’’آپ چائے بہت اچھی بناتی ہیں۔۔۔‘‘
ہمارا خیال ہے کہ یہ ضروری ہے کہ عبایا کے ساتھ چہرہ بھی اس طرح چھپایا جائے
ثنا نے غصے سے دروازہ بند کیا اور پیر پٹخٹتے اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتے ہوئے گھر میں داخل ہوئی تو اس کی امی چوکنا ہوئیں، بولیں '' یا اللہ خیر، سب خیریت ہے نا، نہ سلام نہ دعا، یہ کون سا طریقہ ہے، گھر میں داخل ہونے کا۔'' اس کی امی نے بھی گویا اس کی کلاس لینا شروع کردی۔
ایک تو امی آپ بھی نا، خود ہی تو کہتی ہیں کہ مغلظات نکالنے کی وجہ سے زبان خراب ہو جاتی ہے، اس لیے کہیں تو بھڑاس نکالوں گی نا۔۔۔''
اس نے عبایا اتار کر ایک طرف گولا بنا کر پھینکتے ہوئے کہا ، لیکن امی جو اس کی بات پر مسکرا اٹھی تھی اس حرکت پر گھور کر دیکھا، تو اس نے عبایا جلدی سے اٹھا کر کھونٹی پر ٹانگ دیا۔
''تو گالیاں دینے کی ضرورت کس کو اور کیوں پڑگئی؟'' بڑی بہن فاطمہ نے بھی گفتگو میں ٹکڑا۔
''یہ بس میں بیٹھے چھچھورے لڑکوں کو اور کس کو۔۔۔! ایک تو بسوں کی قلت، آدھے گھنٹے بعد بس ملی تو اس میں ان لڑکوں کے فقرے، اور آپی آپ تو کہتی ہیں کہ عبایا پہن کر نکلو گی، تو کسی کی ہمت نہیں ہوگی، جملے کسنے کی، مگر یہاں تو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔۔۔!
ثنا بولتی چلی گئی، امی جو کسی کام سے باورچی خانے میں چلی گئی تھیں، اس کی بات سن کر واپس آگئیں اور بولیں:
''صرف عبایا نہیں، حجاب بھی ساتھ ضروری ہے۔۔۔!''
مگر میرا تو پورا سر ڈھکا ہوا تھا، ایک بال بھی نظر نہیں آرہا تھا'' وہ منمنائی۔
'' اور یہ جو کھلا ہوا چہرہ اور آپ کی لپ اسٹک۔۔۔؟'' فاطمہ نے قدرے درشت لہجے میں کہا تو امی نے بھی اِس کی حمایت میں سر ہلایا، مگر ثنا بھی ہار ماننے والوں میں سے نہ تھی، اس نے امی اور فاطمہ کے کہنے سے عبایا تو پہننا شروع کر دیا تھا، مگر نقاب کرنے سے اس کا دم گُھٹتا تھا اور اس کے لیے وہ تاویلیں نکال لاتی تھی۔
''ہاں، تو لپ اسٹک تو میں اس لیے لگاتی ہوں کہ بقول شاعر 'لپ اسٹک لگانے سے جو آجاتی ہے چہرے پہ رونق، وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے۔''
'' اس نے شعر کی ٹانگ توڑی، تو شاعری کی دل دادہ فاطمہ خون کے گھونٹ پی کے رہ گئی۔
''بس بس، زیادہ نہیں۔۔۔ ایسے فضول اشعار بس ٹرکوں، بسوں اور رکشوں کے پیچھے ہی اچھے لگتے ہیں۔۔۔'' اس نے کہا اور امی کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھا، جو گویا خود اس کو سمجھانے کے لیے کچھ نئے الفاظ ڈھونڈ رہی تھیں۔
" دیکھو ثنا، ہمارا خیال ہے کہ یہ ضروری ہے کہ عبایا کے ساتھ چہرہ بھی اس طرح چھپایا جائے، کہ معلوم نہ چلے کہ عبایا میں تم ہو یا فاطمہ۔''
خیر امی یہ تو نا کہیں کہاں نازک سی میں اور کہاں یہ فاطمہ، الگ پتا چل جائے گا کہ شامیانے میں کون ہے اور عبایا میں کون!'' اس نے فاطمہ کے مُٹاپے کی طرف اشارہ کیا ۔
''بتاؤں تمہیں، ایسی موٹی بھی نہیں ہوں اب میں۔۔۔'' فاطمہ جھینپتے ہوئے بولی اور اٹھ کر اندر چلی گئی۔
ثنانے دل میں سوچا کہ یہ مسئلے تو نمٹتے رہیں گے، مگر پہلے بڑی بہن کو منا لینا زیادہ مناسب ہے، ورنہ شام کی چائے کون بنائے گا۔
''ویسے میں سوچ رہی ہوں کہ نقاب بھی شروع کر ہی دوں۔'' وہ کہتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی، فاطمہ ایک دم پلٹی، مگر پھر خیال آیا کہ وہ تو ناراض ہے ، سو جواب دیتے دیتے چپ ہو گئی ۔
''ہاں ہاں اچھی بات ہے نا جب نقاب کرنے سے میرا دم گُھٹ جائے گا، تو آپ کی بھی جان چھٹ جائے گی، میری بے تُکی باتوں سے۔۔۔'' ثنا نے ایک اور تیر چلایا، جو ٹھیک نشانے پر بیٹھا، وہ تڑپ کر پلٹی اور بولی:
'' اللہ نہ کرے، تم باز نہ آنا فضول گوئی سے، کوئی دم وَم نہیں گھٹتا نقاب سے۔ اتنی ساری عورتیں جو بچپن سے نقاب کرتے کرتے بوڑھی ہو گئیں، جب انہیں کچھ نہیں ہوا، تو تم کو کیوں ہوگا اور میں بھی تو کرتی ہوں ، امی بھی کرتی ہیں پھر؟''
''خیر اپنی بات تو آپ رہنے ہی دیں۔ آپ تو خیر سے۔۔۔''
وہ ایک بار پھر فاطمہ کو تاؤ دلاتے دلاتے بات پلٹ گئی، پھر بولی: ''آپ تو اللہ کی نیک بندی ہیں نا، اور نیک بندی چائے بہت مزے کی بناتی ہے۔''
اس نے مَسکا لگایا اور فاطمہ اس کی بات پر مسکراتے ہوئے چائے بنانے اٹھ گئی۔
ایک تو امی آپ بھی نا، خود ہی تو کہتی ہیں کہ مغلظات نکالنے کی وجہ سے زبان خراب ہو جاتی ہے، اس لیے کہیں تو بھڑاس نکالوں گی نا۔۔۔''
اس نے عبایا اتار کر ایک طرف گولا بنا کر پھینکتے ہوئے کہا ، لیکن امی جو اس کی بات پر مسکرا اٹھی تھی اس حرکت پر گھور کر دیکھا، تو اس نے عبایا جلدی سے اٹھا کر کھونٹی پر ٹانگ دیا۔
''تو گالیاں دینے کی ضرورت کس کو اور کیوں پڑگئی؟'' بڑی بہن فاطمہ نے بھی گفتگو میں ٹکڑا۔
''یہ بس میں بیٹھے چھچھورے لڑکوں کو اور کس کو۔۔۔! ایک تو بسوں کی قلت، آدھے گھنٹے بعد بس ملی تو اس میں ان لڑکوں کے فقرے، اور آپی آپ تو کہتی ہیں کہ عبایا پہن کر نکلو گی، تو کسی کی ہمت نہیں ہوگی، جملے کسنے کی، مگر یہاں تو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔۔۔!
ثنا بولتی چلی گئی، امی جو کسی کام سے باورچی خانے میں چلی گئی تھیں، اس کی بات سن کر واپس آگئیں اور بولیں:
''صرف عبایا نہیں، حجاب بھی ساتھ ضروری ہے۔۔۔!''
مگر میرا تو پورا سر ڈھکا ہوا تھا، ایک بال بھی نظر نہیں آرہا تھا'' وہ منمنائی۔
'' اور یہ جو کھلا ہوا چہرہ اور آپ کی لپ اسٹک۔۔۔؟'' فاطمہ نے قدرے درشت لہجے میں کہا تو امی نے بھی اِس کی حمایت میں سر ہلایا، مگر ثنا بھی ہار ماننے والوں میں سے نہ تھی، اس نے امی اور فاطمہ کے کہنے سے عبایا تو پہننا شروع کر دیا تھا، مگر نقاب کرنے سے اس کا دم گُھٹتا تھا اور اس کے لیے وہ تاویلیں نکال لاتی تھی۔
''ہاں، تو لپ اسٹک تو میں اس لیے لگاتی ہوں کہ بقول شاعر 'لپ اسٹک لگانے سے جو آجاتی ہے چہرے پہ رونق، وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے۔''
'' اس نے شعر کی ٹانگ توڑی، تو شاعری کی دل دادہ فاطمہ خون کے گھونٹ پی کے رہ گئی۔
''بس بس، زیادہ نہیں۔۔۔ ایسے فضول اشعار بس ٹرکوں، بسوں اور رکشوں کے پیچھے ہی اچھے لگتے ہیں۔۔۔'' اس نے کہا اور امی کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھا، جو گویا خود اس کو سمجھانے کے لیے کچھ نئے الفاظ ڈھونڈ رہی تھیں۔
" دیکھو ثنا، ہمارا خیال ہے کہ یہ ضروری ہے کہ عبایا کے ساتھ چہرہ بھی اس طرح چھپایا جائے، کہ معلوم نہ چلے کہ عبایا میں تم ہو یا فاطمہ۔''
خیر امی یہ تو نا کہیں کہاں نازک سی میں اور کہاں یہ فاطمہ، الگ پتا چل جائے گا کہ شامیانے میں کون ہے اور عبایا میں کون!'' اس نے فاطمہ کے مُٹاپے کی طرف اشارہ کیا ۔
''بتاؤں تمہیں، ایسی موٹی بھی نہیں ہوں اب میں۔۔۔'' فاطمہ جھینپتے ہوئے بولی اور اٹھ کر اندر چلی گئی۔
ثنانے دل میں سوچا کہ یہ مسئلے تو نمٹتے رہیں گے، مگر پہلے بڑی بہن کو منا لینا زیادہ مناسب ہے، ورنہ شام کی چائے کون بنائے گا۔
''ویسے میں سوچ رہی ہوں کہ نقاب بھی شروع کر ہی دوں۔'' وہ کہتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی، فاطمہ ایک دم پلٹی، مگر پھر خیال آیا کہ وہ تو ناراض ہے ، سو جواب دیتے دیتے چپ ہو گئی ۔
''ہاں ہاں اچھی بات ہے نا جب نقاب کرنے سے میرا دم گُھٹ جائے گا، تو آپ کی بھی جان چھٹ جائے گی، میری بے تُکی باتوں سے۔۔۔'' ثنا نے ایک اور تیر چلایا، جو ٹھیک نشانے پر بیٹھا، وہ تڑپ کر پلٹی اور بولی:
'' اللہ نہ کرے، تم باز نہ آنا فضول گوئی سے، کوئی دم وَم نہیں گھٹتا نقاب سے۔ اتنی ساری عورتیں جو بچپن سے نقاب کرتے کرتے بوڑھی ہو گئیں، جب انہیں کچھ نہیں ہوا، تو تم کو کیوں ہوگا اور میں بھی تو کرتی ہوں ، امی بھی کرتی ہیں پھر؟''
''خیر اپنی بات تو آپ رہنے ہی دیں۔ آپ تو خیر سے۔۔۔''
وہ ایک بار پھر فاطمہ کو تاؤ دلاتے دلاتے بات پلٹ گئی، پھر بولی: ''آپ تو اللہ کی نیک بندی ہیں نا، اور نیک بندی چائے بہت مزے کی بناتی ہے۔''
اس نے مَسکا لگایا اور فاطمہ اس کی بات پر مسکراتے ہوئے چائے بنانے اٹھ گئی۔