لیبیا کا بحران اور ترکی
لیبیا کی السراج حکومت کو جنرل خلیفہ حفتار کی مشرقی فورسز کی طرف سے حملے کا خطرہ ہے جس کا ترکی توڑ کرنا چاہتا ہے۔
ترکی اپنے اتحادی شامی دستوں کو لیبیا بھیجنے پر غور کر رہا ہے کیونکہ اس طرح وہ انھیں حکومت کی طرف سے منصوبہ بند حمایت فراہم کرنا چاہتا ہے جب کہ طرابلس میں لیبیا کی حکومت دباؤ میں آئی ہوئی ہے۔ اس کا انکشاف ترکی کے سینئر ذرایع کی طرف سے کیا گیا ہے کیونکہ اس پیچیدہ صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے اس قسم کی حکمت عملی ضروری محسوس کی جا رہی ہے۔
صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ فیاض السراج کی بین الاقوامی طور پر تسلیم کی جانے والی لیبائی حکومت کی طرف سے اس قسم کی درخواست موصول ہونے پر ترکی یہ اقدام کرے گا۔ لیبیا کی السراج حکومت کو جنرل خلیفہ حفتار کی مشرقی فورسز کی طرف سے حملے کا خطرہ ہے جس کا ترکی توڑ کرنا چاہتا ہے۔ اس حملے کا مقصد ترکی کی لیبیا میں نجی سرمایہ کاری کا تحفظ کرنا ہے۔
اس کے ساتھ ہی وہ بحیرہ روم کے راستے ترکی تک آنے والی توانائی کا تحفظ بھی چاہتا ہے لیکن یہاں پر ترکی کا ان دیگر غیر ملکی قوتوں سے بھی مقابلے کا امکان موجود ہے جو اس خطے میں موجود ہیں۔ انقرہ حکومت کے دو سینئر حکام اور دو سیکیورٹی افسروں نے کہا ہے کہ ترکی نے لیبیا میں لڑائی کے لیے ابھی شامی جنگجوؤں کو تیار نہیں کیا البتہ اس مقصد کے لیے رضا کاروں کو تیار کیا جا رہا ہے البتہ ان کی تعداد کے بارے میں ہنوز کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا، ترکی نے شام میں داخل ہونے والے کرد ملیشیا کے ارکان کی حمایت کی ہے۔
یہ ملیشیا شامی صدر بشار الاسد کی مخالف ہے جو شمال مغربی صوبے ادلب میں گزشتہ 9 برس سے خانہ جنگی میں مصروف ہیں، اس امر کی بھی وضاحت نہیں ہو سکی کہ کیا انقرہ حکومت شامی جنگجوؤں کی بھی حمایت کرے گی یا نہیں۔ حالانکہ اکتوبر میں شمال مشرق میں شامی جنگجوؤں کو بھی لیبیا میں لڑنے کے لیے جمع کیا جائے گا۔ یہاں حفتار فورسز سے ان کا مقابلہ ہے جنھیں روس اور مصر کی حمایت بھی حاصل ہے بلکہ یو اے ای اور اردن کی حربی حمایت بھی حاصل ہے لیکن حالیہ عرصے میں ان تمام فورسز کی کامیابیاں بہت محدود ہیں یہ تمام جنگجو طرابلس کے وسط تک پہنچنے میں بھی کامیاب نہ ہو سکے۔
شام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر نگاہ رکھنے کے لیے جو رسد گاہ بنائی گئی ہے اس کا دعویٰ ہے کہ ترکی کے حمایت یافتہ 300 شامی جنگجوؤں کو لیبیا روانہ کر دیا گیا ہے ۔ ترک فوج 2006سے شام میں برسرپیکار ہے۔ انھیں لیبیا میں بہت اچھی کارکردگی دکھانے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ ترکی نے آزاد شام فوج (ایف ایس اے) فری سیریا آرمی قائم کر رکھی ہے۔
ترک وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ان کا ملک لیبیا کو کسی بحران میں مبتلا ہوتا نہیںدیکھنا چاہتا۔ بہرحال ترکی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اردگر گرد ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔
صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ فیاض السراج کی بین الاقوامی طور پر تسلیم کی جانے والی لیبائی حکومت کی طرف سے اس قسم کی درخواست موصول ہونے پر ترکی یہ اقدام کرے گا۔ لیبیا کی السراج حکومت کو جنرل خلیفہ حفتار کی مشرقی فورسز کی طرف سے حملے کا خطرہ ہے جس کا ترکی توڑ کرنا چاہتا ہے۔ اس حملے کا مقصد ترکی کی لیبیا میں نجی سرمایہ کاری کا تحفظ کرنا ہے۔
اس کے ساتھ ہی وہ بحیرہ روم کے راستے ترکی تک آنے والی توانائی کا تحفظ بھی چاہتا ہے لیکن یہاں پر ترکی کا ان دیگر غیر ملکی قوتوں سے بھی مقابلے کا امکان موجود ہے جو اس خطے میں موجود ہیں۔ انقرہ حکومت کے دو سینئر حکام اور دو سیکیورٹی افسروں نے کہا ہے کہ ترکی نے لیبیا میں لڑائی کے لیے ابھی شامی جنگجوؤں کو تیار نہیں کیا البتہ اس مقصد کے لیے رضا کاروں کو تیار کیا جا رہا ہے البتہ ان کی تعداد کے بارے میں ہنوز کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا، ترکی نے شام میں داخل ہونے والے کرد ملیشیا کے ارکان کی حمایت کی ہے۔
یہ ملیشیا شامی صدر بشار الاسد کی مخالف ہے جو شمال مغربی صوبے ادلب میں گزشتہ 9 برس سے خانہ جنگی میں مصروف ہیں، اس امر کی بھی وضاحت نہیں ہو سکی کہ کیا انقرہ حکومت شامی جنگجوؤں کی بھی حمایت کرے گی یا نہیں۔ حالانکہ اکتوبر میں شمال مشرق میں شامی جنگجوؤں کو بھی لیبیا میں لڑنے کے لیے جمع کیا جائے گا۔ یہاں حفتار فورسز سے ان کا مقابلہ ہے جنھیں روس اور مصر کی حمایت بھی حاصل ہے بلکہ یو اے ای اور اردن کی حربی حمایت بھی حاصل ہے لیکن حالیہ عرصے میں ان تمام فورسز کی کامیابیاں بہت محدود ہیں یہ تمام جنگجو طرابلس کے وسط تک پہنچنے میں بھی کامیاب نہ ہو سکے۔
شام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر نگاہ رکھنے کے لیے جو رسد گاہ بنائی گئی ہے اس کا دعویٰ ہے کہ ترکی کے حمایت یافتہ 300 شامی جنگجوؤں کو لیبیا روانہ کر دیا گیا ہے ۔ ترک فوج 2006سے شام میں برسرپیکار ہے۔ انھیں لیبیا میں بہت اچھی کارکردگی دکھانے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ ترکی نے آزاد شام فوج (ایف ایس اے) فری سیریا آرمی قائم کر رکھی ہے۔
ترک وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ان کا ملک لیبیا کو کسی بحران میں مبتلا ہوتا نہیںدیکھنا چاہتا۔ بہرحال ترکی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اردگر گرد ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔