پہلے پاکستان کی فکر کریں
چند دن پہلے جب ہمارے حکمران نہایت ذوق و شوق کے ساتھ کپڑے بدل بدل کر اور بال سنوار کر امریکا کے۔۔۔
ISLAMABAD:
چند دن پہلے جب ہمارے حکمران نہایت ذوق و شوق کے ساتھ کپڑے بدل بدل کر اور بال سنوار کر امریکا کے بادشاہ سے ملنے واشنگٹن جا رہے تھے تو اپنے حکمرانوں اور امریکی حکمرانوں کو ذہن میں رکھ کر مجھے ایک پرانی بات بار بار یاد آ رہی تھی ایسی باتیں خواہ کتنی ہی پرانی کیوں نہ ہوں انسانی معاملات پر ہر زمانے میں صادق آتی ہیں کیونکہ انسان بدلتے نہیں ہیں اور انسانوں کے اونچے نیچے اور مقام و مرتبہ کی بلندی و پستی کی ضرورتیں بھی پرانی رہتی ہیں۔ چھوٹا ہر حال میں چھوٹا ہی رہتا ہے اور بڑا' بڑا۔
میں جس بات کا ذکر کرنے والا ہوں وہ فاتح عالم چنگیز خان کے کمزور سیاسی زمانے سے متعلق ہے جب چنگیز خان ایک سردار کا یتیم بیٹا تھا اور اسے دشمنوں کا سامنا تھا۔ اس کے باپ کے دوستوں نے اسے مشورہ دیا کہ فلاں فلاں طاقت ور سردار تمہارے باپ کے دوست تھے مدد کے لیے ان کے پاس جاؤ وہ تمہاری ضرور مدد کریں گے لیکن نوخیز چنگیز خان نے جو ابھی تموچن کے نام سے پہچانا جاتا تھا اور بھوک میں چوہے تک کھا جاتا تھا اپنے خیرخواہوں کو جواب دیا کہ میں ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ ان سرداروں سے مل سکوں۔ کمزور حیثیت میں کسی بڑے اور طاقت ور سے ملنا اپنے آپ کو مزید گرانا ہوتا ہے میں کچھ بن جاؤں گا تو پھر ان کے پاس جاؤں گا کہ میں آپ کے فلاں دوست سردار کا بیٹا ہوں۔
لیکن ہم کسی بہت ہی کمزور حیثیت میں صدر اوباما سے ملنے جا رہے تھے۔ اس کے سامنے ہماری کوئی وقعت نہیں تھی ہمارا تعارف ایک کمزور اور امریکا کے باجگزار ملک کا تھا چنانچہ جو خبریں ملیں ان سے یہی پتہ چلا کہ ہمارے ساتھ ایک ملاقاتی کا شریفانہ سلوک بھی نہیں کیا گیا۔ ہم شرمندہ ہو کر واپس آئے کیونکہ ہم نے اپنی کوئی حیثیت بنائے بغیر اپنی اوقات سے بڑھ کر یہ ملاقات کی تھی لیکن یہ طریقہ مناسب نہیں تھا نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا تھا، اس ملاقات میں ہماری سبکی ہوئی جب کہ ہم اگر سنبھل کر اور سوچ سمجھ کر آگے بڑھتے تو شاید افسردہ نہ ہوتے اور اپنی قوم کے سامنے شرمندہ بھی نہ ہوتے۔
جہانبانی اتنا بڑا کام ہے جس کو سکھانے کے لیے خدا نے پیغمبر بھیجے اور اس کام پر مامور انسانوں میں اتنی صلاحیت پیدا کی کہ وہ دوسرے انسانوں کو سنبھال سکیں۔ تاریخ ایسے دانشور اور کامیاب حکمرانوں سے خالی نہیں جن کو اس مشکل ترین کام میں کامیابی حاصل ہوئی اور ان کی فرمانروائی کو تاریخ نے یاد رکھا لیکن میں کن کتابی باتوں میں پڑ گیا ہوں میرا واسطہ کسی کتاب خواہ سے نہیں کاروباری رجسٹروں کے ماہرین سے ہے جو اپنے کام میں بہت ماہر اور کامیاب ہیں۔ ہمارا ملک ان دنوں پھر کئی معاشی بحرانوں سے گزر رہا ہے اور مالیت کا شعبہ تباہ ہے اس لیے قوم نے اگر موجودہ حکمرانوں سے کچھ توقعات وابستہ کر رکھی ہیں تو غلط نہیں ہیں۔ اس سے پہلے پانچ برس سے زائد عرصہ تک قوم نے معاشی اصلاحات کو نہیں دیکھا معاش کو لٹتے دیکھا ہے اس کا ازالہ بھی ضروری ہے اور مزید اصلاحات بھی لازم ہیں۔
ہم نے اپنی اس معاشی نقاہت میں بھی امریکا جیسے دنیا کے سب سے بڑے مال دار ملک سے متھا لگا رکھا ہے اور اسے دھمکیاں بھی دے رہے ہیں اور یہ سب بلا سوچے سمجھے ہے پاکستان کے کسی شہر کی آبادی پر ایک ڈرون حملہ ہی ہمارے کس بل نکالنے کے لیے کافی ہے جو لیڈر قوم کو گمراہ کر رہے ہیں کیا وہ اپنے گھر پر کسی ڈرون حملے کو برداشت کرسکتے ہیں۔ ہر گز نہیں یہ سوچ کر بھی وہ کانپنے لگ جائیں گے۔ اس وقت امریکا جن لوگوں پر یہ مشق ستم کر رہا ہے ہم انھیں باغی سمجھتے ہیں اور ان کی طرف سے اپنے اوپر دن رات کے حملوں سے متنفر ہیں لیکن چند قدم کے فاصلے پر ہونے والی ڈرونی تباہی کا ذرا تصور کریں کہ کوئی ان دیکھا دشمن یکایک فضا میں نمودار ہوتا ہے اور تہس نہس کرتا ہوا واپس چلا جاتا ہے آپ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ امریکا کا مقابلہ کرنے کے لیے اب ہتھیاروں کی نہیں سیاسی حربوں اور منصوبوں کی ضرورت ہے۔
ہم خوش قسمت ہیں کہ امریکا افغانستان میں پھنسا ہوا ہے اور اس کے نجات کے راستے ہمارے ہاں سے گزرتے ہیں۔ امریکا ان راستوں سے مدت سے آ جا رہا ہے۔ افغانستان کے میدان جنگ کا اسلحہ اور سپاہ اسی راستے سے گزر کر اپنے مورچوں تک پہنچی ہے اور اب افغانستان سے انخلا کے لیے بھی امریکا کو واپسی کے لیے پاکستان کے راستے مطلوب ہیں لیکن ہم نے یہ سوچے بغیر کہ امریکا کا مفاد کس میں ہے اور اپنی حفاظت کے لیے وہ کیا کچھ کرسکتا ہے اس سے ڈرون حملوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں جب کہ وہ غلط یا صحیح اس علاقے میں موجود طالبان کو اپنے ملک کے لیے خطرہ سمجھتا ہے تو کیا وہ اپنے خلاف کسی خطرے کو معاف کر سکتا ہے ہرگز نہیں۔ ہماری جو معاشی حالت ہے اور وہ بے حد افسوسناک اور شرمناک ہے اس میں تو ہمیں امریکا سے واپسی کا ٹول ٹیکس وصول کرنا چاہیے جو مل سکتا ہے لیکن لازم ہے کہ ہم امریکا کے ساتھ یہ سودا ان لوگوں کے ذریعہ کرائیں جو امریکا میں اکاؤنٹ نہ کھول چکے ہوں ورنہ ہم نے بارہا دیکھا کہ ملک کے نام پر لیے جانے والی مالی امداد اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں داخل نہیں ہوتی۔
ہمارے علماء کرام بے شک کتے جیسے پلید جانور کو بھی شہادت کے متبرک مرتبہ پر فائز کر دیں لیکن اس کتے کی موت کا معاوضہ ضرور لیں۔ ورنہ یہ حرام موت مارا جائے گا۔ تعجب ہے یا تو ہم امریکا سے پاکستان کی وزارت عظمیٰ کا پروانہ حاصل کرنے کی برملا آرزو کر رہے تھے اب اس قدر غصے میں ہیں کہ اس کے مارے ہوئے کتے کو بھی شہادت کے مرتبے پر فائز کر رہے ہیں۔
آج کے پاکستان کے مفاد میں یہ ہے کہ ہم ملک کی اکانومی کو زندہ کریں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں کوئی کاروبار نہیں ہے دکاندار مکھیاں مار رہے ہیں اور اندوختہ کھا رہے ہیں آخر یہ کب تک چلے گا جب کہ اس پر حکومت کی طرف سے مسلط گرانی کی کوئی انتہا نہیں ہے لیکن حکمران اربوں روپے اپنے دوروں پر صرف کر رہے ہیں اور اپنی حفاظت کے لیے حکومت کی مشینری کو مصروف کر رکھا ہے۔ معاشی ناہمواری کا یہ سلسلہ کب تک چل سکتا ہے اور ان حالات میں ہم امریکا جیسی طاقت کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ ہماری فوج کا زیادہ اسلحہ بھی امریکا کا ہے یعنی امریکی اسلحہ کے ساتھ ہم امریکا کو ڈانٹ رہے ہیں۔ کسی ایسے ملک کے حکمرانوں سے ملاقات میں امریکی بہت لطف اندوز ہوئے ہوں گے۔
چند دن پہلے جب ہمارے حکمران نہایت ذوق و شوق کے ساتھ کپڑے بدل بدل کر اور بال سنوار کر امریکا کے بادشاہ سے ملنے واشنگٹن جا رہے تھے تو اپنے حکمرانوں اور امریکی حکمرانوں کو ذہن میں رکھ کر مجھے ایک پرانی بات بار بار یاد آ رہی تھی ایسی باتیں خواہ کتنی ہی پرانی کیوں نہ ہوں انسانی معاملات پر ہر زمانے میں صادق آتی ہیں کیونکہ انسان بدلتے نہیں ہیں اور انسانوں کے اونچے نیچے اور مقام و مرتبہ کی بلندی و پستی کی ضرورتیں بھی پرانی رہتی ہیں۔ چھوٹا ہر حال میں چھوٹا ہی رہتا ہے اور بڑا' بڑا۔
میں جس بات کا ذکر کرنے والا ہوں وہ فاتح عالم چنگیز خان کے کمزور سیاسی زمانے سے متعلق ہے جب چنگیز خان ایک سردار کا یتیم بیٹا تھا اور اسے دشمنوں کا سامنا تھا۔ اس کے باپ کے دوستوں نے اسے مشورہ دیا کہ فلاں فلاں طاقت ور سردار تمہارے باپ کے دوست تھے مدد کے لیے ان کے پاس جاؤ وہ تمہاری ضرور مدد کریں گے لیکن نوخیز چنگیز خان نے جو ابھی تموچن کے نام سے پہچانا جاتا تھا اور بھوک میں چوہے تک کھا جاتا تھا اپنے خیرخواہوں کو جواب دیا کہ میں ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ ان سرداروں سے مل سکوں۔ کمزور حیثیت میں کسی بڑے اور طاقت ور سے ملنا اپنے آپ کو مزید گرانا ہوتا ہے میں کچھ بن جاؤں گا تو پھر ان کے پاس جاؤں گا کہ میں آپ کے فلاں دوست سردار کا بیٹا ہوں۔
لیکن ہم کسی بہت ہی کمزور حیثیت میں صدر اوباما سے ملنے جا رہے تھے۔ اس کے سامنے ہماری کوئی وقعت نہیں تھی ہمارا تعارف ایک کمزور اور امریکا کے باجگزار ملک کا تھا چنانچہ جو خبریں ملیں ان سے یہی پتہ چلا کہ ہمارے ساتھ ایک ملاقاتی کا شریفانہ سلوک بھی نہیں کیا گیا۔ ہم شرمندہ ہو کر واپس آئے کیونکہ ہم نے اپنی کوئی حیثیت بنائے بغیر اپنی اوقات سے بڑھ کر یہ ملاقات کی تھی لیکن یہ طریقہ مناسب نہیں تھا نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا تھا، اس ملاقات میں ہماری سبکی ہوئی جب کہ ہم اگر سنبھل کر اور سوچ سمجھ کر آگے بڑھتے تو شاید افسردہ نہ ہوتے اور اپنی قوم کے سامنے شرمندہ بھی نہ ہوتے۔
جہانبانی اتنا بڑا کام ہے جس کو سکھانے کے لیے خدا نے پیغمبر بھیجے اور اس کام پر مامور انسانوں میں اتنی صلاحیت پیدا کی کہ وہ دوسرے انسانوں کو سنبھال سکیں۔ تاریخ ایسے دانشور اور کامیاب حکمرانوں سے خالی نہیں جن کو اس مشکل ترین کام میں کامیابی حاصل ہوئی اور ان کی فرمانروائی کو تاریخ نے یاد رکھا لیکن میں کن کتابی باتوں میں پڑ گیا ہوں میرا واسطہ کسی کتاب خواہ سے نہیں کاروباری رجسٹروں کے ماہرین سے ہے جو اپنے کام میں بہت ماہر اور کامیاب ہیں۔ ہمارا ملک ان دنوں پھر کئی معاشی بحرانوں سے گزر رہا ہے اور مالیت کا شعبہ تباہ ہے اس لیے قوم نے اگر موجودہ حکمرانوں سے کچھ توقعات وابستہ کر رکھی ہیں تو غلط نہیں ہیں۔ اس سے پہلے پانچ برس سے زائد عرصہ تک قوم نے معاشی اصلاحات کو نہیں دیکھا معاش کو لٹتے دیکھا ہے اس کا ازالہ بھی ضروری ہے اور مزید اصلاحات بھی لازم ہیں۔
ہم نے اپنی اس معاشی نقاہت میں بھی امریکا جیسے دنیا کے سب سے بڑے مال دار ملک سے متھا لگا رکھا ہے اور اسے دھمکیاں بھی دے رہے ہیں اور یہ سب بلا سوچے سمجھے ہے پاکستان کے کسی شہر کی آبادی پر ایک ڈرون حملہ ہی ہمارے کس بل نکالنے کے لیے کافی ہے جو لیڈر قوم کو گمراہ کر رہے ہیں کیا وہ اپنے گھر پر کسی ڈرون حملے کو برداشت کرسکتے ہیں۔ ہر گز نہیں یہ سوچ کر بھی وہ کانپنے لگ جائیں گے۔ اس وقت امریکا جن لوگوں پر یہ مشق ستم کر رہا ہے ہم انھیں باغی سمجھتے ہیں اور ان کی طرف سے اپنے اوپر دن رات کے حملوں سے متنفر ہیں لیکن چند قدم کے فاصلے پر ہونے والی ڈرونی تباہی کا ذرا تصور کریں کہ کوئی ان دیکھا دشمن یکایک فضا میں نمودار ہوتا ہے اور تہس نہس کرتا ہوا واپس چلا جاتا ہے آپ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ امریکا کا مقابلہ کرنے کے لیے اب ہتھیاروں کی نہیں سیاسی حربوں اور منصوبوں کی ضرورت ہے۔
ہم خوش قسمت ہیں کہ امریکا افغانستان میں پھنسا ہوا ہے اور اس کے نجات کے راستے ہمارے ہاں سے گزرتے ہیں۔ امریکا ان راستوں سے مدت سے آ جا رہا ہے۔ افغانستان کے میدان جنگ کا اسلحہ اور سپاہ اسی راستے سے گزر کر اپنے مورچوں تک پہنچی ہے اور اب افغانستان سے انخلا کے لیے بھی امریکا کو واپسی کے لیے پاکستان کے راستے مطلوب ہیں لیکن ہم نے یہ سوچے بغیر کہ امریکا کا مفاد کس میں ہے اور اپنی حفاظت کے لیے وہ کیا کچھ کرسکتا ہے اس سے ڈرون حملوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں جب کہ وہ غلط یا صحیح اس علاقے میں موجود طالبان کو اپنے ملک کے لیے خطرہ سمجھتا ہے تو کیا وہ اپنے خلاف کسی خطرے کو معاف کر سکتا ہے ہرگز نہیں۔ ہماری جو معاشی حالت ہے اور وہ بے حد افسوسناک اور شرمناک ہے اس میں تو ہمیں امریکا سے واپسی کا ٹول ٹیکس وصول کرنا چاہیے جو مل سکتا ہے لیکن لازم ہے کہ ہم امریکا کے ساتھ یہ سودا ان لوگوں کے ذریعہ کرائیں جو امریکا میں اکاؤنٹ نہ کھول چکے ہوں ورنہ ہم نے بارہا دیکھا کہ ملک کے نام پر لیے جانے والی مالی امداد اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں داخل نہیں ہوتی۔
ہمارے علماء کرام بے شک کتے جیسے پلید جانور کو بھی شہادت کے متبرک مرتبہ پر فائز کر دیں لیکن اس کتے کی موت کا معاوضہ ضرور لیں۔ ورنہ یہ حرام موت مارا جائے گا۔ تعجب ہے یا تو ہم امریکا سے پاکستان کی وزارت عظمیٰ کا پروانہ حاصل کرنے کی برملا آرزو کر رہے تھے اب اس قدر غصے میں ہیں کہ اس کے مارے ہوئے کتے کو بھی شہادت کے مرتبے پر فائز کر رہے ہیں۔
آج کے پاکستان کے مفاد میں یہ ہے کہ ہم ملک کی اکانومی کو زندہ کریں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں کوئی کاروبار نہیں ہے دکاندار مکھیاں مار رہے ہیں اور اندوختہ کھا رہے ہیں آخر یہ کب تک چلے گا جب کہ اس پر حکومت کی طرف سے مسلط گرانی کی کوئی انتہا نہیں ہے لیکن حکمران اربوں روپے اپنے دوروں پر صرف کر رہے ہیں اور اپنی حفاظت کے لیے حکومت کی مشینری کو مصروف کر رکھا ہے۔ معاشی ناہمواری کا یہ سلسلہ کب تک چل سکتا ہے اور ان حالات میں ہم امریکا جیسی طاقت کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ ہماری فوج کا زیادہ اسلحہ بھی امریکا کا ہے یعنی امریکی اسلحہ کے ساتھ ہم امریکا کو ڈانٹ رہے ہیں۔ کسی ایسے ملک کے حکمرانوں سے ملاقات میں امریکی بہت لطف اندوز ہوئے ہوں گے۔