نومولود بچوں کی جینیاتی ایڈیٹنگ پر چینی سائنسدان کو قید اور جرمانے کی سزا
سائنسدان نے ڈی این اے کے ان مقامات کو ایڈٹ کیا جس کے تحت انسان ایچ آئی وی کا شکار ہوتا ہے
جینیاتی ایڈیٹنگ کے ذریعے دو جڑواں بچیوں کی پیدائش ممکن بنانے والے چینی سائنس داں کو تین سال قید اور 4 لاکھ ڈالر سے زائد جرمانے کی سزا سنادی گئی۔
متنازع سائنس داں ہی جیانکوئی نے 2018ء میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے نانا اور لولو نامی دو جڑواں بچیوں کے ڈی این اے رحم مادر میں ہی اس طرح تبدیل کیے کہ وہ ایچ آئی وی کا شکار نہیں ہوسکیں گی۔ ہی جینا کوئی نے کہا تھا کہ انہوں نے ڈی این اے میں ان مقامات کو ایڈٹ کیا ہے جس کے تحت انسان ایچ آئی وی کا شکار ہوتا ہے۔ ہی جینا کوئی نے مشہور ٹیکنالوجی سی آر آئی اس پی آر سی اے ایس نائن (کرسپر) کے استعمال سے یہ عمل انجام دیا تھا۔
اس خبر کے بعد عالمی حلقوں اور بالخصوص سائنس دانوں نے اس پر شدید احتجاج کرتے ہوئے انسانوں کی ایڈیٹنگ کو غیراخلاقی بلکہ خطرناک قرار دیا تھا لیکن شینزن میں سدرن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے وابستہ نائب پروفیسر ہی جینکوئی نے اسے اپنا 'قابلِ فخر' کارنامہ قرار دیتے ہوئے ایک اور حاملہ خاتون کا اشارہ دیا تھا جو اسی ٹیکنالوجی سے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ نومولود کو جنم دینے والی ہیں۔
پیر کے روز شینزن ننشان ضلعی عوامی کورٹ میں ہی جینکوئی کو تین سال قید اور چار لاکھ 30 ہزار ڈالر جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ عدالت کے مطابق ہی جینکوئی 2016ء سے اس کام میں ملوث ہیں اور اب تک اس طریقے سے بہت سا مالی منافع حاصل کرچکے ہیں۔
عدالت نے کہا ہے کہ وہ اس حساس معاملے کے تمام ضروری پہلوؤں سے بھی واقف نہیں اور انہوں نے انتہائی خطرناک کام کیا۔ دوسری جانب امریکی سائنس دانوں نے جینکوئی کے خفیہ تحقیقی مقالے کو دیکھ کر کہا ہے کہ انہوں نے بار بار طبی، اخلاقی اور قانونی اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
متنازع سائنس داں ہی جیانکوئی نے 2018ء میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے نانا اور لولو نامی دو جڑواں بچیوں کے ڈی این اے رحم مادر میں ہی اس طرح تبدیل کیے کہ وہ ایچ آئی وی کا شکار نہیں ہوسکیں گی۔ ہی جینا کوئی نے کہا تھا کہ انہوں نے ڈی این اے میں ان مقامات کو ایڈٹ کیا ہے جس کے تحت انسان ایچ آئی وی کا شکار ہوتا ہے۔ ہی جینا کوئی نے مشہور ٹیکنالوجی سی آر آئی اس پی آر سی اے ایس نائن (کرسپر) کے استعمال سے یہ عمل انجام دیا تھا۔
اس خبر کے بعد عالمی حلقوں اور بالخصوص سائنس دانوں نے اس پر شدید احتجاج کرتے ہوئے انسانوں کی ایڈیٹنگ کو غیراخلاقی بلکہ خطرناک قرار دیا تھا لیکن شینزن میں سدرن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے وابستہ نائب پروفیسر ہی جینکوئی نے اسے اپنا 'قابلِ فخر' کارنامہ قرار دیتے ہوئے ایک اور حاملہ خاتون کا اشارہ دیا تھا جو اسی ٹیکنالوجی سے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ نومولود کو جنم دینے والی ہیں۔
پیر کے روز شینزن ننشان ضلعی عوامی کورٹ میں ہی جینکوئی کو تین سال قید اور چار لاکھ 30 ہزار ڈالر جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ عدالت کے مطابق ہی جینکوئی 2016ء سے اس کام میں ملوث ہیں اور اب تک اس طریقے سے بہت سا مالی منافع حاصل کرچکے ہیں۔
عدالت نے کہا ہے کہ وہ اس حساس معاملے کے تمام ضروری پہلوؤں سے بھی واقف نہیں اور انہوں نے انتہائی خطرناک کام کیا۔ دوسری جانب امریکی سائنس دانوں نے جینکوئی کے خفیہ تحقیقی مقالے کو دیکھ کر کہا ہے کہ انہوں نے بار بار طبی، اخلاقی اور قانونی اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔