وزیراعظم بادشاہ نہیں جو زبانی احکام پر تبادلے کیے جائیں چیف جسٹس

این آئی سی ایل کیس میں توہین عدالت نوٹس پر چیئرمین نیب قمرزمان اور ٹیکس محتسب عبدالرؤف کی معافی کا فیصلہ محفوظ

سپریم کورٹ نے این آئی سی ایل کرپشن کیس میں سابق وزیرداخلہ رحمٰن ملک اورچوہدری شجاعت کامعاملہ الگ سننے کافیصلہ کیا ہے۔ فوٹو: فائل

WELLINGTON:
سپریم کورٹ نے این آئی سی ایل کرپشن کیس میں سابق وزیرداخلہ رحمٰن ملک اورچوہدری شجاعت کامعاملہ الگ سننے کافیصلہ کیا ہے۔

جبکہ سابق سیکریٹری داخلہ چوہدری قمرزمان اورسابق سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ چوہدری عبدالرؤف کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے میں فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔سابق سیکریٹری داخلہ قمرزمان اورسابق سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ چوہدری عبدالرؤف نے غیرمشروط معافی مانگتے ہوئے خودکو عدالت کے رحم وکرم پرچھوڑ دیا ہے۔ چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے این آئی سی ایل کرپشن کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس ملک میں وزیراعظم بادشاہ نہیں، نہ وہ خودکو بادشاہ کہلواسکتا ہے کہ اس کے زبانی احکام پر تبادلے کیے جائیں۔

بادشاہوں کا دورگیا۔چیف جسٹس نے کہاکہ این آئی آئی سی ایل کیس میں کئی لوگوں کے مفادات ہیں اس لیے ایف آئی اے کچھ کرناہی نہیں چاہتی۔ ظفرقریشی کے تبادلے کے بعدایف آئی اے نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ 4سال سے کیس چل رہا ہے نہ کچھ ہوا اور نہ ہی کسی نے کچھ کرنا ہے۔ کیس کے انکوائری افسر ظفرقریشی کے تبادلے کے معاملے میں توہین عدالت کے نوٹس کا سامنا کرنے والے چیئرمین نیب قمر زمان عدالت میں پیش ہوکر کہاکہ بطورسیکریٹری داخلہ ظفر قریشی کی حمایت کی تھی۔




چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے عدالت کے احکام کی عزت کرنے کے بجائے وزیراعظم کے احکام کوترجیح دی پھربھی آپ کہتے ہیں کہ میں نے توہین عدالت نہیں کی، آپ کو علم ہونا چاہیے کہ ظفر قریشی کے تبادلے کے بعد لوٹا گیا ایک پیسہ بھی واپس نہیں آیا۔

چیف جسٹس کاکہنا تھاعدالتی احکام کی تعمیل آئین کاحکم ہے جسے رولزکے تحت ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ایف آئی اے کراچی کے ڈائریکٹر الطاف حسین نے بتایاکہ خالدانور، امین قاسم دادااور جاویدسیدکی گرفتاری ہوناباقی ہے جبکہ مخدوم امین فہیم کانام بھی چالان میں شامل کیاگیا ہے۔11افرادکے چالان متعلقہ عدالت میں پیش کیے گئے ہیں جن پر آج فرد جرم عائد ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ایاز خان نیازی کی بطور چیئرمین این آئی سی ایل تقرری کرنے والوں کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ آئی این پی کے مطابق چیف جسٹس نے کہاکہ صرف ''تو چل میں چل'' کی حد تک کارروائی ہوئی۔ اگرعوام کے تنخواہ داراس طرزپر چلیں گے تویہ کیس 100سال میں بھی حل نہیں ہوگا۔
Load Next Story