سائنس عالمِ اسلام کا زوال حصہ سوم

اس زوال کی کئی توجیہات میں سے تین سب سے اہم ہیں: سیاسی نااہلی اور عدم استحکام، زوال پذیر معیشت اور اصلاحات کی مخالفت


انہوں نے زمانے کی رفتار کا ساتھ دینے سے انکار کرتے ہوئے ماضی میں رہنے کو ترجیح دی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

گزشتہ بلاگ میں یورپ کے عہدِ تاریکی سے نکلنے کی کوششوں کا جائزہ آپ کے سامنے پیش کیا گیا۔ تیسرے اور زیرِ نظر حصے میں ہم بات کریں گے عالمِ اسلام کے زوال کی۔ 12 ستمبر 1683 کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے محاصرے کا آخری دن تھا۔ یہ محاصرہ عثمانی افواج نے 14 جولائی سے شروع کیا تھا۔ اس وقت خلافتِ عثمانیہ اپنی طاقت کی انتہا پر تھی۔ تین براعظموں، یعنی ایشیا، یورپ اور افریقہ پر پھیلی ہوئی یہ عظیم الشان سلطنت ان گنت معرکوں میں اپنا لوہا منوا چکی تھی۔

اس موضوع پر پہلا بلاگ یہاں پڑھیے: سائنس اور اقوامِ عالم

مضمون کا دوسرا حصہ یہاں سے پڑھیے: سائنس، یورپ اور عہدِ تاریکی (گزشتہ سے پیوستہ)

لیکن ٹھہریئے! تھوڑا اور پیچھے چلتے ہیں۔ 1632 میں سلطان مراد چہارم کی تاج پوشی کو نو برس گزر چکے ہیں، اس دوران عوام میں ایک شخص خاصی شہرت اختیار کرچکا ہے، جس کا نام احمد چلبی ہے، مگر استنبول کی اکثریت اس کو ہزار فنّ پاشا کے نام سے جانتی ہے۔ ایک دن احمد چلبی استنبول کے ایک مینار پر چڑھ کر اپنے بنائے ہوئے پروں کی مدد سے اڑان بھر کر پورے شہر کو حیران کردیتا ہے۔ اس کی اڑان کا منظر سلطان مراد بھی دیکھتے ہیں اور انعام سے نوازنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسا کام بھی کرتے ہیں کہ تاریخ حیران رہ جاتی ہے۔ سلطان مراد چہارم کی طرف سے انعام کے ساتھ ہی احمد چلبی کو الجیریا جلاوطن کرنے کا حکم بھی ملتا ہے۔

سلطنتِ عثمانیہ کے پڑوس میں شاه عباس سوم کی تاجپوشی ہوئی ہے۔ ایران میں صفوی خاندان کا اقتدار اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے اور آنے والے برسوں میں نادر شاہ اس خاندان کی حکومت کا خاتمہ کرے گا۔ اسی اثنا میں مغل فرمانروا شاہجہاں کی حکومت پورے دبدبے کے ساتھ ہندوستان پر جاری ہے۔ شاہجہان کی چہیتی بیگم ممتاز محل کے انتقال پر تاج محل بنانے کا حکم جاری کرتے ہیں اور آنے والے 21 برس مغل سلطنت کے وسائل ایک خوبصورت مقبرے کی تعمیر پر صرف ہونے والے ہیں۔

اس وقت تک مسلمانوں کے تینوں بڑے علمی مراکز وسطی ایشیا میں ثمرقند اور بخارا، عراق میں بغداد اور اندلس میں قرطبہ کو ہاتھ سے نکلے ہوئے تقریباً تین صدیاں بیت چکی ہیں مگر اس دوران کوئی خاص منظم علمی مرکز قائم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ انفرادی سطح پر بھی اب کوئی خاص بڑا نام پیدا نہیں ہورہا کہ جس کے حوالے سے عوام میں سائنس کی ترغیب پیدا ہو۔

اب واپس چلتے ہیں ویانا کی فصیل پر جہاں عثمانی افواج اپنے پورے جلال کے ساتھ موجود ہیں۔ محاصرے کو تیسرا مہینہ پورا ہونے کو ہے کہ اچانک شہر پناہ کے دروازے کھلتے ہیں اور ویانا کی حفاظت پر مامور فوج، عثمانی لشکر پر یکبارگی ہلہ بول دیتی ہے۔ اس اچانک پڑنے والی افتاد سے عثمانی فوج کے قدم اکھڑنے کے ساتھ ہی مسلمانوں کی فتوحات کا سیلِ رواں تھم جاتا ہے اور عثمانیوں کا ناقابلِ شکست ہونے کا بھرم ٹوٹ جاتا ہے۔ آنے والے ڈھائی سو سال تک خلافتِ عثمانیہ یورپ کے مردِ بیمار کی شکل اختیار کرتی چلی جاتی ہے۔ ویانا کا محاصرہ اسلامی تاریخ کا وہ واقعہ ہے جس کے بعد سے مسلمان آج تک مسلسل شکست ہی کھاتے چلے آرہے ہیں۔

یہ تھی عالمِ اسلام کی تینوں بڑی سلطنتوں کی حالت۔ کہیں بھی کوئی خاص اہلِ علم کی باضابطہ سرپرستی منظم انداز میں آنے والی مزید دو صدیوں تک ہمیں نظر نہیں آتی۔ پھر رفتہ رفتہ بحرِ ہند میں ہونے والی گرم مصالحوں کی تجارت پر یورپی اقوام کی اجارہ داری کی وجہ سے آمدن کے ذرائع چھن جانے کے بعد شروع ہونے والے نوآبادیاتی دور میں اس زوال کو الطاف حسین حالیؔ نے اپنی مشہور مسدسِ حالی میں یوں بیان کیا ہے:

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے

اس زوال کی کئی توجیہات بیان کی جاسکتی ہیں، مگر تین سب سے اہم ہیں: سیاسی نااہلی اور عدم استحکام، زوال پذیر معیشت اور، سب سے زیادہ اہم، اصلاحات کی مخالفت۔ اکبر سے لے کر اورنگزیب عالمگیر تک، مغل سلطنت اپنی شان و شوکت کی انتہا پر تھی مگر بعد میں آنے والے مغل فرمانروا نہ صرف سہل پسندی اور عیش و عشرت میں مبتلا تھے مگر سیاسی و انتظامی قابلیت اور قائدانہ اوصاف سے بھی بے بہرہ تھے۔ ایرانی اور ترک سلاطین کا بھی یہی حال تھا۔

واسکوڈی گاما اور کولمبس کی دریافتوں نے اپنے وقت کی عالمی معیشت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ایک طرف امریکا سے آنے والی لوٹی ہوئی چاندی نے جہاں اسپین کی معیشت کو ترقی دی، وہیں ترکی کے چاندی کے سکوں کو بے قدر کرتے ہوئے عثمانی سلطنت کو شدید افراطِ زر کا شکار کردیا اور عثمانی معیشت کا وہی حال ہوا جس کی ہلکی پھلکی مثال ہم آج کل اپنے ارد گرد دیکھ رہے ہیں۔

اصلاحات کی مخالفت کی مثال اس امر سے لیجیے کہ ''ینی جری'' عثمانی افواج کا جدید ترین اور ایلیٹ حصہ ہوتا تھا۔ ملٹری کی تاریخ میں سب سے پہلے ان کا اپنا فوجی بینڈ ہوتا تھا جو میدانِ جنگ میں ان کے ساتھ جاتا اور جنگی نغموں کے ذریع فوجیوں کی ہمت بڑھاتا (اس بینڈ کو آپ 23 مارچ 2017 کی پریڈ میں بھی دیکھ چکے ہوں گے)۔ ان میں سے عثمانی بیوروکریسی کےلیے اپنے ہنر میں ماہر افراد تیار ہوتے اور وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ انہی کےلیے مختص ہوتا۔ ان کے مرتب کردہ نظام کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ سولہویں صدی کے وسط تک خلافتِ عثمانیہ نہ صرف یورپ کی سب سے بڑی اور طاقتور سلطنت تھی بلکہ اس کا دائرہ اختیار بغداد سے لے کر الجزائر تک اور بوڈاپسٹ سے عدن تک، تین براعظموں پر پھیلا ہوا تھا۔ اس قدر وسیع سلطنت کا نظام حکومت ''ینی جری'' کے افسران ہی سنبھالتے تھے۔

مگر اس ینی جری پر وہ وقت بھی آیا کہ جب انہیں ہزیمت اور پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن انہوں نے زمانے کی رفتار کا ساتھ دینے سے انکار کرتے ہوئے ماضی میں رہنے کو ترجیح دی اور ان کا دردناک انجام تاریخ کے صفحات میں لکھا جاچکا ہے۔

(جاری ہے)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔