سال رفتہ کے اشاریے نئے سال کے خواب

وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں تبدیلی کے نعرے کے تحت سماجی اور معاشی سمت میں پیش رفت بھی دیکھی گئی۔


Editorial January 01, 2020
وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں تبدیلی کے نعرے کے تحت سماجی اور معاشی سمت میں پیش رفت بھی دیکھی گئی۔ فوٹو: فائل

سال رفتہ 2019 کیسے گزرا اور نئے سال کا سورج اپنے افق پر وطن کے لیے کیا خواب سجائے طلوع ہو رہا ہے، اس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے، کیونکہ گزرے ایام میں قوم نے بڑے نشیب وفراز دیکھے ہیں۔ نئی حکومت کے تمام اقدامات ، تجربات ، ترقیاتی منصوبے اور پلان بھی تدریجی مراحل میں ہیں۔

انتظامی، اقتصادی، مالیاتی ، قانونی ، عدالتی اور سماجی شعبوں میں بہتری کے اقدامات جزوی طور پر نتیجہ خیز ثابت ہوئے، وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں تبدیلی کے نعرے کے تحت سماجی اور معاشی سمت میں پیش رفت بھی دیکھی گئی، صحت ، ریونیو، معیشت کی بحالی کے لیے کثیرالمقاصد پالیسیوں پر وفاقی کابینہ کے ایجنڈوں پر بحث ہوئی۔

غیر ملکی تعلقات ، خارجہ پالیسی، داخلی امن واستحکام اور تعلیم ، روزگار، صحت کے بہت سے شعبے سمت کی درستگی کے منتظر رہے، عوام کو مہنگائی نے سال بھر مشکلات سے دوچار کیا، حکومت اور اپوزیشن کے لیے سال گزشتہ کشمکش ،کشیدگی ، الزام تراشی اور محاذ آرائی کی انتہا کا سال تھا ، عوام جمہوری ثمرات کی آس میں جیتے رہے ، میڈیا کا کردار متنوع رہا ، عوام کی نبض پر اینکرز کے ہاتھ تھے۔

خطے میں ایک بھونچال کی سی کیفیت رہی، کشمیر سمیت بے شمار واقعات وحوادث نے حکمرانوں کے لیے چیلنجز ابھارے، بھارت نے پاکستان سے دشمنی کے انداز نہیں بدلے، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سال رفتہ موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے برصغیر کے بحران زدہ محل وقوع کے لیے ایک ویلن کی حیثیت میں ہزیمتوں سے دوچار رہے۔

پاکستان کو اندرون اور بیرون ملک ایک فعال خارجہ اور داخلہ حکمت عملی کی سخت ضرورت محسوس ہوئی، کئی مواقعے ملے، پاکستان نے پیش قدمی کی اورکئی شعبوں میں عوام حکومت سے مایوس اور سسٹم کے ڈیلیور نہ کرنے مضطرب ہوئے۔

یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ پاکستان میں صحت کا شعبہ انتہائی پستی کا شکار ہے،کسی بھی حکومت نے اس اہم شعبے کی اہمیت کواپنی ترجیحات میں شامل ہی نہیںکیا،ملک میں 18ویں ترمیم کے بعد اور 9سال گزرنے کے باوجود نیشنل ہیلتھ پالیسی مرتب ہی نہیںکی جاسکی۔ گزشتہ 10سال میں مختلف امراض میں 100فیصد اضافہ ہوا۔

پاکستان میں سیاسی پیچیدگیوںکی طرح صحت کے مسائل بھی ہولناک رہے، سرکاری اسپتالوں میں صحت کی سہولتیں کم ہوکر40 فیصد رہ گئیں جب کہ نجی اسپتالوں میں 60 فیصد صحت کی سہولتیں فراہم کی گئیں۔ ڈینگی وائرس کا شکار ہونے والے مریضوں کو سرکاری اسپتالوں میں پلیٹ لیٹ نہ ملنے کی شکایت رہی ،22 کرڑوکی آبادی کے لیے چند ہزار سرکاری علاج گاہیں اوران میں بھی ادویات ، ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل اسٹاف سمیت بیڈز اور دیگر مشینری کی کمی نے صحت کی مسائل کو مزید گمبھیر بنا دیا ۔

لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ سال گزشتہ اور نئے سال کی آمد کے حوالے سے ایک متوازی ، بیلنسنگ اور امید افزا منظر نامہ پیش کیاجا سکتا ہے، ایسے اشاریے دیے جاسکتے ہیں کہ قوم کو سال رفتہ میں کیا کھویا اور کیا پایا کا میزانیہ تیارکرنے میں دشواری نہ ہو۔

قوموں کی زندگی میں ایک سال کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، جب کہ بحرانی دور اور جنگ وامن کے دورانیے میں تو ایک دن کی غلطی صدی کے برابر ہونے والی شکست کے داغ کو نہیں دھو سکتی جب کہ ہم من حیث القوم اپنی تاریخ ، سیاسی شب وروز اور سیاسی و معاشی تجربات سے کچھ سیکھنے کے لیے ہر گز تیارنہیں ہوتے۔

بہر حال وقت کی مہلت ہمارے لیے نعمت غیر مترقبہ ہے، صورتحال زوال آمادگی ، انارکی، یاسیت اور بے یقینی کی تاریکی کی نہیں ہے، گزرنے والے سال سے ہمارے حکمراں، عوام اور معاشی مسیحا اب بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کو ماہرین اقتصادیات نے 2035 تک طاقتور قرار دینے کا عندیہ دیا ہے اور ماہرین علم نجوم بھی کہتے ہیں کہ نیا سال خوشخبریاں لائے گا اور معیشت بہتر ہوگی۔بقول شاعر

دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض

اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں ایک اعصاب شکن اننگزکا آغاز کیا۔ تاہم حکومت نے تبدیلی کا نعرہ دیا اور سیاسی و سماجی شعبے میں ابتدائی کام دھیمے انداز میں شروع کیے ، حکومت کا ٹارگٹ کرپشن سے پاک معاشرے اور شفاف انتظامی ڈھانچے کی تشکیل تھا اور اس مقصد سے عمران خان نے اپنی ٹیم کے ساتھ بسم اللہ کی۔

صحت ، تعلیم، معیشت اور امن وامان کی صورتحال کی بہتری کے لیے اقدامات کیے، میڈیا کا رسپانس مناسب تھا، سیاسی موسم بھی ''دیکھو اور انتظار کرو'' ویٹ اینڈ سی جیسا تھا، قوم اور اپوزیشن کو حکومت کی طرف سے جستہ جستہ یہ پیغام ملتا رہا کہ وہ حکومت کو کام کرنے دیں۔ وزیراعظم نے پہلے سو دن کا ٹارگٹ دیا، عوام کو ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھر بناکر دینے کا اعلان کیا گیا، معیشت کی بحالی کو اولین ٹاسک قراردیا گیا۔

وفاقی کابینہ کی تشکیل ہوئی تو سرائیکی صوبے کے قیام ، سندھ حکومت کے ساتھ بہتر تعلقات کارکے امکانات ، خیبر پختونخوا کے ترقیاتی ماڈل کی پیروی، بلوچستان میں استحکام اورپنجاب میںعثمان بزدارکی سرکردگی میں ترقی کے نئے دورکا پیغام دیا گیا۔ پی ٹی آئی کے لیے مسلم لیگ ن اور شہباز شریف کے ترقیاتی ماڈل کی جگہ پی ٹی آئی کے ترقیاتی نقشے کو متعارف کرانا، ایک اہم ہدف ٹھہرا، صوبائی اسمبلیوں کو الگ الگ تعلیمی، معاشی اور سیاسی اہداف دیے گئے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشی ترقی حکومت کے لیے اساسی ایجنڈا تھا، اور اس کے لیے وزیر اعظم نے بین الاقوامی دورے کیے، آئی ایم ایف سے پروگرام کی منظوری حاصل کی، ایف اے ٹی ایف سے مذاکرات ہوئے، دوست اور برادر ملکوںسے مالی تعاون کے لیے دورے کیے اور سعودی عرب اور یو اے ای سے معاہدے کیے، ایران سے تعلقات میں تازگی اور دو طرفہ اعتماد میں پیش رفت دیکھی گئی۔ لیکن چین نے جس قسم کی معاونت مہیا کی اسے کسی طور فراموش نہیں کیا جاسکتا، اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے چینی کمپنیوں کو پاکستان میں ترقی کا جال پھیلانے پر مامورکیا گیا۔ سی پیک ملک کے لیے گیم چینجر منصوبہ قرار دیا گیا، اور وہ اب بھی ہے۔

لیکن اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ سال گزشتہ سیاسی، معاشی اور عدالتی اعتبار سے ہنگامہ خیز رہا۔ احتساب کے عمل نے سیاسی دھند میں میں بے پناہ اضافہ کیا، پارلیمنٹ کی بالادستی برائے نام رہی، عدالتی افق پر آرمی چیف کی توسیع اور جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے سزائے موت کے فیصلے نے ارتعاش پیدا کیا۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ نے کھلبلی مچا دی۔ حکومت اور اپوزیشن میں جاری کشیدگی میں مزید شدت آئی، وزیراعظم کا کہنا ہے کہ وہ کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑیں گے۔

اپوزیشن کی دو بڑی پارٹیز مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے تقریباً تمام فرنٹ لائن لیڈرشپ جیل میں بند رہی، نواز شریف باوجود سزا یافتہ ہونے کے بیماری کے باعث ضمانت پر رہا ہوکر لندن چلے گئے، سابق صدرآصف زرداری اور ان کے متعدد سیاسی دوست اور وزرا پابند سلال ہیں ، ان پر کرپشن ، آمدنی سے زیادہ اثاثوں، جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کے کیسز عدالتوں میں آج بھی زیر سماعت ہیں، معیشت ڈانواں ڈول ہے، عوام بجلی اورگیس کی لوڈ شیڈنگ اور بھاری بلوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔

تعلیم اور امن عامہ کی صورتحال سواالیہ نشان ہے۔ کراچی مریض بنا ہوا ہے، سیاسی محاذ آرائی، مہنگائی ، بیروزگاری اور جرائم کے سدباب پر کوئی فیصلہ کن اقدامات سامنے نہیں آئے۔ کشمیر کی اندوہناک صورتحال ملکی سیاسی سیناریوں پر چھائی ہوئی ہے۔ تاہم وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں کشمیر پر اپنے خطاب میں قومی اور ملی امنگوں کی بھرپور ترجمانی کی۔ خطے اور عالمی طاقتوں سے پاکستان کو ایک مکالمہ کا انتظار ہے جب کہ سیاسی مبصرین کے مطابق حکومت کا اپوزیشن سے بے لاگ سیاسی مکالمہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں