ڈرون حملے کیسے روکے جائیں
قومی اسمبلی کے اجلاسوں کی صرف رپورٹنگ کرنا ہو تو اس کی پریس گیلری میں جم کر بیٹھنا پڑتا ہے۔
ISLAMABAD:
قومی اسمبلی کے اجلاسوں کی صرف رپورٹنگ کرنا ہو تو اس کی پریس گیلری میں جم کر بیٹھنا پڑتا ہے۔ ''خبر'' چاہیے تو اس کی لابیوں میں گھومتے رہیے۔ انھیں لابیوں میں وزراء کے لیے مخصوص چیمبرز بھی ہوتے ہیں۔ براہِ راست انتخاب کے ذریعے قومی اسمبلی تک آنے والے لیکن ان چیمبروں میں صحافیوں سے ملاقاتیں کرنے کے لیے نہیں بیٹھتے۔ وہاں ان کے حلقوں سے لوگوں کا ایک ہجوم آیا ہوتا ہے۔ انھیں مختلف وزارتوں سے کوئی نہ کوئی پریشانی مل رہی ہوتی ہے۔ وہ ''اپنے'' حلقے کے وزیر سے کسی ایسے افسر کو فون کروانا چاہ رہے ہوتے ہیں جو ان کا مسئلہ سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہورہا ہوتا۔
1985ء سے میں قومی اسمبلی کے ہر اجلاس کی ایک ایک نشست کے بارے میں رپورٹنگ کرتا رہا ہوں۔ نواز شریف کی دوسری حکومت ختم ہوجانے کے بعد ان اجلاسوں میں کوئی جان باقی نہیں رہی۔ جنرل مشرف کے ابتدائی ایام میں کچھ شور شرابا رہا۔ پھر ٹھنڈ پڑگئی۔ حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے پھر کیفے ٹیریا آنا چھوڑ دیا۔ وہ قومی اسمبلی کے ہال میں اپنی نشستوں پر بیٹھے رہنے کے بجائے خود کے لیے مخصوص لابیوں میں چلے جاتے ہیں جہاں صحافیوں سمیت غیر متعلقہ لوگوں کا داخلہ ممنوع ہے۔
ان لابیوں میں اپنے سیاسی اختلاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمارے معزز اراکین اسمبلی ایک دوسرے کے ساتھ بے تکلف دوستوں والی محفلیں سجائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ عام انسانوں کی زندگی اور اس کی مشکلات سے بالکل بے خبر اور بے نیاز، ان محفلوں سے خیر تو دور کی بات ''خبر'' کی اُمید رکھنا بھی شدید احمقانہ محسوس ہوتا ہے۔
پیر کے دن سے قومی اسمبلی کا جو اجلاس شروع ہوا ہے اس کا مقصد حکیم اللہ محسود کی امریکی میزائل سے ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر غور کرنا ہے۔ مگر جو تقریریں ہورہی ہیں ان کی اکثریت ہمیں اس بات پر قائل کرنے پر مرکوز دکھائی دیتی ہے کہ کل جماعتی کانفرنس کی طرف سے پاکستانی ریاست اور معاشرے کے Stakeholders ٹھہرائے طالبان سے امن مذاکرات شروع ہونے والے تھے۔ ''سفاک اور بے حس امریکا'' نے مگر عین ان دنوں حکیم اللہ محسود کو ڈرون طیارے سے میزائل گراکر ماردیا۔ محسود کی ایسی ''سفاکانہ ہلاکت'' ایک بار پھر ہمیں واضح طورپر یہ پیغام دے رہی ہے کہ امریکا پاکستان میں امن نہیں چاہتا۔
اس کی شدید خواہش ہے کہ پاکستان کے ریاستی اداروں اور طالبان کے درمیان جنگ شدید سے شدید تر ہوجائے۔ اس جنگ کا عمومی نشانہ پاکستان کے بے گناہ شہری بنتے ہیں۔ مگر امریکا کو ان کی جان اور سلامتی کی کوئی پرواہ نہیں۔ قصہ مختصر قومی اسمبلی میں بیٹھے تمام اراکین نے اس بات پر تقریباً اتفاق کرلیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی اصل وجہ امریکا کی جانب سے مسلط ڈرون حملے ہیں۔ انھیں رکوائے بغیر پاکستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔
مجھے اس دعوے کی تردید میں وقت ضایع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ عافیت بلکہ اس دعوے کو مان لینے میں ہے۔ مگر یہ سوال تو پھر بھی اٹھے گا کہ ان حملوں کو روکا کیسے جائے۔ قومی اسمبلی نے ان حملوں کے خلاف بارہا ''متفقہ قراردادیں'' منظور کی ہیں۔ امریکا نے ان کی کوئی پرواہ نہ کی۔ 2011ء میں سلالہ حملے کے بعد ہم نے سات ماہ تک پاکستانی راستوں سے افغانستان میں موجود نیٹو افواج کے لیے رسد کی فراہمی بھی بند رکھی ہے۔ امریکا اس بندش سے کوئی زیادہ پریشان نہ ہوا۔ بالآخر ہمارے اس وقت کے وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو ''اسی تنخواہ پر گزارہ کرنے'' کے راستے نکالنا پڑے۔
پاکستانی راستے افغانستان جانے والی رسد کے لیے کھول دیے گئے۔ مگر جو رقم ہمیں امریکا نے Coalition Support Fundکے نام پر ادا کرنا تھی پوری طرح ادا نہ ہوئی۔ اس کا محض کچھ حصہ ملا جو اتنا وافر نہ تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بجلی پیدا کرنے والوں کے گردشی قرضوں کو ادا کرنے میں لگا دیتی۔ لوڈشیڈنگ کے گھنٹے کرب ناک حد تک بڑھ گئے اور غصے سے مغلوب ووٹروں نے اس جماعت کے امیدواروں کو عبرتناک شکست سے دو چار کردیا۔
اب ڈرون روکنے کا واحد حل یہ نظر آرہا ہے کہ وہ ہماری ''خود مختار'' فضاؤں میں آئیں تو PAFکے طیارے انھیں گرادیں۔ امریکا اس کے جواب میں کیا کرسکتا ہے یہ ہمیں کوئی بتانے کو تیار نہیں ہورہا۔ بس ''قومی غیرت اور حمیت'' کا ماتم ہے۔ یہ ماتم کرتے ہوئے ہم اس بات پر بھی بضد ہیں کہ پاکستانی روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں کم نہ ہو۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہو۔ پٹرول سستا اور وافر ملے اور ٹماٹر کے بغیر تو سالن میں چسکے دار کھٹائی پیدا نہیں ہوسکتی۔ کتنا ظلم ہے وہ بھی دو سو روپے کلو ہوگئے ہیں۔
مختصر لفظوں میں ہم کسی بھی تکلیف کا سامنا کیے بغیر اپنی قومی غیرت اور حمیت کو بچانا چاہتے ہیں۔ اپنے پاکستانی پاسپورٹ کی امریکا اور یورپی ممالک کے سفارتخانوں اور ایئرپورٹس پر توقیر چاہتے ہیں۔ افغانستان میں بے تیغ لڑنے والے طالبان کے ہاتھوں ان ممالک کی افواج کی ہلاکتوں اور ذلت آمیز پسپائی پر شاداں ہوتے ہیں۔ مگر پریشان اس بات پر بھی کہ اسلام آباد میں مکانوں کے کرائے بے تحاشہ بڑھ گئے ہیں۔ خیبرپختونخواہ میں کئی برسوں سے پھیلی بدامنی اور ابتری سے تنگ آکر وہاں کے لوگ ہزاروں کی تعداد میں اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور اور کراچی منتقل ہورہے ہیں۔ اس نقل مکانی نے طلب اور رسد کے درمیانی فرق کو کہیں زیادہ نمایاں کردیا ہے۔ ہم اس فرق کے ساتھ گزارہ کرنے کے قابل دکھائی نہیں دے رہے۔ مگر ڈرون رکوانے پر تلے بیٹھے ہیں اور وہ بھی قومی اسمبلی میں صرف گرما گرم تقریروں کے ذریعے۔
قومی اسمبلی میں کی جانے والی تقریروں میں جذبوں کی شدت تیز تر ہورہی ہے۔ مگر ہمارے ''منتخب حکمرانوں'' کے ''ماتحت'' کام کرنے والے قومی سلامتی کے کئی ادارے پریشان سے پریشان تر ایک اور وجہ سے ہورہے ہیں۔ مجھے اور آپ کو ابھی تک کسی بھی مستعد صحافی نے یہ نہیں بتایا کہ پچھلے چند ہفتوں سے ان اداروں میں بیٹھے سب لوگوں کو پریشانی ہے کہ 2014ء کے قریب آتے آتے کابل اور افغانستان کے دوسرے بڑے شہروں میں مکانات تیزی سے خالی ہورہے ہیں۔ تعمیرات کا سارا کام رک گیا ہے۔ عالمی NGOsکے لیے کام کرنے والے بے تحاشہ غیر ملکی وہاں سے بڑی تعداد میں اپنے ممالک جانا شروع ہوگئے ہیں۔
ان کے جانے سے ان Consultantsکے لیے کام کرنے والے مترجم اور ڈرائیور وغیرہ بے روزگار ہورہے ہیں۔ ریستوران ویران ہیں اور ان میں گاہک اب نہ ہونے کے برابر۔ جیسے جیسے 2014ء قریب آتا جائے گا افغانستان کے شہروں میں بے روزگاری خوفناک حد تک بڑھ جائے گی۔ ان بیروزگار نوجوانوں کی ایک معقول تعداد شمالی اتحاد یا طالبان کے حامی گروہوں میں بندوق اٹھاکر شامل ہوجائے گی۔ باقی لوگ کہاں جائیں گے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے بس نقشہ اٹھا لیجیے اور یاد یہ بھی کرلیجیے کہ غازی ضیاء الحق شہید کے دنوں سے ہم ''انصار'' ہیں اور ''افغان'' ہمارے مہاجر بھائی۔ پاکستانی ریاست کے وہ ادارے جوقومی سلامتی امور پر نگاہ رکھتے ہیں 2014ء میں افغان مہاجرین کی ایک ناقابلِ برداشت کھیپ کے پاکستان آنے کے سو فیصد امکانات کے بارے میں بڑی فکر مندی کے ساتھ اپنے سروں کو کھجانے میں مصروف ہیں اور ہم بس تقریریں سن کر اپنا دل گرما رہے ہیں۔