’’میری بیٹی تم بھی کسی سے کم نہیں۔۔۔‘‘
ہمارا سماج بنت حوا کی کمی کو ’نقص‘ بنا دیتا ہے
آپ اگر بیٹی کی ماں ہیں، اور یہ مشاہدہ کر رہی ہیں کہ آپ کی بیٹی بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ بہت شرمیلی ہونے لگی ہے اور صورت حال یہ ہے کہ اب وہ آپ سے بھی کھل کر بات نہیں کرتی، کسی مہمان کے آنے پر وہ بھاگ کر کمرے میں چلی جاتی ہے، کسی تقریب یا کسی سے ملنے جانے کا سن کر منہ بنا لیتی ہے؟
اس کی عمر کی لڑکیاں خوشی خوشی اس تقریب میں شرکت کرتی ہیں۔۔۔ لیکن وہ کیوں خود کو خاندان کی ہم عمر بچیوں کے درمیان 'مس فٹ' سمجھتی ہے؟ تھوڑی دیر بعد ہی منہ بسورتے ہوئے الگ تھلگ ہو جاتی ہے؟ آپ کو نہیں لگتا کہ یہ 'ٹین ایج' گڑیا ضرورت سے زیادہ سنجیدہ ہے، جب کہ اس عمر کی لڑکی تو فر فر بولتی ہیں اور بے وجہ ہنستی ہیں۔۔۔ جب کہ اس نے ہنسنا تو درکنار بولنا بھی کم کم کر دیا ہے۔
آپ کی بچی کی اس کیفیت کا تعلق ضروری نہیں ہے کہ صرف بڑھتی ہوئی عمر میں در آنے والی شرم وجھجک سے ہو، بلکہ اس کی وجوہات میں اس کے اندر پیدا ہونے والا احساس کم تری بھی ہو سکتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر کر ذرا خود سے پوچھیں کہ کہیں آپ یا باقی اہل خانہ کے منفی رویے آپ کی بیٹی کی ذہنی صحت پر اثرانداز تو نہیں ہو رہے؟ کہ وہ دروازے پر دستک ہونے پر دروازہ کھولنے کے بہ جائے دوڑ کر اپنے کمرے کا دروازہ بند کر لیتی ہے، اُسے لوگوں میں گھلنا ملنا اب پسند نہیں ہے۔
اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی مدنظر رکھیں کہ آپ کی بیٹی ساری زندگی آپ کے ساتھ نہیں رہے گی، اسے آپ سے وداع بھی ہونا ہے، جہاں اس کی زندگی کسی اور ڈھب پر ہوگی، وہاں اسے کسی کے آنے پر فرار کا راستہ نہیں ملے گا، اس وقت اسے لوگوں کے سامنے فاصلے رکھ کر زندگی گزارنا آسان نہیں ہوگا، لہٰذا ابھی سے اس مسئلہ کو جانچیے ان عوامل کو ڈھونڈیے، جس سے یہ مسئلہ بڑھتا چلا گیا ہے، سب سے پہلے تو اسے یہ احساس نہ دلائیں کہ بیٹی بوجھ ہے یا کسی سے کم تر ہے، بلکہ اسے بھرپور عزت دیں، برابری کا احساس دلائیں۔
اکثر اوقات بڑی ہوتی ہوئی بچیوں میں احساس کم تری کے رویے ان کی کسی طبعی کمی کے سبب بھی ہوتی ہے، یہ جسمانی نقائص کسی میں بھی اور کسی بھی موقع پر سامنے آ سکتے ہیں اور ان پر لوگوں کے غلط رویے پر آپ کو چوکنا ہو جانا چاہیے۔ یہ آپ کا فرض ہے، جب آپ اپنا فرض بھولیں گی، تو آپ کی بیٹی بھی پھر اپنا اعتماد کھو دے گی۔
بہت سی بچیاں کچھ جسمانی نقائض کا شکار ہوتی ہیں، جیسے ان کا قد ذرا دبتا ہوا ہوتا ہے، رنگ صاف نہیں ہوتا، دبلا پتلا جسم یا سامنے کے دانتوں کا باہر کی طرف نکلنا وغیرہ ہونا کافی عام ہے، بالخصوص بے ترتیب یا بڑھے ہوئے دانتوںسے چہرہ لمبوترا لگنے لگتا ہے اورمنہ کا دہانہ بھی کھلا رہتا ہے اور دانت نمایاں ہونے لگتے ہیں، اکثر رشتے دار یا کزن اس کو طنز کا نشانہ بناتی ہیں اورمذاق بھی اڑایا جاتا ہے، کچھ لوگ خواہ مخواہ کے مشورے دینا بھی ضروری سمجھتے ہیں، بس یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب آپ کی بیٹی کو آپ کی ڈھارس کی ضرورت ہوتی ہے۔
غور کیا جائے تو وہ ایسے جملوں باتوں نظروں سے بچنے کے لیے آپ ہی کو ڈھونڈ رہی ہوتی ہے اور آپ لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر سر ہلاتے ہوئے تائید کرتے ہیں، یا پھر اس سنگین صورت حال کو بالکل نارمل سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دیتی ہیں، جب کہ اس لمحے میں آپ اپنے ساتھ ساتھ اپنی بیٹی کو بھی کھو دیتی ہیں، جہاں آپ نے اس کی سپورٹ کرنا ہوتی ہے، پھر زرا رک کر سوچیں کہ وہ مہمان کے آنے پر اپنے کمرے میں نہ چھپے تو اور کیا کرے؟
آپ نے اسے وہ اعتماد دیا ہی نہیں ہے، جس کے بل بوتے پر وہ اپنے اعتماد کو بچا سکے۔ اس مسئلے میں اس اکیلی لڑتی جان کے جذبات کو سمجھنے میں اتنی تاخیر کر دی کہ اس کے خیالات خود کو لے کر پختہ ہونے لگے، یہی وجہ ہے کہ وہ بار بار آئینہ دیکھتی ہے، اپنے دانتوں کو اندر کرنے کی تگ و دو میں ہونٹوں کے مختلف زاویے بناتی ہے اور پھر تھکنے لگتی ہے۔
وہ لپ اسٹک شوق سے نہیں لگاتی یا پھر گہری لپ اسٹک لگانے سے ڈرتی ہے کہ اس سے دانت نمایاں لگیں گے۔ وہ بولتی بھی کم ہے مبادا زیادہ بولنے سے اس کے دانت نمایاں ہوں گے، وہ زندگی کی خوب صورت مرحلوں میں اپنی اس کم زوری یا خامی کی وجہ سے کب پیچھے ہٹ گئی اور کب وہ اسی پَس پَائی پر قائم رہنے کے لیے تیار ہوگئی۔۔۔ اس سے پہلے ہی ایک ماں کو ہاتھ پکڑ کر اسے نکالنا ہوگا۔
کیوں کہ کسی اور کو آپ کی بیٹی کی کام یابی یا ناکامی میں سے کوئی لینا دینا نہیں، لیکن آپ کو ضرور ہے، جب آپ اپنی بیٹی میں شخصی اعتماد دیکھیں گی، کیوں کہ یہ آپ ہی بتا سکتی ہیں کہ ان کی کوئی بھی جسمانی نقص سے بڑھ کر شخصیت اور صلاحیت کے اور بھی جوہر ہیں اور کام یاب زندگی گزارنے کے لیے یہ عادات واطوار مدد دیتے ہیں، نہ کہ دنیا کی نظر میں سمجھے جانے والے نقائص' کوئی رکاوٹ بنتے ہیں۔ یہ امر تمہیں بتاتے ہیں کہ تم کسی سے کم تر نہیں، لوگوں کی بدزبانی یا طنز کے جواب میں تمہاری سنجیدگی اور مسکراہٹ تمہیں باتیں بنانے والوں سے بڑا اور ممتاز بناتی ہے۔
یہ تمام باتیں ہر اس مرحلے پر لازمی دُہرائیں، جہاں سماج اسے توڑنے لگے، بالکل اسی لمحے آپ نے اسے یہ اعتماد دلانا ہے کہ وہ ان باتوں کو خاطر میں لانا چھوڑ دے۔ یہ دھیان رکھیں، کہ زندگی کے 'منچ' پر آج جس بچی نے بیٹی اور بہن کا کردار ادا کیا ہے، اس نے کل خیر کے ساتھ بیوی، اور ایک ماں کا کردار بھی ادا کرنا ہے اور اپنی وہ ذمہ داریاں اسی صورت میں نبھا سکتی ہے، جب وہ ذہنی طور پر مضبوط ہو۔
اس کی عمر کی لڑکیاں خوشی خوشی اس تقریب میں شرکت کرتی ہیں۔۔۔ لیکن وہ کیوں خود کو خاندان کی ہم عمر بچیوں کے درمیان 'مس فٹ' سمجھتی ہے؟ تھوڑی دیر بعد ہی منہ بسورتے ہوئے الگ تھلگ ہو جاتی ہے؟ آپ کو نہیں لگتا کہ یہ 'ٹین ایج' گڑیا ضرورت سے زیادہ سنجیدہ ہے، جب کہ اس عمر کی لڑکی تو فر فر بولتی ہیں اور بے وجہ ہنستی ہیں۔۔۔ جب کہ اس نے ہنسنا تو درکنار بولنا بھی کم کم کر دیا ہے۔
آپ کی بچی کی اس کیفیت کا تعلق ضروری نہیں ہے کہ صرف بڑھتی ہوئی عمر میں در آنے والی شرم وجھجک سے ہو، بلکہ اس کی وجوہات میں اس کے اندر پیدا ہونے والا احساس کم تری بھی ہو سکتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر کر ذرا خود سے پوچھیں کہ کہیں آپ یا باقی اہل خانہ کے منفی رویے آپ کی بیٹی کی ذہنی صحت پر اثرانداز تو نہیں ہو رہے؟ کہ وہ دروازے پر دستک ہونے پر دروازہ کھولنے کے بہ جائے دوڑ کر اپنے کمرے کا دروازہ بند کر لیتی ہے، اُسے لوگوں میں گھلنا ملنا اب پسند نہیں ہے۔
اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی مدنظر رکھیں کہ آپ کی بیٹی ساری زندگی آپ کے ساتھ نہیں رہے گی، اسے آپ سے وداع بھی ہونا ہے، جہاں اس کی زندگی کسی اور ڈھب پر ہوگی، وہاں اسے کسی کے آنے پر فرار کا راستہ نہیں ملے گا، اس وقت اسے لوگوں کے سامنے فاصلے رکھ کر زندگی گزارنا آسان نہیں ہوگا، لہٰذا ابھی سے اس مسئلہ کو جانچیے ان عوامل کو ڈھونڈیے، جس سے یہ مسئلہ بڑھتا چلا گیا ہے، سب سے پہلے تو اسے یہ احساس نہ دلائیں کہ بیٹی بوجھ ہے یا کسی سے کم تر ہے، بلکہ اسے بھرپور عزت دیں، برابری کا احساس دلائیں۔
اکثر اوقات بڑی ہوتی ہوئی بچیوں میں احساس کم تری کے رویے ان کی کسی طبعی کمی کے سبب بھی ہوتی ہے، یہ جسمانی نقائص کسی میں بھی اور کسی بھی موقع پر سامنے آ سکتے ہیں اور ان پر لوگوں کے غلط رویے پر آپ کو چوکنا ہو جانا چاہیے۔ یہ آپ کا فرض ہے، جب آپ اپنا فرض بھولیں گی، تو آپ کی بیٹی بھی پھر اپنا اعتماد کھو دے گی۔
بہت سی بچیاں کچھ جسمانی نقائض کا شکار ہوتی ہیں، جیسے ان کا قد ذرا دبتا ہوا ہوتا ہے، رنگ صاف نہیں ہوتا، دبلا پتلا جسم یا سامنے کے دانتوں کا باہر کی طرف نکلنا وغیرہ ہونا کافی عام ہے، بالخصوص بے ترتیب یا بڑھے ہوئے دانتوںسے چہرہ لمبوترا لگنے لگتا ہے اورمنہ کا دہانہ بھی کھلا رہتا ہے اور دانت نمایاں ہونے لگتے ہیں، اکثر رشتے دار یا کزن اس کو طنز کا نشانہ بناتی ہیں اورمذاق بھی اڑایا جاتا ہے، کچھ لوگ خواہ مخواہ کے مشورے دینا بھی ضروری سمجھتے ہیں، بس یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب آپ کی بیٹی کو آپ کی ڈھارس کی ضرورت ہوتی ہے۔
غور کیا جائے تو وہ ایسے جملوں باتوں نظروں سے بچنے کے لیے آپ ہی کو ڈھونڈ رہی ہوتی ہے اور آپ لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر سر ہلاتے ہوئے تائید کرتے ہیں، یا پھر اس سنگین صورت حال کو بالکل نارمل سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دیتی ہیں، جب کہ اس لمحے میں آپ اپنے ساتھ ساتھ اپنی بیٹی کو بھی کھو دیتی ہیں، جہاں آپ نے اس کی سپورٹ کرنا ہوتی ہے، پھر زرا رک کر سوچیں کہ وہ مہمان کے آنے پر اپنے کمرے میں نہ چھپے تو اور کیا کرے؟
آپ نے اسے وہ اعتماد دیا ہی نہیں ہے، جس کے بل بوتے پر وہ اپنے اعتماد کو بچا سکے۔ اس مسئلے میں اس اکیلی لڑتی جان کے جذبات کو سمجھنے میں اتنی تاخیر کر دی کہ اس کے خیالات خود کو لے کر پختہ ہونے لگے، یہی وجہ ہے کہ وہ بار بار آئینہ دیکھتی ہے، اپنے دانتوں کو اندر کرنے کی تگ و دو میں ہونٹوں کے مختلف زاویے بناتی ہے اور پھر تھکنے لگتی ہے۔
وہ لپ اسٹک شوق سے نہیں لگاتی یا پھر گہری لپ اسٹک لگانے سے ڈرتی ہے کہ اس سے دانت نمایاں لگیں گے۔ وہ بولتی بھی کم ہے مبادا زیادہ بولنے سے اس کے دانت نمایاں ہوں گے، وہ زندگی کی خوب صورت مرحلوں میں اپنی اس کم زوری یا خامی کی وجہ سے کب پیچھے ہٹ گئی اور کب وہ اسی پَس پَائی پر قائم رہنے کے لیے تیار ہوگئی۔۔۔ اس سے پہلے ہی ایک ماں کو ہاتھ پکڑ کر اسے نکالنا ہوگا۔
کیوں کہ کسی اور کو آپ کی بیٹی کی کام یابی یا ناکامی میں سے کوئی لینا دینا نہیں، لیکن آپ کو ضرور ہے، جب آپ اپنی بیٹی میں شخصی اعتماد دیکھیں گی، کیوں کہ یہ آپ ہی بتا سکتی ہیں کہ ان کی کوئی بھی جسمانی نقص سے بڑھ کر شخصیت اور صلاحیت کے اور بھی جوہر ہیں اور کام یاب زندگی گزارنے کے لیے یہ عادات واطوار مدد دیتے ہیں، نہ کہ دنیا کی نظر میں سمجھے جانے والے نقائص' کوئی رکاوٹ بنتے ہیں۔ یہ امر تمہیں بتاتے ہیں کہ تم کسی سے کم تر نہیں، لوگوں کی بدزبانی یا طنز کے جواب میں تمہاری سنجیدگی اور مسکراہٹ تمہیں باتیں بنانے والوں سے بڑا اور ممتاز بناتی ہے۔
یہ تمام باتیں ہر اس مرحلے پر لازمی دُہرائیں، جہاں سماج اسے توڑنے لگے، بالکل اسی لمحے آپ نے اسے یہ اعتماد دلانا ہے کہ وہ ان باتوں کو خاطر میں لانا چھوڑ دے۔ یہ دھیان رکھیں، کہ زندگی کے 'منچ' پر آج جس بچی نے بیٹی اور بہن کا کردار ادا کیا ہے، اس نے کل خیر کے ساتھ بیوی، اور ایک ماں کا کردار بھی ادا کرنا ہے اور اپنی وہ ذمہ داریاں اسی صورت میں نبھا سکتی ہے، جب وہ ذہنی طور پر مضبوط ہو۔