کاروباری افراد کے تحفظ کے لیے صدارتی آرڈیننس
نئے آرڈیننس کے تحت کاروباری افراد سے پوچھ گچھ ایف بی آر اور دیگر اداروں کا کام ہے
وزیراعظم عمران خان نے کاروباری برادری کی طرف سے نیب کے بارے میں کیے جانے والے مسلسل تحفظات کو پذیرائی بخشتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت نے کاروباری طبقہ کو تحفظ دینے کے لیے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نیب اختیارات محدود کر دیے ہیں۔
نئے آرڈیننس کے تحت کاروباری افراد سے پوچھ گچھ ایف بی آر اور دیگر اداروں کا کام ہے، نیب کا اختیارصرف پبلک آفس ہولڈرز تک ہو گا۔ وہ جمعہ کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ٹاپ لسٹڈ 25 کمپنیوںکو ایوارڈز دینے کی سالانہ تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پوری کوشش ہے کہ ملک میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کو فروغ دیں، پاکستان کی ترقی میں تاجر برادری اور سرمایہ کاروں کا اہم کردار ہے، معاشی استحکام کے بعد شرح نمو میں اضافہ ہمارا اگلا ہدف ہے، چھوٹے اور درمیانی درجے کے کاروبار کے لیے سہولیات فراہم کرنا ہماری اولین ترجیح ہے۔
صدر عارف علوی نے نیب آرڈیننس کی منظور دے دی ہے، نیب آرڈینسس 2019کی میعاد قانون کے تحت 120 دن ہو گی، اگر پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہوتا تو آٹھ ماہ میں خود بخود غیر موثر ہو گا۔ نیب قوانین میں ترامیم کی بحث حکومت اور اپوزیشن جماعتون کے درمیان کافی عرصہ سے جاری تھی، اپوزیشن کے نزدیک یہ بلامتیاز احتسابی عمل نہ تھا، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا کہنا تھا کہ یہ ٹارگیٹڈ ہے اور انتقامی قانون ہے جب کہ حکومت کا موقف تھا کہ نیب ایک خود مختار ادارہ ہے۔
اسے ملک سے کرپشن کے خاتمہ کا ٹاسک دیا گیا ہے، حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کو حکومت کے اس اقدام کا خیر مقدم کرنا چاہیے کیونکہ نیب قوانین میں ترامیم کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جو مطالبات پیش گئے اور اپوزیشن نے نیب کا جو منفی امیج پیش کیا اس کے پیش نظر نیب آرڈیننس کا نفاذ اپوزیشن کے لیے صائب اقدام ہونا چاہیے، حکومت کا اصرار ہے کہ اس آرڈیننس سے تاجروں کو نیب سے آزاد کر دیا گیا ہے، ان کے تحفظات دور کر دیے گئے ہیں اور کاروباری ماحول کافی بہتر ہو جائے گا۔
تاہم معاشی ماہرین کی آرا متضاد ہے ، اور کاروباری حلقوں کا انداز نظر بھی تا حال محتاط ہے، اور مزید شفافیت اور مراعات کے متلاشی ہیں۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بزنس کمیونٹی نیب کے خوف کا شکار تھی۔ دوسری طرف سیاسی و تجارتی سواد اعظم کا بھی موقف تشویش، تذبذب اور تحفظات سے پاک ایک اقتصادی اور تفتیشی میکنزم کی ضرورت سے منسلک سمجھا جاتا ہے۔
ان حلقوں کا استدلال یہ ہے کہ کاروباری تحفظات کی اپنی ایک جائز کیمسٹری بھی ہے اور حکومتی اقدامات کی ناگزیریت بھی بے مقصد نہیں جب کہ سیاسی جماعتوں نے نیب کی طرف سے گرفتاری ، تفتیش ، پراسیکیوشن، ریمانڈ اور الزامات لگا کر کسی اسیر کو طویل مدت تک پابند سلال کرنے کو بنیادی انسانی حقوق سے متصادم قرار دیا، ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیز کا اسٹینڈ یہ رہا ہے کہ وہ اصولی طور پر احتساب کے خلاف نہیں بلکہ انتقام کے خلاف ہیں۔
ان کا اعتراض یہ ہے کہ صرف الزامات کے تحت نیب کسی کو گرفتار کرتی ہے تو اس سے کئی طرح کے شکوک پیدا ہوئے، سیاسی حلقوں اور قانونی ماہرین بھی اس کے حق میں نہیں تھے کہ گرفتاریوں میں بھی یکساں اصول پیش نظر نہیں رکھا گیا، عوامی حلقوں کے مطابق احتساب کا عمل اس لیے بھی اعتبار کے بحران کا شکار رہا کہ کسی کو صرف الزام پر گرفتار کیا گیا لیکن حکومت کے بہت سارے وزرا، سینیٹرز اور عہدیداروں کے خلاف عدالتوں میں ریفرنسز دائر کیے گئے ہیں لیکن انھیں گرفتاریوں سے ایک قسم کا استثنی ٰ ملا ہوا ہے۔
مزید براں اپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعتوں نے یہ بھی موقف اختیار کیا کہ احتساب کا رخ ان کے خلاف ہے اور بڑی بڑی مافیاؤں اور ٹیکس چوروں اور کرپشن کے غیر معمولی الزامات پر بھی نیب کی طرف سے معنی خیز خاموشی اختیار کی گئی ہے، حقیقت میں تاجر برادری کا یہ مطالبہ اور استدلال قابل غور ہے کہ تحقیقات، تفتیش اور گرفتاری کے عمل میں بھی اوور لیپنگ صاف ظاہر ہوتی رہی ہے۔
مثلاً تاجروں یا بے نامی اور جعلی اکاؤنٹس اور آمدنی سے بڑھ کر اثاثوں کے الزامات پر کارروائی کی گئی، ان کیسز میں ملوث اکثر اسیروں کی ضمانت پر رہائی ہوئی اور عدالتوں نے سخت انتباہ بھی کیا کہ نیب کے کمزور استغاثہ اور ناقص پراسیکیوشن کے باعث ملزم سزا سے بچ جاتا ہے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل، سمیت دیگر ملزمان کے بارے میں سوال اٹھائے گئے کہ انھیں الزام ثابت بغیر مہینوں جیل میں رکھا گیا۔
یہ اعتراض بھی صائب ہے کہ جب اداروں اور خود مختار محکموں کے اپنے احتسابی نظام موجود ہیں ، کسٹم، اور ایف بی آر کی موجودگی جب کہ اینٹی کرپش کے ایک مکمل میکنزم کے باوجود بیوروکریسی یا تاجروں کے خلاف کارروائی سیاسی اور کاروباری اضطراب کا سبب بنی ہے، وزیر اعظم نے کراچی میں تاجروں سے خطاب میں اس معاملہ پر اظہار خیال بھی کیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ گرفتاری پر تحفظات نئے نیب آرڈیننس کے ذریعے تاجر برادری کے لیے مزید آسانیاں پیدا کی جا رہی ہیں کیونکہ اس آرڈیننس کے تحت نیب بزنس کمیونٹی سے پوچھ گچھ نہیں کر سکتا، یہ کام ایف بی آر اور دیگر اداروں کا ہے۔ نیب اب صرف پبلک آفس ہولڈر ز سے ہی پوچھ گچھ کر سکے گا۔ ہم سرمایہ کاری سے متعلق منفی سوچ کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پاکستان میں قرضوں پر شرح سود زیادہ ہے، اسے کم کرینگے۔ بزنس کمیونٹی کے لیے آسانیوں کی فراہمی اور ترقی سے ملکی معیشت مستحکم ہو گی ، نوجوانوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے، معاشی شرح نمو بڑھے گی، پاکستان میں کاروبار میں آسانیوں کے حوالے سے درجہ بندی میں 28 پوائنٹس بہتری آئی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ چین نے 30 برس میں 70 کروڑ لوگوں کو غربت کی لکیر سے نکالا، اسی طرح یورپ اور امریکا جیسے دیگر ممالک میں ریاست نے اپنے کمزور طبقے کی ذمے داری لے لی ، پاکستان جس مقصد کے لیے وجود میں آیا تھا ہمیں اس کے لیے محنت کرنا ہو گی۔ وزیراعظم کے مطابق 2019 استحکام کا سال تھا جب کہ 2020 ترقی کا سال ہو گا۔ انھوں نے کہا سرمایہ کار سیاحتی شعبہ میں سرمایہ کاری میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔
پاکستان کو سیاحت کے لیے نمبرون ملک قرار دیا گیا ہے، اس شعبہ کے فروغ سے بھی نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا ہونگے، ڈالرز کی فراوانی ہو سکتی ہے ۔ سوئٹزر لینڈ رقبہ میں شمالی علاقہ جات سے دوگنا چھوٹا لیکن ہر سال 80 ارب ڈالر سیاحت سے کماتا ہے۔ پاکستان میں مذہبی سیاحت کے بھی وسیع مواقع موجود ہیں۔ ایوارڈ یافتہ کمپنیوں کے بارے میں بتایا گیا کہ ان کمپنیوں کو ایک جامع کرائی ٹیریا کے تحت منتخب کیا گیا جس میں ان کی کیپیٹل ایفی شنسی، پرافٹ ایبیلٹی، فری فلوٹ آف شیئرز، ٹرانسپیرنسی، کارپوریٹ گورننس اینڈ انویسٹر ریلیشنز، ریگولیٹری کمپلائنس شامل ہیں۔ براڈ سپیکٹرم سیکٹرز کی ان کمپنیوں میں پاور جنریشن اینڈ ڈسٹری بیوشن، فاسٹ موونگ کنزیومرز، آئل ریفائنریز وغیرہ شامل ہیں۔
بلاشبہ کاروباری افراد کو تحفظ کے لیے نیب اختیارات کا محدود ہونا سیاسی پیش رفت ہے، اس سے ماحول میں تناؤ، خوف، بے یقینی اور ابہام کا خاتمہ ہوگا، معیشت پر لاحق خطرات کے سدباب میں مزید کامیابیوں کے امکانات پیدا ہوںگے لیکن اس کے لیے حکومت کو شفاف احتساب اور کرپشن کے خلاف اپنے اہداف اور حکمت عملی میں بزنس کمیونٹی کے لیے ''فرینڈلی اپرروچ'' کی بالادستی کو برقرار رکھنا چاہیے، اسی میں احتساب اور شفاف انتظامی کار گہ شیشہ گری کا کمال مضمر ہے۔
نئے آرڈیننس کے تحت کاروباری افراد سے پوچھ گچھ ایف بی آر اور دیگر اداروں کا کام ہے، نیب کا اختیارصرف پبلک آفس ہولڈرز تک ہو گا۔ وہ جمعہ کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ٹاپ لسٹڈ 25 کمپنیوںکو ایوارڈز دینے کی سالانہ تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پوری کوشش ہے کہ ملک میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کو فروغ دیں، پاکستان کی ترقی میں تاجر برادری اور سرمایہ کاروں کا اہم کردار ہے، معاشی استحکام کے بعد شرح نمو میں اضافہ ہمارا اگلا ہدف ہے، چھوٹے اور درمیانی درجے کے کاروبار کے لیے سہولیات فراہم کرنا ہماری اولین ترجیح ہے۔
صدر عارف علوی نے نیب آرڈیننس کی منظور دے دی ہے، نیب آرڈینسس 2019کی میعاد قانون کے تحت 120 دن ہو گی، اگر پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہوتا تو آٹھ ماہ میں خود بخود غیر موثر ہو گا۔ نیب قوانین میں ترامیم کی بحث حکومت اور اپوزیشن جماعتون کے درمیان کافی عرصہ سے جاری تھی، اپوزیشن کے نزدیک یہ بلامتیاز احتسابی عمل نہ تھا، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا کہنا تھا کہ یہ ٹارگیٹڈ ہے اور انتقامی قانون ہے جب کہ حکومت کا موقف تھا کہ نیب ایک خود مختار ادارہ ہے۔
اسے ملک سے کرپشن کے خاتمہ کا ٹاسک دیا گیا ہے، حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کو حکومت کے اس اقدام کا خیر مقدم کرنا چاہیے کیونکہ نیب قوانین میں ترامیم کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جو مطالبات پیش گئے اور اپوزیشن نے نیب کا جو منفی امیج پیش کیا اس کے پیش نظر نیب آرڈیننس کا نفاذ اپوزیشن کے لیے صائب اقدام ہونا چاہیے، حکومت کا اصرار ہے کہ اس آرڈیننس سے تاجروں کو نیب سے آزاد کر دیا گیا ہے، ان کے تحفظات دور کر دیے گئے ہیں اور کاروباری ماحول کافی بہتر ہو جائے گا۔
تاہم معاشی ماہرین کی آرا متضاد ہے ، اور کاروباری حلقوں کا انداز نظر بھی تا حال محتاط ہے، اور مزید شفافیت اور مراعات کے متلاشی ہیں۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بزنس کمیونٹی نیب کے خوف کا شکار تھی۔ دوسری طرف سیاسی و تجارتی سواد اعظم کا بھی موقف تشویش، تذبذب اور تحفظات سے پاک ایک اقتصادی اور تفتیشی میکنزم کی ضرورت سے منسلک سمجھا جاتا ہے۔
ان حلقوں کا استدلال یہ ہے کہ کاروباری تحفظات کی اپنی ایک جائز کیمسٹری بھی ہے اور حکومتی اقدامات کی ناگزیریت بھی بے مقصد نہیں جب کہ سیاسی جماعتوں نے نیب کی طرف سے گرفتاری ، تفتیش ، پراسیکیوشن، ریمانڈ اور الزامات لگا کر کسی اسیر کو طویل مدت تک پابند سلال کرنے کو بنیادی انسانی حقوق سے متصادم قرار دیا، ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیز کا اسٹینڈ یہ رہا ہے کہ وہ اصولی طور پر احتساب کے خلاف نہیں بلکہ انتقام کے خلاف ہیں۔
ان کا اعتراض یہ ہے کہ صرف الزامات کے تحت نیب کسی کو گرفتار کرتی ہے تو اس سے کئی طرح کے شکوک پیدا ہوئے، سیاسی حلقوں اور قانونی ماہرین بھی اس کے حق میں نہیں تھے کہ گرفتاریوں میں بھی یکساں اصول پیش نظر نہیں رکھا گیا، عوامی حلقوں کے مطابق احتساب کا عمل اس لیے بھی اعتبار کے بحران کا شکار رہا کہ کسی کو صرف الزام پر گرفتار کیا گیا لیکن حکومت کے بہت سارے وزرا، سینیٹرز اور عہدیداروں کے خلاف عدالتوں میں ریفرنسز دائر کیے گئے ہیں لیکن انھیں گرفتاریوں سے ایک قسم کا استثنی ٰ ملا ہوا ہے۔
مزید براں اپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعتوں نے یہ بھی موقف اختیار کیا کہ احتساب کا رخ ان کے خلاف ہے اور بڑی بڑی مافیاؤں اور ٹیکس چوروں اور کرپشن کے غیر معمولی الزامات پر بھی نیب کی طرف سے معنی خیز خاموشی اختیار کی گئی ہے، حقیقت میں تاجر برادری کا یہ مطالبہ اور استدلال قابل غور ہے کہ تحقیقات، تفتیش اور گرفتاری کے عمل میں بھی اوور لیپنگ صاف ظاہر ہوتی رہی ہے۔
مثلاً تاجروں یا بے نامی اور جعلی اکاؤنٹس اور آمدنی سے بڑھ کر اثاثوں کے الزامات پر کارروائی کی گئی، ان کیسز میں ملوث اکثر اسیروں کی ضمانت پر رہائی ہوئی اور عدالتوں نے سخت انتباہ بھی کیا کہ نیب کے کمزور استغاثہ اور ناقص پراسیکیوشن کے باعث ملزم سزا سے بچ جاتا ہے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل، سمیت دیگر ملزمان کے بارے میں سوال اٹھائے گئے کہ انھیں الزام ثابت بغیر مہینوں جیل میں رکھا گیا۔
یہ اعتراض بھی صائب ہے کہ جب اداروں اور خود مختار محکموں کے اپنے احتسابی نظام موجود ہیں ، کسٹم، اور ایف بی آر کی موجودگی جب کہ اینٹی کرپش کے ایک مکمل میکنزم کے باوجود بیوروکریسی یا تاجروں کے خلاف کارروائی سیاسی اور کاروباری اضطراب کا سبب بنی ہے، وزیر اعظم نے کراچی میں تاجروں سے خطاب میں اس معاملہ پر اظہار خیال بھی کیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ گرفتاری پر تحفظات نئے نیب آرڈیننس کے ذریعے تاجر برادری کے لیے مزید آسانیاں پیدا کی جا رہی ہیں کیونکہ اس آرڈیننس کے تحت نیب بزنس کمیونٹی سے پوچھ گچھ نہیں کر سکتا، یہ کام ایف بی آر اور دیگر اداروں کا ہے۔ نیب اب صرف پبلک آفس ہولڈر ز سے ہی پوچھ گچھ کر سکے گا۔ ہم سرمایہ کاری سے متعلق منفی سوچ کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پاکستان میں قرضوں پر شرح سود زیادہ ہے، اسے کم کرینگے۔ بزنس کمیونٹی کے لیے آسانیوں کی فراہمی اور ترقی سے ملکی معیشت مستحکم ہو گی ، نوجوانوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے، معاشی شرح نمو بڑھے گی، پاکستان میں کاروبار میں آسانیوں کے حوالے سے درجہ بندی میں 28 پوائنٹس بہتری آئی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ چین نے 30 برس میں 70 کروڑ لوگوں کو غربت کی لکیر سے نکالا، اسی طرح یورپ اور امریکا جیسے دیگر ممالک میں ریاست نے اپنے کمزور طبقے کی ذمے داری لے لی ، پاکستان جس مقصد کے لیے وجود میں آیا تھا ہمیں اس کے لیے محنت کرنا ہو گی۔ وزیراعظم کے مطابق 2019 استحکام کا سال تھا جب کہ 2020 ترقی کا سال ہو گا۔ انھوں نے کہا سرمایہ کار سیاحتی شعبہ میں سرمایہ کاری میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔
پاکستان کو سیاحت کے لیے نمبرون ملک قرار دیا گیا ہے، اس شعبہ کے فروغ سے بھی نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا ہونگے، ڈالرز کی فراوانی ہو سکتی ہے ۔ سوئٹزر لینڈ رقبہ میں شمالی علاقہ جات سے دوگنا چھوٹا لیکن ہر سال 80 ارب ڈالر سیاحت سے کماتا ہے۔ پاکستان میں مذہبی سیاحت کے بھی وسیع مواقع موجود ہیں۔ ایوارڈ یافتہ کمپنیوں کے بارے میں بتایا گیا کہ ان کمپنیوں کو ایک جامع کرائی ٹیریا کے تحت منتخب کیا گیا جس میں ان کی کیپیٹل ایفی شنسی، پرافٹ ایبیلٹی، فری فلوٹ آف شیئرز، ٹرانسپیرنسی، کارپوریٹ گورننس اینڈ انویسٹر ریلیشنز، ریگولیٹری کمپلائنس شامل ہیں۔ براڈ سپیکٹرم سیکٹرز کی ان کمپنیوں میں پاور جنریشن اینڈ ڈسٹری بیوشن، فاسٹ موونگ کنزیومرز، آئل ریفائنریز وغیرہ شامل ہیں۔
بلاشبہ کاروباری افراد کو تحفظ کے لیے نیب اختیارات کا محدود ہونا سیاسی پیش رفت ہے، اس سے ماحول میں تناؤ، خوف، بے یقینی اور ابہام کا خاتمہ ہوگا، معیشت پر لاحق خطرات کے سدباب میں مزید کامیابیوں کے امکانات پیدا ہوںگے لیکن اس کے لیے حکومت کو شفاف احتساب اور کرپشن کے خلاف اپنے اہداف اور حکمت عملی میں بزنس کمیونٹی کے لیے ''فرینڈلی اپرروچ'' کی بالادستی کو برقرار رکھنا چاہیے، اسی میں احتساب اور شفاف انتظامی کار گہ شیشہ گری کا کمال مضمر ہے۔