سپاٹ سا تراش کر اسے کسی چار پائی کی شکل دے دی ہو۔ اپنے بیگ کو تکیہ بنا کر میں نے آنکھیں موند لیں۔ گھنے درخت اور کبھی کبھی ان کے بازئوں میں سے چھنتی ہوئی دھوپ نے جلدی ہی مجھے نیند کے سپرد کر دیا۔ میں زیادہ نہیں سو سکا یا اب مجھے یاد نہیں کہ میں اس دن کتنا سویا تھا۔ لیکن جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دھیرے دھیرے اپنے گرد و پیش کا جائزہ لینا شروع کیا، ساتھ ہی یاد کرنے کی کوشش جاری تھی کہ میں کہاں ہوں اور کیوں ہوں۔ کچھ دیر نیم خوابیدگی کے بعد بیداری کا سورج طلوع ہونے لگا اور مجھے ذہن کی مشرقی سمت سے سب یاد آنے لگا۔ میں ابھی نیم وا آنکھوں سے درختوں کے ایک گھنے جھنڈ کو دیکھ رہا تھا کہ ساتھ ہی مجھے ایک عجیب و غریب منظر دکھائی دیا اور میں چونک کر بلکہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ میں در اصل ایک ایسے مقام پر سستانے کے لیے ٹھہر گیا تھا جہاں سے ایک سنگم پر دوسرا راستہ بھی جا رہا تھا۔
مری کے اس مقام پر ایک بہت ہی خوبصورت دوراہا تھا اور وہ دوسرا راستہ نسبتاً کشادہ تھا۔ ہر طرف پھولوں سے آراستہ جن پر آرام کرتی تتلیاں جانے کس دیس کے خواب دیکھ رہی تھیں۔ چیڑ کے لمبے درخت تمام درختوں میں غرور سے سر اٹھائے تنے کھڑے تھے۔ ہری گھاس کسی سبز ریشمی قالین کی مانند بچھی دور تک اٹھلاتی چلی جا رہی تھی۔ پہلے راستے کے سارے منظر مجھے پرانے اور شکن آلود سے محسوس ہوئے تھے۔ لیکن یہ نیا راستہ ... جیسے قدرت ہر طرف بکھری ہوئی ہو یا اس نے فطرت کا حقیقی لباس اوڑھ لیا ہو۔ میں دیر تک دو راستوں کے اس سنگم پر موجود رہا۔ اور اپنی خوش بختی پر خوش ہوتا رہا کہ میں مری میں بھی کسی بس یا ٹیکسی کو تلاش نہیں کر رہا تھا بلکہ اس جنت ارضی پر میں نے پیدل سفر کو ترجیح دی تھی۔
خیر سے کچھ برس اور گزرے تب میں Teen age سے بدقت تمام باہر آ سکا اگرچہ کہ یہ ادھیڑ عمری کبھی کبھی دبے پائوں زینہ اترنے لگتی ہے۔ لیکن میں نیند میں بھی ہوں تو اس کی چاپ سن لیتا ہوں اور ہوشیار، خبردار کی آواز لگا کر اسے ڈرا دھمکا کر یا منا کر اپنے دائرے میں واپس لے آتا ہوں۔
لیکن کیا کیا جائے کہ وقت کسی بھی عمر کا لحاظ کیے بغیر آپ کو ایک ایسے دوراہے پر لا کھڑا کرتا ہے جہاں پر یا تو آپ بقایا عمر کے لیے بس یا ٹیکسی کر لیں یا پھر ایک پیدل سفر کے ذریعے کسی دوراہے کو پانے کی جستجو کریں۔
ایک صبح جب میں نیند سے بیدار ہوا تو مجھے خوش خبری ملی کہ میرا بیٹا باپ اور میں دادا بننے والا ہوں۔ میں خبر پاتے ہی نہال ہو گیا اور اسی پل مجھے آگہی نے شعور کی ایک نئی کرن سے اجال دیا گویا باپ بننے سے زیادہ خوشی دادا بننے میں ہے یعنی اصل سے سود زیادہ پیارا ہوتا ہے۔ لہٰذا میں نے باپ کا فرض ادا کرتے ہوئے بیٹے کو تمام ضروری ہدایات جاری کر دیں۔ ڈاکٹر فلاں ہو، نرس اسے رکھنا، سب سے اچھا ہاسپٹل ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی بیگم سے بھی کہا کہ وہ اپنی بہو کے ساتھ جائیں اور معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کریں۔ دونوں نے ویسا ہی کیا لیکن جب وہ لیڈی ڈاکٹر سے مل کر لوٹے تو تینوں زیادہ خوش دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ بلکہ ایک فکر ان کے چہروں سے مترشح تھی۔ میرے بے تابی سے معلوم کرنے پر بتایا کہ ڈاکٹر نے کیس کو خاصا پیچیدہ قرار دیتے ہوئے آپریشن تجویز کیا ہے۔
چند ماہ بعد زچگی کا دن آ گیا۔ اس دن میں بھی ان کی ڈھارس بندھانے کے لیے ساتھ گیا۔ لیکن وہ ایک بدقسمت لمحہ تھا جب ڈاکٹر نے دوران زچگی اطلاع دی کہ زیادہ خون بہہ جانے اور بہت سی پیچیدگیوں کے باعث ماں اور بچے میں سے صرف ایک کو بچایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا فیصلہ ہم پر چھوڑ دیا گیا۔دوراہا آ چکا تھا۔ ایک سیدھی پگڈنڈی نے راستہ کاٹتے ہوئے صرف سیدھا چلنے سے انکار کر دیا تھا۔ راستہ منقسم ہونا چاہتا تھا لیکن یہ دوراہا پہلے سے بالکل مختلف اور بہت تکلیف دہ تھا۔ وقت کی کمی کے باعث فیصلہ جلد کرنا تھا۔ ہم سبھی نے ماں کو بچانے کے لیے ڈاکٹر سے کہہ دیا۔ اﷲ کا شکر ہے کہ بہو بہ حفاظت رہی لیکن میرا بیٹا باپ اور میں دادا بننے سے محروم رہ گئے۔ میں آج کئی برس بعد بھی اس حادثے کی تکلیف اپنے دل کے بیچوں بیچ محسوس کرتا ہوں لیکن ''دوراہے'' کے حسن، خوبصورتی اور جاذبیت کا اسی حد تک معترف ہوں، ممکن ہے کہ آپ میری سوچ سے، یا پاگل پن سے اتفاق نہ کرتے ہوں لیکن پھر بھی۔