جب چڑیاں سارا کھیت چگ چکی ہونگی
ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اِس ملک میں کس ادارے کو سارے اداروں پر فوقیت حاصل ہے۔
لاہور:
ملکی اداروں کو قابل اعتبار اور آزاد و خود مختار بنانے کے دعوے تو ہماری ہر حکومت کرتی رہی ہے لیکن انھیں اپنے مذموم عزائم ، مقاصد اور مفادات کے لیے استعمال کر کے انھیں بے اعتبار اور بے وقعت بنانے میں بھی کوئی کسر اُٹھا نہ رکھنے کا سہرا بھی اِنہی حکومتوں کے سر جاتا ہے۔
دستور پاکستان کے تحت پارلیمنٹ ایک واحد ادارہ ہے جسے تمام اداروں پر فوقیت حاصل ہے لیکن چاہے جمہوری حکومت ہو یا غیر جمہوری پارلیمنٹ ہی وہ واحد ادارہ ہے جسے ہمارے یہاں سب سے کم اہمیت دی گئی۔ یہ سلسلہ کوئی آج کا پیدا کردہ نہیں ہے۔ وطن عزیز کو معرض وجود میں آنے کے دن سے ہی پارلیمنٹ کی بے توقیری اور بے وقعتی کے سامان پیدا ہونا شروع ہوگئے تھے۔
دیکھا جائے تو ہماری ہر حکومت دعویٰ تو یہی کرتی ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہے لیکن حقیقت اِس کے بالکل برعکس ہے۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اِس ملک میں کس ادارے کو سارے اداروں پر فوقیت حاصل ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط اور بے جا نہ ہوگا کہ ملک کے تمام ادارے اُسی کے زیر اثر ہیں۔
کبھی کبھی کوئی ادارہ اپنی اہمیت اور خود مختاری کے بل بوتے پر ہاتھ پاؤں مارنے لگتا ہے تو بہت جلد اُسے نکیل ڈال کر قابو کر لیا جاتا ہے۔ انتظامیہ ، مقننہ اور فوج ہمارے تین بڑے مقدس ادارے ہیں۔ ایف آئی اے اور ایف بی آر سمیت بہت سے دیگر چھوٹے ادارے بھی ہیں جو براہ راست حکومت یعنی انتظامیہ کے زیر تحت اپنا اپنا کام کرتے ہیں۔
نیب اور الیکشن کمیشن کے بارے میں تاثر تو یہ دیا جاتا ہے کہ یہ مکمل خود مختار ادارے ہیں۔ اِن کے سربراہ یعنی چیئرمین اور چیف کا انتخاب آئین کے تحت وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر دونوں مل کر کرتے ہیں اور بظاہر یہ گمان ہوتا ہے کہ جب چیئرمین اور چیف بنائے جانے والا شخص اِس عہدے پر فائز ہی کسی کی مہربانیوں اور ذرہ نوازیوں کی وجہ ہوتا ہے تو وہ اُن کے خلاف فیصلے کیونکر کرسکتا ہے، مگر نہیں ایسا ہر گز نہیں ہوتا ہے۔
چیئرمین نیب بھی اگر چاہے تو بہت کچھ کرسکتا ہے۔ نیب کے موجودہ چیئرمین نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ اپنا انتخاب کرنے والے کسی شخص کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور تمام فیصلے دیکھا جائے تو وہ اُن دونوں حضرات کے خلاف ہی کر رہے ہیں جنھوں نے انھیں اِس عہدے پر پہنچایا تھا۔ خان صاحب بھی اِسی لیے تو اپنی اپوزیشن کو یہ طعنہ دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ چیئرمین نیب کا انتخاب تو میاں نواز شریف اور خورشید شاہ نے خود کیا تھا، اب کیوں شور مچا رہے ہیں۔
جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے ، یہ بات کھل کر عیاں ہوتی جا رہی ہے کہ ہمارے یہاں آزاد اور خود مختارکہلانے والی جمہوری حکومتیں بھی ملکی فیصلے کرنے میں اتنی آزاد اور خود مختار نہیں ہوا کرتیں جتنی وہ دیکھی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ملک کی خارجہ پالیسی تو شروع دن سے ہی اُن کا ڈومین رہا ہی نہیں۔ پالیسی تو دور کی بات ہے وہ اپنا وزیر خارجہ بھی اپنی مرضی اور پسند سے نہیں بنا سکتیں۔
میاں نوازشریف اگر اپنے سابقہ دور میں ساڑھے چار سال تک کوئی وزیر خارجہ نامزد نہ کرسکے تو اُس کے پیچھے بھی اُن کی ایسی ہی مجبوریاں تھیں۔ طرفہ تماشہ یہ کہ وہ اپنی اِن مجبوریوں کا کسی سے تذکرہ بھی نہیں کرسکتے۔
مجبوریوں اورکمزوریوں کا یہ سلسلہ صرف اپنی سرحدوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ سات سمندر پار عرب ممالک سے ہوتا ہوا واشنگٹن کے بلند و بانگ اور طاقتور ایوانوں سے جا جڑتا ہے۔ میاں نواز شریف کی حکومت تک تو ہم وزارت خارجہ سمیت کچھ قومی امور پر دوسروں کی اطاعت اور تابعداری پر مجبور تھے لیکن خان صاحب تو اِس قابل بھی نہیں رہے کہ اپنی معاشی اور اقتصادی پالیسی بھی خود ترتیب دے سکیں اور تو اور ملکی بجٹ بنانے کے لیے بھی انھیں اپنی ٹیم میں سے کوئی قابل اور ماہر شخص دستیاب نہیں ہوتا اور وہ باہر سے درآمد کردہ لوگوں کو بجٹ بنانے پر مامور کر دیتے ہیں۔ وہ اتنے تابعدار اور فرمانبردار ہیں کہ اپنا دکھ کسی سے شیئر بھی نہیں کرتے۔ اُن کی ساری جوانمردی اور دلیری صرف اپنی اپوزیشن کے خلاف دکھائی دیتی ہے۔
وہ ایک اشارے پر دوڑے دوڑے سعودی عرب بھی پہنچ جاتے ہیں اور واپس آکر کسی سے کوئی تذکرہ بھی نہیں کرتے۔ اپنی کابینہ کو اعتماد میں لینا تو دورکی بات ہے وہ اپنے اُن دوست ممالک سربراہوں کو بھی کچھ بتا نہ سکے جنھوں نے اُن کی خواہش پر ملائیشیا سمٹ کا اہتمام کر ڈالا تھا۔ یہی حال سی پیک سے متعلق پالیسیوں کا بھی ہے۔کوئی سمت اور ٹارگٹ متعین کردہ نہیں ہے۔
صرف عدم دلچسپی غالب دکھائی دے رہی ہے۔ یہی وہ طریقہ کار ہے جس کا مطالبہ آئی ایم ایف کر رہا تھا اور جس کے عوض وہ ہمیں چھ ارب ڈالر دینے پر رضا مند بھی ہوگیا۔ رفتہ رفتہ برادر ملک چین ہم سے مایوس اور نااُمید ہوکر اپنے لیے کوئی اور راستے اور راہداری کا اہتمام کر لے گا اور یوں ہماری معاشی خود مختاری کا خواب ہمیشہ کی طرح تشنہ تعبیر ہی رہے گا۔ ہمیں کمزور اور محتاج رکھنا عالمی قوتوں کی خواہش ہی نہیں بلکہ اُن کا قومی ایجنڈا ہے۔
وہاں کوئی بھی برسراقتدار آجائے، ہمارے متعلق اُن کی پالیسیاں بدستور جاری رہیں گی۔ ہمارا معاشی استحکام اور دفاعی انتظام ہمیشہ ہی سے ٹارگٹ رہا ہے۔ ہمارے ہر حساس ادارے پر اُن کی نظریں گڑی ہوئی ہیں۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے بعد اب ایک اور مشیر برائے سلامتی امور کا اضافہ ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر معید یوسف نجانے کس کی ایماء پر بلائے گئے ہیں۔ دفاعی اور سلامتی امور میں ایسی کونسی قباحتیں اور غفلتیں نظر آرہی تھیں کہ اُن کی دیکھ بھال کے لیے اب کسی غیر ملکی ماہرکی ضرورت پڑگئی۔ یہ ساری باتیں محب وطن افراد کے لیے انتہائی تشویش کا باعث بن رہی ہیں۔
نواز شریف کا زبر دستی معزول کیا جانا اور اُن کے جگہ انتہائی فرمانبردار اور تابعدار حکمراں کا برسراقتدار آجانا کوئی خود بخود پیدا ہونے حالات کا نتیجہ نہیں ہے۔ اِس کے پیچھے بہت سی پر اسرارکہانیاں موجود ہیں۔ جن پر سے پردہ اُس وقت اُٹھے گا جب چڑیاں ساراکھیت چگ چکی ہونگی۔ قوم ایک سپر طاقت کے شکنجے میں مکمل طور پر کَسی جاچکی ہوگی اور اُس کی ہشت پالی گرفت سے نکلنا پھر کسی کے بس کی بات نہ ہوگی۔ پہلے ہم صرف امریکی حکمرانوں کے غلامی میں زندگی بسر رہے تھے مگر اب ہم اپنے عرب ملکوں کے دوست نہیں بلکہ غلام بھی کہلانے لگے ہیں۔
جنگ یمن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ پارلیمنٹ کا تھا اور جس نے میاں صاحب کے لیے کچھ مشکلیں بھی پیدا کیں لیکن وہ پارلیمنٹ کے فیصلے کے آگے سرنگوں ہوگئے۔ سعودی عرب اِس وجہ سے اُن سے ناراض اور نالاں بھی ہوا لیکن پارلیمنٹ کا فیصلہ ساری قوم کا فیصلہ تھا۔ لہذا انھوں نے اُسے اہمیت دی۔ خان صاحب بھی ملائیشیا سمٹ میں جانے اور نہ جانے کا فیصلہ اگر پارلیمنٹ پر چھوڑ دیتے تو شاید وہ اکیلے اِس رسوائی اور شرمندگی کا سامنا کرنے سے بچ جاتے۔ پارلیمنٹ کو اہمیت نہ دینے سے اُن کے لیے اور بھی مسائل پیدا ہونگے۔
ہرکام کے لیے صدارتی آرڈیننسوں کا سہارا لینے کی بجائے انھیں چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کو فروغ دیں۔آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے معاملے میں بھی وہ پارلیمنٹ سے بالا ہی بالا کوئی حل ڈھونڈنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اوروقت گزرتا جا رہا ہے۔ حالانکہ سابق چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں واضح حکم دیا ہے کہ معاملہ قانون سازی کے تحت حل کیا جائے مگر نجانے کیوں خان صاحب بضد ہیں کہ اِسے پارلیمنٹ سے باہر ہی طے کرنا چاہتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں طے کرنے سے شاید انھیں اپوزیشن سے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا اور وہ یہ ہرگز نہیں چاہتے۔
مگر انھیںمعلوم نہیں کہ پارلیمانی نظام اور جمہوری طرز حکومت میں آمرانہ فیصلے نہیں کیے جاسکتے۔ اپوزیشن کو ساتھ ملا کر ہی درست اور مثبت فیصلے ہواکرتے ہیں۔73ء کا آئین اِس بات کا واضح اور بین ثبوت ہے کہ ہماری تاریخ کا یہ مشکل ترین کا م بھٹو صاحب کی دانش مندی اور دور اندیشی کی بدولت بڑی خوش اسلوبی سے ممکن ہو پایا۔ خان صاحب کو بھی ایسا جمہوری رویہ اپنانا پڑے گا۔
غرور اور تکبرکا راستہ چھوڑ کر ملکی مفاد میں مفاہمت ، دانائی اور دوراندیشی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ پارلیمنٹ کو سب سے معتبر ادارہ بنانا ہوگا، جو حکمراں پارلیمنٹ کو کوئی اہمیت نہیں دیتے وہ کبھی بھی کامیاب اور سرخرو نہیں ہوسکتے۔ سعودی فرمانرواؤں کی ڈانٹ ڈپٹ نے انھیں کم ازکم یہ احساس تودلا دیا ہوگا۔ اب بھی وقت ہے وہ صدارتی آرڈیننسوں کے ذریعے عارضی ریلیف حاصل کرنے کی بجائے ٹھوس اور پائیدار فیصلے کرنے کی اپنے اندر صلاحیت اور جرأت پیدا کریں۔ تبھی جاکر وہ اُس ملک کی حقیقی معنوں میں کوئی خدمت کر پائیں گے۔
ملکی اداروں کو قابل اعتبار اور آزاد و خود مختار بنانے کے دعوے تو ہماری ہر حکومت کرتی رہی ہے لیکن انھیں اپنے مذموم عزائم ، مقاصد اور مفادات کے لیے استعمال کر کے انھیں بے اعتبار اور بے وقعت بنانے میں بھی کوئی کسر اُٹھا نہ رکھنے کا سہرا بھی اِنہی حکومتوں کے سر جاتا ہے۔
دستور پاکستان کے تحت پارلیمنٹ ایک واحد ادارہ ہے جسے تمام اداروں پر فوقیت حاصل ہے لیکن چاہے جمہوری حکومت ہو یا غیر جمہوری پارلیمنٹ ہی وہ واحد ادارہ ہے جسے ہمارے یہاں سب سے کم اہمیت دی گئی۔ یہ سلسلہ کوئی آج کا پیدا کردہ نہیں ہے۔ وطن عزیز کو معرض وجود میں آنے کے دن سے ہی پارلیمنٹ کی بے توقیری اور بے وقعتی کے سامان پیدا ہونا شروع ہوگئے تھے۔
دیکھا جائے تو ہماری ہر حکومت دعویٰ تو یہی کرتی ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہے لیکن حقیقت اِس کے بالکل برعکس ہے۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اِس ملک میں کس ادارے کو سارے اداروں پر فوقیت حاصل ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط اور بے جا نہ ہوگا کہ ملک کے تمام ادارے اُسی کے زیر اثر ہیں۔
کبھی کبھی کوئی ادارہ اپنی اہمیت اور خود مختاری کے بل بوتے پر ہاتھ پاؤں مارنے لگتا ہے تو بہت جلد اُسے نکیل ڈال کر قابو کر لیا جاتا ہے۔ انتظامیہ ، مقننہ اور فوج ہمارے تین بڑے مقدس ادارے ہیں۔ ایف آئی اے اور ایف بی آر سمیت بہت سے دیگر چھوٹے ادارے بھی ہیں جو براہ راست حکومت یعنی انتظامیہ کے زیر تحت اپنا اپنا کام کرتے ہیں۔
نیب اور الیکشن کمیشن کے بارے میں تاثر تو یہ دیا جاتا ہے کہ یہ مکمل خود مختار ادارے ہیں۔ اِن کے سربراہ یعنی چیئرمین اور چیف کا انتخاب آئین کے تحت وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر دونوں مل کر کرتے ہیں اور بظاہر یہ گمان ہوتا ہے کہ جب چیئرمین اور چیف بنائے جانے والا شخص اِس عہدے پر فائز ہی کسی کی مہربانیوں اور ذرہ نوازیوں کی وجہ ہوتا ہے تو وہ اُن کے خلاف فیصلے کیونکر کرسکتا ہے، مگر نہیں ایسا ہر گز نہیں ہوتا ہے۔
چیئرمین نیب بھی اگر چاہے تو بہت کچھ کرسکتا ہے۔ نیب کے موجودہ چیئرمین نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ اپنا انتخاب کرنے والے کسی شخص کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور تمام فیصلے دیکھا جائے تو وہ اُن دونوں حضرات کے خلاف ہی کر رہے ہیں جنھوں نے انھیں اِس عہدے پر پہنچایا تھا۔ خان صاحب بھی اِسی لیے تو اپنی اپوزیشن کو یہ طعنہ دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ چیئرمین نیب کا انتخاب تو میاں نواز شریف اور خورشید شاہ نے خود کیا تھا، اب کیوں شور مچا رہے ہیں۔
جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے ، یہ بات کھل کر عیاں ہوتی جا رہی ہے کہ ہمارے یہاں آزاد اور خود مختارکہلانے والی جمہوری حکومتیں بھی ملکی فیصلے کرنے میں اتنی آزاد اور خود مختار نہیں ہوا کرتیں جتنی وہ دیکھی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ملک کی خارجہ پالیسی تو شروع دن سے ہی اُن کا ڈومین رہا ہی نہیں۔ پالیسی تو دور کی بات ہے وہ اپنا وزیر خارجہ بھی اپنی مرضی اور پسند سے نہیں بنا سکتیں۔
میاں نوازشریف اگر اپنے سابقہ دور میں ساڑھے چار سال تک کوئی وزیر خارجہ نامزد نہ کرسکے تو اُس کے پیچھے بھی اُن کی ایسی ہی مجبوریاں تھیں۔ طرفہ تماشہ یہ کہ وہ اپنی اِن مجبوریوں کا کسی سے تذکرہ بھی نہیں کرسکتے۔
مجبوریوں اورکمزوریوں کا یہ سلسلہ صرف اپنی سرحدوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ سات سمندر پار عرب ممالک سے ہوتا ہوا واشنگٹن کے بلند و بانگ اور طاقتور ایوانوں سے جا جڑتا ہے۔ میاں نواز شریف کی حکومت تک تو ہم وزارت خارجہ سمیت کچھ قومی امور پر دوسروں کی اطاعت اور تابعداری پر مجبور تھے لیکن خان صاحب تو اِس قابل بھی نہیں رہے کہ اپنی معاشی اور اقتصادی پالیسی بھی خود ترتیب دے سکیں اور تو اور ملکی بجٹ بنانے کے لیے بھی انھیں اپنی ٹیم میں سے کوئی قابل اور ماہر شخص دستیاب نہیں ہوتا اور وہ باہر سے درآمد کردہ لوگوں کو بجٹ بنانے پر مامور کر دیتے ہیں۔ وہ اتنے تابعدار اور فرمانبردار ہیں کہ اپنا دکھ کسی سے شیئر بھی نہیں کرتے۔ اُن کی ساری جوانمردی اور دلیری صرف اپنی اپوزیشن کے خلاف دکھائی دیتی ہے۔
وہ ایک اشارے پر دوڑے دوڑے سعودی عرب بھی پہنچ جاتے ہیں اور واپس آکر کسی سے کوئی تذکرہ بھی نہیں کرتے۔ اپنی کابینہ کو اعتماد میں لینا تو دورکی بات ہے وہ اپنے اُن دوست ممالک سربراہوں کو بھی کچھ بتا نہ سکے جنھوں نے اُن کی خواہش پر ملائیشیا سمٹ کا اہتمام کر ڈالا تھا۔ یہی حال سی پیک سے متعلق پالیسیوں کا بھی ہے۔کوئی سمت اور ٹارگٹ متعین کردہ نہیں ہے۔
صرف عدم دلچسپی غالب دکھائی دے رہی ہے۔ یہی وہ طریقہ کار ہے جس کا مطالبہ آئی ایم ایف کر رہا تھا اور جس کے عوض وہ ہمیں چھ ارب ڈالر دینے پر رضا مند بھی ہوگیا۔ رفتہ رفتہ برادر ملک چین ہم سے مایوس اور نااُمید ہوکر اپنے لیے کوئی اور راستے اور راہداری کا اہتمام کر لے گا اور یوں ہماری معاشی خود مختاری کا خواب ہمیشہ کی طرح تشنہ تعبیر ہی رہے گا۔ ہمیں کمزور اور محتاج رکھنا عالمی قوتوں کی خواہش ہی نہیں بلکہ اُن کا قومی ایجنڈا ہے۔
وہاں کوئی بھی برسراقتدار آجائے، ہمارے متعلق اُن کی پالیسیاں بدستور جاری رہیں گی۔ ہمارا معاشی استحکام اور دفاعی انتظام ہمیشہ ہی سے ٹارگٹ رہا ہے۔ ہمارے ہر حساس ادارے پر اُن کی نظریں گڑی ہوئی ہیں۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے بعد اب ایک اور مشیر برائے سلامتی امور کا اضافہ ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر معید یوسف نجانے کس کی ایماء پر بلائے گئے ہیں۔ دفاعی اور سلامتی امور میں ایسی کونسی قباحتیں اور غفلتیں نظر آرہی تھیں کہ اُن کی دیکھ بھال کے لیے اب کسی غیر ملکی ماہرکی ضرورت پڑگئی۔ یہ ساری باتیں محب وطن افراد کے لیے انتہائی تشویش کا باعث بن رہی ہیں۔
نواز شریف کا زبر دستی معزول کیا جانا اور اُن کے جگہ انتہائی فرمانبردار اور تابعدار حکمراں کا برسراقتدار آجانا کوئی خود بخود پیدا ہونے حالات کا نتیجہ نہیں ہے۔ اِس کے پیچھے بہت سی پر اسرارکہانیاں موجود ہیں۔ جن پر سے پردہ اُس وقت اُٹھے گا جب چڑیاں ساراکھیت چگ چکی ہونگی۔ قوم ایک سپر طاقت کے شکنجے میں مکمل طور پر کَسی جاچکی ہوگی اور اُس کی ہشت پالی گرفت سے نکلنا پھر کسی کے بس کی بات نہ ہوگی۔ پہلے ہم صرف امریکی حکمرانوں کے غلامی میں زندگی بسر رہے تھے مگر اب ہم اپنے عرب ملکوں کے دوست نہیں بلکہ غلام بھی کہلانے لگے ہیں۔
جنگ یمن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ پارلیمنٹ کا تھا اور جس نے میاں صاحب کے لیے کچھ مشکلیں بھی پیدا کیں لیکن وہ پارلیمنٹ کے فیصلے کے آگے سرنگوں ہوگئے۔ سعودی عرب اِس وجہ سے اُن سے ناراض اور نالاں بھی ہوا لیکن پارلیمنٹ کا فیصلہ ساری قوم کا فیصلہ تھا۔ لہذا انھوں نے اُسے اہمیت دی۔ خان صاحب بھی ملائیشیا سمٹ میں جانے اور نہ جانے کا فیصلہ اگر پارلیمنٹ پر چھوڑ دیتے تو شاید وہ اکیلے اِس رسوائی اور شرمندگی کا سامنا کرنے سے بچ جاتے۔ پارلیمنٹ کو اہمیت نہ دینے سے اُن کے لیے اور بھی مسائل پیدا ہونگے۔
ہرکام کے لیے صدارتی آرڈیننسوں کا سہارا لینے کی بجائے انھیں چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کو فروغ دیں۔آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے معاملے میں بھی وہ پارلیمنٹ سے بالا ہی بالا کوئی حل ڈھونڈنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اوروقت گزرتا جا رہا ہے۔ حالانکہ سابق چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں واضح حکم دیا ہے کہ معاملہ قانون سازی کے تحت حل کیا جائے مگر نجانے کیوں خان صاحب بضد ہیں کہ اِسے پارلیمنٹ سے باہر ہی طے کرنا چاہتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں طے کرنے سے شاید انھیں اپوزیشن سے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا اور وہ یہ ہرگز نہیں چاہتے۔
مگر انھیںمعلوم نہیں کہ پارلیمانی نظام اور جمہوری طرز حکومت میں آمرانہ فیصلے نہیں کیے جاسکتے۔ اپوزیشن کو ساتھ ملا کر ہی درست اور مثبت فیصلے ہواکرتے ہیں۔73ء کا آئین اِس بات کا واضح اور بین ثبوت ہے کہ ہماری تاریخ کا یہ مشکل ترین کا م بھٹو صاحب کی دانش مندی اور دور اندیشی کی بدولت بڑی خوش اسلوبی سے ممکن ہو پایا۔ خان صاحب کو بھی ایسا جمہوری رویہ اپنانا پڑے گا۔
غرور اور تکبرکا راستہ چھوڑ کر ملکی مفاد میں مفاہمت ، دانائی اور دوراندیشی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ پارلیمنٹ کو سب سے معتبر ادارہ بنانا ہوگا، جو حکمراں پارلیمنٹ کو کوئی اہمیت نہیں دیتے وہ کبھی بھی کامیاب اور سرخرو نہیں ہوسکتے۔ سعودی فرمانرواؤں کی ڈانٹ ڈپٹ نے انھیں کم ازکم یہ احساس تودلا دیا ہوگا۔ اب بھی وقت ہے وہ صدارتی آرڈیننسوں کے ذریعے عارضی ریلیف حاصل کرنے کی بجائے ٹھوس اور پائیدار فیصلے کرنے کی اپنے اندر صلاحیت اور جرأت پیدا کریں۔ تبھی جاکر وہ اُس ملک کی حقیقی معنوں میں کوئی خدمت کر پائیں گے۔