اسرائیل میں انتخابات نیتن یاہو جیت کے لیے پرامید
نیتن یاہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کا بھی شکریہ ادا کیا
اسرائیل کے دارالحکومت یروشلم میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے مارچ میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے پارٹی کی لیڈر شپ کا ووٹ جیتنے کے بعد عام انتخابات میں بھی جیت کی امید ظاہر کی ہے۔ نتن یاہو نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی دائیں بازو کی لیکوڈ پارٹی واضح طور پر انتخابات جیت جائے گی۔
نیتن یاہو اسرائیل کی سب سے طویل عرصہ تک قیادت کرنے والے وزیر اعظم ہیں جنھیں کرپشن کے الزامات کے باعث مواخذے کا سامنا ہے جس کی وجہ سے انھیں صرف بارہ مہینے بعد ہی دوبارہ انتخابات کرانا پڑ رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے مدمقابل امیدواروں کو شکست دینے کے عزام کا اظہار بھی کیا ہے کیونکہ وہ گزشتہ 20 سال سے ملک کے سربراہ ہیں۔
70 سالہ نیتن یاہو نے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ وہ اپنے مخالف امیدوار کو 2 مارچ کو ہونے والے انتخابات میں شکست فاش سے دوچار کریں گے۔ نیتن یاہو نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ اسرائیلی عوام دائیں بازو کی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں اور وہ آیندہ انتخابات میں بھی میری حمایت کریں گے۔
نیتن یاہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کا بھی شکریہ ادا کیا اور کہا وہ میرے سب سے قریبی حلیف ہیں اور اگلے انتخابات میں ہماری جیت میں وہ بھرپور مدد کریں گے۔ لیکوڈ کے علاوہ بلیو اینڈ وائٹ پارٹی بھی انتخابی میدان میں ہے جو اپریل اور ستمبر میں ہونے والے انتخابی معرکے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ گزشتہ ماہ اسرائیل کے اٹارنی جنرل نے وزیر اعظم پر فراڈ، رشوت ستانی اور اعتماد کو توڑنے کا الزام لگایا لیکن وزیر اعظم نے اس الزام کو مسترد کر دیا۔
بلیو اینڈ وائٹ پارٹی کے لیڈر بینی گائز نے کہا کہ لیکوڈ پارٹی کے لیڈر پر کرپشن کے بہت سخت الزامات عائد ہیں اس لیے اسے مواخذے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ادھر اسرائیل کے اہم مبصرین کے مطابق سیاسی سرگرمیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انتخابی مہم شروع ہو گئی ہے اور توقع ہے کہ نیتن یاہو انتخابات جیت جائیں گے۔ نیتن یاہو کی یہ تیسری انتخابی فتح ہو گی۔ نیتن یاہو پر کرپشن کے تین بڑے الزامات ہیں۔ ان میں غیر قانونی طور پر تحائف کی وصولی جن کی مالیت ہزاروں ڈالر سے متجاوز ہے نیز انھوں نے میڈیا کی مثبت کوریج کے لیے کئی قوانین کی تبدیلی بھی کر دی ہے۔
اس بنیاد پر اگر دیکھا جائے تو مارچ 2020کے انتخابات میں بھی نیتن یاہو کے لیے واضح اکثریت حاصل مشکل لگتا ہے۔تاہم اسرائیلی میڈیا میں زیادہ تر نیتن یاہو کی جیت کے اندازے لگائے جا رہے ہیں اور سرکاری ریڈیو نیتن یاہو کی بھرپور فتح کی پیش گوئی کر رہا ہے۔
نیتن یاہو اسرائیل کی سب سے طویل عرصہ تک قیادت کرنے والے وزیر اعظم ہیں جنھیں کرپشن کے الزامات کے باعث مواخذے کا سامنا ہے جس کی وجہ سے انھیں صرف بارہ مہینے بعد ہی دوبارہ انتخابات کرانا پڑ رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے مدمقابل امیدواروں کو شکست دینے کے عزام کا اظہار بھی کیا ہے کیونکہ وہ گزشتہ 20 سال سے ملک کے سربراہ ہیں۔
70 سالہ نیتن یاہو نے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ وہ اپنے مخالف امیدوار کو 2 مارچ کو ہونے والے انتخابات میں شکست فاش سے دوچار کریں گے۔ نیتن یاہو نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ اسرائیلی عوام دائیں بازو کی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں اور وہ آیندہ انتخابات میں بھی میری حمایت کریں گے۔
نیتن یاہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کا بھی شکریہ ادا کیا اور کہا وہ میرے سب سے قریبی حلیف ہیں اور اگلے انتخابات میں ہماری جیت میں وہ بھرپور مدد کریں گے۔ لیکوڈ کے علاوہ بلیو اینڈ وائٹ پارٹی بھی انتخابی میدان میں ہے جو اپریل اور ستمبر میں ہونے والے انتخابی معرکے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ گزشتہ ماہ اسرائیل کے اٹارنی جنرل نے وزیر اعظم پر فراڈ، رشوت ستانی اور اعتماد کو توڑنے کا الزام لگایا لیکن وزیر اعظم نے اس الزام کو مسترد کر دیا۔
بلیو اینڈ وائٹ پارٹی کے لیڈر بینی گائز نے کہا کہ لیکوڈ پارٹی کے لیڈر پر کرپشن کے بہت سخت الزامات عائد ہیں اس لیے اسے مواخذے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ادھر اسرائیل کے اہم مبصرین کے مطابق سیاسی سرگرمیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انتخابی مہم شروع ہو گئی ہے اور توقع ہے کہ نیتن یاہو انتخابات جیت جائیں گے۔ نیتن یاہو کی یہ تیسری انتخابی فتح ہو گی۔ نیتن یاہو پر کرپشن کے تین بڑے الزامات ہیں۔ ان میں غیر قانونی طور پر تحائف کی وصولی جن کی مالیت ہزاروں ڈالر سے متجاوز ہے نیز انھوں نے میڈیا کی مثبت کوریج کے لیے کئی قوانین کی تبدیلی بھی کر دی ہے۔
اس بنیاد پر اگر دیکھا جائے تو مارچ 2020کے انتخابات میں بھی نیتن یاہو کے لیے واضح اکثریت حاصل مشکل لگتا ہے۔تاہم اسرائیلی میڈیا میں زیادہ تر نیتن یاہو کی جیت کے اندازے لگائے جا رہے ہیں اور سرکاری ریڈیو نیتن یاہو کی بھرپور فتح کی پیش گوئی کر رہا ہے۔