جنگل میں کھلا پھول… ریشماں

گل خود رو اور سبزہ بیگانہ جیسی بہت سی ترکیبیں ہماری کلاسیکی شاعری میں کثرت سے استعمال ہوتی رہی۔۔۔

Amjadislam@gmail.com

ISLAMABAD:
گل خود رو اور سبزہ بیگانہ جیسی بہت سی ترکیبیں ہماری کلاسیکی شاعری میں کثرت سے استعمال ہوتی رہی ہیں لیکن بدقسمتی سے بوجوہ آج کی نسل ان سے بھی اسی قدر ناواقف اور دور ہے جیسے ان تمام چیزوں سے جن میں ہماری تاریخ' تہذیب اور مٹی کی بو باس کسی نہ کسی شکل میں پائی جاتی ہے۔ یہ زوال یوں تو ہمہ گیر ہے مگر ہماری ''ممی ڈیڈی'' کلاس میں تو یہ انتہا کو پہنچ چکا ہے کہ اہل ثروت کے گھروں میں پلنے والے انگریزی میڈیم زدہ بچوں کو بالعموم اور بوجوہ یہ پتہ ہی نہیں چل پاتا کہ ہماری دھرتی میں بولی جانے والی عوامی زبانوں کے نمایندہ شاعر' ادیب اور فن کار کون ہیں؟ کم و بیش یہی حال' لوک ورثے ، تاریخی اور ثقافتی مقامات کا ہے کہ ان بچوں کو نہ صرف اپنے ملک سے زیادہ امریکا اور یورپ کے بارے میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں بلکہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ان کی تقلید ہی کامیابی کا واحد راستہ ہے۔

ریشماں پر کالم لکھتے ہوئے یہ سب باتیں (ایک بار پھر) مجھے اس لیے یاد آئیں کہ جہاں ایک طرف ٹی وی چینلز اور اخبارات اس کی وفات کے حوالے سے طرح طرح کے پروگرام نشر اور فیچر شایع کررہے ہیں وہاں ہماری نئی نسل کے بیشتر بچے اس کے کام سے تو کیا نام سے بھی ناواقف ہیں لیکن میں اس تکلیف دہ تجربے اور مشاہدے کے ضمن میں نئی نسل کو صرف 10 فی صد قصور وار گردانتا ہوں کہ اصل میں اس کی نوے فی صد ذمے داری اس نظام تعلیم مادہ پرستی، ماحول، ثقافتی اقدار، تہذیبی ترجیحات اور احساس کمتری پر عائد ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ہمارے بچے مغرب کے دوسرے اور تیسرے درجے کے گانے والوں اور گانے والیوں کی تو سات پشتوں تک کوجانتے ہیں مگر اپنے بڑے بڑے فوک سنگرز کے ناموں تک سے آشنا نہیں ہیں۔

میری بات کا یقین نہ آئے تو کسی بھی بڑے انگلش میڈیم ادارے کی اے یا او لیول کلاس سے پوچھ کر دیکھ لیجیے کہ طفیل نیازی، ریشماں' الن فقیر' پٹھانے خان' حامد علی بیلا' حسین بخش گلو' عالم لوہار، عنایت حسین بھٹی' مائی بھاگی' جُمن' خیال محمد اور اسی طرح کے اور بے شمار لوگ کون تھے اور کیا کرتے تھے؟اسی سے ملتی جلتی صورت حال آپ کو چند آج کے مقبول سنگرز عاطف اسلم' علی ظفر' ابرار الحق' راحت فتح علی خان اور شفقت امانت وغیرہ سے قطع نظر دیگر بڑے گلوکاروں کے ضمن میں نظر آئے گی کہ میڈیا پر ان کو بار بار دیکھنے کی وجہ سے ان کے نام تو شاید آشنائی کے کسی نہ کسی درجے پر فائز ہوں لیکن اس سے آگے دور دور تک ایک ابہام کی دھند کے سوا کچھ نہ دکھائی دے گا۔ یہاں تک کہ نصرت فتح علی خان' روشن آرا بیگم'مہدی حسن' نور جہاں' امانت فتح' سلامت نزاکت' غلام فرید صابری' غلام علی' عابدہ پروین' اقبال بانو' فریدہ خانم' زبیدہ خانم اور اس سے ملتی جلتی سطح کے کچھ دیگر ناموں کے بارے میں استفسار پر بھی ہماری اس مخصوص نئی نسل کے پاس کندھے جھٹکنے کے علاوہ کوئی جواب نہیں ہوتا۔ سو ایسے میں اگر ریشماں کی وفات کی خبر کے ساتھ اس کے کچھ گانوں کی جھلکیاں دیکھتے ہوئے اس قسم کے جملے کانوں میں پڑے کہ

who is this old lady, and what is she doing?

تو میر صاحب کے اسی مصرعے پر اکتفا کرنا پڑتا ہے کہ ''چارہ دل سوائے صبر نہیں'' اب یہ اور بات ہے کہ ان بچوں کا میر صاحب سے تعارف کرانا ریشماں کے تعارف سے بھی مشکل ہو چکا ہے۔


ریشماں کو سنتے ہوئے تو مجھے بھی دیگر ہم عمر اور کن رس احباب کی طرح تقریباً 40 برس ہو چلے ہیں لیکن اس سے پہلی بالمشافہ ملاقات اور Live سننے کا موقع اسی(80) کی دہائی کے ایک ٹی وی شو میں ملا جس میں اتفاق سے میں بھی ایک مہان تھا۔ فن کار بظاہر کتنی ہی دنیاداری اور چالاکی سیکھ لیں لیکن اندر سے بہت سادہ اور معصوم ہوتے ہیں۔ ریشماں کا شمار اُن فن کاروں میں ہوتا ہے جو اندر اور باہر دونوں طرف سے ایک جیسے معصوم اور بھولے بھالے تھے۔ اﷲ بخشے دلدار پرویز بھٹی مرحوم نصرت فتح علی خان (مرحوم) کے بارے میں کہا کرتا تھا کہ خان صاحب آپ وہ پینڈو (دیہاتی) عورت ہیں جس کو پتہ ہی نہیں کہ وہ کتنی خوب صورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات بہت حد تک ریشماں پر بھی صادق آتی ہے بالخصوص جب وہ اپنے مخصوص الہڑ اور بے ساختہ انداز میں تان لگاتی تھی تو جیسے اس کا پورا وجود روشن ہو جاتا تھا اور اس لمحے میں اس کے عام سے نقوش بھی ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم کے چہرے کی طرح حسین ہوتے چلے جاتے تھے (جن لوگوں نے روشن آرا بیگم کو سامنے بیٹھ کر سنا ہے وہ یقیناً میری اس بات کی تائید کریں گے)۔

ریشماں ایک جنگل میں کھلے پھول جیسی تھی جو شاید اپنے جیسی کئی اور خوبصورت آوازوں کی طرح کھلنے کے بعد خاموشی سے بکھر جاتی اور کسی کو اس کے ہونے کا پتہ بھی نہ چلتا مگر شکریہ ادا کرنا چاہیے سلیم گیلانی مرحوم کا کہ جنہوں نے شہباز قلندر کے عرس کی ایک تقریب میں اسے سنا اور پھر اس کی آواز کو کراچی ریڈیو کی وساطت سے دنیا بھر میں متعارف کرایا۔ خانہ بدوش قبیلے سے تعلق رکھنے اور تعلیم سے یکسر محرومی کے باعث اس کے بہت سے مسائل تھے لیکن مناسب دیکھ بھال' تربیت اور فطری صلاحیت کیوجہ سے وہ بہت جلد ان پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئی اور ہم نے دیکھا کہ نہ صرف اس نے اردو اور باقاعدہ کمپوز کیے ہوئے گانے آسانی' مہارت اور خوب صورتی سے گائے بلکہ بڑی بڑی محفلوں میں ان لوگوں سے بات کرنے کا سلیقہ بھی سیکھ لیا جن کے سامنے بڑی بڑی تعلیمی ڈگریوں اور عہدوں والے بھی بغلیں جھانکنے لگتے تھے۔

جہاں تک فن موسیقی کا تعلق ہے تو وہ معروف معنوں میں''بے استاد'' تھی کہ یہ فن اس کے جینز genes کے ذریعے اس تک پہنچا اور پھر اقبال کے اس شعر کی تفسیر بنتا چلا گیا کہ

حسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن!

شاید اس کی آواز کے جادو اور فوک گیتوں کی یہی ابد تاب کشش تھی جس کی وجہ سے اس کی جائے پیدائش یعنی بیکانیر (راجستھان) کے صحراؤں کی وسعت اس کی پہچان بن گئی اور برادرم گلزار نے جب اسی پس منظر میں اپنی مشہور فلم ''لیکن'' کے گیت بنائے تو ''یارا سیلی سیلی'' کے باطن میں ریشماں کے گائے ہوئے مشہور گیت ''وے میں چوری چوری تیرے نال لالئیاں اکھاں وے'' کی باز گشت پھیلتی چلی گئی۔ اس نے فن موسیقی کے رموز کسی استاد سے تو نہیں سیکھے تھے مگر اسے ان پر ایسی دسترس حاصل تھی کہ بڑے بڑے استاد اس کی گائیکی کے دوران سر دھنتے اور جھومتے پائے گئے اس نے بڑے مشکل الفاظ اور انوکھی بندشوں کو جس آسانی اور خوب صورتی سے ادا کیا وہ اپنی مثال آپ ہے مثال کے طور پر ''میری ہم جولیاں'' ''اکثر شب تنہائی میں'' اور ''لمبی جدائی'' کو ذہن میں لا کر دیکھئے کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ ان کو گانے والی نہ صرف ان کو تحریری شکل میں پڑھنے سے قاصر تھی بلکہ ان راگوں کے ناموں سے بھی آشنا نہ تھی جن میں ان کی بندش کی گئی تھی۔

ریشماں کی رحلت سے ایک بار پھر یہ سوال ابھرکر سامنے آ رہا ہے کہ اگر اس عوامی' تہذیبی اور لوک ورثے کی حفاظت نہ کی گئی اور اس روایت کو اگلی نسل تک احسن اور بھرپور انداز میں منتقل نہ کیا گیا تو آنے والے کل میں ہمارا ماضی مزید دھندلا ہو جائے گا اور یاد رکھنا چاہیے کہ جو قوم اپنی تہذیبی روایات کی حفاظت نہیں کرتی وہ بے نام ہو جاتی ہے اور یہ کہ بے نامی' گمنامی کا پہلا زینہ ہوا کرتی ہے۔
Load Next Story