تعمیراتی شعبے کی ترقی کیلیے IMF سے دوبارہ رجوع کرنے پر غور

 وفاقی حکومت بلڈرز اور ڈیولپرز کے لیے فکسڈ ٹیکس رجیم متعارف کرانا چاہتی ہے

 وفاقی حکومت بلڈرز اور ڈیولپرز کے لیے فکسڈ ٹیکس رجیم متعارف کرانا چاہتی ہے

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تعمیراتی شعبے کو ترقی دینے کی غرض سے بلڈرز اور ڈیولپرز کے لیے فکسڈ ٹیکس رجیم متعارف کرنے کیلیے عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) کی رضامندی حاصل کرنے پر غور کررہی ہے تاکہ شہر میں کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دی جاسکے۔

اس سلسلے میں ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز ( آباد) نے آئی ایم ایف سے ایک علیحدہ میٹنگ کرنے کے لیے دو روز قبل عالمی ادارے کو خط بھی تحریر کیا ہے۔ ملاقات میں آئی ایم ایف پر واضح کیا جائے گا کہ کیسے فکسڈ ٹیکس رجیم ٹیکسوں کی مد میں زیادہ مقدار میں ریونیو حاصل کرنے میں حکومت کے لیے فائدہ مند ہوگا۔

قبل ازیں فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اس ضمن میں خاصی پیش رفت کی تھی تاہم 6 ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام کے تحت آئی ایم ایف نے حکومت کو اس منصوبے پر مزید پیش رفت سے روک دیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے گذشتہ جمعے کے روز فکسڈ ٹیکس رجیم پر غور کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں آباد کے نمائندے بھی شامل ہیں۔


آباد کے چیئرمین محمد حسن بخشی نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مشیرخزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کمیٹی کے چیئرمین ہیں جب کہ اراکین چیئرمین ایف بی آر شبرزیدی بھی شامل ہیں۔ کمیٹی کا اجلاس پیر کو ہوگا۔ واضح رہے کہ جمعے کو گورنر ہاؤس میں وزیراعظم سے ملاقات کرنے والی کاروباری شخصیات میں محمد حسن بخشی بھی شامل تھے۔

قبل ازیں اکتوبر میں ایف بی آر نے فکسڈ ٹیکس رجیم کا خاکہ تیار کرلیا تھا جس کے تحت ملک بھر میں تجارتی عمارتوں کی تعمیر پر بلڈرز اور ڈیولپرز 210 روپے فی مربع فٹ ادا کرنے کے پابند ہوتے۔ رہائشی عمارتوں کے لیے نرخ شہر بہ شہر مختلف ہوتے جب کہ کم قیمت ہاؤسنگ اسکیموں کے لیے 90 فیصد کی رعایت بھی حاصل ہوتی۔ ٹیکس کی رقم پیشگی ادا کی جاتی اور بلڈرز عمارت کی تعمیر زیادہ سے زیادہ 3 سال میں مکمل کرنے کے پابند ہوتے۔

فکسڈ ٹیکس رجیم تعمیراتی منصوبوں پر 33 فیصد انکم ٹیکس اور ان خدمات کے متبادل کے طور پر تجویز کی گئی ہے جو بلڈرز اور ڈیولپرز اس وقت ادا کررہے ہیں۔ فکسڈ ٹیکس رجیم سے ایف بی آر منصوبوں کی جانچ نہیں کرسکے گا اور رشوت ستانی اور بدعنوانی کے دروازے بھی بند ہوں گے۔
Load Next Story