آزاد ملک کے محکوم سیاستدان
قائد اعظم کی وفات کے بعد پاکستان کے عوام کو لا تعداد مصیبتوں نے گھیر لیا
www.facebook.com/syedzishanhyder
1947میں جب قائد اعظم نے پاکستان بنایا تو ان کی یہی خواہش تھی کہ پاکستان کے عوام ایک آزاد فضاء میں سانس لے سکیں ۔انھیں سوچ خیال اور زندگی اپنی مرضی سے بسر کرنے کی آزادی حاصل ہو۔ پاکستان بننے کے بعد آزادی کا سفر شروع ہوتے ہی مسائل کا شکار ہوتا چلا گیا ۔
قائد اعظم کی وفات کے بعد پاکستان کے عوام کو لا تعداد مصیبتوں نے گھیر لیا۔ قائد اعظم کی وفات اور لیاقت علی خان کے قتل کے بعد سیاسی حالات کچھ ایسے بگڑے شاید آج تک سنبھلنے کا نام نہیں لے رہے۔ ایک چیز قابل غور ہے ۔پاکستان بننے کے بعد ہم کس حد تک آزاد ہوئے ؟قیام پاکستان کے وقت پاکستان کو کافی سارے مسائل کا سامنا تھا جس میں معاشی مسائل سر فہرست تھے۔
بہرحال گرتے پڑتے یہ سفر چلتا رہا اور پھر جو آزادی کا خواب قائد نے دیکھا تھا اس پر بارہا شب خون مارے گئے ۔نوکر شاہی نے آہستہ آہستہ عوامی رائے پر اپنے پنجے گاڑھ لیے ۔پاکستان کی نوکر شاہی نے پاکستانی جمہوریت کے ساتھ جو کیا جو کھیل کھیلے اس کی جدید تاریخ کے اندر بہت کم مثالیں ملتی ہیں ۔
جیسے وقت گزرتا گیا اسی طرح پاکستانی عوام کی سوچ پر پاکستان کی آزادی کے گرد گھیرا تنگ ہوتا چلا گیا۔ آمریت کے دوران حالات اس حد تک بگڑ گئے کہ سیاسی معاملات میں اختلاف رکھنے والوں کو جیلوں میں بھی ڈالا گیا اور ملک بدر بھی کیا گیا۔ اسی ظلم و جبر کا نتیجہ سقوط ڈھاکہ کی شکل میں بھی دیکھا ۔پاکستان کے مختلف علاقوں میں بھی غیر ملکی آشیرباد سے شورش نے جنم لیا چاہے وہ بلوچستان ہو یا پھر ماضی قریب۔ وزیرستان اور شمالی علاقہ جات میں شدت پسندوں کی کارروائیاں ان سب کے بنیادی تانے بانے آمریت کے ادوار سے جا ملتے ہیں۔
اس پر سب سے بڑا ظلم تو یہ ہواکہ پاکستانی عوام کو پاکستان کی حقیقی سیاسی تاریخ سے نابلد رکھا گیا اور کچھ اس طرح سے آمریت کے ادوار کے اندر ذہن سازی کی گئی کہ کئی نسلیں اس سوچ کے ساتھ جوان ہوئیں جو حقائق سے بہت دور تھیں۔ آج عوام پاکستان کے ہر مسئلے کے پیچھے پاکستانی سیاستدانوں کی نا اہلی سب سے بڑی وجہ گردانتے ہیں۔ سیاستدانوں کو آمریت کی نرسریوں میں لگے ہوئے گملوں سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ سیاستدانوں کو لوٹا اور کبھی ضمیر فروش کے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ یہ ہم اس لیے کر سکتے ہیں کہ سیاستدانوں کے پاس نہ آئین کی طرف سے ہی اس طرح کا تحفظ حاصل ہے اور نہ ان کے پاس کوئی اسلحہ اور دھونس ڈالنے کے لیے طاقت ہی موجود ہے۔
آپ کو پاکستانی تاریخ کی باریک بینی سے تجزیے کی ضرورت ہے تاکہ آپ تاریخی حقائق تک پہنچ سکیں۔ شاید جتنا پاکستان کا سیاستدان مجبور ہے شاید دنیا میں کسی اور ملک کے اندر کوئی سیاستدان اتنا مجبور ہو گا ۔آپ اگر کاروباری شخص ہیں یا آپ اپنی عملی زندگی میں قدم رکھ چکے ہیں تو آپ کو یقیناً سرکاری اسپتال کچہری یا تھانے سے کبھی نہ کبھی تو واسطہ پڑا ہو گا ۔آپ خود سوچئے کہ آپ ان سرکاری اداروں میں قدم رکھتے ہیں تو آپ سر کاری ملازمین کے کس طرح مرہون منت ہو کر رہ جاتے ہیں۔
آپ کو احتجاج کرنے کا حق بھی شاذ و نادر ہی ملتا ہے اور آپ صرف ایک خاموش تماشائی بن کر اپنے ساتھ کیے ہوئی کارروائی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ یہ مثال اگروسیع ملکی تناظر میں دیکھی جائے تو سوچئے کہ آپ ایک آزاد شہری ہونے کے باوجود اور آئینی حق رکھنے کے باوجود کتنے کمزور اور مجبور ہو جاتے ہیں تو سوچئے کہ آج سے کئی دہائیاں پہلے ایوب خان کے دور میں سیاستدان اپنے سامنے موجود انتہائی طاقت ور طالع آزما کے خلاف کس طرح آواز بلند کر سکتے تھے ؟ذوالفقار علی بھٹو کو ایوب خان کے قریب ہونے کے طعنے آج تک سنائے جاتے ہیں۔
لیکن آپ غور کیجیے ایوب خان کے دور کے اندر کوئی سیاستدان ایوب خان کی مرضی اور اس کی مخالفت کے اندر عوامی طاقت حاصل کیے بغیر ہی پہلے دن سے تحریک برپا کر سکتا تھا ؟اگر کوئی بھی زیرک سیاستدان اس زمانے کے اندر عوام کو آمریت کے تسلسل سے نجات دلانا چاہتا ہو تو اس کے پاس دو ہی راستے تھے ایک مسلحہ جدوجہد اور دوسرا اس وقت کے طالع آزما سے جھگڑا نہ لیتے ہوئے اسی طریقے سے عوام میںاپنی جڑیں مضبوط کرنا اور پھر اتنی سیاسی طاقتیں حاصل کر لینا کہ آمریت کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔
یہی کچھ ذوالفقار علی بھٹونے کیا۔ لگ بھگ ایسی صورتحال سے میاں نواز شریف بھی گزرے۔ دونوں کو تقریباً ایک جیسا ہی سیاست کے لیے ماحول ملا اور اسی طرح کی محدود آزادی بھی۔ دونوں لیڈروں نے سیاست کا راستہ اپنائے رکھا اور طاقت حاصل کرنے کے بعد جمہوریت کی مضبوطی کا نعرہ لگایا ۔دونوں سیاستدانوں کی حکومتوں کے ساتھ جو ہوا اس کی تاریخ گواہ ہے۔
کیا ان سیاستدانوں کے لیے آسان نہ تھا کہ وہ اپنی جان اور مال بچا کر ملک سے فرار ہو جاتے اور کبھی مڑ کر نہ آتے ؟ہم اپنے اصل ہیروزکی عزت نہ کر کے اپنی آنے والی نسلوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ جمہوری سیاستدان بنیں یا پھر ان کے مدمقابل آمریت کے پیروکار ؟ہماری مجموعی عوامی سوچ آخر کس رخ جا رہی ہے ؟جب ہم ایک آزاد شہری ہوتے ہوئے بھی آزاد نہیں تو ہم اس چیز کی اپنے نمایندوں یعنی سیاستدانوں سے کیسے امید لگا سکتے ہیں کہ پوری آزادی کے ساتھ ملک کے طاقتور ترین اشخاص کے مد مقابل سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہو جائیں گے ؟اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اگر ہم نے جمہوریت پسند سیاستدانوں کی عزت نہ کی تو دنیا میں ہمارے ملک کی بھی عزت نہ ہو گی۔
آج کسی بھی ملک کا لیڈر اٹھ کر ہمارے وزیر اعظم پر غیر ملکی ڈکٹیشن کا الزام لگا دیتا ہے۔ یہ تمام قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اگر ہم نے با عزت قوم بن کر جینا ہے تو ہمیں پہلے ملک کے اندر صحیح معنوں میں آزادی چاہیے اور وہ آزادی صرف جمہوریت سے آسکتی ہے اور جمہوریت صرف ہمارے سویلینCivilian)) سیاستدان ہی بر پا کر سکتے ہیں ۔چاہے دور کوئی سا بھی ہو ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ نامکمل سیاسی آزادی پچھلے ادوار میں تھی اور نہ آج ہے۔ مگر ہمیں انھی پابندیوں اور قدغن کے درمیان ہی جدو جہد کرتے ہوئے مکمل آزادی حاصل کرنی ہے بقول اقبال
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے ،پابہ گل بھی ہے
انھی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے