کنڈا راج
یہاں ہر شعبے میں کنڈا راج ہے اور مختلف نوعیتوں اور اقسام کے کنڈے بڑی مہارت سے استعمال کیے اور لگائے جاتے رہے ہیں
نہیں نہیں، میں نے غنڈہ راج نہیں لکھا بلکہ کنڈا راج لکھا ہے۔ کیونکہ دیکھا جائے تو ہم کنڈوں کے راج میں اور کنڈوں سے گھری دنیا میں رہ رہے ہیں۔ کنڈے سے مراد عام طور پر وہ بجلی کا کنکشن لیا جاتا ہے جسے لوگ اپنی سہولت کے لیے بجلی کے متعلقہ ادارے کو کسی قسم کی زحمت یا تکلیف دیئے بغیر خود ہی براہ راست بجلی کے تاروں سے لگا لیتے یا لگوا لیتے ہیں اور کبھی کبھار ان فرض شناس اور مستعد اداروں کے کارکنان بھی بالکل معمولی سے ذاتی معاوضے پر لوگوں کےلیے یہ کنڈا گردی بھی کر دیتے ہیں۔ اور بجائے اس کے کہ بجلی کے متعلقہ ادارے، جیسے کہ الیکٹرک یا واپڈا وغیرہ ایسے صارفین کے شکر گزار ہوں اور اپنے ایسے فرض شناس کارکنوں کی مدح سرائی کریں کہ انہوں نے خوامخواہ کی دردسری سے ادارے کو بچایا اور سارے ستم اپنی جان ناتواں پر جھیل لیے، الٹا ان پر ناراض ہوتے ہیں اور انہیں بجلی چور کہتے ہیں۔ کتنی بری بات ہے یہ۔
بھئی صرف ان بجلی کے کنڈا صارفین کو کیا دوش دینا کہ ہم تو رہ ہی کنڈا راج میں رہے ہیں اور ہر طرف کنڈے ہی کنڈے لگے ہوئے ہیں اور 'جوبن پہ ہے بہار' والا معاملہ ہے۔ بس ذرا یہ کنڈے کئی طرح کے اور کئی انداز کے ہوتے ہیں۔ دیکھئے ناں! کہیں اپنے فائدے کےلیے لوگ رشوت، کک بیکس اور کمیشن کا کنڈا لگاتے ہیں اور یہ ایسا کنڈہ ہے جس پر لگے ہوئے چارے پر مچھلی ہمیشہ پھنستی ہے، چاہے چھوٹی مچھلی ہو یا بڑی مچھلی۔ اور حیرت انگیز طور پر دونوں فریق فائدے میں رہتے ہیں۔ یعنی لینے والا بھی خوش نظر آتا ہے اور دینے والا بھی مطمئن۔ اور دونوں کا کام بخوبی بن جاتا ہے۔
یہ کنڈا ہر سطح پر، ہر معاملے میں اور ہر محکمے، ادارے اور مقام پر لگایا جاتا ہے اور رکے ہوئے کام کے گھپ اندھیرے اس کے لگاتے ہی فوراً چھٹ جاتے ہیں اور سارا سماں جگمگا اٹھتا ہے۔ یہ کنڈا بین الاقوامی سطح تک بھی لمبے تاروں یا کنکشنز کی مدد سے خوب استعمال ہوتا ہے اور بیرون ملک جائیدادیں بنانے میں یہ کافی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اب بجلی کی کمپنیز جیسے بجلی کے کنڈا کاروں کو برا بھلا کہتی رہتی ہیں، اسی طرح اس کنڈے کو بھی کئی سرکاری اور نیم سرکاری ادارے برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ حالانکہ خلق خدا کہتی ہے کہ جیسے بجلی کے کنڈے لگانے میں بعض اوقات متعلقہ ادارے کے عوامی خدمت کے جذبات سے سرشار ملازمین بھی ممد و معاون ہوتے ہیں، بالکل ایسے ہی سب سے زیادہ یہ رشوت، کک بیکس اور کمیشن کے کنڈے ان ہی روک تھام کرنے والے اداروں میں لگے اور لگائے جاتے ہیں۔
پھر سفارش کا کنڈا ہے اور اس کی کیا بات ہے صاحب کہ یہ تو یہاں ہوا، پانی اور بجلی اور غذا جیسی ضروریات کے استعمال کے بعد سب سے زیادہ استعمال ہونے والا کنڈا ہے۔ اور جسے دیکھو وہ یہ کنڈا لگوانے اور لگانے کو بیتاب نظر آتا ہے۔ کیونکہ اس کی کہیں کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جاتی، بلکہ اس کے استعمال کو اچھا سمجھا جاتا ہے اور یہ کنڈا لگوانے والا اسے لگانے والا کا ہمیشہ ممنون و شکر گزار رہتا ہے۔ چاہے اس کے نتیجے میں کسی حقدار اور مستحق کی کتنی بھی حق تلفی ہی کیوں نہ ہوجائے اور میرٹ کا کتنا بھی قتل عام کیوں نہ ہوجائے۔ اور لگانے والا بھی سمجھتا ہے کہ اس نے اپنے مقام اور حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے یہ جو سفارش کا کنڈا لگایا ہے، تو اپنے تئیں اپنے کسی رشتے دار، دوست، کولیگ، سینئر یا کسی ایسے ہی شخص کا حق ادا کیا ہے، جس نے کبھی ان کےلیے کوئی ایسا ہی کنڈا لگایا تھا۔ بس یہ بھول جاتا ہے کہ یہ بھی ہوسکتا ہے اس کی اس سفارشی کنڈا گردی نے کسی باصلاحیت اور قابل فرد کا حق مار دیا ہو۔
پھر صاحبان اقتدار اور اقتدار کی غلام گردشوں کے مکینوں نے اپنی اپنی نوعیتوں کے فوائد کے حامل اپنے اپنے کنڈے لگائے ہوئے ہیں، جیسے ہمارے معزز ارکان اسمبلی ہر سال اپنی تنخواہ اور مراعات میں اضافہ کرنے کا کنڈا لگائے بیٹھے ہیں اور ایک اخباری رپورٹ کے مطابق ہر اسمبلی اپنی پچھلی اسمبلی کی نسبت اپنے اراکین کو فوائد اور مراعات کی مد میں دگنی ادائیگی کرتی ہے، جو کہ ان اراکین کے پرزور اصرار پر ہوتا ہے اور اپنے دورانیے میں ہر سال ہوتا ہے۔ یعنی موجودہ اسمبلی کے اراکین مشرف دور کے اراکین اسبلی سے تقریباً چار گنا زیادہ تنخواہ، فوائد اور مراعات حاصل کررہے ہیں، جو ہر سال بڑھ جایا کریں گے اور عوام ہاتھ اٹھا اٹھا کر انہیں دعائیں دے رہے ہیں اور دیا بھی کریں گے۔ پھر ایسے ہی یہ اپنی بیوروکریسی بھی تو ہے، جو کہ اس ملک کے نادیدہ حاکموں میں سے ایک ہیں اور ان کے معاوضے، الاؤنسز اور مراعات ہر سال ہوشربا طریقے سے بڑی خاموشی سے بڑھا دی جاتی ہیں اور خود ہی سمری بناکر خود ہی اعلیٰ سطح پر منظوری دے دی جاتی ہے۔
القصہ مختصر، یہاں ہر شعبے میں کنڈا راج ہے اور مختلف نوعیتوں اور اقسام کے کنڈے بڑی مہارت سے استعمال کیے اور لگائے جاتے رہے ہیں، جن کا تسلسل جاری ہے۔ ان کنڈوں میں سرکاری کنڈے، غیر سرکاری کنڈے، قانونی کنڈے، غیر قانونی کنڈے، صحافتی کنڈے، طبی کنڈے، سماجی کنڈے، اخلاقی اور غیر اخلاقی کنڈے، غرض یہ کہ ہر طرح کے کنڈے شامل ہیں اور ہر جگہ اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔ بس بے چارے غریب و مسکین عوام ہیں، جو مدتوں سے ضروریات زندگی اور بنیادی انسانی حقوق کے اپنے لمبے لمبے بانس لیے کبھی ایک پول کے پاس اور کبھی دوسرے پول کے پاس بھاگتے پھر رہے ہیں۔ لیکن ان کا کنڈا لگنا تو درکنار، انہیں بسا اوقات پاس بھی نہیں پھٹکنے دیا جاتا اور وہ اسی امید پر زندہ ہیں کہ کبھی تو ان کا بھی کنڈا لگے گا اور ان بھی ٹائم آئے گا۔ ان کی ذلت و خواری،مفلسی و بے بسی، بدامنی، مظالم، مجبوریوں، مہنگائی، بے روزگاری اور ضروریات سے بھری، الجھی ہوئی اندھیری زندگی میں بھی کبھی خوشحالی، امن، چین، سکون، روزگار اور دیگر معاملاتِ زندگی میں سہولت و عافیت تک آسان رسائی کا کنڈا لگنے سے جگمگاتا اجالا ہوجائے گا۔ ان کے لیے شعر میں تحریف سے کام لیتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ؎
پیوستہ رہ کھمبے سے... امیدِ کنڈا رکھ
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بھئی صرف ان بجلی کے کنڈا صارفین کو کیا دوش دینا کہ ہم تو رہ ہی کنڈا راج میں رہے ہیں اور ہر طرف کنڈے ہی کنڈے لگے ہوئے ہیں اور 'جوبن پہ ہے بہار' والا معاملہ ہے۔ بس ذرا یہ کنڈے کئی طرح کے اور کئی انداز کے ہوتے ہیں۔ دیکھئے ناں! کہیں اپنے فائدے کےلیے لوگ رشوت، کک بیکس اور کمیشن کا کنڈا لگاتے ہیں اور یہ ایسا کنڈہ ہے جس پر لگے ہوئے چارے پر مچھلی ہمیشہ پھنستی ہے، چاہے چھوٹی مچھلی ہو یا بڑی مچھلی۔ اور حیرت انگیز طور پر دونوں فریق فائدے میں رہتے ہیں۔ یعنی لینے والا بھی خوش نظر آتا ہے اور دینے والا بھی مطمئن۔ اور دونوں کا کام بخوبی بن جاتا ہے۔
یہ کنڈا ہر سطح پر، ہر معاملے میں اور ہر محکمے، ادارے اور مقام پر لگایا جاتا ہے اور رکے ہوئے کام کے گھپ اندھیرے اس کے لگاتے ہی فوراً چھٹ جاتے ہیں اور سارا سماں جگمگا اٹھتا ہے۔ یہ کنڈا بین الاقوامی سطح تک بھی لمبے تاروں یا کنکشنز کی مدد سے خوب استعمال ہوتا ہے اور بیرون ملک جائیدادیں بنانے میں یہ کافی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اب بجلی کی کمپنیز جیسے بجلی کے کنڈا کاروں کو برا بھلا کہتی رہتی ہیں، اسی طرح اس کنڈے کو بھی کئی سرکاری اور نیم سرکاری ادارے برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ حالانکہ خلق خدا کہتی ہے کہ جیسے بجلی کے کنڈے لگانے میں بعض اوقات متعلقہ ادارے کے عوامی خدمت کے جذبات سے سرشار ملازمین بھی ممد و معاون ہوتے ہیں، بالکل ایسے ہی سب سے زیادہ یہ رشوت، کک بیکس اور کمیشن کے کنڈے ان ہی روک تھام کرنے والے اداروں میں لگے اور لگائے جاتے ہیں۔
پھر سفارش کا کنڈا ہے اور اس کی کیا بات ہے صاحب کہ یہ تو یہاں ہوا، پانی اور بجلی اور غذا جیسی ضروریات کے استعمال کے بعد سب سے زیادہ استعمال ہونے والا کنڈا ہے۔ اور جسے دیکھو وہ یہ کنڈا لگوانے اور لگانے کو بیتاب نظر آتا ہے۔ کیونکہ اس کی کہیں کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جاتی، بلکہ اس کے استعمال کو اچھا سمجھا جاتا ہے اور یہ کنڈا لگوانے والا اسے لگانے والا کا ہمیشہ ممنون و شکر گزار رہتا ہے۔ چاہے اس کے نتیجے میں کسی حقدار اور مستحق کی کتنی بھی حق تلفی ہی کیوں نہ ہوجائے اور میرٹ کا کتنا بھی قتل عام کیوں نہ ہوجائے۔ اور لگانے والا بھی سمجھتا ہے کہ اس نے اپنے مقام اور حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے یہ جو سفارش کا کنڈا لگایا ہے، تو اپنے تئیں اپنے کسی رشتے دار، دوست، کولیگ، سینئر یا کسی ایسے ہی شخص کا حق ادا کیا ہے، جس نے کبھی ان کےلیے کوئی ایسا ہی کنڈا لگایا تھا۔ بس یہ بھول جاتا ہے کہ یہ بھی ہوسکتا ہے اس کی اس سفارشی کنڈا گردی نے کسی باصلاحیت اور قابل فرد کا حق مار دیا ہو۔
پھر صاحبان اقتدار اور اقتدار کی غلام گردشوں کے مکینوں نے اپنی اپنی نوعیتوں کے فوائد کے حامل اپنے اپنے کنڈے لگائے ہوئے ہیں، جیسے ہمارے معزز ارکان اسمبلی ہر سال اپنی تنخواہ اور مراعات میں اضافہ کرنے کا کنڈا لگائے بیٹھے ہیں اور ایک اخباری رپورٹ کے مطابق ہر اسمبلی اپنی پچھلی اسمبلی کی نسبت اپنے اراکین کو فوائد اور مراعات کی مد میں دگنی ادائیگی کرتی ہے، جو کہ ان اراکین کے پرزور اصرار پر ہوتا ہے اور اپنے دورانیے میں ہر سال ہوتا ہے۔ یعنی موجودہ اسمبلی کے اراکین مشرف دور کے اراکین اسبلی سے تقریباً چار گنا زیادہ تنخواہ، فوائد اور مراعات حاصل کررہے ہیں، جو ہر سال بڑھ جایا کریں گے اور عوام ہاتھ اٹھا اٹھا کر انہیں دعائیں دے رہے ہیں اور دیا بھی کریں گے۔ پھر ایسے ہی یہ اپنی بیوروکریسی بھی تو ہے، جو کہ اس ملک کے نادیدہ حاکموں میں سے ایک ہیں اور ان کے معاوضے، الاؤنسز اور مراعات ہر سال ہوشربا طریقے سے بڑی خاموشی سے بڑھا دی جاتی ہیں اور خود ہی سمری بناکر خود ہی اعلیٰ سطح پر منظوری دے دی جاتی ہے۔
القصہ مختصر، یہاں ہر شعبے میں کنڈا راج ہے اور مختلف نوعیتوں اور اقسام کے کنڈے بڑی مہارت سے استعمال کیے اور لگائے جاتے رہے ہیں، جن کا تسلسل جاری ہے۔ ان کنڈوں میں سرکاری کنڈے، غیر سرکاری کنڈے، قانونی کنڈے، غیر قانونی کنڈے، صحافتی کنڈے، طبی کنڈے، سماجی کنڈے، اخلاقی اور غیر اخلاقی کنڈے، غرض یہ کہ ہر طرح کے کنڈے شامل ہیں اور ہر جگہ اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔ بس بے چارے غریب و مسکین عوام ہیں، جو مدتوں سے ضروریات زندگی اور بنیادی انسانی حقوق کے اپنے لمبے لمبے بانس لیے کبھی ایک پول کے پاس اور کبھی دوسرے پول کے پاس بھاگتے پھر رہے ہیں۔ لیکن ان کا کنڈا لگنا تو درکنار، انہیں بسا اوقات پاس بھی نہیں پھٹکنے دیا جاتا اور وہ اسی امید پر زندہ ہیں کہ کبھی تو ان کا بھی کنڈا لگے گا اور ان بھی ٹائم آئے گا۔ ان کی ذلت و خواری،مفلسی و بے بسی، بدامنی، مظالم، مجبوریوں، مہنگائی، بے روزگاری اور ضروریات سے بھری، الجھی ہوئی اندھیری زندگی میں بھی کبھی خوشحالی، امن، چین، سکون، روزگار اور دیگر معاملاتِ زندگی میں سہولت و عافیت تک آسان رسائی کا کنڈا لگنے سے جگمگاتا اجالا ہوجائے گا۔ ان کے لیے شعر میں تحریف سے کام لیتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ؎
پیوستہ رہ کھمبے سے... امیدِ کنڈا رکھ
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔