چین کے زیر اہتمام جاپان جنوبی کوریا سربراہ کانفرنس

امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے شمالی کوریا کے کئی دورے بھی کر چکے ہیں


Editorial December 29, 2019
امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے شمالی کوریا کے کئی دورے بھی کر چکے ہیں۔ فوٹو: فائل

PESHAWAR: گزشتہ دنوں عوامی جمہوریہ چین نے اپنے دو انتہائی اہم پڑوسیوں جاپان اور جنوبی کوریا کے لیڈروں کی سربراہ کانفرنس کا اہتمام کیا۔ کافی عرصہ کے بعد یہ ان لیڈروں کی پہلی سرکاری ملاقات تھی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ چین نے اپنے سب سے بڑے حریف امریکا کو اپنی سفارت کاری کی مہارت کا ایک نمونہ پیش کیا ہے۔

چین نے جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ بیٹھ کر یہ پیغام بھی دیا ہے کہ وہ شمالی اورجنوبی کوریا کو بھی قریب لاسکتا ہے۔ شمالی کوریا نے امریکا کو مصیبت میں ڈال رکھا ہے۔ امریکا شمالی کوریا سے جوہری معاہدے کی کوششیں کر رہا ہے، اس ضمن میں امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے شمالی کوریا کے کئی دورے بھی کر چکے ہیں۔

متذکرہ سربراہ کانفرنس چین کے شمال مغربی شہر چینگ ڈو میں ہوئی ۔تاہم اس موقع پر شمالی کورین لیڈر کم جونگ ان نے کہا ہے کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کے بارے میں عالمی کشیدگی کو کم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ اگر ایسا ممکن ہوا تو اس کے لیے شرط یہی رکھی جائے گی کہ امریکا اس سال کے آخر تک جوہری معاملے میں شمالی کوریا کو زیادہ سے زیادہ رعایت دے۔

متذکرہ سربراہ کانفرنس کے موقع پر جنوبی کوریا کے لیڈر مون جائے ان اور جاپانی وزیراعظم شنزو ایبے کے درمیان پہلی براہ راست ملاقات بھی ہوئی جو 15منٹ جاری رہی تاہم اس ملاقات کی اہمیت بہت زیادہ ہے، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ باہمی تجارتی تنازعہ کے باعث دونوں ملکوں میں تعلقات کی سطح بہت نیچے آ گئی تھی۔ واضح رہے جاپان نے 1910سے1945تک کوریا کی خواتین کو اپنے فوجیوں کے لیے جنسی غلامی کے طور پر زبردستی اغوا کرا لیا تھا۔ چین اب اس علاقے کی سب سے بڑی طاقت بن چکا ہے جس کی مثال یہ ہے کہ اس نے جنوبی کوریا اور جاپان کے لیڈروں کو ایک میز پر بٹھا دیا ہے۔

چینی سیاست پر حرف آخر تصور کیے جانے والے ایک جاپانی پروفیسر ہاروکو نے کہا ہے کہ چین نے اس غیرمعمولی سربراہ کانفرنس میں جاپانی لیڈر ایبے اور جنوبی کورین لیڈر مون کو ایک مذاکراتی میز پر بٹھا کر دونوں کا ہاتھ ملوا دیا اور دونوں نے کیمروں کے سامنے مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا۔ جاپان پر کوریائی خواتین کا جنسی غلاموں کی طرح استعمال دونوں ملکوں میں کشیدگی کی پرانی وجہ ہے۔

جاپان نے اپنے فوجیوں کے لیے کورین خواتین کو جنسی غلاموں کی طرح استعمال کیا تھا۔ کورین عدالتوں نے جاپان سے ان جرائم کے عوض بھاری تا وان کا مطالبہ بھی کیا ہے جس پر دونوں کی کشیدگی میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے۔ بہرحال یہ عالمی سیاست میں اہم پیش رفت ہے۔چین اس خطے میں اختلافات کو کم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

جاپان اور جنوبی کوریا کے سربراہان کی ملاقات اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔مستقبل میں شمالی کوریا اور جنوبی کوریا بھی آگے بڑھیں گے ، یوں چین، جاپان، دونوں کوریااور ویتنام ایک اقتصادی زون کی شکل اختیار کرسکتے ہیں جو امریکا اورمغربی یورپی ممالک کے بڑا کاروباری چیلنج ہوسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں