2019ء…مجرم خوش جبکہ شہریوں کی چیخیں نکل گئیں

 پولیس کی روایتی بے حسی کے باعث ہر طرح کے جرائم اور اشتہاریوں کی تعداد میں اضافہ ہوا


اعجاز انصاری December 30, 2019
 پولیس کی روایتی بے حسی کے باعث ہر طرح کے جرائم اور اشتہاریوں کی تعداد میں اضافہ ہوا

PESHAWAR: 2019ء قتل وغارت گری اور لوٹ مارکی تلخ یادوں کے ساتھ اختتام کو پہنچ رہا ہے، لیکن فیصل آباد پولیس تمام ترکوششوں کے باوجود شہریوں پرعرصہ حیات تنگ کرنے والے ڈاکووں اور بدمعاشوں پر زمین تنگ کرنے میں اس سال بھی ناکام رہی۔ چوکی تھانوں کی پولیس، ایلیٹ فورس،کوئیک رسپانس فورس اور ڈولفن سکواڈزکی موجودگی میں جرائم پیشہ عناصرکے نئے اور پرانے گروہ شہریوں کے خون پسینے کی کمائی پرہاتھ صاف کرتے رہے۔

لوٹ مارکی درجن بھر خونی وارداتوں میں شہری جانیں گنوابیٹھے۔ جرائم پیشہ عناصرسے آمنا سامنا ہونے پر جہاں پولیس کے 6 افسر اور جوان زخمی ہوئے وہاں 11 جرائم پیشہ عناصر بھی اپنے انجام کو پہنچے۔ ضلعی پولیس پکڑے گئے ہرگروہ کو مرکزی قراردیتی رہی تاہم سٹریٹ کرائمز کی جاری سرگرمیاں اس امرکی نشاندھی کرتی رہیںکہ اگر پولیس کے ہاتھ لگنے والے ہی سرگرم عمل تھے توان کے جیلوں میں جانے کے بعد بھی جرائم کاگراف نیچے کیوں نہ آسکا؟

یہ کہناغلط نہ ہوگاکہ ہماری پولیس کے پاس ایسی معلومات یاکوئی ریسرچ ونگ نہیں جس سے واضح ہوسکے کہ لوٹ مارکے واقعات میں ملوث کتنے گروہ پیشہ ورعادی مجرم اورکتنے عیاشی کی خاطر وارداتیں کرنے کے شوقین ہیں۔ پولیس ایسے مجرموں کی سرپرستی کرنے والے معاشرے کے ناسوروں پرہاتھ ڈالنا تو درکنار انہیں بے نقاب کرنے سے بھی گریزاں رہی۔

سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والے عناصرکی شناخت کے لئے قبل ازیں پولیس کا تجربہ کار عملہ ان کے حلیہ جات معلوم کرکے سکیچ تیارکرتا۔ متاثرین کوجرائم پیشہ عناصرکے البم بھی دکھائے جاتے۔ پولیس اب جرائم کاسراغ لگانے کے لئے جائے وقوعہ یاگردونواح سے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کے حصول کواولیت دیتی ہے افسران کی کوشش ہوتی ہے کہ وارداتی عناصرکے تعاقب میں جانے ،ان کی کمین گاہوں کاسراغ لگانے کے جتن کرنے کے بجائے وڈیوفوٹیج میں محفوظ مناظرسے ہی مجرموںکی شناخت کرلی جائے ۔

اس میں کوئی حرج بھی نہیں، تفتیشی ذہن رکھنے والا افسر اس طریقہ سے بھی خطرناک مجرموں تک پہنچ سکتا ہے۔ اب توعوام کی دلچسپی کاعالم بھی یہ ہے کہ راہ چلتے کسی بھی واقعہ کی فلم بناکرسوشل میڈیاپراپ لوڈکردی جاتی ہے، لوٹ مارکے واقعات ہی نہیں قتل جیسے سنگین واقعات کے مناظر بھی مشتہرکردیئے جاتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ متعلقہ پولیس اپنے طورپران کانوٹس نہ لے پائے۔

سال2019 میں رونما ہونے والے چوری،نقب زنی سمیت سرقہ عام کے واقعات اپنی جگہ، گن پوائنٹ پرہونے والی ڈکیتی،راہزنی کے 2 ہزار 282 رجسٹرڈکرائم میں ہی ایک ارب12کروڑ18لاکھ سے زائد مالیت کامال و زر لوٹا گیا۔ ضلع کے 41 تھانوں کی پولیس تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہوئے محض 11فیصدکے حساب سے 12کروڑ81لاکھ کی ریکوری میں کامیاب رہی۔ فیصل آباد پولیس کی ڈویژن کی سطح پرکارکردگی کودیکھاجائے تو مدینہ ڈویژن سے متعلقہ تھانوں کاعملہ 33کروڑ86لاکھ کے مسروقہ مال میں سے 2کروڑ65لاکھ کی برآمدگی کرپائی۔

لائل پور ڈویژن پولیس 19کروڑ64لاکھ کے مسروقہ مال میں سے 2کروڑ79لاکھ کی برآمدگی میں کامیاب رہی۔ اقبال ڈویژن پولیس 23کروڑ57لاکھ کی مسروقہ مال میں سے 3کروڑ95لاکھ کی ریکوری میں کامیاب ہوئی۔صدرڈویژن پولیس 16کروڑ27لاکھ میں سے 2کروڑ38لاکھ جبکہ جڑانوالہ ڈویژن سے متعلقہ تھانوں کی پولیس 18کروڑ82لاکھ میں سے ایک کروڑ2لاکھ مالیت کا مسروقہ مال وزر برآمد کرپائی۔ ضلع کی حدودمیں رونماہونے والے دیگرجرائم بھی سال 2018کی نسبت کہیں زائد رہے ۔پولیس ریکارڈکے مطابق نقب زنی کے مقدمات کی تعداد564کی نسبت سال 2019کے دوران 635رہی، مویشی چوری کے مقدمات کی تعدادبھی 366کی نسبت 479جبکہ سرقہ عام کے کیسزکی تعدادبھی1470کے مقابلے میں 1808 رہی۔

جرائم پیشہ عناصران وارداتوں میں بھی کروڑوں کا مال و زر چوری کرنے میں کامیاب رہے۔ 231شہریوں کی طرف سے کار چوری، ڈکیتی کے کیس درج کرائے گئے،موٹرسائیکل چوری کے 1227جبکہ موٹرسائیکل چھینے جانے کے 452 مقدمات پولیس ریکارڈکاحصہ بنے۔ سٹریٹ کرائمز کے علاوہ رونماہونے والے دیگرسنگین واقعات بھی شہریوں کے لئے پریشانی کاسبب رہے۔2019ء میں ضلع کے تھانوں میں درج ہونے والے قتل کے مقدمات کی تعداد293رہی ،گزشتہ برس اس ضمن میں 318مقدمات کااندراج عمل میں لایاگیا۔

اقدام قتل کے مقدمات گزشتہ برس کے 372کی نسبت امسال 394رہے ۔گزشتہ برس ضلع کی حدودمیں ہونے والے پولیس مقابلوں کی تعداد16تھی جوسال رواں میں بڑھ کر23ہوگئی۔ اغوا برائے تاوان کی مد میں گزشتہ برس ایک کیس درج ہوا جبکہ سال رواں ایسے کیسزکی تعداد 6 رہی۔ زیادتی کے مقدمات کی تعدادگزشتہ برس کے 255کی نسبت 363رہی۔ ''گڈورک''کے طورپرتصورہونے والے پولیس کارروائی کے مقدمات کی تعداد قدرے کم رہی، جن میں منشیات کی برآمدگی کے کیس 4109سے کم ہوکرامسال 3603رہے ناجائز اسلحہ کی برآمدگی کے مقدمات 3067سے کم ہوکر3023رہے۔سٹریٹ کرائمز اوردیگرنوعیت کے بہت سے واقعات متعلقہ تھانیداروںکی روایتی تساہل پسندی اورعدم تعاون کے سبب مقدمات کی شکل اختیار نہ کرسکے۔

یہ امرقابل ذکرہے کہ پولیس حکام قانون کی گرفت میں نہ آنے والے اشتہاری عناصر کوجرائم میں اضافہ کاسبب قراردیتے آئے ہیں۔اسے فیصل آباد کے عوام کی بدقسمتی کہاجائے یاضلعی پولیس کی نااہلی سے تعبیر کیاجائے کہ یہاں کے مطلوب اشتہاریوں کی لسٹیں کبھی مختصر نہ ہو پائیں۔

سال 2018کے اختتام پرخطرناک نوعیت کے 1462 عناصرسمیت 16 ہزار 236 اشتہاری ملزمان فیصل آبادپولیس کے کھاتے میں پڑے تھے۔ سال 2019میں ایسے ملزمان کی تعدادمیں 5ہزار751کے اضافہ کے نتیجہ میں مطلوب اشتہاریوں کی مجموعی تعداد 21 ہزار 987 ہوگئی۔ فیصل آبادپولیس کی طرف سے خطرناک اشتہاریوں کی بیخ کنی کے لئے موثرکریک ڈاون عمل میں نہ لایاجاسکا۔حکام کی واضح ہدایات کے باوجود یہاں کی پولیس گشت اورناکہ بندی کانظام بھی موثر بنانے میں ناکام رہی۔ایسی صورتحال میں یہ کہنابھی غلط نہ ہوگاکہ سال 2019یہاں کے باسیوں کے لئے بھاری جبکہ لوٹ مارکرنے والوں کے لئے کہیں مفید ثابت ہوا۔

رواں سال کے آخری مراحل میں فیصل آبادمیں تعینات ہونے والے ریجنل پولیس آفیسر رفعت مختارراجہ اورسٹی پولیس آفیسر کیپٹن(ر)محمدسہیل چوہدری کی طرف سے شہریوں کے جان ومال اورعزت وآبرو کا تحفظ اورجرائم پیشہ عناصرکی سرکوبی اولین ترجیح قراردی گئی ہے جن کاکہناہے کہ عہدے انجوائے کرنے والے افسراب فیصل آبادپولیس کاحصہ نہیں رہیں گے۔یہاں رہنے والوں کو کام کر کے دکھانا ہو گا، جرم کی دنیا سے تعلق رکھنے والوں کو محکمہ پولیس کو خیر باد کہنا ہو گا۔ ماتحت عملہ کو متحرک کرنے کے لیے دونوں اعلیٰ پولیس افسران کی طرف سے سرپرائز وزٹ اور چیکنگ کا عمل بھی جاری ہے۔ خداکرے یہ خواب نئے سال میں ہی شرمندہ تعبیر ہوجائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں