کراچی میں فرقہ وارانہ بدامنی کی نئی لہر
وہ دن خواب ہوئے جب شہر قائد کی راتیں بھی جاگتی تھیں اور زندگی کی رعنائیوں سے بھرپور ...
SARGODHA:
وہ دن خواب ہوئے جب شہر قائد کی راتیں بھی جاگتی تھیں اور زندگی کی رعنائیوں سے بھرپور اس شہر کے باسی باہم محبت و یگانگت کے ساتھ نہ صرف رہتے تھے بلکہ جینے کا لطف بھی اٹھاتے تھے، لیکن اب تو جینا بھی ایک سزا بن چکا ہے۔ گزشتہ پانچ سال سے جاری ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور بدامنی نے شہر کی ترقی کے عمل کو روک دیا ہے، سیاسی مصلحتوں کے باعث جرائم پیشہ گروہوں اور طاقت ور مافیاز نے شہر کو یرغمال بنا لیا ہے، ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لیے نو منتخب وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کے تعاون سے کراچی میں رینجرز اور پولیس کے ذریعے ٹارگٹڈ آپریشن شروع کر رکھا ہے، جس کے باعث ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں کسی حد تک کمی بھی دیکھنے میں آئی ہے، روزانہ کی بنیاد پر رینجرز اور پولیس کی جانب سے جاری سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک ہزاروں ملزمان کو زیر حراست لیا چکا ہے۔
قانون نافذ کرنیوالے ادارے اپنی کامیابیوں کے بلند بانگ دعوے تو کر رہے ہیں لیکن تلخ حقائق کچھ اور ہی کہہ رہے ہیں۔ محرم کے آغاز سے ایک دن قبل ہی شہر میں پہلے تو ایک مسلک کے افراد اور پھر دوسرے کو ہدف بناتے ہوئے شہر کو فرقہ وارانہ قتل وغارت کی آگ میں جلانے کی سازش کے تانے بانے بنے گئے۔ منگل کو شہر میں ٹارگٹ کلنگ اور پرتشدد واقعات میں ایک مذہبی جماعت کے5 کارکنوں سمیت 18 افراد کا جاں بحق ہو جانا، ٹارگٹڈ آپریشن کرنے والے اداروں کی ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سپریم کورٹ کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران اپنے عبوری حکم میں واضح طور پر ان عوامل کی نشاندہی کر چکی ہے جو کراچی میں بدامنی، لاقانونیت اور ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کا سبب ہیں۔
عدالت عظمیٰ تو بہتر اور مستحسن فیصلوں سمیت مثبت تجاویز بھی دے رہی ہے تا کہ کراچی میں امن و امان بحال ہو سکے، لیکن صوبائی و مرکزی انتظامیہ تا حال نمائشی ٹارگٹڈ آپریشن پر انحصار کر رہی ہے، حد تو یہ ہے کہ ابھی تک لیاری میں سیکڑوں چھاپوں کا نتیجہ کچھ بھی برآمد نہیں ہوا ہے، نہ ہی بڑے ملزمان ہاتھ آئے ہیں، اکا دکا دوسرے اور تیسرے درجے کے جرائم پیشہ افراد کی گرفتاریوں سے مسئلہ حل نہیں ہو گا جب تک کہ بڑے مرکزی ملزمان کو گرفتار نہیں کیا جاتا، تازہ ترین اطلاعات کے مطابق گینگ وار کے کارندوں میں گھمسان کی جنگ جاری ہے جس میں مخالفین کو اغوا کے بعد قتل کرنے کا سلسلہ تھما نہیں ہے اور متحارب گروہ ایک دوسرے کے علاقوں میں قبضے کے لیے اندھا دھند فائرنگ کر رہے ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے تو صرف خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں، تنگ گلیوں میں آپریشن سے گریز کے باعث گینگ وار کارندوں نے لیاری میں اپنی بادشاہت قائم کر رکھی ہے۔ محنت کشوں کی ایک بہت بڑی آبادی یرغمال بن چکی ہے، ڈی ایس پی کلاکوٹ نے لیاری میں تعینات متعدد پولیس افسران و اہلکاروں کی، جو گینگ وار کے ملزمان کے لیے کام کرتے ہیں، لسٹ تیار کر کے ڈی آئی جی ساؤتھ کو ارسال کر دی ان میں سے صرف ایک اہلکار کو محکمے سے برطرف کر دیا گیا۔ ماہ محرم کا آغاز ہو چکا ہے، حکومت سندھ نے محرم الحرام میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے اور کسی بھی ممکنہ دہشت گردی کے واقعے سے نمٹنے کے لیے پاک فوج کی خدمات طلب کر لی ہیں تاہم فوجی دستوں کو 9 اور 10 محرم کو الرٹ رکھا جائے گا اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پاک فوج کے دستے ضلعی انتظامیہ کی مدد کریں گے۔
وفاقی و صوبائی حکومتوں کے کرتا دھرتا جب تک خلوص نیت سے شہر قائد کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بلا امتیاز آپریشن کے وسیع اختیارات نہیں دیں گے اس وقت تک مسئلے کا حل نہیں نکلے گا، سیاست اور جرم دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں، جو بھی سیاسی جماعتیں مجرموں اور ٹارگٹ کلرز کو شیلٹرز فراہم کر رہی ہیں ان کی نہ صرف نشاندہی ہونی چاہیے بلکہ مذمت بھی۔ شہر بے اماں کو مقتل بننے سے بچانے کے لیے وفاقی وزیر داخلہ کو اپنا بیس کیمپ کراچی میں قائم کرنا ہو گا اور آپریشن کے کپتان وزیر اعلیٰ سندھ کو بھی اپنی ذمے داریوں کا احساس کرنا ہو گا۔ شہر کو ہائی جیک کرنے والے عناصر کا موثر انداز میں قلع قمع کیے بغیر امن کی امید دلانا فضول سی بات ہے، ناجائز اسلحے کی برآمدگی کی سرکاری مہم بھی بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ سپریم کورٹ واضح الفاظ میں کہہ چکی ہے کہ چاہے کرفیو لگانا پڑے، ناجائز اسلحہ برآمد کیا جائے، مسائل کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے حل نہیں ہوتے بلکہ آنکھیں کھلی رکھنے اور فہم و تدبر اور فراست سے حل ہوتے ہیں۔ منی پاکستان میں امن کوئی طشتری میں سندھ حکومت کو پیش نہیں کریگا، کراچی جرائم کا جنگل ہے جس میں امن و امان کی بحالی کے بعد ہی ملک کی معیشت کا پہیہ چل سکتا ہے ورنہ نہیں۔
وہ دن خواب ہوئے جب شہر قائد کی راتیں بھی جاگتی تھیں اور زندگی کی رعنائیوں سے بھرپور اس شہر کے باسی باہم محبت و یگانگت کے ساتھ نہ صرف رہتے تھے بلکہ جینے کا لطف بھی اٹھاتے تھے، لیکن اب تو جینا بھی ایک سزا بن چکا ہے۔ گزشتہ پانچ سال سے جاری ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور بدامنی نے شہر کی ترقی کے عمل کو روک دیا ہے، سیاسی مصلحتوں کے باعث جرائم پیشہ گروہوں اور طاقت ور مافیاز نے شہر کو یرغمال بنا لیا ہے، ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لیے نو منتخب وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کے تعاون سے کراچی میں رینجرز اور پولیس کے ذریعے ٹارگٹڈ آپریشن شروع کر رکھا ہے، جس کے باعث ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں کسی حد تک کمی بھی دیکھنے میں آئی ہے، روزانہ کی بنیاد پر رینجرز اور پولیس کی جانب سے جاری سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک ہزاروں ملزمان کو زیر حراست لیا چکا ہے۔
قانون نافذ کرنیوالے ادارے اپنی کامیابیوں کے بلند بانگ دعوے تو کر رہے ہیں لیکن تلخ حقائق کچھ اور ہی کہہ رہے ہیں۔ محرم کے آغاز سے ایک دن قبل ہی شہر میں پہلے تو ایک مسلک کے افراد اور پھر دوسرے کو ہدف بناتے ہوئے شہر کو فرقہ وارانہ قتل وغارت کی آگ میں جلانے کی سازش کے تانے بانے بنے گئے۔ منگل کو شہر میں ٹارگٹ کلنگ اور پرتشدد واقعات میں ایک مذہبی جماعت کے5 کارکنوں سمیت 18 افراد کا جاں بحق ہو جانا، ٹارگٹڈ آپریشن کرنے والے اداروں کی ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سپریم کورٹ کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران اپنے عبوری حکم میں واضح طور پر ان عوامل کی نشاندہی کر چکی ہے جو کراچی میں بدامنی، لاقانونیت اور ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کا سبب ہیں۔
عدالت عظمیٰ تو بہتر اور مستحسن فیصلوں سمیت مثبت تجاویز بھی دے رہی ہے تا کہ کراچی میں امن و امان بحال ہو سکے، لیکن صوبائی و مرکزی انتظامیہ تا حال نمائشی ٹارگٹڈ آپریشن پر انحصار کر رہی ہے، حد تو یہ ہے کہ ابھی تک لیاری میں سیکڑوں چھاپوں کا نتیجہ کچھ بھی برآمد نہیں ہوا ہے، نہ ہی بڑے ملزمان ہاتھ آئے ہیں، اکا دکا دوسرے اور تیسرے درجے کے جرائم پیشہ افراد کی گرفتاریوں سے مسئلہ حل نہیں ہو گا جب تک کہ بڑے مرکزی ملزمان کو گرفتار نہیں کیا جاتا، تازہ ترین اطلاعات کے مطابق گینگ وار کے کارندوں میں گھمسان کی جنگ جاری ہے جس میں مخالفین کو اغوا کے بعد قتل کرنے کا سلسلہ تھما نہیں ہے اور متحارب گروہ ایک دوسرے کے علاقوں میں قبضے کے لیے اندھا دھند فائرنگ کر رہے ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے تو صرف خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں، تنگ گلیوں میں آپریشن سے گریز کے باعث گینگ وار کارندوں نے لیاری میں اپنی بادشاہت قائم کر رکھی ہے۔ محنت کشوں کی ایک بہت بڑی آبادی یرغمال بن چکی ہے، ڈی ایس پی کلاکوٹ نے لیاری میں تعینات متعدد پولیس افسران و اہلکاروں کی، جو گینگ وار کے ملزمان کے لیے کام کرتے ہیں، لسٹ تیار کر کے ڈی آئی جی ساؤتھ کو ارسال کر دی ان میں سے صرف ایک اہلکار کو محکمے سے برطرف کر دیا گیا۔ ماہ محرم کا آغاز ہو چکا ہے، حکومت سندھ نے محرم الحرام میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے اور کسی بھی ممکنہ دہشت گردی کے واقعے سے نمٹنے کے لیے پاک فوج کی خدمات طلب کر لی ہیں تاہم فوجی دستوں کو 9 اور 10 محرم کو الرٹ رکھا جائے گا اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پاک فوج کے دستے ضلعی انتظامیہ کی مدد کریں گے۔
وفاقی و صوبائی حکومتوں کے کرتا دھرتا جب تک خلوص نیت سے شہر قائد کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بلا امتیاز آپریشن کے وسیع اختیارات نہیں دیں گے اس وقت تک مسئلے کا حل نہیں نکلے گا، سیاست اور جرم دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں، جو بھی سیاسی جماعتیں مجرموں اور ٹارگٹ کلرز کو شیلٹرز فراہم کر رہی ہیں ان کی نہ صرف نشاندہی ہونی چاہیے بلکہ مذمت بھی۔ شہر بے اماں کو مقتل بننے سے بچانے کے لیے وفاقی وزیر داخلہ کو اپنا بیس کیمپ کراچی میں قائم کرنا ہو گا اور آپریشن کے کپتان وزیر اعلیٰ سندھ کو بھی اپنی ذمے داریوں کا احساس کرنا ہو گا۔ شہر کو ہائی جیک کرنے والے عناصر کا موثر انداز میں قلع قمع کیے بغیر امن کی امید دلانا فضول سی بات ہے، ناجائز اسلحے کی برآمدگی کی سرکاری مہم بھی بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ سپریم کورٹ واضح الفاظ میں کہہ چکی ہے کہ چاہے کرفیو لگانا پڑے، ناجائز اسلحہ برآمد کیا جائے، مسائل کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے حل نہیں ہوتے بلکہ آنکھیں کھلی رکھنے اور فہم و تدبر اور فراست سے حل ہوتے ہیں۔ منی پاکستان میں امن کوئی طشتری میں سندھ حکومت کو پیش نہیں کریگا، کراچی جرائم کا جنگل ہے جس میں امن و امان کی بحالی کے بعد ہی ملک کی معیشت کا پہیہ چل سکتا ہے ورنہ نہیں۔