عوامی حکومت یا ہماری حکومت
قبر میں سخت ترین مرحلہ حکمران طبقے کےلیے ہے، جنہیں رب نے اپنی زمین پر حکمرانی بخشی
ISLAMABAD:
کئی سال بعد ایک دوست سے اچانک سے ملاقات ہوئی، جسے میں کبھی بھلا نہیں سکتا۔ چہرے پر جھریاں، بالوں میں چاندی اور پھٹے پرانے کپڑے پہنے وہ گلی گلی پھیری لگا کر سبزی فروخت کررہا تھا۔ سبزی والے کی آواز سن کر میں گھر سے یہ سوچ کر باہر نکلا کہ اب مارکیٹ کون جائے، اچھا ہوا سبزی والا گلی میں ہی آگیا۔ جیسے ہی دروازہ کھول کر سامنے کھڑے سبزی والے پر نظر پڑی تو چہرہ شناسا سا لگا۔ وہ ایک سرسری سی نظر مجھ پر ڈال کر اپنے ٹھیلے پر رکھی سبزیوں کو سیٹ کرنے لگا اور ساتھ ہی آواز بھی لگاتا جارہا تھا۔ میں نے اپنی مطلوبہ سبزی لی اور بار بار اس کی طرف دیکھے جارہا تھا۔ جب مجھ سے رہا نہ گیا تو میں نے اس سے پوچھ ہی لیا ''بھائی آپ کا نام ضمیر تو نہیں؟''
میرے یہ الفاظ اس کےلیے ایٹم بم سے کم نہ تھے۔ جب اس نے مجھے بغور دیکھا تو قریب آیا اور کہنے لگا ''آپ ظفر صاحب تو نہیں؟'' میں نے جواب دیا کہ ظفر صاحب نہیں صرف ظفرہوں۔ اور اس کے بعد ہم دونوں ایک دوسرے سے بغل گیر ہوگئے۔
میرے اس دوست کے حالات کیوں خراب ہوئے، اس کا جواب تو ہمارے حکمرانوں کو دینا چاہیے لیکن ضمیر اسے اپنا کیا مانتا ہے۔ بقول اس کے آج سے 8،10 سال قبل اس کا کام بہت اچھا چل رہا تھا۔ پھر جیسے جیسے مہنگائی بڑھتی گئی کاروبار کم ہوتا گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ کارخانے میں کاریگروں کی تنخواہ تک نکالنا مشکل ہوگیا۔ جس کے بعد بالآخر اسے اپنا کارخانہ بند کرنا پڑا۔ کاروبار ختم ہونے کے بعد اس نے ایک برگر ٹھیلا لگا کر اپنے گھر کی گاڑی کو گھسیٹنا شروع کردیا۔ لیکن پھر عوامی حکومت سے یہ بھی برداشت نہیں ہوا۔ اس لیے انکروچمنٹ کے نام پر اس کا ٹھیلا اٹھانے کی دھمکی دے کر اس سے ہفتہ(بھتہ) بڑھانے کا مطالبہ کیا گیا اور اس غریب نے اپنے بچوں کا حق حلال کا رزق سرکاری ملازمین کو، جو ہمارے ہی ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہیں وصول کرتے ہیں، دینا شروع کردیا۔
یہ سلسلہ یہیں تک محدود نہ رہا، بلکہ ہر روز کوئی افسر آتا اور پیسے لے کر چلتا بنتا۔ جس کے بعد ضمیر کےلیے گھر کی دال روٹی بھی مشکل ہوگئی تھی۔ لیکن اس نے پھر بھی ہمت سے کام لیا اور جہاں وہ اپنے بچوں کا رزق مشکل سے پورا کررہا تھا، وہیں وہ روزانہ سرکاری ملازمین کے دوزخ کو بھی بھررہا تھا۔ پھر ایک دن اچانک اس سے ہفتے کے پانچ ہزار روپے کا تقاضا کیا گیا اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی کہ اگر اتنے پیسے دے سکتے ہو تو ٹھیک ہے، ورنہ کل سے تمہارا ٹھیلا یہاں نظر نہیں آنا چاہیے۔ صاحب بہت بگڑا ہوا ہے کہتا ہے پیسے بڑھاؤ یا ٹھیلا ہٹواؤ۔ اب تمہاری مرضی ہے۔
ضمیر کی آنکھیں نم ہوچکی تھیں۔ اس کے دل سے ان لوگوں کےلیے دعا تو نکل ہی نہیں سکتی۔ ضرور آسماں کی طرف دیکھ کر اپنے رب سے ہی اپنے حالات کا تذکرہ کررہا ہوگا اور زمینی خداؤں کی شکایت بھی۔ ضمیر کے مطابق اس کے تین بچے ہیں۔ ایک بیٹی جو 10سال کی ہے وہ پیرالائز ہے۔ نہ وہ خود سے کھا سکتی ہے اور نہ ہی بول اور سن سکتی ہے۔ اس کا روز کا خرچہ ہی کم از کم 500 سے 800 روپے ہے۔ اس کے بعد ایک بیٹا ہے جو ابھی اسکول جانا شروع ہوا ہے۔ جب کہ ایک بیٹی سال بھر کی ہے۔ ایک کمرے کے مکان میں رہائش پذیر ضمیر اس کا کرایہ ہی 8000 روپے دے رہا ہے۔ اس کے بعد 4000 روپے تک بجلی اور گیس کے بل بھرتا ہے۔ ایسے میں ہفتے کے 5 ہزار روپے محض حرام کی نذر کرنا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ لہٰذا اس نے ہفتے کے 5 ہزار روپے دینے سے انکار کردیا۔
ضمیر کے انکار کرتے ہی ان بے ضمیر سرکاری ملازمین نے، جو عرصے تک اس سے بھتہ وصول کرتے رہے تھے، جن کے اندر کا انسان کب کا مرچکا تھا، اسی وقت وہ ضمیر کا ٹھیلا اٹھا کر یہ کہہ کر لے گئے کہ 10ہزار روپے دو گے تو یہ ٹھیلا ملے گا، ورنہ بھول جاؤ۔
میرے دوست نے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا تھا۔ مگر اس کے بچوں کی بھوک نے اسے مجبور کردیا تھا کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔ مکان کا کرایہ، یوٹیلٹی بلز، اسکول کی فیس، بیٹی کی بیماری اور اس کے علاج کےلیے درکار فیس و ادویات کے خرچ نے اس کی کمر توڑ دی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ایک 36 سال کا بندہ 80 سال کا لگ رہا تھا۔ لوگوں سے ادھار لے کر ضمیر نے پھر سے خود کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی تو ہماری حکومت کے عوامی نمائندوں کو یہ بات بھی ناگوار گزری اور جہاں وہ کھڑا ہوتا وہاں آکر اس سے پیسے وصول کیے جاتے۔ کبھی کوئی آتا سو روپے لے جاتا تو کبھی کوئی افسر بن کر آتا تو دو سو روپے لے جاتا۔ اس بھتہ خوری سے تنگ آکر اس نے گلی گلی پھیرا لگانے کا ارادہ کیا۔ لیکن بقول ضمیر یہاں بھی اسے عوامی لٹیروں کو کچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے۔ پورا دن سخت محنت مزدوری کرکے جب گھر جاتا ہوں تو بچت کے طور پر میرے ہاتھ میں کبھی سو روپے اور کبھی دو سو روپے ہوتے ہیں۔ جس سے صرف گھر میں دال بڑی مشکل سے بن پاتی ہے۔
اپنے محلات میں بیٹھ کر ہماری حکومت کے عوامی نمائندے صرف اپنی سیاست کو دوام بخشنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتے۔ الٹا عوام کے سامنے ان کا یہ کہہ کر مذاق اڑاتے ہیں کہ ٹماٹر 17 روپے کلو ہیں۔ یہ مٹھی بھر لوگ بائیس کروڑ عوام کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں، ان کےلیے پالیسیاں بناتے ہیں۔ جس میں آٹا، گھی، چینی، دالوں پر ٹیکس بڑھا کر کہتے ہیں ہم ہی آپ کے خدمت گار ہیں، ہم ہی جمہوری لوگ ہیں جو جمہور کا خیال رکھتے ہیں۔
ہماری حکومت کے عوامی نمائندے اپنے ذاتی مفادات کےلیے راتوں رات ہنگامی اجلاس طلب کرکے فیصلے صادر فرما دیتے ہیں۔ یہی عوامی نمائندے اسمبلی میں بیٹھ کر اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ یہی جمہوریت پسند لوگ سڑکوں پر نکل کر کبھی اِس ادارے کو گالیاں دیتے ہیں تو کبھی اُس ادارے کو گالیاں دیتے ہیں۔ یہ سب دکھلاوا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سب ایک ہی حمام میں ننگے ہوکر ہمیں حق حلال کا سبق پڑھاتے ہیں۔ ہمارے نام پر عیاشیاں کرنے والے ہمارے ہی گھر کے چراغ گل کرنے میں مصروف ہیں۔ ہم پر ٹیکس لگا کر اور ہمارے سر سے چھت چھین کر اپنے محلات بنانے اور کاروبار کو عروج پر پہنچانے والے ہمیں کہتے ہیں کہ ملک سے غربت ختم کریں گے۔
ضمیر جیسے لوگ ہر گلی اور چوراہے پر کھڑے نظر آتے ہیں، جن کےلیے ملک میں کوئی پالیسی نہیں بنائی جاتی۔ ان جیسوں کےلیے نہ کبھی کوئی قرض اسکیم لائی گئی اور نہ ہی انہیں کوئی آشیانہ فراہم کیا گیا۔ بلکہ ضمیر جیسے لوگوں کو صرف سیاسی جلسے جلوسوں کےلیے رکھا جاتا ہے۔ جنہیں ہمیشہ یہ آسرا دیا جاتا ہے کہ اقتدار میں آکر ہم آپ کو نوکری دیں گے، آپ کو گھر دیں گے، آپ کو قرض دیں گے۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ لوگ صرف اپنے محلات بنانے میں مصروف ہوجاتے ہیں اور ضمیر جیسے افراد پھر سے سڑکوں کی خاک چھانتے ہوئے اپنے گھر کا چولہا جلانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ کئی ضمیر وقت اور حالات کے ہاتھوں اس قدر ٹوٹ جاتے ہیں کہ انہیں سمیٹنا بہت مشکل ہوجاتا ہے ، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ خود کو دنیا پر بوجھ سمجھ کر ہمیشہ کےلیے ابدی نیند سوجاتے ہیں۔ کچھ ضمیر اپنے جیسوں کو لوٹنے میں مصروف ہوکر مفادپرست قانون کے ہاتھوں جیل چلے جاتے ہیں اور کچھ ضمیر کسی گولی کا شکار ہوکر دنیا چھوڑ دیتے ہیں۔
میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے، جسے پڑتی ہے وہ آواز تک نہیں نکال پاتا۔ کہیں پڑھا ہے کہ قبر میں سخت ترین مرحلہ حکمران طبقے کےلیے ہے، جنہیں رب نے اپنی زمین پر حکمرانی بخشی۔ تاہم خداترس اور خوف خدا رکھنے والے لوگ اس مرحلے کو باآسانی طے کرلیتے ہیں۔ لیکن کچھ ہمارے حکمرانوں کی طرح کے لوگ ہوتے ہیں جو ہمیشہ ایک تنکے کے جواب میں ہی پھنسے رہتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کئی سال بعد ایک دوست سے اچانک سے ملاقات ہوئی، جسے میں کبھی بھلا نہیں سکتا۔ چہرے پر جھریاں، بالوں میں چاندی اور پھٹے پرانے کپڑے پہنے وہ گلی گلی پھیری لگا کر سبزی فروخت کررہا تھا۔ سبزی والے کی آواز سن کر میں گھر سے یہ سوچ کر باہر نکلا کہ اب مارکیٹ کون جائے، اچھا ہوا سبزی والا گلی میں ہی آگیا۔ جیسے ہی دروازہ کھول کر سامنے کھڑے سبزی والے پر نظر پڑی تو چہرہ شناسا سا لگا۔ وہ ایک سرسری سی نظر مجھ پر ڈال کر اپنے ٹھیلے پر رکھی سبزیوں کو سیٹ کرنے لگا اور ساتھ ہی آواز بھی لگاتا جارہا تھا۔ میں نے اپنی مطلوبہ سبزی لی اور بار بار اس کی طرف دیکھے جارہا تھا۔ جب مجھ سے رہا نہ گیا تو میں نے اس سے پوچھ ہی لیا ''بھائی آپ کا نام ضمیر تو نہیں؟''
میرے یہ الفاظ اس کےلیے ایٹم بم سے کم نہ تھے۔ جب اس نے مجھے بغور دیکھا تو قریب آیا اور کہنے لگا ''آپ ظفر صاحب تو نہیں؟'' میں نے جواب دیا کہ ظفر صاحب نہیں صرف ظفرہوں۔ اور اس کے بعد ہم دونوں ایک دوسرے سے بغل گیر ہوگئے۔
میرے اس دوست کے حالات کیوں خراب ہوئے، اس کا جواب تو ہمارے حکمرانوں کو دینا چاہیے لیکن ضمیر اسے اپنا کیا مانتا ہے۔ بقول اس کے آج سے 8،10 سال قبل اس کا کام بہت اچھا چل رہا تھا۔ پھر جیسے جیسے مہنگائی بڑھتی گئی کاروبار کم ہوتا گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ کارخانے میں کاریگروں کی تنخواہ تک نکالنا مشکل ہوگیا۔ جس کے بعد بالآخر اسے اپنا کارخانہ بند کرنا پڑا۔ کاروبار ختم ہونے کے بعد اس نے ایک برگر ٹھیلا لگا کر اپنے گھر کی گاڑی کو گھسیٹنا شروع کردیا۔ لیکن پھر عوامی حکومت سے یہ بھی برداشت نہیں ہوا۔ اس لیے انکروچمنٹ کے نام پر اس کا ٹھیلا اٹھانے کی دھمکی دے کر اس سے ہفتہ(بھتہ) بڑھانے کا مطالبہ کیا گیا اور اس غریب نے اپنے بچوں کا حق حلال کا رزق سرکاری ملازمین کو، جو ہمارے ہی ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہیں وصول کرتے ہیں، دینا شروع کردیا۔
یہ سلسلہ یہیں تک محدود نہ رہا، بلکہ ہر روز کوئی افسر آتا اور پیسے لے کر چلتا بنتا۔ جس کے بعد ضمیر کےلیے گھر کی دال روٹی بھی مشکل ہوگئی تھی۔ لیکن اس نے پھر بھی ہمت سے کام لیا اور جہاں وہ اپنے بچوں کا رزق مشکل سے پورا کررہا تھا، وہیں وہ روزانہ سرکاری ملازمین کے دوزخ کو بھی بھررہا تھا۔ پھر ایک دن اچانک اس سے ہفتے کے پانچ ہزار روپے کا تقاضا کیا گیا اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی کہ اگر اتنے پیسے دے سکتے ہو تو ٹھیک ہے، ورنہ کل سے تمہارا ٹھیلا یہاں نظر نہیں آنا چاہیے۔ صاحب بہت بگڑا ہوا ہے کہتا ہے پیسے بڑھاؤ یا ٹھیلا ہٹواؤ۔ اب تمہاری مرضی ہے۔
ضمیر کی آنکھیں نم ہوچکی تھیں۔ اس کے دل سے ان لوگوں کےلیے دعا تو نکل ہی نہیں سکتی۔ ضرور آسماں کی طرف دیکھ کر اپنے رب سے ہی اپنے حالات کا تذکرہ کررہا ہوگا اور زمینی خداؤں کی شکایت بھی۔ ضمیر کے مطابق اس کے تین بچے ہیں۔ ایک بیٹی جو 10سال کی ہے وہ پیرالائز ہے۔ نہ وہ خود سے کھا سکتی ہے اور نہ ہی بول اور سن سکتی ہے۔ اس کا روز کا خرچہ ہی کم از کم 500 سے 800 روپے ہے۔ اس کے بعد ایک بیٹا ہے جو ابھی اسکول جانا شروع ہوا ہے۔ جب کہ ایک بیٹی سال بھر کی ہے۔ ایک کمرے کے مکان میں رہائش پذیر ضمیر اس کا کرایہ ہی 8000 روپے دے رہا ہے۔ اس کے بعد 4000 روپے تک بجلی اور گیس کے بل بھرتا ہے۔ ایسے میں ہفتے کے 5 ہزار روپے محض حرام کی نذر کرنا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ لہٰذا اس نے ہفتے کے 5 ہزار روپے دینے سے انکار کردیا۔
ضمیر کے انکار کرتے ہی ان بے ضمیر سرکاری ملازمین نے، جو عرصے تک اس سے بھتہ وصول کرتے رہے تھے، جن کے اندر کا انسان کب کا مرچکا تھا، اسی وقت وہ ضمیر کا ٹھیلا اٹھا کر یہ کہہ کر لے گئے کہ 10ہزار روپے دو گے تو یہ ٹھیلا ملے گا، ورنہ بھول جاؤ۔
میرے دوست نے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا تھا۔ مگر اس کے بچوں کی بھوک نے اسے مجبور کردیا تھا کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔ مکان کا کرایہ، یوٹیلٹی بلز، اسکول کی فیس، بیٹی کی بیماری اور اس کے علاج کےلیے درکار فیس و ادویات کے خرچ نے اس کی کمر توڑ دی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ایک 36 سال کا بندہ 80 سال کا لگ رہا تھا۔ لوگوں سے ادھار لے کر ضمیر نے پھر سے خود کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی تو ہماری حکومت کے عوامی نمائندوں کو یہ بات بھی ناگوار گزری اور جہاں وہ کھڑا ہوتا وہاں آکر اس سے پیسے وصول کیے جاتے۔ کبھی کوئی آتا سو روپے لے جاتا تو کبھی کوئی افسر بن کر آتا تو دو سو روپے لے جاتا۔ اس بھتہ خوری سے تنگ آکر اس نے گلی گلی پھیرا لگانے کا ارادہ کیا۔ لیکن بقول ضمیر یہاں بھی اسے عوامی لٹیروں کو کچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے۔ پورا دن سخت محنت مزدوری کرکے جب گھر جاتا ہوں تو بچت کے طور پر میرے ہاتھ میں کبھی سو روپے اور کبھی دو سو روپے ہوتے ہیں۔ جس سے صرف گھر میں دال بڑی مشکل سے بن پاتی ہے۔
اپنے محلات میں بیٹھ کر ہماری حکومت کے عوامی نمائندے صرف اپنی سیاست کو دوام بخشنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتے۔ الٹا عوام کے سامنے ان کا یہ کہہ کر مذاق اڑاتے ہیں کہ ٹماٹر 17 روپے کلو ہیں۔ یہ مٹھی بھر لوگ بائیس کروڑ عوام کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں، ان کےلیے پالیسیاں بناتے ہیں۔ جس میں آٹا، گھی، چینی، دالوں پر ٹیکس بڑھا کر کہتے ہیں ہم ہی آپ کے خدمت گار ہیں، ہم ہی جمہوری لوگ ہیں جو جمہور کا خیال رکھتے ہیں۔
ہماری حکومت کے عوامی نمائندے اپنے ذاتی مفادات کےلیے راتوں رات ہنگامی اجلاس طلب کرکے فیصلے صادر فرما دیتے ہیں۔ یہی عوامی نمائندے اسمبلی میں بیٹھ کر اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ یہی جمہوریت پسند لوگ سڑکوں پر نکل کر کبھی اِس ادارے کو گالیاں دیتے ہیں تو کبھی اُس ادارے کو گالیاں دیتے ہیں۔ یہ سب دکھلاوا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سب ایک ہی حمام میں ننگے ہوکر ہمیں حق حلال کا سبق پڑھاتے ہیں۔ ہمارے نام پر عیاشیاں کرنے والے ہمارے ہی گھر کے چراغ گل کرنے میں مصروف ہیں۔ ہم پر ٹیکس لگا کر اور ہمارے سر سے چھت چھین کر اپنے محلات بنانے اور کاروبار کو عروج پر پہنچانے والے ہمیں کہتے ہیں کہ ملک سے غربت ختم کریں گے۔
ضمیر جیسے لوگ ہر گلی اور چوراہے پر کھڑے نظر آتے ہیں، جن کےلیے ملک میں کوئی پالیسی نہیں بنائی جاتی۔ ان جیسوں کےلیے نہ کبھی کوئی قرض اسکیم لائی گئی اور نہ ہی انہیں کوئی آشیانہ فراہم کیا گیا۔ بلکہ ضمیر جیسے لوگوں کو صرف سیاسی جلسے جلوسوں کےلیے رکھا جاتا ہے۔ جنہیں ہمیشہ یہ آسرا دیا جاتا ہے کہ اقتدار میں آکر ہم آپ کو نوکری دیں گے، آپ کو گھر دیں گے، آپ کو قرض دیں گے۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ لوگ صرف اپنے محلات بنانے میں مصروف ہوجاتے ہیں اور ضمیر جیسے افراد پھر سے سڑکوں کی خاک چھانتے ہوئے اپنے گھر کا چولہا جلانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ کئی ضمیر وقت اور حالات کے ہاتھوں اس قدر ٹوٹ جاتے ہیں کہ انہیں سمیٹنا بہت مشکل ہوجاتا ہے ، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ خود کو دنیا پر بوجھ سمجھ کر ہمیشہ کےلیے ابدی نیند سوجاتے ہیں۔ کچھ ضمیر اپنے جیسوں کو لوٹنے میں مصروف ہوکر مفادپرست قانون کے ہاتھوں جیل چلے جاتے ہیں اور کچھ ضمیر کسی گولی کا شکار ہوکر دنیا چھوڑ دیتے ہیں۔
میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے، جسے پڑتی ہے وہ آواز تک نہیں نکال پاتا۔ کہیں پڑھا ہے کہ قبر میں سخت ترین مرحلہ حکمران طبقے کےلیے ہے، جنہیں رب نے اپنی زمین پر حکمرانی بخشی۔ تاہم خداترس اور خوف خدا رکھنے والے لوگ اس مرحلے کو باآسانی طے کرلیتے ہیں۔ لیکن کچھ ہمارے حکمرانوں کی طرح کے لوگ ہوتے ہیں جو ہمیشہ ایک تنکے کے جواب میں ہی پھنسے رہتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔