نیا سال نئی صبح نئی اُمیدیں
بالآخر سال 2019بھی اچھی اور بری یادوں کو اپنے دامن میں سمیٹے تاریخ کا حصہ بن گیا۔
بالآخر سال 2019بھی اچھی اور بری یادوں کو اپنے دامن میں سمیٹے تاریخ کا حصہ بن گیا۔ زندگی رواں دواں ہے۔ وقت برا ہو یا اچھا بہرحال گزرنا اس کا مقدر ہے۔
2020 میں ہم ایسے عالم میں داخل ہو رہے ہیں کہ 13کروڑ سے زائد پاکستانی غذائی عدم تحفظ سے دوچار ہیں، انفلیشن ریٹ 13فیصد سے زائد ہو چکا ہے، تعلیمی پسماندگی میں اضافہ ہو چکا ہے، صحت کی سہولیات سے عوام مطمئن نہیں، لوگوں کو عدالتوں سے انصاف نہیں مل رہا، پولیس تفتیش ناقص ترین ہو چکی ہے، پس عوام نا اُمید ہیں۔ ایسے میں ہمیں ماضی بھول کر آگے کی جانب دیکھنا ہوگا۔ بقول شاعر
سفر حیات کا تاریکیوں میں گزرا ہے
نئے چراغ تمنا جلائیں گے ہم لوگ
جو سال گزرا ہے مداوا نہ تھا کسی غم کا
یہ سال نو ہے اسے آزمائیں گے ہم لوگ
مرض کے بعد صحت ، برائی کے ساتھ اچھائی، ستم کے ساتھ کرم، زخم کے ساتھ مرہم ، بدی کے ساتھ نیکی اور خزاں کے ساتھ بہار کی روایت ابھی ختم نہیں ہوئی اس لیے مایوسی کفر ہے۔ ہم سب کو بدلنا ہوگا، جب تک ہم نہ بدلیں گے تبدیلی نہیں آسکتی۔ میرا دل کہتا ہے کہ موجودہ حکومت کے آنے والے ساڑھے تین سال عوام کو ایک سسٹم مہیا کریں گے۔اور اُمید ہے 2020میں ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پہلا قدم ہی اٹھایا جائے۔
کیوں کہ جس طرح گزشتہ سال احتساب میں گزرا،کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ بڑے بڑے کرپٹ لوگ حوالات کے پیچھے ہوں گے۔الغرض آسمان کی آنکھ نے بڑے بڑے مقتدر اور با اثرلوگوں کو عدالتوں کے کٹہروں میں کھڑے دیکھا۔ جیل کی کوٹھڑی میں تنہا سوچوں میں گم پایا۔ اربوں روپے کی خورد برد کے حقائق سامنے آئے۔ خلق خدا حیرت زدہ ہوگئی۔
نئے حکمرانوں کو 5سال کے لیے منتخب کیا۔ بنیادی مقصد تھا کہ سرکاری خزانے کی لوٹ مار روکی جائے۔ چالیس برس کی چالبازیاں، بدعنوانیاں۔چند مہینے میں تو صرف گرد جھاڑی جاسکتی ہے۔ اس کے نیچے کیا کچھ چھپا ہے، اسے اتنی جلد صاف نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے اپنے تجربے اور مشاہدے کے تناظر میں بلا خوفِ تردید کہہ سکتا ہوں کہ2020مشکلات سے نمٹنے کا سال ہوگا۔
حکمرانوں کے لیے بھی، اور رعایا کے لیے بھی۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ امید بھی ہے کہ حکمرانوں کی نیت درست ہے۔ وہ اپنی سمت متعین کرنے کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔ عام پاکستانیوں کو اگر چہ اب بھی مایوس کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں۔کچھ لوگ اب تک اپنی تجوریاں بھرتے آئے ہیں۔ اپنے مفادات کی تکمیل کرتے رہے۔ غیر ملکی قرضے جن منصوبوں کے لیے حاصل کیے گئے وہ نا مکمل رہے۔ لیکن ان کی املاک میں توسیع ہوتی رہی۔ سمندر پار ان کی بلڈنگیں کھڑی ہوتی رہیں۔ اس کا ثبوت کئی ہزار ارب روپے کے بیرونی قرضے ہیں اور پاکستانی روپے کی ڈالر کے سامنے گرتی ہوئی قیمت۔
اب 2020کا پہلا تقاضا تو یہ ہوگا کہ حکومت عوام کے درمیان اپنا اعتماد بحال کرے، معیشت کو آکسیجن فراہم کی جائے۔ روپے کو سہارا دے کر ڈالر کے مقابلے میں کھڑا کیا جائے۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے کراں وسائل سے نوازا ہے۔
افرادی قوت بھی بے مثال ہے۔یہی پاکستانی جب خلیجی اور یورپی ریاستوں، سعودی عرب، بحرین ، دبئی، لندن، مانچسٹراور کینیڈا جاتے ہیں تو وہاں ان کی کارکردگی لائق صد تحسین ہوتی ہے۔ مانچسٹر کے کارخانے، دبئی کے تجارتی مراکز، سعودی عرب کی فیکٹریاںاور تعلیمی ادارے پاکستانی ماہرین کی صلاحیتوں سے ہی تیز رفتار ہیں۔ اپنی افرادی قوت کو ہم اگر پاکستان میں ویسا ہی حوصلہ افزا ماحول فراہم کرسکیں تو ہمارے نوجوان یہاں بھی صحراؤں کو گل و گلزار کرسکتے ہیں۔
لہٰذااُمید کی جاسکتی ہے کہ حکومتی وزراء 2020 میں ''حریم شاہ'' کے سحر سے باہر نکلیں گے اور اقتدار کی چکا چوند روشنیوں میں غائب ہونے کے بجائے اس ملک کے لیے کچھ کرتے نظر آئیں گے ، ان وزیروں سے صرف یہ گزارش ہے کہ یہ وہ ملک ہے جس کے اقتصادی ماہرین سے دنیا بھر کی حکومتیں اپنے مسائل کے حل کے لیے مشاورت کرتی ہیں۔
عالمی مالیاتی ادارے ان کی خدمات مہنگے داموں حاصل کرتے ہیں۔ان سے مل کر حکومت کو آیندہ کم از کم پندرہ سال کا روڈ میپ بنانا چاہیے۔ پاکستان کے لوگوں کو ہی یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ اپنے بیٹوں، بیٹیوں، پوتوں، پوتیوں، نواسوں اور نواسیوں کے لیے کیسا ملک چاہتے ہیں۔
سیاسی طور پر کیسا؟ مذہبی حوالے سے کیسا؟ صنعت و تجارت کے اعتبار سے کیسا؟ پاکستان اپنے دفاعی اور عسکری امور میں تو دنیا کے ساتھ ہے بلکہ کئی معاملات میں بہت سے ملکوں سے آگے۔ پاکستان کی تینوں افواج جدید ترین ہتھیاروں سے آشنا ہیں۔ خارجہ پالیسی میںجو مقام ایک ڈیڑھ سال میں ہم نے حاصل کیا تھا وہ کوالالمپور سمٹ کانفرنس میں غائب ہو گیا۔
اس لیے اکیلے عمران خان کی ذمے داری نہیں کہ وہ 2020 کو ہمارے لیے ایک کارگر دور بنا دے بلکہ یہ ہم سب کی کوشش ہونی چاہیے کہ ماضی کو چھوڑ کر آگے بڑھیں۔ یہی ہمارا وژن ہونا چاہیے اور یہی ہمارا مقصد !
2020 میں ہم ایسے عالم میں داخل ہو رہے ہیں کہ 13کروڑ سے زائد پاکستانی غذائی عدم تحفظ سے دوچار ہیں، انفلیشن ریٹ 13فیصد سے زائد ہو چکا ہے، تعلیمی پسماندگی میں اضافہ ہو چکا ہے، صحت کی سہولیات سے عوام مطمئن نہیں، لوگوں کو عدالتوں سے انصاف نہیں مل رہا، پولیس تفتیش ناقص ترین ہو چکی ہے، پس عوام نا اُمید ہیں۔ ایسے میں ہمیں ماضی بھول کر آگے کی جانب دیکھنا ہوگا۔ بقول شاعر
سفر حیات کا تاریکیوں میں گزرا ہے
نئے چراغ تمنا جلائیں گے ہم لوگ
جو سال گزرا ہے مداوا نہ تھا کسی غم کا
یہ سال نو ہے اسے آزمائیں گے ہم لوگ
مرض کے بعد صحت ، برائی کے ساتھ اچھائی، ستم کے ساتھ کرم، زخم کے ساتھ مرہم ، بدی کے ساتھ نیکی اور خزاں کے ساتھ بہار کی روایت ابھی ختم نہیں ہوئی اس لیے مایوسی کفر ہے۔ ہم سب کو بدلنا ہوگا، جب تک ہم نہ بدلیں گے تبدیلی نہیں آسکتی۔ میرا دل کہتا ہے کہ موجودہ حکومت کے آنے والے ساڑھے تین سال عوام کو ایک سسٹم مہیا کریں گے۔اور اُمید ہے 2020میں ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پہلا قدم ہی اٹھایا جائے۔
کیوں کہ جس طرح گزشتہ سال احتساب میں گزرا،کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ بڑے بڑے کرپٹ لوگ حوالات کے پیچھے ہوں گے۔الغرض آسمان کی آنکھ نے بڑے بڑے مقتدر اور با اثرلوگوں کو عدالتوں کے کٹہروں میں کھڑے دیکھا۔ جیل کی کوٹھڑی میں تنہا سوچوں میں گم پایا۔ اربوں روپے کی خورد برد کے حقائق سامنے آئے۔ خلق خدا حیرت زدہ ہوگئی۔
نئے حکمرانوں کو 5سال کے لیے منتخب کیا۔ بنیادی مقصد تھا کہ سرکاری خزانے کی لوٹ مار روکی جائے۔ چالیس برس کی چالبازیاں، بدعنوانیاں۔چند مہینے میں تو صرف گرد جھاڑی جاسکتی ہے۔ اس کے نیچے کیا کچھ چھپا ہے، اسے اتنی جلد صاف نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے اپنے تجربے اور مشاہدے کے تناظر میں بلا خوفِ تردید کہہ سکتا ہوں کہ2020مشکلات سے نمٹنے کا سال ہوگا۔
حکمرانوں کے لیے بھی، اور رعایا کے لیے بھی۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ امید بھی ہے کہ حکمرانوں کی نیت درست ہے۔ وہ اپنی سمت متعین کرنے کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔ عام پاکستانیوں کو اگر چہ اب بھی مایوس کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں۔کچھ لوگ اب تک اپنی تجوریاں بھرتے آئے ہیں۔ اپنے مفادات کی تکمیل کرتے رہے۔ غیر ملکی قرضے جن منصوبوں کے لیے حاصل کیے گئے وہ نا مکمل رہے۔ لیکن ان کی املاک میں توسیع ہوتی رہی۔ سمندر پار ان کی بلڈنگیں کھڑی ہوتی رہیں۔ اس کا ثبوت کئی ہزار ارب روپے کے بیرونی قرضے ہیں اور پاکستانی روپے کی ڈالر کے سامنے گرتی ہوئی قیمت۔
اب 2020کا پہلا تقاضا تو یہ ہوگا کہ حکومت عوام کے درمیان اپنا اعتماد بحال کرے، معیشت کو آکسیجن فراہم کی جائے۔ روپے کو سہارا دے کر ڈالر کے مقابلے میں کھڑا کیا جائے۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے کراں وسائل سے نوازا ہے۔
افرادی قوت بھی بے مثال ہے۔یہی پاکستانی جب خلیجی اور یورپی ریاستوں، سعودی عرب، بحرین ، دبئی، لندن، مانچسٹراور کینیڈا جاتے ہیں تو وہاں ان کی کارکردگی لائق صد تحسین ہوتی ہے۔ مانچسٹر کے کارخانے، دبئی کے تجارتی مراکز، سعودی عرب کی فیکٹریاںاور تعلیمی ادارے پاکستانی ماہرین کی صلاحیتوں سے ہی تیز رفتار ہیں۔ اپنی افرادی قوت کو ہم اگر پاکستان میں ویسا ہی حوصلہ افزا ماحول فراہم کرسکیں تو ہمارے نوجوان یہاں بھی صحراؤں کو گل و گلزار کرسکتے ہیں۔
لہٰذااُمید کی جاسکتی ہے کہ حکومتی وزراء 2020 میں ''حریم شاہ'' کے سحر سے باہر نکلیں گے اور اقتدار کی چکا چوند روشنیوں میں غائب ہونے کے بجائے اس ملک کے لیے کچھ کرتے نظر آئیں گے ، ان وزیروں سے صرف یہ گزارش ہے کہ یہ وہ ملک ہے جس کے اقتصادی ماہرین سے دنیا بھر کی حکومتیں اپنے مسائل کے حل کے لیے مشاورت کرتی ہیں۔
عالمی مالیاتی ادارے ان کی خدمات مہنگے داموں حاصل کرتے ہیں۔ان سے مل کر حکومت کو آیندہ کم از کم پندرہ سال کا روڈ میپ بنانا چاہیے۔ پاکستان کے لوگوں کو ہی یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ اپنے بیٹوں، بیٹیوں، پوتوں، پوتیوں، نواسوں اور نواسیوں کے لیے کیسا ملک چاہتے ہیں۔
سیاسی طور پر کیسا؟ مذہبی حوالے سے کیسا؟ صنعت و تجارت کے اعتبار سے کیسا؟ پاکستان اپنے دفاعی اور عسکری امور میں تو دنیا کے ساتھ ہے بلکہ کئی معاملات میں بہت سے ملکوں سے آگے۔ پاکستان کی تینوں افواج جدید ترین ہتھیاروں سے آشنا ہیں۔ خارجہ پالیسی میںجو مقام ایک ڈیڑھ سال میں ہم نے حاصل کیا تھا وہ کوالالمپور سمٹ کانفرنس میں غائب ہو گیا۔
اس لیے اکیلے عمران خان کی ذمے داری نہیں کہ وہ 2020 کو ہمارے لیے ایک کارگر دور بنا دے بلکہ یہ ہم سب کی کوشش ہونی چاہیے کہ ماضی کو چھوڑ کر آگے بڑھیں۔ یہی ہمارا وژن ہونا چاہیے اور یہی ہمارا مقصد !