ٹیکسٹائل میٹریلز کے مقابلے میں پاکستانی طالبات کی فتح

کراچی کی 3 ڈیزائنرزنے گرم مصالحے،پھولوں سے کشیدرنگوں،چٹائی اورری سائیکل پلاسٹک کے ریشے سے جدیداوردلکش ڈیزائن بنائے


Kashif Hussain December 30, 2019
حباثاقب نے گرم مصالحہ جات کودھاگوں میں پروکرکپڑے کادلکش ڈیزائن تیارکیاجسے مقابلے کے3تخلیقی آئیڈیازمیں شامل کرلیا گیا

ٹیکسٹائل مصنوعات میں جدید رجحانات اور مستقبل کے تقاضوں پر پورا اترنے والے میٹریلز کے عالمی مقابلے میں پاکستان کی باصلاحیت طالبات نے فتح حاصل کرلی۔

کراچی سے تعلق رکھنے والی 3 نوجوان ڈیزائنرز نے گھریلواستعمال کے گرم مصالحہ جات، استعمال شدہ پھولوں سے کشید کردہ رنگوں ، چٹائی اور ری سائیکل پلاسٹک کے ریشے سے جدید اور دلکش ڈیزائن تیار کرکے دنیا پر ثابت کردیا کہ پاکستانی نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتیں کسی طور بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے طلبہ سے کم نہیں ہیں اور وہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے بدلتے ہوئے رجحانات سے آگہی رکھنے کے ساتھ ٹیکسٹائل مصنوعات کے ماحول پر پڑنے والے اثرات سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔

ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مستقبل قریب کے رجحانات کی عکاسی کے لیے ''نیو اینڈ نیکسٹ'' کے عنوان سے یونیورسٹی مقابلوں کا انعقاد کیا گیا جن میں دنیا بھر سے 18 ڈیزائننگ انسٹی ٹیوٹ اور یونیورسٹیوں نے حصہ لیا اور کم و بیش 50 تخلیقی آئیڈیاز پیش کیے یہ مقابلہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی سب سے اہم بین القوامی تجارتی نمائش ہیم ٹیکسٹائل کے 50 سال مکمل ہونے پر آئندہ سال 7 سے 10 جنوری کو ہونے والی نمائش کے سلسلے میں منعقد کیے گئے جس کا مقصد ٹیکسٹائل انڈسٹری کے نئے رجحانات کا احاطہ کرنا ہے۔

پاکستان کے معروف آرٹ انسٹی ٹیوٹ انڈس ویلی اسکول آف آرٹس اینڈ آرکیٹیکٹ پاکستان میں ٹیکسٹائل ڈیزائننگ کی تعلیم حاصل کرنے والی فائنل ایئر کی 3 طالبات نے بھی اس عالمی مقابلے میں حصہ لیا، حبا ثاقب نے گھریلو گرم مصالحہ جات کو دھاگوں میں پروکر کپڑے کا دلکش ڈیزائن تیار کیا جسے اس مقابلے کے سرفہرست 3 تخلیقی آئیڈیاز میں شامل کرلیا گیا، یہ پاکستان کے لیے پہلا موقع ہے کہ کسی ٹیکسٹائل ڈیزائن کے عالمی پلیٹ فارم کے لیے ہونے والے مقابلوں میں اول 3 تخلیقات میں شامل کیا گیا اس مقابلے کے دیگر کامیاب ڈیزائنرز کا تعلق برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ سے ہے۔

پاکستان سمیت دیگر تینوں یونیورسٹیوں کا انتخاب ماہرین پر مشتمل 5 رکنی جیوری نے کیا، جیوری کے اراکین کا کہنا تھاکہ برطانیہ، سوئٹزرلینڈ اور پاکستان کے طلبہ کی پیش کردہ تخلیقات نہ صرف جدت کے لحاظ سے متاثر کن ہیں بلکہ ان میں روایتی ہنرمندی اور قدرتی اجزا کا بہترین امتزاج بھی پایا جاتا ہے۔

انڈس یونیورسٹی کی ہی دیگر دو طالبات انسیا عامر اور ام صفہ کے تخلیقی آئیڈیاز کو بھی اس بین الاقوامی مقابلے میں سراہا گیا پاکستانی طالبات کے اچھوتے تخلیقی آئیڈیاز 7 سے 10 جنوری تک فرینکفرٹ میں ہونے والی 50 ویں ہیم ٹیکسٹائل نمائش کے ہال نمبر 3 میں نمائش کے لیے پیش کیے جائیں گے، پاکستانی طالبات کے پیش کردہ تخلیقی آئیڈیاز اس سال ہونے والی نمائش کے موقع پر طلبہ کے پیش کردہ تخلیقی آّئیڈیاز کا حصہ ہوں گے۔

3فاتحین میں پاکستان کانام شامل کرنے پرطالبات پرفخرہے ، عمرانہ شہریار
انڈس ویلی اسکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹیکٹ کے ڈپارٹمنٹ آف ٹیکسٹائل ڈیزائنگ کی سربراہ ایسوسی ایٹ پروفیسر عمرانہ شہریار نے اس کامیابی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے اہم ترین بین القوامی پلیٹ فارم کے تحت ہونے والے مقابلوں میں انڈس ویلی اسکول کی طالبات کی پذیرائی اور دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کا مقابلہ کرتے ہوئے سرفہرست 3 فاتحین میں پاکستان کا نام شامل کرنے پر انھیں اپنی طالبات پر فخر ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ طالبات نہ صرف انڈس ویلی بلکہ پاکستان کے لیے بھی قابل فخر ہیں کیونکہ انہوں نے ابھی اپنی تعلیم مکمل بھی نہیں کی اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی، عمرانہ شہریار نے کہا کہ انڈس ویلی اسکول آف آرٹ نے اپنے فائنل ایئر کی تین طالبات کی تخلیقات اور ان کے پورٹ فولیو مقابلے کے لیے بھیجے تھے جو ہیم ٹیکسٹائل نمائش کی اس سال کی تھیم سے مطابقت رکھتے ہیں اور یہ تینوں تخلیقی آئیڈیاز منتخب کرلیے گئے ان میں سے ایک آئیڈیا سرفہرست 3 پراجیکٹس میں شامل کیا گیا انھوں نے کہا کہ یہ پاکستان کے لیے بھی ایک تاریخی موقع ہے جب اس کے ہونہار نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو بین القوامی سطح پر پذیرائی ملی ہے اور انڈس ویلی کے حصے میں یہ اعزاز آنے پر ہم بھی بے حد خوش ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی طالبات کی تخلیقات کی کامیابی اور ہیم ٹیکسٹائل کے پلیٹ فارم سے دنیا کی انڈسٹری کے سامنے پاکستانی نوجوانوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے نمائندگی انڈس ویلی کے لیے ایک بڑی قومی ذمے داری ہے، انھوں نے کہا کہ عالمی مقابلے میں شریک اور کامیاب ہونے والی تینوں طالبات نے 14 دسمبر کو گریجویشن مکمل کیا ہے اور گریجویشن مکمل ہونے کے چند روز بعد ہی بین القوامی پلیٹ فارم پر پاکستان کی نمائندگی ان کے لیے بطور استاد بھی بہت خوشی کی بات ہے۔

عمرانہ نے کہا کہ بین القوامی مقابلے میں کامیابی اور ٹیکسٹائل کے سب سے بڑے عالمی میلے کے لیے انتخاب اس بات کا اعتراف ہے کہ پاکستان کے نوجوان ڈیزائنر تیزی سے بدلتے ہوئے فیشن اور رجحانات سے بھرپور واقفیت رکھتے ہیں اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے بڑھتے ہوئے ماحولیاتی چیلنجز کو بھی اپنی تخلیقی سوچ سے حل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں انھوں نے کہا کہ نمائش میں شرکت سے پاکستانی طالبات کو بین القوامی تجربہ ہوگا اور وہ پاکستان کی ٹیکسٹائل فرمز کے لیے ان کی خریدار منڈیوں کے تقاضوں کے مطابق مصنوعات ڈیزائن کرسکیں گے جس سے پاکستان کی معیشت کو فائدہ ہوگا۔

ایکوپرنٹنگ یہاں نہیں ہوتی،معلومات جمع کرکے پھولوں سے رنگ کشید کیا،ام صفہ
ام صفہ کا خیال بھی بہت منفرد اور تخلیقی ہے ام صفہ کا کہنا ہے کہ شادی ہالز کے باہر رکھے ہوئے کچرے دانوں میں پھولوں کے بڑے بڑے ڈھیر دیکھ کر خیال آیا کہ اس قدرتی فضلے کو کس طرح بہترین طریقے سے بروئے کار لایا جاسکتا ہے، اس خیال کو ایکو پرنٹنگ کے طریقے نے تقویت فراہم کی، ایکو پرنٹنگ پاکستان میں نہیں کی جاتی اس لیے تحقیق میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم سوشل میڈیا کے ذریعے زیادہ سے زیادہ معلومات جمع کرتی رہی اور پھر پھولوں سے رنگ کشید کرکے اپنی ترکیبیں بنائیں۔

میری تھیم کا مقصد روایتی دستکاریوں کوزندہ رکھنا ہے،انسیا
ٹیکسٹائل ڈیزائن یونیورسٹیوں کے عالمی مقابلے میں منتخب ہونے والے دوسرے پراجیکٹ کی خالق انسیاعامر نے کھجور کے سوکھے پتوں سے بننے والی عام چٹائی کا انتخاب کیا، انسیا کے مطابق چٹائی ایک ایسا کرافٹ ہے جو روز مرہ استعمال ہوتی ہے اور بہت آّسانی سے دستیاب ہے میں نے سوچا کہ عام دستیاب میٹریل سے کیوں نہ ایسی اشیا تیار کی جائیں جو ہر عمر کے افراد بالخصوص نوجوان بھی استعمال کرسکیں اس خیال کو لے کر ری سائیکل پلاسٹک کو بطور دھاگا استعمال کیا،آغاز جدید لومز سے کیا لیکن مطلوبہ نتائج نہ ملنے پر ہاتھ سے کپڑا بننے والی کھڈی کا استعمال کیا اور چٹائی کے ساتھ ری سائیکل پلاسٹک کے امتزاج سے ایسا میٹریل تیار کیا جس سے عام استعمال کی اشیا بنائی جاسکتی ہیں۔

جن میں ٹیبل میٹ، بیچ میٹ، ہوم ٹیکسٹائل مصنوعات، بیگز اور دیگر اشیا شامل ہیں، انسیا کا کہنا تھا کہ میری تھیم کا ایک مقصد روایتی دستکاریوں کو زندہ رکھنا ہے ساتھ ہی پلاسٹک ری سائیکلنگ کے استعمال سے ماحول میں پھیلی آلودگی کو کم کرنا ہے میرے آئیڈے سے ایک جانب ماحول کو فائدہ ہوگا وہیں ان افراد کا معدوم ہوتا روزگار بھی بحال ہوگا جو چٹائی اور اس کی مصنوعات تیار کرتے ہیں اور پاکستانی برانڈز اس کی ہوم ٹیسکٹائل مصنوعات تیار کرسکتے ہیں۔

پروجیکٹس کی عالمی پذیرائی پربہت خوش ہیں، طالبات

پاکستان کیلیے اعزاز حاصل کرنے والی طالبات نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے ہبا ثاقب، انسیا عامر اور ام صفہ امین کا کہنا تھا کہ نو آموز ٹیکسٹائل ڈیزائنر جو ابھی گریجویشن کررہے ہیں اپنے پراجیکٹس کی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی سے بڑھ کر کوئی خوشی کی بات نہیں ہوسکتی۔

ٹیکسٹائل ڈیزائننگ کے عالمی مقابلے میں پاکستان کا نام سرفہرست ملکوں میں شامل کرنے کا اعزاز ملنا بھی بہت فخر کی بات ہے ہم سب ہیم ٹیکسٹائل کے ذریعے اپنی تخلیقات دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے بہت زیادہ پرجوش ہیں اور روانگی کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔

عالمی مقابلے میں تین سرفہرست آئیڈیاز میں منتخب ہونے والے ڈیزائن کی خالق ہبا ثاقب کا کہنا تھا کہ ان در اصل ایک منی تھیسس تھا جس کا آئیڈیا مجھے حالیہ بارشوں میں ملا جب میں نے کنکریٹ اسٹرکچر میں سے ایک ننھے پودے کو نکلتے دیکھا اس منظر سے مجھے احساس ہوا کہ قدرت کس طرح سخت ترین حالات میں بھی اپنا راستہ بناتی ہے میں نے کپاس کے دھاگوں اور مصنوعی ریشوں کو ملاکر میڈیم تیار کرنے کی کوشش کی بعد میں اس تجربہ کو الٹا کرکے مچھلی کی ڈور کا استعمال کیا ڈیزائن آرکیٹکٹ کے لیے قدرتی مصالحہ جات کا استعمال کیا۔

جن میں ملیٹھی، دارچینی، الائچی اور لونگ شامل ہیں جو روز مرہ استعمال کی اشیا ہیں، بہت ساری کوششوں اور تجربات کے بعد لونگ کا انتخاب کیا اور پہلے پہل بنیادی آرکیٹکٹ کے اصولوں پر میٹریل ڈیزائن کیا بعد میں لونگ کو بے ترتیب بکھیر کر بننے والی اشکال کی ترکیب پر آرگینک تصور کو آگے بڑھایا جسے عالمی سطح پر پذیرائی ملی، ہبا نے کہا کہ میرے لیے اس عالمی نمائش میں شرکت ایک اعزاز کی بات ہے کیونکہ اول تو پاکستان کے لیے پہلا موقع ہے کہ اس کی طالبات کے پراجیکٹس عالمی مقابلوں کے لیے منتخب کیے گئے اور ابھی ہماری گریجویشن بھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ ہمیں یہ موقع مل گیا۔

پروجیکٹس کو مقامی برانڈز کیجانب سے بھی پذیرائی مل رہی ہے
شروع میں ہر طرح کے میڈیم پر کام کیا جن میں کاٹن، لینن، لیدر اور سلک شامل ہیں اور پھر نتائج دیکھتے ہوئے کاٹن اور لیدر کا انتخاب کیا جن پر قدرتی رنگوں سے ڈیزائن بنائے، یہ بات امہ صفہ نے گفتگو میں بتائی انھوں نے کہا کہ یہ ایک ماحول دوست طریقہ ہے۔

جس کا خام میٹریل مقامی سطح پر دستیاب ہے اور اس سے بنائے گئے ڈیزائن بہت منفرد ہیں کیونکہ ایک ہی رنگ سے مختلف دورانیے میں الگ الگ شیڈز حاصل کیے جاسکتے ہیں سلک پر اس کے نتائج بہت دیدہ زیب ہیں جبکہ لیدر پر بنے ڈیزائن بھی دیکھنے کے قابل ہیں اس پراجیکٹس کو مقامی برانڈز کی جانب سے بھی پذیرائی مل رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں